Home » پوھوزانت » اپنے دیس میں جلاوطن لوگوں کا شاعر شاہ لطیف ۔۔۔ محمد ریاض بلوچ

اپنے دیس میں جلاوطن لوگوں کا شاعر شاہ لطیف ۔۔۔ محمد ریاض بلوچ

اس میں کوئی دو دو رائے نہیں ہیں کہ سندھی ایک قدیم زبان ہے۔ اس قدیم زبان میں یقیناً لوگوں نے شعر گنگنائے ہوں گے، ایک دوسرے کو اپنے تجربات سے آگا ہ کیا ہوگا، مختلف کہانیاں گھڑی ہونگی۔ لیکن ہمارا وہ ابتدائی ورثہ ہم سے کھو گیا، ہمارے بڑے بزرگوں پر جو حملے ہوئے اس میں وہ اپنے تجربات کے اس خزانے کی حفاظت نہ کر سکے۔ اور بدقسمتی سے  آج  کے ہمارے محققین کو گیارہویں اور بارہویں صدی سے قبل کے سندھی ادب کا ذخیرہ دستیاب نہ ہوسکا ہے۔  سندھ پر عرب فوج کے حملے سے قبل اور بعد میں آنے والے سیاحوں کے سفرناموں میں سندھی زبان کے مختلف سکرپٹ کے شواہد تو ملتے ہیں لیکن سندھی ادب کی تاریخ میں عرب دور کا صرف ایک شعر ملا جو یحیٰ بن برمکی کے سامنے کسی سندھی شاعر نے پڑھا تھا

البتہ سومرا  دور میں ہمیں سندھی فوک شاعری کے اصناف گیچ اور گاہ کے شواہد ملتے ہیں۔گاہ کے دو تین مصرعے ہوتے ہیں اور اس صنف کے ذریعے اخلاقی، تاریخی و رومانوی قصے کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ سومرہ دور میں سمنگ چارن، بھاگو بھان اور کچھ نامعلوم شعراء نے گاہ کی صنف میں شاعری کی۔ گیچ شادی اور خوشی کی تقریبات میں گائی جاتی ہے، جس کو بلوچی میں نازینک کہتے ہیں۔ سومرا  دور میں سسی پنہوں، عمر ماروی کی عشقیہ داستان اور مورڑو میربحر کی رزمیہ داستاں بھی ملتی ہے، جن کو بنیاد بنا کر سندھ کے کلاسیکل شعراء نے اپنے فن اور فکر کی عالیشان عمارت بنائی ڈالی۔

سندھی کلاسک شاعری کی باقاعدہ ابتدا چودھویں صدی عیسوی یعنی سما سلطنت کے دور حکومت میں ہوئی، اور سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ اپنی ابتدا میں ہی انسان دوست نظریات کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ لوگ صوفی تھے، پیر تھے، اپنی پیری مریدی گدیاں اور حکومت عہدوں پہ براجمان تھے، ان کے سیاسی مقاصد و نظریات سے قطع نظر انہوں نے اپنی شاعری میں انسان دوست نظریات کو فروغ دیا۔

ہالا کے سروردی جماعت کے روحانی پیشوہ مخدوم نوح  سروری اپنے ایک شعر میں شبنم کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

لوگو! صبح جو شبنم پڑی اس کو محض شبنم نہ سمجھو

یہ رات رو رہی ہے، انساں کے دْکھ دیکھ کر

 

دْکھی و غمزادہ انسانوں کے تذکرے کا یہ علامتی اظہار مخدوم نوح  سروری سے شروع ہو کر شاہ عبدالکریم، شاہ عنات رضوی، لطف اللہ قادری کے کلام سے ہوتا ہوا، شاہ لطیف کے کلام میں نکتہ عروج پر جا پہنچا۔

شاہ عنات سْر سارنگ میں  بارش کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے

مجھے ایسی بارش کی تمنا ہے جو بھوک کے مارے لوگوں کی بھوک مٹا دے

پانی پلائے پیاسوں کو اور دْکھی لوگوں کو سْکھ دے

غریب لوگوں کے سارے دْکھ  برکھا نے دور کردئے

سمہ دور کے خاتمے پر  سندھ نے اپنی تاریخ کے سیاہ ترین دن دیکھے۔ سمہ حکومت کے آخری سلطان جام فیروز نے ناعاقبت اندیشی کی بنا پرسندھ کے سپہ سالار دریا خان لاشاری کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا اور اس کے بجائے مخالفیں کو  ترجیح دی۔ جس کے باعث سندھ کا یہ محافظ حکومت سے کنارہ کش ہوکر اپنی جاگیر کاہان میں بیٹھ گیا۔دوسری طرف جو حملہ آور دریا خان کے مضبوط فوجی قیادت  کے خوف سے سندھ کی طرف قدم بڑھانے سے قاصر تھے وہ اس موقع کو غنیمت جان کر سندھ کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے ٹھٹہ کے قریب آ پہنچے۔ جام فیروز نے  ارغونوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کیا۔ لیکن دریا خان، ارغون فوج سے جنگ لڑتے ہوئے قتل ہوا۔ دس دن تک سندھ کا داراالخلافہ ٹھٹہ آگ میں جلتا رہا اور سندھ کی آزادی سلب ہوئی، یہ وطن ایک بار پھر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ گیا۔

ارغونوں نے ایک طرف مخدوم بلاول سمیت دریا خان کے فرزند محمود خان،  مٹھن خان سمیت ہزاروں وطن دوستوں کو قتل کیا۔ دوسری طرف انہوں نے سندھی ثقافت کو  پس پشت ڈال کر اپنی فارسی زبان و ثقافت کو مسلط کرنے کی کوشش کی۔ اسی دور میں کہاوت مشہور ہوئی:

فارسی گھوڑے چاڑھسی، یعنی فارسی زبان  انسان کو گھوڑے پر بیٹھنے یا ترقی کے منازل طے کرنے کے قابل بناتی ہے۔

ارغونوں کے بعد ترخان پھر مغل بادشاہوں نے تقریباً  پونے دو صدی تک سندھ پر راج کیا۔ ان صدیوں میں سندھی عوام اپنے کمزور  کاندھوں پر غلامی کا گراں بار اٹھانے پر مجبور تھے دوسری طرف دن رات محنت کرنے کے باوجود بھوک، مفلسی اور بدحالی اس کا مقدر بنی رہی۔ ظاہر ہے قابض حکمران اس سرزمین کی دولت لوٹنے کی نیت سے آئے تھے۔وہ بھلا کیوں چاہتے کہ سندھ کا کاروبار مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں ہو اور اس سے حاصل ہونے والا نفع وہ اپنی خوشحالی کے لئے استعمال کریں۔ چنانچہ ارغونوں، ترخانوں، مغلوں اور انگریزوں نے  دیسی عوام کو صرف وسائل پیدا کرنے اور خام مال نکالنے کی کان کنی میں مصروف رکھ کر دو وقت کی روٹی پر زندہ رکھا۔

ایسی صورتحال کی منظرنگاری، شاہ لطیف نے  اپنے ایک بیت میں خوبصورتی سے کی ہے:

نکا بْوئے  بازار میں، نکا چِھلر چھٹ،

جتی ڈھنبرین جی اگے ھْئی اکٹ،

جے پِڑ پسؤ پَٹَ، ماڑھو ونجن موٹیا۔

There is no more fish-odour in bazaar, nor are there any peels of fish. The fresh water fish Dambra, which used to be available in aboundance before, has become scarce. The sites of their stock are now empty and the prospective purchasers see them and go away (disappointed). (M.Yaqoob Agha, Sur Ghatoo, P: 1053)

بستے شہر کھنڈر بنا دئے گئے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ ارغونوں نے دریا خان  کی شہادت کے بعد ٹھٹہ شہر کو آگ لگا دی اور یہ شہر دس دن تک جلتا رہا۔ یہ ایک دو سال کی بات نہیں تھی پونے دو صدیوں تک عوام اس غلامی میں رہنے پر مجبور تھے، بلکہ سندھ کے عوام تو سندھ کے مقامی حکمرانوں کے دور حکومت میں بھی خوشحال نہیں تھے۔ قابض حکمرانوں کے ساتھ اس کا قومی مسئلہ تھا اور مقامی حکمران کے ساتھ اسکی طبقاتی جنگ تھی۔ اْس دور میں ذرائع ابلاغ بھی اتنے تیز رو نہیں تھے نہ عام آدمی کے پاس اتنا شعور تھا۔ بہرحال پھر بھی حکمرانوں  کے خلاف بغاوتیں ہوتی تھیں، لوگ اپنے طریقے سے غصے کا اظہار کرتے تھے لیکن یہ بغاوتیں یہ احتجاج اکثر ایسے قبیلائی سردار یا معزول حکمرانوں کی سربراہی میں ہوتی  تھیں،  جن کی مزاحمت کا مقصد وطن کو غلامی کی زنجیروں سے آزادی دلانے کے بجائے اپنا اقتدار  واپس  لینا یا مراحات کا حصول ہوتا تھا۔ اس لئے وہ بعض اوقات عوام کو دھوکا دیکر قابض قوتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرتے اور اپنی ذات کے لئے مراعات حاصل کرتے تھے۔اور جنگ میں نقصان صرف عوام کا ہوتا تھا۔

شاہ جھان بادشاہ کی سندھ آمد کی خبر سنتے ہی ترخانوں نے سندھ کے کھیت کھلیانوں میں پکی فصلیں جلا کر راکھ کر دیں، عرب، ارغون، ترخان، مغل حملے آوروں کے علاوہ شاہ لطیف کی اپنی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوئے، جن میں سندھ کا حکمران نو ر محمد کلہوڑو   ایک اور سندھی قبیلے  داؤد پوٹہ یا  قلات کے بلوچوں سے خانہ جنگی میں الجھتا رہا لیکن جب نادر شاہ نے 1739ع میں سندھ پر حملہ کیا تو نور محمد کلہوڑو نے بڑی منت سماجت کے بعد  سندھ کی لوٹی ہوئی دولت اْسے بخش دی اور سالانہ 25 لاکھ روپے دینے کا وعدہ  بھی کیا۔ یہی کلہوڑا حکمران تھے جنہوں نے مغلوں سے گٹھ جوڑ کرکے اپنے ہم وطن صوفی شاہ عنایت اور اس کے ساتھیوں کو جھوک میں شہید کروایا۔ لیکن وہ  نادر شاہ کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔

جب عوام کسی بدیسی غاصب  حکمران کے سامراجی عزائم کا مقابلہ کریں، اس کے  خلاف جنگ میں جانوں کی قربانیاں دیں اور اْس کے آ  ہنی پنجوں سے وطن کو آزاد کرکے امانت کے طور پر  اقتدار  اپنے کسی ہم زبان کے ہاتھوں میں دیں لیکن  وہ ہم زبان بھی  وہی  پردیس سے آئے سابق بدیسی حکمران کے نقش قدم پر چلنے لگے، عوام کو اقتدار میں شریک کرنے اور معاشی، سیاسی اور سماجی تحفظ  فراہم کرنے کے برعکس اس کی    دو وقت کی روٹی، کپڑا اور دوائی  پر ڈاکہ ڈالے اور اْسے محض ٹیکس دینے کی اے ٹی ایم مشین سمجھ کر لْوٹنے لگے تو ایسے دیسی حکمران کے بارے عوام کی رائے کیا ہوگی؟۔وہ شاہ لطیف نے بڑے دردیلے انداز میں بیان کی ہے۔

جْہ سے لوڑوؤ تھیا، جنیں سندی دِھیر،

ماروئڑا فقیر، کنھن در ڈین دانھڑی

If the authorities, who constitute the mainstay of the public, turn into robers, where can poor people of desert lodge their complaints? (M. Yaqoob Agha, Sur Marvi, P: 590)

اس طرح کے واقعات نے آخر عوام کو مایوس کیا، اس کے آگے بڑھنے، اْبھرنے اور ترقی کرنے کی قوت ختم ہوئی، وہ اپنے کام کاج سے بیزار دکھائی دینے لگا۔

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اْس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

چرواہا جو پہلے بڑی خوشی اور محنت سے چنگ و سروز بجاتے ہوئے بکریاں، اونٹ گائے اور بھینس چراتا تھا وہ اب پنے کام میں بیزاری دکھانے لگا، مالدار بھاگیہ مایوس ہو کر اپنے جانور فروخت کرنے کا سوچ رہا تھا۔ناامیدی  اور  مایوسی  کا یہ سرطان سندھی  سماج  کواندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا تھا۔ عوام کے دل سے مزاحمت اور انکار کی جرئت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کیلئے سامراجی سازش کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔

مزاحمت و انکار کے بغیر کوئی سماج ارتقا کا سفر طے کرے یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اپنے خاندانی پیشے سے بیزاری، نا امیدی، مایوسی اور اپنی ثقافت اور زبان کے بارے میں احساس کمتری  کی نفسیات ایک ایسے سمندر کی مانند ہے جس میں قومی وقار وتشخص کی کشتی غرق ہوجائے تو اس  کو ایک تختہ بھی  نہیں ملتا۔ ایسی  صورتحال میں عوامی دانشور معالج بن کر عوام کو  حوصلے اور اْمید کی نوید سناتا ہے اور احساس کمتری  کی نفسیات سے عوام کو نجات دلاتا ہے اور یہی کام شاہ لطیف نے کیا:

،آگمؤ آھیلگہ پَس لطیف چئے،

اْٹھو مِینھن وڈ فْڑو، کڈھو دھنڑ کاہے،

چھن چھڈی پَٹ پؤ، سمر سنبھائے،

وِھو م لاہے، آسرو اللہ ماں

It is cloudy. Look at the rainy clouds that have gathered in a mass against the silvery sky. Nay, It is actually raining in big drops. You had (better) take out your herds of cattle, and leave the sheds for open plains. Hurry up to fill your panniers thoughtfully and carry them with yourselves. This is no occasion at all for pessimism in Allah’s Favour (for a good harvest). (M. Yaqoob Agha Sur Sarang, P: 299)

کاندھ م وِکنڑ کْنڈھیوں، دھنڑ سبھوئی دھار،

ابھریوں سبھریوں پنھنجوں، سسیوں سبھ سنبھار،

بن چھڈے، چھن پئی، ونجی ولھارن وار،

تہ اچے انگڑاں بار، سرلا کندی سڈڑا۔

O Consort! Please do not sell the buffaloes with curved horns. Keep the entire herd intact. Maintain all your sheep too, whether thay are fat or lean. Take your herds of animals from the higher lands to the lower areas, (where rain water has accumulated and fodder would be available in plenty.) That way the cattle would be pleased to return to your abode from outside, calling for you. (This means that when people are favoured with the Devine guidance they become responsive) (M. Yaqoob Agha Sur Sarang, P: 306)

 

شاہ لطیف نے سسی پنہوں کے قصے کی پس منظر میں پانچ سْر ترتیب دئے سْر سسی آبری، حسینی، معذوری، دیسی اور کوھیاری (جس کے لئے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا کہنا ہے کوھیار خضدار کا پرانا نام ہے اور کوھیاری  خضدار کا کوئی مقامی راگ ہے)۔ان تمام سْروں میں عظیم مقاصد کے لئے مسلسل جدوجہد کرنے اور منزل کی حاصلات کی پرواہ کئے بغیر اس کی جستجو میں سفر کرتے ہوئے جان نثار کرنے کا پیغام پوشیدہ ہے۔

عْمر سبھ عشق سیں، پنھوں جے پْچھن،

رِیس رذیلیوں تِن سیں، کْجاڑے کھے کن،

مارگ جے مرن، وڈو طالع تِن جو

 

Those who are interested in Punhoo and seek him, Shall constantly love Him for their life, Wherfore Should the base creatures (the poseurs) reproach or envy them? (They do not know his worth and they are not in love with him).Those who die in the way of the Beloved, are very fortune indeed.

 

لیکن یہ تو بڑے نظریاتی اور کمٹمیڈ لوگوں کا کام ہے، جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔عام آدمی تو اپنی گھریلو زندگی، دو  وقت کی روٹی کی پریشانیوں میں الجھا ہوا ہوتا ہے۔ حالات اْس کو اس ڈگر پر چلنے ہی نہیں دیتے، جہاں سے وہ عظیم مقاصد کے لئے سوچنے اور شعور حاصل کرنے کے قابل ہوسکے۔

اور جاگیردار و سرمایہ دار حکمران طبقہ ان حالات کو قائم و دائم رکھنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتا۔ انسان دشمن رسم و رواج کی پرورش مہنگائی و بیروزگاری میں اضافہ، رجعت پرستی و تعلیم کا فروغ، قبائلی اور ذاتیات کی چپقلش کو ہوا دینا، میڈیائی پروپگنڈہ  یہ سب حربے وہ اس لئے استعمال کرتا ہے تاکہ عوام اس نقطے تک پہنچ نہ سکیں۔

غریب عوام کا دشمن کوئی ایک تو نہیں ہوتا، وہ ہر طرف دشمنوں میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ بھوک و بدحالی، تنگدستی و مفلسی، رسم و رواج، قانون و ضوابط، جسمانی امراض و قدرتی آفات  یہ سب مل کر بیک وقت بیچارے عوام پر حملہ آور ہوتے ہیں  اور اْسے سنبھلنے  کا موقع نہیں دیتے۔   پھر  عوام کا  سب سے بڑا دشمن تو خود انسان کے روپ میں ہوتا ہے جو اْسے الجھانے کے لئے کئی دلیل و تاویلیں پیش کرتا ہے،  یہ غربت و مفلسی کو مقدر کا لکھا کہتا ہے،   قانون و ضوابط  کو انصاف کا نام دیتا ہے، قدرتی آفات کو عوام کے اعمال کا نتیجہ بتاتا ہے۔ یہ عوام دشمن بڑا مکار و بہروپیہ ہے،  ہر بار نئے روپ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔

کْونج نہ پسی کھک، ڈب جنھن سیں ڈبیو،

ماری ءَ مارے لکھ، وگر ھنڑی ویچھوں کیا۔

O Crane! Do not fail to distinguish the straw which the hunter uses to camouflage the trap beneath it. The fact is that he has disintegrated lots of flocks through his deceitful murderous trap. (M. Yaqoob Agha Sur Dahar, P: 226)

 

کْونج نہ لَکھیو بانڑ، جو ماری ئے َ سندے من میں،

اوچتے پریانڑ، وگر ھنڑی ویچھوں کیا۔

 

The Crane had not noticed the arrow which the hunter had planned to use against her. He took the aim and shot it suddenly but fatally. Thus had he liquidated flocks of cranes earlier and affected their ranks. (M. Yaqoob Agha Sur Dahar, P: 226)

 

اس لئے عوام کی پہچان کی قوت و تجربات کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورج اور چاند اپنا سفر کرتے رہتے ہیں، دن رات میں اور رات دن میں بدلتا رہتا ہے  لیکن عوام کے حالات وہی ہوتے ہیں،  بدلنے کا نام نہیں لیتے۔  شاہ لطیف ان تمام دشمنوں سے نجات کے عوامی اتحاد قائم کرنے کی بات کرتا ہے۔

ڑے بھانئیں وَس چراں، تہ سنگھارن سیں لڈ،

تہ ھانجے سندی ھڈ، کْوک نہ سْنڑیں کڈھن،

 

If you want to graze your cattle on green meadow, then go along with (or follow) the other herdsmen     (and remain in their association). In that case you will have no occasion at any time to hear a groan of srffering or loss. (M. Yaqoob Agha Sur Dahar, P: 230)

 

شاہ لطیف، عوامی اتحاد کے بعد عوام   کی قیادت کے لئے ایک سچے، بہادر اور نڈر رہنما کی  موجودگی کو ضروری سمجھتا  ہے، جو ان کا تحفظ کر سکے اور ان کے حقوق کے لئے  جدوجہد کرے اور حکمرانوں کے آمرانہ و سامراجی عزائم کے خلاف مزاحمت کرے۔ پھر وہ ایک کردار لاکھو پْھلانی کے ذریعے ا س قائد کے خدوخال بیان کرتا ہے کہ رہنما ایسا ہو جسے حکمران بھلے شرپسند و غدار کے القابات سے نوازیں لیکن وہ غریبوں اور مفلسوں کو سہارا  دے اور بڑے بڑے محل  مالکان کی نیندیں حرام کردے۔

لاکھا لک سجن، پھلانیءَ پھیر بیو،

جنھن بھر رانڑا راجیا، کوٹن منجھ کنبن،

جنھن جو جاڑیجن، سْتے سونچو نہ لہے

 

There are millions of Lakhas (in the world) but lakho Phulani wad of different pattern. Even the kings quaked in their forts at the mention of his name. So for jarejas were concerned, they used to have nightmare about him in their sleep.   (M. Yaqoob Agha Sur Dahar, P: 233)

شاہ لطیف انسان اور اس کے وطن کی آزادی کا بہت بڑا وکیل ہے۔ وہ  غلامی کے بدلے میں ملنے والے ہر آسائش کو ہیچ سمجھتا ہے۔ غلامی کی زنجیریں کتنی ہی خوبصورت ہوں لیکن ان کا بار گراں اس کو انسانیت کے معراج تک پہنچنے نہیں دیتی۔انسان کو آزادی میسر ہو تو وہ باقی دکھ و تکالیف  مصیبت و آلام برداشت کر  لیتا ہے، اس کا روح احساس غلامی سے زخمی نہ ہو تو وہ ان تمام مسائل سے نبردآزما ہو کر آخر ایک نہ ایک دن ان سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ شاہ لطیف نے ماروی کے کردار کے ذریعے آزادی کے گیت گائے۔ ماروی ایک غریب چرواہے کی بیٹی ہے جسے سندھ کا حکمران عمر سومرو اغوا کرکے اپنے قلعے میں بند کر دیتا ہے اور اْسے ہر قسم کے عیش و آرام، قیمتی کپڑے و زیورات  پیش کرکے للچانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ اپنے وطن اور طبقے سے غداری کرے،انہیں فراموش کرے۔ لیکن ماروی  کی سانسیں اپنے وطن کی آزاد فضا کی عادی ہوتی ہیں۔ اس لئے ماروی کو حکمران کے محل میں گھٹن محسوس ہوتی ہے، وہ  محل کے پرتعیش ماحول میں اپنی ان سہیلیوں کو یاد کرتی ہے جو بارش برسنے کے بعد اپنے وطن کی سوندھی مٹی میں کھیل رہی ہیں اور بکریاں چر ارہی ہیں۔

جھڑی آیس جیئں، تھڑی ونجاں تِن ڈی،

پِھراں پَھر چاریاں، ھِنیوں چئم ھیئں،

ونجاں کیئں وطن ڈی، کانڑ لہندم کیئں،

مْندائتے مَینھں، سْنہاں سرتیں وچ میں

If I had gone back to them (in the realm of souls, immediately on arrival here), my heart would have prompted me to roam about and graze cattle freely there. But now the question is How can I get back to my native land? How would this stigma be removed? It world certainly befit me to be among my friends ther during the monsson season. (M. Yaqoob Agha Sur Marvi, P: 563)

شاہ لطیف، سْر گھاتو میں کلاچی یا کْلاچی جو آج  کے کراچی کے سمندری حدود میں رہنے والے مگر مچھ کا قصہ ہے۔ شاہ لطیف نے وطن اور  وطن کے وسائل پر قابض آمر کو مگر مچھ سے تشیہہ دیتا ہے۔ سمندر وطن ہے مچھلیاں روزی روٹی کا  وسیلہ ہیں لیکن ان پر مگر مچھ کا قبضہ ہے، اْس نے  بیچارے ماہیگروں کو اپنے وطن یعنی سمندر سے جلاوطن کر دیا ہے، وہ سمندر میں جانے   والے ماہیگیروں کو  ہلاک کرتا ہے۔  شاہ  لطیف، مگر مچھ سے لڑنے والوں کی تعریف کرتا ہے  لیکن ساتھ ہی انہیں خبردار کرتا ہے کہ مگر مچھ  کو  شکست دینے کے لئے صرف جوش و جنون، بہادری و پہلوانی کافی نہیں ہے، اس کے لئے ہوشمندی و تدبر سے مکمل تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی کراچی مگر مچھوں کے قبضے میں ہے اور اْس کے ماہیگیر و گلہ بان اپنے وطن میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔شاید شاہ لطیف کے یہ بیت اْنکے لئے نصحیت یا سبق آموز ثابت ہوں۔

جیئں جْھگا پائییں جھول میں، ایئں نہ مرن مچھ،

سبر دھار سمنڈ میں، کے راؤں رنگیو رچھ،

،ھی چھاڑوں ائیں چھچھ، انجا اگاہوں تھیو

The way you fish in the left over water in a pit in river would not be practicable or effective in trapping a whale (greater efforts and piety are necessary for this warfare). You should provide yourself with strong and endurable nets made of interwoven dyed threads which are generally used for fish catching in deep sea. For the present you are operating in creeks containing shallow mater. The deep sea is still ahead of you. (M. Yaqoob Agha Sur Ghatu, P: 1054)

مکمل تیاری کے بعد موزوں اور مناسب وقت  کا انتظار کرنا  ہے،  جب مگر مچھ غلطی کرے اور کہیں پھنس جائے تو اْس  پر  بھرپور وار کرنا ہے۔ ایسی حکمت عملی کے بعد ہم  مگر مچھ سے یہ کہہ سکتے ہیں  کہ تم جو  اپنے آپ بڑا پہلوان سمجھ کر مستیاں کر رہے ہو ا ن کے خاتمے کا وقت  آ پہنچا ہے۔

پھر ہمارے  ہاں یہ ایک المیہ بھی ہے کہ ہم کسی ایک شخص کو ٹارزن  بنا کر یہ باور کرتے ہیں کہ وہ ہر کام اکیلے سرانجام دے سکتا ہے، سلطان راہی کی طرح تمام دشمنوں سے تنہا مقابلہ کریگا۔  شاہ لطیف اس سوچ کی نفی کرتے ہوئے کہتا  ہے کہ مانگر مچھ کو شکست دینے کا  کارنامہ کسی ایک شخص نہیں بلکہ تمام متاثر ماہیگیروں نے سرانجام دیا۔

گھوریندے گھور پِیا، اَگھور گھوریاؤں،

مانگر ماریاؤں، ملاحن مْنھ سنرا

While conducting the search (for whale) they got into the vortex and explore the untraceable region. They killed the whale, and all the fishermen became happy. (M. Yaqoob Agha Sur Ghatu, P: 1054)

اس کی نظر میں بہتر حکمران وہی ہے جو  شہریوں پر سختیاں و پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ان سے محبت کرے۔انہیں اپنائیت کا احساس دلائے بلکہ اپنے آپ کو  ڈی کلاس کرے،  اپنے ملک کے شہریوں کے مفادات کی خاطر اپنا طبقاتی غرور مٹاکر ان سے اس طرح گھل مل جائے کہ حکمران و رعایا کے درمیان کوئی اجنبیت باقی نہ رہے۔

تِھیا تماچی جام سیں، مْھانڑا محروم،

ننڈھی وڈی گندری، متھے ماڑیءَ دھوم،

جے کینجھر جے رْوم، سے سبھ انعامی تھیا۔

The Fishermen have become intimate to Samo. Each Gandri born,major or minor literally besieges Samo’s mansion. Whether they pertain to kinjhar lake area or a remote place like Turkey, All are favoured and rewarded alike. (M. Yaqoob Agha Sur Kamod, P: 855)

عوام اور حکمران کے درمیان کسی طبقاتی اونچ نیچ و تفریق حکومت کو  کھوکھلا کرتی  ہے اور ایسی دیمک زدہ حکومت کسی بھی محمد بن قاسم،نادر شاہ  یا مدد خان افغان کا  مقابلہ نہیں کر سکتی۔ حکمران کی اہمیت ہی تب بنتی ہے جب  اْس کا  اپنے ملک کے شہریوں سے مضبوط رشتہ استوار ہوجائے۔

نوریءَ جے نوازیو، تِھیو تماچی تے،

گاڈھی چاڑھے گندری، ماڑھو کیو مے،

کینجھر چوندا کے، سچ سبھائی گالہڑی۔

It is of cours conceded that Tamachi had Favoured Noori, but that but itself contributed to the extensive and permanent publicity that he got in return. It is however, a fact that Tamachi by driving with Noori in vehicle reformed and ennobled her. Inspite of the passage of time the people Living in kinjhar tract will attest the truth of the above occurrence and its effects. (M. Yaqoob Agha Sur Kamod, P: 862)

شاہ لطیف صرف قومی آزادی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ طبقاتی آزادی بھی اس کے منشور کا حصہ ہے۔ وہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی و اقتصادی آزادی کی بات بھی کرتا ہے۔وہ ایک ایسے معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے جہاں عوام  حکمران طبقات کی شاہ خرچیوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے پسینے کی کمائی کو بطور ٹیکس جمع کرنے پر مجبور نہ ہوں۔

نکا جھل نہ پل، نکو راءْر ڈیھ میں،

آنڑیو وِجھن آھریں، روڑیو ریا گْل،

مارو پانڑ امل، ملیروں مرکھؤں۔،

There is an open and free country. There is no restraint of any kind on movement in it. You would not be embarrassed with any taxes too. These people give manger full or red flowers to their cattle. They are fearless persons indeed! And their country too is very attractive! (M. Yaqoob Agha Sur Marvi, P: 570)

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *