Home » پوھوزانت » ڈاکٹر حئی بلوچ ۔۔۔ محمد شعیب رئیسانی

ڈاکٹر حئی بلوچ ۔۔۔ محمد شعیب رئیسانی

سیاست، عوام کی خدمت کا نام ہے۔ ایسا شخص جو عوام کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے اور ان کے مسائل سلجھانے کے لیے خود کو وقف کر دے سیاستدان کہلاتا ہے۔

بدقسمتی سے سیاست کی آڑ میں ہمارے اوپر اختیار و طاقت کے پجاری، دولت کے حریص اور شہرت کے لالچی مسلط رہے ہیں، جنہوں نے سیاست اور سیاست دان کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا۔ ان نام نہاد سیاستدانوں نے جو شرم ناک مثالیں قائم کیں۔ ان کی روشنی میں فن سیاست طاقت کے حصول کا کھیل، کرپشن کا ذریعہ، قانون کی گرفت حصول کا کھیل، کرپشن کا زریعہ، قانون کی گرفت سے تحفظ کا وسیلہ، ذاتی مراعات اور ترقی کا زینہ قرار پایا ہے۔

جھوٹ اور منافقت پر پلنے والی اس سیاست کو لوگوں کے مسائل کے بجائے اپنے اختیار،پروٹوکول اور مراعات سے غرض ہوتی ہے۔ اور جب یہ کلچر قبول عام کا درجہ حاصل کرلے تو عوامی خدمت کی آدرش رکھنے والے حقیقی سیاستدان حاشیے پر چلے جاتے ہیں، وہ اس میدان میں اجنبی اور تنہا نظر آتے ہیں۔ روایتی اور مروجہ سیاست ان کے وجود کو ہی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے کیونکہ ان کا کردار کھرے اور کھوٹے کا فرق خوب بناتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ مرحوم بھی ایک ایسے کھرے سیاستدان تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ لیکن ان کا کردار اور جدوجہد لوگوں کو ہمیشہ کھرے کھوٹے کا فرق باور کراتی رہے گی۔

درویش صفت قائد، شعلہ بیان مقرر، محکوم طبقوں کی توانا آواز ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا شمار بلوچستان کی اُن سربر آور دہ شخصیات میں ہوتا تھا جنہوں نے بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے سے قبل اور بعد میں طویل سیاسی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے بدولت جہاں وہ ایوان بالا تک پہنچنے اور مختلف عہدوں پر رہے، وہاں اس کی پاداش میں مصائب و مشکلات کا سامنا بھی انہیں کرنا پڑا۔ بلوچوں کے سیاسی مددسے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بنے۔وہ بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک پسماندہ تحصیل بھاگ کے دور افتادہ اور انتہائی پسماندہ علاقے چھل گری میں یکم فروری  1945کو پیر بخش چھل گری کے ہاں پیدا ہوئے۔

پیر بخش چھل گری پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اپنے چار بھائیوں میں سے چوتھے نمبر پر تھے۔ وہ ابھی پانچ سال کے تھے کہ 1950میں والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد، والدہ نے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ پوری تند ہی سے بیٹے کی مکمل سرپرستی اور تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ اپنی نیک نامی اور کامیابیوں کو ماں کی محنت کا ثمر قرار دیتے تھے۔ ان کے باقی بھائیوں نے وکالت، انجینئرنگ اور زمینداری کے شعبوں کو ترجیح دی مگر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سیاست کی راہ پر چل پڑے۔ انہیں شروع سے ہی نوکری سے چڑ تھی، اس لیے زندگی میں مواقع ملنے کے باوجود کبھی نوکری کرنے کا نہیں سوچا۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی ہائی سکول بھاگ سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد مستونگ کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایف ایس سی کی ڈگر حاصل  کی۔ 1960کی دہائی میں ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں داخلہ لیا جہاں پر ان کے طلبہ سیاست میں متحرک ہونے سے بلوچ اسٹوٹنس آرگنائزیشن (بی ایس او) کو ایک مخلص ساتھی ملا اور وہ بی ایس او کے پہلے بانی چیئرمین بھی بنے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز 1970کے عام انتخابات میں بحیثیت طالب علم کے کیا۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)کے امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا، ان کا مقابلہ خان آف قلات کے بیٹے شہزادہ یحیٰ سے تھا۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک غریب سیاسی کارکن نے خان آف قلات کے خاندان کو شکست دی۔ ایوان زیریں تک رسائی حاصل کرنے والے کم عمر رکن قومی اسمبلی بنے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ قومی اسمبلی کے ان بلوچ ارکان میں تھے جنہوں نے 1973کے آئین میں کچھ ترامیم تجویز کیں، جن میں قوموں کی تاریخ، ثقافت، زبان، شناخت  اوربلوچوں کو حق خود ارادیت کی ضمانت دینا شمل تھے۔ مگر ان تجاویز کو آئین میں شامل نہ کرنے پر انہوں نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ یہ  قیام پاکستان کے بعد پانچویں قومی اسمبلی تھی جس کا دورانیہ 1972سے1977تک رہا۔

جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور حزب اختلاف نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کی تو ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو کراچی سے کوئٹہ جاتے ہوئے جہاز کے اندر سے گرفتار  کر کے ائیرپورٹ سے تھانے منتقل کیا گیا  جہاں سے ان کی اسیری کے تلخ دن شروع ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو ایک چھوٹے سے کمرے میں اٹھارہ ماہ قید تنہائی میں گزارنے پڑے۔ اسیری کے بیس ماہ بعد عدالت کے حکم پر وہ رہا ہوئے۔ بلوچستان کی مچھ جیل میں بھی پابند سلاسل رہے۔

یہ وہ  دور تھا جب بلوچستان بالخصوص اور ملک کے دیگر حصوں میں بالعموم بائیں بازو کا سیاسی رجحان عروج پر تھا۔

نیشنل عوامی پارٹی کی پوری قیادت سیاسی منظر نامے پر موجود تھی، صوبے میں نواب اکبر خان بگٹی اور دیگر سیاسی زعماء کوئی نواب، کوئی سردار، کوئی خان اور ان کے بیچ نوجوان عبدالحئی۔ جو سیاسی، قبائلی، سماجی ہر حوالے سے سرداروں اور نوابوں کے مقابلے میں کمزور تھے  لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے بڑے بڑے سردار ان کی ”بلند قامت جدوجہد“ سے شاکی اور خوفزدہ رہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی نے 1989میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ 1988میں بننے والے نیشنل الائنس میں انہوں نے بطور جنرل سیکرٹری فرائض سرانجام دیئے۔ بعد ازاں انہوں نے بلوچستان نیشنل موومنٹ بنائی۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، مارچ 1994میں چھ سال کی مدت کے لیے سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، اقتصادی امور، فضائی، مواصلات، ریلوے اور ساتھ ہی کم ترقی یافتہ علاقوں کے لیے سینٹ میں قائم کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے فلور پر وہ صرف بلوچستان کے رہنما کے طور پر ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے غریب عوام کے وکیل بن کر ان کے لیے آواز بلند کرتے۔ انہوں نے 2005میں پاکستان نیشنل پارٹی کے ساتھ انضمام کر کے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی تاہم 2008کے بعد ان کا نیشنل پارٹی کے دوسرے دھڑے کے ساتھ اختلاف کا سلسلہ شروع ہوا۔

2017میں نیشنل پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی ککے نام سے الگ جماعت قائم کی۔ 2013کے عام انتخابات میں انہوں نے نصیر آباد اور جعفرآباد کے اضلاع پر مشتمل قومی اسمبلی کی نشست این اے 266پر نیشنل پارٹی کی طرف سے حصہ لیا لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔

کچھی اور جھل مگسی پرمشتمل قومی اسمبلی کی نشست۔ این اے 267میں 2002کے عام انتخابات میں انتخاب لڑا اور ساڑھے پانچ ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صوبے اور ملک میں سب سے زیادہ متحرک رہنے والے سیاسی کارکن تھے اور آخری عمر تک بھی انہیں شہر میں پیدل سفر کرتے دیکھا گیا۔ انہوں نے کبھی موٹر سائیکل اور پیدل چلنے میں عارمحسوس نہیں کی۔ وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے راہ چلتے ہر جانے انجانے کو سلام کرتے ہوئے گزرتے۔ ان کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان سے ملاقات کیلئے کسی کو وقت نہیں لینا پڑتا تھا۔

وہ خود چل کر عوام کے پاس پہنچ جاتے۔ وہ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔انہوں نے سیاست میں جمہوری رویوں کو فروغ، عوامی حقوق کی پاسداری اور سیاسی شعور کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی  76سالہ زندگی سیاسی جدوجہد سے عبارت رہی۔

شادی 1981میں والدہ کی مرضی سے خاندان سے باہر ہوئی۔ چار بیٹوں اور چاربیٹیوں کے شفیق والد تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ حقیقی سیاسی کارکن کی تعریف پر پورا اترتے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی عوام کی خدمت کی اور عوامی خدمت کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

وہ اپنے آپ کو کل وقتی سیاستدان کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلامعاوضہ اور رضاکارانہ طور پر لوگوں کے مسائل حل کرانے، ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے اور جدوجہد کرنے سے حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور دل کو تسکین ملتی ہے۔ وہ کبھی بھی پروٹوکول، بندوق بردار افراد اور نمود و نمائش کے قائل نہیں رہے۔ وہ سیاست کی اصل روح پر عمل پیرا تھے۔ ایسے لوگ قوم کے محسن اور اس کی نمائندگی کے صحیح حقدار ہوتے ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *