Home » شیرانی رلی » عباس رضوی

عباس رضوی

چند لمحوں کی رفاقت نہیں مل سکتی کیا

اک ملاقات کی عزت نہیں مل سکتی کیا

وہ تراقرب وہ خوشبو ترے پیراہن کی

مجھ کو پھر سے مری دولت نہیں مل سکتی کیا

دور سے دیکھ لیں اُس شاخِ صنوبر کی طرف

وحشتوں کو یہ اجازت نہیں مل سکتی کیا

شہر میں کوئی نہیں اُس کی شباہت والا

کسی صورت سے وہ صورت نہیں مل سکتی کیا

کوئی چہرہ، کوئی خوشبو کوئی موسم کوئی خواب

اب ہمیں کوئی بشارت نہیں مل سکتی کیا

اس خرابے میں بھلا کیا ہے جو پاﺅ گے مگر

سانس لینے کی بھی مہلت نہیں مل سکتی کیا

مرنے والے نے کیا وقت سے بس ایک سوال

زندگی حسبِ ضرورت نہیں مل سکتی کیا

آج کل مجھ سے مری بے ہنری پوچھتی ہے

اب کسی خواب کی قیمت نہیں مل سکتی کیا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *