Home » شیرانی رلی » نظم ۔۔۔۔ دانیال طریر

نظم ۔۔۔۔ دانیال طریر

دےے سے لو نہیں پندار لے کر جا رہی ہے

ہوا اب صبح کے آثار لے کر جا رہی ہے

ہمیشہ نوچ لیتی تھی خزاں شاخوں سے پتے

مگر اس بار تو اشجار لے کر جا رہی ہے

میں گھر سے جا رہا ہوں اور لکھتا جا رہا ہوں

جہاں تک خواہشِ دیدار لے کر جا رہی ہے

خلا میں غیب کی آواز نے چھوڑا ہے مجھ کو

میں سمجھا تھا مجھے اس پار لے کر جا رہی ہے

مجھے اس نیند کے ماتھے کا بوسہ ہو عنایت

جو مجھ سے خواب کا آزار لے کے جا رہی ہے

یہاں پر رات کو اچھا نہیں کہتا ہے کوئی

سو اپنے کاسہ و دینار لے کر جا رہی ہے

تماشے کے سبھی کردار مارے جا چکےہیں

کہانی صرف اک تلوار لے کر جا رہی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *