Home » پوھوزانت » عبداللہ جان جمالدینی  ۔۔۔ ڈاکٹر علی دوست بلوچ

عبداللہ جان جمالدینی  ۔۔۔ ڈاکٹر علی دوست بلوچ

ماما جمالدینی ہم میں نہیں رہے۔ گویا ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ لیکن انہوں نے زندگی بھر جو فکری، سماجی، سیاسی ، علمی و ادبی جدوجہد کی۔ وہ تاریخ کا حصہ ہیں ۔ اور جو چیز تاریخ کا حصہ بنے۔ اُس پر گفتگو اور بحث و تمحیص ہوتی رہنی چاہیے۔ کیونکہ اس طرح کرنے سے راہوں کے تعین میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ علم و ادب فکر اور شعور کی روشنی سے معاشرے میں پھیلی تاریکی اور جہالت بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائے گی۔
بابا جمالدینی کی فکری ، علمی و ادبی اور سیاسی جدوجہد پر اُن کی زندگی میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔ اور آنے والے دنوں میں بھی گفتگواور بحث و تمحیص ہوتی رہے گی۔
8 مئی1922 کوکلی جمالدینی نوشکی میں پیدا ہونے والے عبداللہ جان نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد سنڈیمن ہائی سکول پشین سے 1940 میں میٹرک کیا۔ 1945 میں اپنے سنگت کمال خان شیرانی کے ساتھ اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔تحصیلدار بھی بنے۔ لیکن قومی فکر اور نظریات کی بنیاد پرسرکاری ملازمت کو خیر باد کہتے ہوئے کمال خان شیرانی اور دیگر ہم خیال دوست و احباب کے ساتھ1950 میں ’’لٹ خانہ‘‘ کی بنیاد رکھی جسے بلوچستا ن میں ترقی پسند دوست و احباب کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے۔ جہاں انہوں نے بلوچستان میں سماجی ناانصافی، طبقاتی کشمکش ، ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پسند سوچ اور سوشلزم کے لیے شب و روز محنت کی جس سے اُس وقت بلوچستان کے لوگ خاص طور پر نوجوانوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔اُسی دوران علم و ادب سے شغف اور لکھنے لکھانے کا عمل جاری رہا ۔ جمالدینی صاحب نے خود بلوچی، انگریزی، اردو، براہوئی اور پشتو میں لکھا اور دوسرے دوستوں کی بھی اِس جانب توجہ دینے کی تلقین کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِن شخصیات نے اُس وقت کے حالات کے تناظر میں راہوں کے تعین میں یقیناًاہم کردار ادا کیا تھا۔
واجہ جمالدینی بلوچی اکیڈمی اور شعبہ بلوچی جامعہ بلوچستان کے کماش رہے۔ یہاں بھی انہوں نے علم و ادب اور زبان کی ترقی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ طالب علموں کی راہنمائی اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے اُن کی حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے اُن کے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔
انہوں نے کئی بیرونی ممالک کے دورے کیے۔ اور علمی و ادبی سیمینارز میں مقالے پیش کیے۔ اُن کی شائع شدہ کتب میں۔ دیہات کے غریب ( ترجمہ لینن)، کرد گال نامک ( ہمراہ مرحوم نادر قمبرانی) ۔ مُرگ مینا ( فقیر شیر جان کے اشعار) ’’ شمع فروزاں ‘‘، ’’ لٹ خانہ‘‘، ’’ بلوچستان میں سرداری نظام ‘‘ شامل ہیں۔ ’’شمع فروزاں ‘‘ اور لٹ خانہ وہ کتابیں ہیں جن میں وہ اپنی فکری سماجی علمی ادبی اور سیاسی جدوجہد قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم فکر دوست، احباب خاص طور پر’’ شمع فروزاں‘‘ میں ڈاکٹر شاہ محمد مری کی علم و ادب سے دوستی اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اور لٹ خانہ تو اُن کے اور اُن کے دوست احباب کی جدوجہد کے حوالے سے ایک پوری تاریخ ہے۔
واجہ جمالدینی وہ ادیب اور دانشور تھے۔جنہیں اُن کی زندگی میں ہی محبت اور عقیدت کے ہار پہنائے گئے ۔ اُن کی خدمات کے اعتراف میں اکادمی ادبیات اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے 6 فروری2005 میں اُ ن کی 81 ویں سالگرہ کو شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اپنی محبتوں کا اظہار کیا۔ اور ایک طرح سے اس بات کی نفی کی کہ ہم مردہ پرست ہیں۔۔۔۔۔۔!
واجہ جمالدینی کی زندگی، شخصیت اور فن کے حوالے سے اب تک صرف ایک کتاب شائع ہوچکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُن کی تخلیق تحقیق اور تراجم کے حوالے سے اور کام سامنے آنا چاہیے تھا۔ تاکہ نئی نسل یہ جان سکتی کہ اُن کے افکار اور نظریات کیا رہے ہیں ۔ انہوں نے کس قسم کی جدوجہد کی ہے ۔ علم و ادب کی ترقی کے لیے کیا خدمات سرانجام دی ہیں۔ عصر حاضر میں نئے حالات اور واقعات کے تناظر میں اُن کے فکری جدوجہد کی کیا صورت حال تھی جس سے اُن کی علمی، ادبی اور سیاسی مقام کے تعین میں اور مدد ملتی۔۔۔۔۔۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شاہ محمد مری کی ’’عبداللہ جان جمالدینی ،شخصیت اور فن‘‘ ہی واحد ایسی کتاب ہے جس سے یقیناً علم و ادب اور سیاست سے متعلق لوگوں نے استفادہ کیا ہوگا۔ اور اُن کے فکری اور عملی جدوجہد سے آگاہی حاصل کی ہوگی۔ جس میں اُن کی زندگی سے متعلق دیگر باتوں کے علاوہ عبداللہ جان کی تصانیف ، مطبوعہ مواد اور فکر و فن پہ کام کی تفصیل،قبائلی نظام کا سیاسی پس منظر، سیاسی شخصیات پر مضامین، کتابوں پر تبصرے، تراجم اور معاصرین کی آرا شامل ہیں۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جس سے علم و ادب سے متعلق طالب علموں کے ساتھ ساتھ محققین یقیناً استفادہ کرسکتے ہیں۔ یوں بھی واجہ جمالدینی سنگت اکیڈمی، ماہنامہ سنگت اور بلوچستان سنڈے پارٹی کے روح رواں اور سرپرست اعلیٰ تھے۔ اُن کے ہم فکر اور پڑھنے لکھنے سے تعلق رکھنے والا حلقہ اُن کی محبت اور علم سے فیض یاب ہوتا رہا ہے۔ اِسی قربت اور محبت کے ناطے یہ کتاب لکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ ان کا تذکرہ دراصل بلوچ کا تذکرہ ہے، سچائی اور اچھائی کا تذکرہ ہے۔ انسانیت کا تذکرہ ہے‘‘۔
ماما چونکہ ایک سیاسی کارکن بھی تھے۔ بلوچستان میں اُس وقت کے سیاسی حالات پر اُن کی گہری نظر تھی۔ انسان دوستی اور سوشلسٹ نظریات کے ناطے دیگر معاملات کے علاوہ ’’ششک‘‘ کے معاملے پر اُس وقت کی حکومت ( نیپ) کے دوستوں سے اُن کا اختلاف بھی رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب کے مطابق’’ انہوں نے اگست1972 میں پندرہ روز ’’نوائے وطن‘‘کوئٹہ میں ’’ ششک کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے ایک سائنسی ا ور جامع مضمون لکھا۔ اس مضمون میں انہوں نے بلوچستان کے معاشی، سیاسی نظام کے ارتقاء کا جائزہ پیش کیا اور اپنے سابقہ رفقا کو آڑے ہاتھوں لیا‘‘۔
وہ سماجی تبدیلی کے لیے پارلیمانی سیاست ، جمہوریت اور عوامی اتحاد کے داعی تھے۔ سرداروں کی پارٹی میں رہتے ہوئے اُن کی غلطیوں اور موقعہ پرستیوں کو طشت ازبام بھی کرتے رہے جبکہ اُس پارٹی میں رہتے ہوئے ماما بھی کچھ سیاسی غلطیوں سے اپنا دامن نہ بچا سکے ۔ اور اسی بنا پر بعد میں طلباء تنظیم بی ایس او ( عوامی) کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا شروع کیا۔ جہاں ایک حلقے نے اُن کے اس عمل کو سراہتے ہوئے اُسے وقت اور حالات کے عین مطابق قرار دیا ۔ جبکہ دوسرے حلقے نے اس عمل سے اختلاف رائے کرتے ہوئے اُسے فکری اور قومی حوالے سے ایک اچھا فیصلہ قرار نہیں دیا۔ دیکھا جائے تو سیاسی اور فکری اختلاف کا وہ موسم کسی نہ کسی حوالے سے عصر حاضر تک بھی جارہا۔۔۔۔۔۔!
سیاست ہو یا علم و ادب یا فکر اور نظریہ، اختلاف رائے رکھنا ایک مثبت عمل ہی تو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عبداللہ جا ن اور اُن کے رفقا نے اس سے بہت پہلے اپنے ساتھیوں سے اختلاف کرتے ہوئے بلوچستان میں سرداری اور ریاستی نظام کے بدلے ایک عوامی اور جمہوری نظام کے لیے جدوجہد شروع کی تھی۔پارٹی کا منشور اور نام بھی سامنے لایا گیا۔ لیکن نا مساعد حالات کے تحت وہ اپنی خواہشات کی تکمیل نہ کرسکے مگر مارشل لا، قید و بند کی صعوبتیں ، بے روزگاری ون یونٹ کے خلاف تحریک اور دیگر عوامل نے انہیں جہد مسلسل سے جوڑے رکھا۔ اور زندگی بھر وہ اپنے فکر اور نظریے پرکار بند رہے۔ وہیں وہ عزت و احترام کے ناطے اپنے سیاسی دوستوں سے اختلاف کے باوجود اُن شخصیات کے حوالے سے لکھتے ہوئے انہیں بلوچستان کی بہت بڑی شخصیات قرار دیتے ہیں۔ گو کہ ماضی میں اور عہد حاضر میں ایک نقطہ نظر یہ بھی رہا ہے کہ مثبت فکر اور نظریہ کے ساتھ ساتھ جدوجہد کے طریقہ کار کا انتخاب بھی بڑ ی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور آگے بڑھنے اور تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے اگر کھل کر گفتگو بحث و تمحیص کی جائے تو منزل کی راہیں کھلتی جائیں گی۔ اور بلوچستان کی موجودہ صورتحال ایسے ہی عمل کا متقاضی ہے۔
2015 ء میں واجہ جمالدینی کی بلوچی میں دو کتابیں سامنے آئی ہیں۔ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کے زیر اہتمام ضخیم کتاب ’’ او پار‘‘ ( منتخب مضامین) جس میں اُن کے منتخب مضامین کو مختلف عنوانات کے تحت یکجا کرکے شائع کیا گیا ہے ۔ مرتب و تدوین سنگت رفیق۔ ’’ او پار‘‘ میں، ادب اور زندگی ،فکشن کے حوالے سے مضامین، ادیب، دانشور اکابرین کے حوالے سے مضامین رسائل و جرائد پر تبصرے اور اردو کے حصے میں بلوچی زبان و ادب ، تعارف اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔ جبکہ شعبہ بلوچی جامعہ بلوچستان نے ’’زندگی نامک‘‘ (آپ بیتی) کے نام سے واجہ جمالدینی کی اپنی زندگی کے حوالے سے یار جان بادینی کی ’’ بلوچی زند‘‘ میں شائع ہونے والی نگارشات کو یکجا کرکے شائع کیا گیا ہے جس میں مختلف اوقات میں اُن سے لیے گئے انٹرویو بھی شامل ہیں۔ اسے رحیم مہر نے ترتیب دیا ہے ۔ جس سے اُن کی بچپن کی زندگی علمی و ادبی اور قومی سیاسی زندگی سے متعلق بڑی حد تک آگاہی ملتی ہے۔ چونکہ واجہ علم و ادب ، تاریخ اور سیاست کے ایک بڑے حصے کا حصہ رہے ہیں۔ اُن کے تجربات، مشاہدات تخلیقات فکر اور کردار کو سامنے لانا علمی و ادبی اداروں ، دانشور اور ناقدیں کی ذمہ داری بنتی ہے۔
یوں بھی وقت کسی بھی حوالے سے اپنا فیصلہ دینے میں دیر نہیں کرتا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *