”رات دریچہ کھول دیتی ہے“
رات دریچہ کھول دیتی ہے
اپنے پودوں سے
آسمان روتا ہے
اک زمین کا تارا دیکھ کر
جسکی چمک کھوگئی وقت کے اندھیا روں میں
یہ کسی خلقت ہے
جس میں ناری کی سانسیں دھنس جاتی ہیں
زمین دوز ہوکر
فلک ماتم کرتا ہے آبشاروں میں
قید خانے بھی سستے پڑگے
جہا ں روز چنری رنگ دی جاتی ہے
چاند
مٹی کا کھلونا ہی تو ہے
جسکی چاندنی ٹوٹ کربکھر گئی
ھاتھوں میں
اب صرف زمین پر بکھری مٹی رہ گئی