Home » شیرانی رلی

شیرانی رلی

October, 2022

  • 19 October

    سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

    روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب کے۔ گلابوں کے گلدستے بالکل وہی جیسے سانسوں کے ریشم میں  سمٹے ہوئے چند لمحے۔ مرادوں کی مستانی الہڑ مہک تال دیتی ہے دھڑکن کی ہر تال پر۔ بادلوں کی روپہلی فضاؤں سے چاندی کے گھنگھرو کی سرگوشیوں جیسا لہجہ بتا! یار جانی، دل زار ...

  • 19 October

    بوڈ ۔۔۔ عابد میر

    بوڈ ھئی اھڑی جنھ وچ سبھ کجھ پانڑی چا گیا کھا گئے حق وڈیرے سارے جے کجھ رہ گیا پانڑی کھا گیا   کنھن دا ساری عمر دا پورھیا کنھن غریب دے گھرڑے لڑھ گئے اکھیاں لڑھ گیاں خواب سمیت تے جیجل ما دے بچڑے لڑھ گئے   وقت گزرنڑا ھے وقت گزر ویسی اپنڑے ڈکھ دا بوجھ ہر کوئی ...

  • 19 October

    غزل ۔۔۔  سابھیاں سانگی

    رنگ و آہنگ سے ہے سَجی خَلوت، پھول، خوشبو سی شبنمی خلوت   یاد جھنکار بن کے اِترائی، گھنگھرووْں کی طرح بَجی  خلوت   گیت ہارے تَھکے ہوئے پنچھی، سْرمئی شام بن گئی خلوت   شور و غل سے لدے بدن جن کے، ان سے مانوس کب رہی خلوت   سانس کی سانس سے وہ سرگوشی، کس قدر وہ حسین ...

  • 19 October

    سیلاب میں ڈوبے پاکستان کا بیلا چاؤ  ۔۔۔ سلمی جیلانی

    ہمیں ڈبو دیا ہے تمھاری صنعتی ترقی نے ترقی یافتہ دنیا آنکھیں کھولو گلوبل وارمنگ ہمارے سر پر کھڑی ہے ہم پانی کے اندر ہیں ہاری اور کسان اپنی زمین کھو بیٹھے ہیں فصلیں کھا گیا ہے پانی اور ان کے بچے بھی گلیشیئر مسلسل رو رہے ہیں کاربن نہ جلاو واپس جاو جاو جاو ہمیں امداد نہیں ہرجانہ چاہیے ...

  • 19 October

    غزل ۔۔۔ بیکس بلوچ

    ظہیریں دل تو درمانا نواں پھولئے شتؤوپتہ ہما خانا نواں پھولئے   الیکشن وقت پیذاغیں وذا گڑدی ہما نایاب انسانا نواں پھولئے   کھسے شاہیں کھسے بھوتار ممبریں اشانی دین ایمانا نواں پھولئے   غریباں نی جھگا لافہ الازو  انت برو گڑدی تہ مہمانا نواں پھولئے   شروع کھن محنتہ جاری اے ووٹاں بل فقیری پھنڈغہ دانانواں پھولئے   بہادر ...

  • 19 October

    یہ سارے منظر نہ دیکھ پاتے ۔۔۔  اللہ بخش بزدار

    تمہاری آنکھوں میں روشنی کی لکیر کیسی مچل رہی ہے شفق کی لالی تو بجھ چکی ہے افق کی  چاندی گماں کی سرحد سے دور چپ چاپ سو رہی ہے تمہاری آنکھوں میں روشنی کی لکیر کیوں کر مچل رہی ہے ہماری آنکھوں نے کرم خوردہ تصوروں کو حسین روپوں میں  ڈھلتے دیکھا انہی کو سولی پہ چڑھتے دیکھا ہمیں ...

  • 19 October

    ہم بْھول گئے ہیں شاید ۔۔۔ مریم ارشد

    ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔ وہ چیز جسے یک جہتی کہا کرتے تھے!۔ اب تو آس بھی بھکارن لگتی ہے برس آتے ہیں برس بیت جاتے ہیں ہم رکھ کے اْسے چھجے پہ کہیں بْھول گئے ہیں شاید۔۔۔۔ دو چار بہکی بہکی سی لکیریں سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کو گروہوں میں دیتی ہیں ...

  • 19 October

    غزل ۔۔۔ کشور ناہید

    ان کو تائید شفق نہیں ملے گی جو سمجھتے ہیں اماں یہیں ملے گے ہم ایسے اجاڑ دیں دریا کشتی بھی یہاں نہیں ملے گی سیلاب کہہ رہا ہے ہنس کے سجدے کو  زمیں نہیں ملے گی دروازوں سے اونچی گردنیں ہیں ان کی بھی جھکی جبیں ملے گی فرعون بہت ہوگئے تھے یہاں پہ ان سب کو سزا یہیں ...

September, 2022

  • 20 September

    پہاڑوں کے نام ایک نظم ۔۔۔  قمر ساجد

    (شاہ محمد مری کی ایک کتاب پڑھ کر)   روایت ہے پہاڑوں نے کبھی ہجرت نہیں کی یہ بارش برف طوفاں سے نہیں ڈرتے یہ خیمے چھوڑ کر اپنے نہیں جاتے کبھی  نامہرباں افلاک پانی بند کردیں تو نہ بارش کے خدا کا بت بناکر پوجتے ہیں اور نہ سبزہ زار میدانوں کو کوئی بھینٹ دیتے ہیں۔ یہ دشتی پیاس ...

  • 20 September

    فہمیدہ ریاض

    میں نے شعر لکھا اپنے آنسوؤں سے!۔ بلک بلک کر لکھا خون کی بوندوں سے نقطے ڈالے اپنے گوشت کو چیر پھاڑ کر ریشے نکالے اور انہیں قافیہ میں باندھا بے بسی کے ناخنوں سے میں نے اپنی ہتھیلی پر شعر گودا اور تمہیں دِکھایا تم غلیظ ہنسی ہنس پڑے ”آہاہا………… ننگی شاعری!“۔ تم نے کہا، اور میرے کلام سے ...