Home » ھمبوئیں سلام » مصباح نوید، فاطمہ حسن

مصباح نوید، فاطمہ حسن

محترم جناب ایڈیٹر صاحب

سنگت وہ دوست ہے جو ہر ماہ باقاعدگی سے در دل پہ دستک دیتا ہے۔حسب معمول ماہ ستمبر 2021 کا سنگت  بھی دانش کے موتی،اور ادبی چاشنی لیے  ہر رنگ کا مضمون باندھے  ہوئے ہے۔

سنگت عقل و شعور کو ویلیو دیتا ہے۔

شاہ محمد مری نے کہیں لکھا تھا کہ “بدبختی یہ ہے کہ لفظوں سے معنی جدا کر دیے گئے ہیں۔

اقبال نے اچھے کام بھی کیے ہونگے لیکن ایک برا کام یہ کر گیا کہ عقل اور عشق کو برسر پیکار کر گیا۔ عقل تو دماغ کی شعوری رو ہے جب عقل وجد میں آتی ہے تو عشق بن جاتی ہے۔انسان کے ماتھے کا جھومر پوہ زانت ہی تو ہے۔

ماہتاک سنگت کاٹائٹل پرنسز آف ہوپ  دیدہ زیب بھی ہے اور بامعنی بھی۔

ایڈیٹوریل:”بلوچستان کا دیہی نظام درہم برہم” ایک اہم مسئلے کو اس کی گہرائی اور ہولناکی سمیت بیان کرتا ہے۔جب دنیا اسقدر کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوئی تھی تب رمضان  میں (رمضان بھی رمادان نہیں ہوا کرتا  تھا)سحری سمے گلیوں میں ڈھولچی بڑے جذب سے ڈھول بجایا کرتے تھے۔جوش،والہانہ پن،خلوص سے بھرپور تھاپ دل پر پڑتی تھی۔شاہ محمد کی لکھت پڑھتے ہوئے اسی ڈھولچی کا خیال آتا ہے۔

شاید قاری جھرجھری  لے کر دوبارہ سو جاتا ہو پر  لمحہ بھر ہی سہی آنکھ تو کھولتا ہوگا_

نجیب سائر “سنگت پوہ زانت “کے عنوان سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی, ادبی نشست کی روداد قلمبند کرتے ہیں۔جو سنگت بوجہ شامل نہیں ہوسکتے انھیں بھی شمولیت کا احساس اور جانکاری حاصل ہو جاتی ہے۔عظیم رونجھو کا لکھا ہوا “سنگت حسن عسکری,تعزیتی پروگرام” کا احوال بھی تفصیل سے درج ہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کا  مضمون “سنگت حسن عسکری” بھی اس پرچے میں شامل ہے۔زیب زیبدار نے “پوسٹ ماڈرنزم “پر بلوچی میں لکھا ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے قیافے سے کام لیا گیا۔ایک ہی دھرتی پر بولی جانے والی لینگویجز کی جڑیں آپس میں ملی ہوتی ہیں اس لیے لینگویج  نہ جانتے ہوئے بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتی اور  سمجھنے واسطے بھی زیادہ تگ و دو  نہیں کرنا پڑتی ہے  – جام درک کی شاعری کا اردو ترجمہ مع تبصرہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ “ظہیر کاشمیری’   جاوید اختر کاطویل آرٹیکل  ہے۔ظہیر کاشمیری کے فن وفکر کا احاطہ ژرف نگاہی سے کیا گیا۔

شان گل نے تاریخ کے ایک متنازعہ کردار “راسپوٹین ” کے بارے لکھا۔راسپوٹین جو بادشاہت کی ٹریجیڈی میں ایک مضحکہ خیز سائیڈ شو تھا۔راسپوٹین کا خاتمہ اس فوری بے اطمینانی کا نتیجہ تھا جو بادشاہ اور اس کے نظام حکومت کے خلاف لوگوں کے دلوں میں تھی۔پھر احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ انقلاب پر ختم ہوا۔

شاہ میر کا لکھا ہوا شعوری اور علمی مضمون ” فزکس اور اس کے قوانین” دلچسپ پیرائے میں لکھا گیا۔پرنسس آف ہوپ کے تناظر میں امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سائنس اور سوشل سائنسز موضوعات پر سلسلہ ہائے مضامین کا آغاز ہوگا۔

غلام نبی بزدار نے بلوچوں کی مظاہر پرستی جو کہ سندھیوں پنجابیوں سے زیادہ جدا نہیں ہے،خوب لکھا۔

عابد میر کا ریویو تعمیری تنقید لیے ہوا تھا۔عابد میر سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ اس سلسلے کو جاری رکھیں۔سنگت میگزین کی بہتری کے لیے ریویو بہت اہمیت کے حامل ہونگے۔

قصہ میں اس بار شموئل احمد،غلام نبی ساجد بزدار اور عصمت چغتائی کی شمولیت ہے۔معیاری اور شاندار افسانے۔عصمت چغتائی کے افسانے “خرید لو” کا جواب ہی نہیں۔

سنگت ست رنگی دھنک ہے۔کچھ رنگ چوکھے کچھ پھیکے۔نثری نظموں کا رنگ پھیکا رہا۔غنائیت اور ردھم نہ ہو تو وہ نظم ہی کیا چاہے نثری نظم ہی کیوں نہ ہو۔

البتہ بیک ٹائٹل پر چھپی امداد حسین کی نظم ” دریا بہتا جائے” دریا سی روانی لیے ہوئے ہے_

مصباح نوید ساہیوال

 

***

 

ڈاکٹر شاہ محمد مری

آداب

سنگت ان چند رسالوں میں سے ایک ہے جو میں باقاعدگی سے پڑھتی ہوں اور اپنی تحریر بھی اس کے لئے بھیجتی رہتی ہوں۔سماجی،سیاسی شعور اور ادبی معیار کے اعتبار سے یہ ایک بہت اچھا رسالہ ہے۔۔آپ کے اداریے دعوت فکروعمل دیتے ہیں۔چھپنے والا دیگر مواد خصوصاً کہانیوں کا معیار بہترین ہے۔

ادھر چند ماہ سے ڈاکیے کو سنگت پسند آگیا ہے۔  دو شماروں کے بعد ایک شمارہ گم کردیتا ہے۔ اس ماہ کے آنے والے سب رسالے مل گئے سوائے سنگت کے۔۔شاید ڈاکئے کا ذوق بلند ہوگیا ہے۔اتنی دانش (intellect)اگر ہمارے عام لوگوں میں پیدا ہوجائے تو وہ ہماری قوم کا اچھا وقت ہوگا۔۔

گذشتہ دنوں آرٹس کونسل کی  لائبریری کو پروفیسر ممتاز حسین کے لواحقین نے ان کی تقریباً” دوہزار کتابیں دیدیں،جن پر لگائے ہوے پنسل کے نشانات بتاتے ہیں کہ سب بہت توجہ سے پڑھی گئیں ہیں۔ہر کتاب دیکھ کر دل چاہتا ہے بس سب کچھ چھوڑ کر اسے پڑھ ڈالیں  مگر ہم جو کبھی پڑہنے والے تھے اب صرف لکھنے والے بن گئے ہیں۔۔مجھے اپنی دوکتابوں کو مکمل کرنا ہے اور وقت تنگ محسوس ہوتا ہے۔۔آپ کی کتابیں ادارئیے دیکھ کر رشک آتا ہے۔

سلامت رہیں،لکھتے اور ادارت کرتے رہیں۔۔سنگت کے آنے والے شمارے کے ساتھ ستمبر کا بھی بھجوادیجئے۔۔

خلوص کے ساتھ

فاطمہ حسن

 

Spread the love

Check Also

صنوبر الطاف

ایڈیٹر ڈاکٹر شاہ محمد مری!!۔ میں بطور شاعراور افسانہ نگار پچھلے پانچ چھ سال سے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *