Home » ھمبوئیں سلام » صنوبر الطاف

صنوبر الطاف

ایڈیٹر ڈاکٹر شاہ محمد مری!!۔

میں بطور شاعراور افسانہ نگار پچھلے پانچ چھ سال سے سنگت رسالے کی مستقل اور غیر مستقل قاری ہوں۔میرے کچھ افسانے،نظمیں اور مضمون یہاں چھپ چکے ہیں۔سنگت سے جڑے رہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ سیکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ملتا ہے۔اگر کوئی سیکھنا چاہے تو سنگت کا کوئی پرچہ ایسا نہیں ہے جو سیاسی سماجی حوالے سے کوئی نئی معلومات نہ دے۔دوسری بڑی وجہ تو  خود شاہ محمد مری ہیں۔جن کی تحریروں اور اسلوب سے میں ہمیشہ متاثر رہی ہوں۔ڈاکٹر شاہ محمد مری بطور نقاد  اور سینئیر ادیب کے پاکستان بھر میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔

میرے سامنے اس وقت سنگت کا اگست کا شمارہ  ہے۔شاہ محمد مری کا لکھا اداریہ”پاپولزم،بیرونی قرضے اور عوام”پاکستان کی سیاسی تاریخ اور آج کے سیاسی بحران پر ایک مفصل مضمون ہے۔میرا نہیں خیال کہ میں نے اس قسم کا تبصرہ ٹی وی یا کسی اور  پلیٹ فارم پر پڑھا یا دیکھا ہے۔ڈاکٹر مری نے ہمارے ہاں ”  لیڈر” بنانے کی پوری ترکیب اور اس کے اجزائے ترکیبی کھول کر بیان کردی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بنانے والوں کے عزائم کو بھی سامنے لایا ہے۔

اگلا  طویل مضمون فیڈل کاسترو کا چے گویرا پر ہے اور اسے شاہ محمد مری نے ترجمہ کیا ہے۔ترجمہ نہایت رواں ہے۔فیڈل کاسترو کی طرف سے یہ چے گویرا کے لیے خراج عقیدت ہے۔اس مضمون میں چے گویرا کی شخصیت اور نظریے سے اس کی وابستگی کے حوالے سے کئی اہم جملے ہیں۔جیسا ہم جانتے ہیں کہ چے گویرا صرف اپنے خطے میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر محاذ پر نچلے طبقے اور ان کی آزادی  کے لیے لڑا۔وہ فیڈل کاسترو اور اس کے بھائی کا ساتھی رہا اور کیوبا میں انقلاب آنے کے بعد وزیر صنعت کے عہدے پر فائز رہا۔سنگت اور مری صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے ایک ماسٹر پیس ہمارے ساتھ شئیر کیا۔

اگست کے اس شمارے کی ایک خصوصیت یہ بھی نظر آئی کہ تاریخ کے بہت سے اہم کرداروں کو جاننے کا موقع ملاجیسے ڈاکٹر حئی بلوچ،مرزا ابراہیم،رحم علی مری اورراؤف وارثی۔ڈاکٹر حئی بلوچ پر محمد شعیب رئیسانی نے مضمون لکھا ہے۔بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں ان کا کردار کتنا اہم ہے دو صفحات پر مشتمل یہ مضمون اس بات کا پورا احاطہ کرتا ہے۔مرزا ابراہیم پر احمد علی شاہ مشال نے مضمون لکھا ہے۔

احمد نواز مری نے ہماری ملاقات ایک شاعر رحم علی مری سے کروائی ہے۔رحم علی مری  اور مست توکلی کی ملاقات انتہائی دلچسپ ہے لیکن اگر وہ ان کی شاعری کا اردو ترجمہ بھی لکھ دیتے تو مجھے اس عظیم شاعر کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوتی۔

گوریلا جنگ پر مضمون ڈاکٹر خالد سہیل نے لکھا ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ وہی ڈاکٹر خالد سہیل ہیں جو کینیڈا میں مقیم ہیں اور سائیکالوجسٹ ہیں۔کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور گرین زون کے نام سے آن لائن لیکچر بھی دیتے ہیں۔گوریلا جنگ کے حوالے سے ان کا مضمون انتہائی اہم معلومات کا حامل ہے کیونکہ یہ وہ لفظ ہے جو ہم بکثرت استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے معانی پر کبھی توجہ نہیں دیتے۔اس مضمون میں گوریلا فوجیوں کے مقاصد  اور ان کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ گوریلا جنگ کو سیاسی اساس مارکس اور لینن کے نظریات نے فراہم کی۔یہ مضمون دلچسپ اور معلومات سے بھرپور ہے خاص طور پر گوریلا جنگ کے ادوار سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی فوج نہ ہونے کے باوجود یہ اپنے نظام کو ایک خاص ترتیب میں چلاتی ہے۔

جاوید اختر کا مضمون  کمیونزم  اور ان کے پیروکاروں کے حوالے سے نہایت اہم مضمون ہے۔جاوید اختر نے نہایت مدلل انداز میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔اس حوالے سے انہوں نے ایک صحافی اور اس کے تازہ بیان کی اچھی خاصی کھچائی کی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس مدعے پر ان کی اچھی خاصی “عزت”ہوچکی ہے۔جاوید اختر نے بھی اس مضمون کے ذریعے سے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔

میر ساگر نے سارہ شگفتہ پر بلوچی میں ایک مضمون لکھا ہے۔میں چونکہ بلوچی نہیں جانتی لیکن سارہ کو جانتی ہوں۔سارہ شگفتہ اور اس کی شاعری ہمارے ہاں متضاد رویوں کا شکاررہی ہے۔کچھ لوگ اسے بالکل غیر اہم شاعرہ مانتے ہیں لیکن جو اسے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اس نے عورتوں کے حقوق کی شاعری کے ایک نئے پہلو کا دروازہ کھولا ہے۔وہ پہلو ہے عورت اور اس کا درد۔ایک  بیٹی،محبوبہ،بیوی،ماں اور سب سے بڑھ کر صرف ایک عورت کا دکھ کیا ہے شاید سارہ کے بعد کوئی اور شاعرہ ایسے نہ لکھ سکے۔

والدین کے تحفظات کے حوالے سے شائستہ جمالدینی کا مختصر مضمون ہے۔موجودہ زندگی کے حوالے سے یہ ایک اہم موضوع ہے اور میرا خیال ہے کہ بدلتی زندگی اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتاری کے سبب  والدین اور بچوں کو  ان امور پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد ریاض بلوچ نے سندھ اور اس کے شاعر شاہ لطیف پر مضمون لکھا ہے۔شاہ لطیف پر یہ مضمون اس لیے بھی مجھے دلچسپ لگا کہ شاہ لطیف کے ساتھ سندھ کی سماجی وسیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیا ہے۔اس مضمون میں بہت کچھ ایسا تھا جس سے مجھے سیکھنے کو ملا اور یقیناً شاہ لطیف کو پڑھنے اور سمجھنے والوں کو  میں یہ مضمون پڑھنے کی تاکید کروں گی۔

سمیع ساحل بلوچ نے نہایت اہم کتاب پر ریویو لکھا ہے۔کتاب کے مندرجات دلچسپ ہیں اور حیران کن بھی۔میں ضرور اس کتاب کو پڑھنا چاہوں گی۔

کہانی کے حصے میں گو ہر ملک،امرجلیل،عبدالعزیز بگٹی اور جاوید صدیقی کی دلچسپ کہانیاں پڑھنے کو ملیں۔اس کے علاوہ شاعری بھی بہت خوب تھی خاص طور پر فروغ فرخ زاد کی نظم سے میں نے لطف اٹھایا۔اگست کے شمارے میں مضامین کی تعداد زیادہ تھی۔میری رائے ہے کہ سنگت  کے ایک شمارے میں مختلف قسم کے مضامین شامل کیے جائیں جیسا اس شمارے میں شخصیات کے حوالے سے مضامین کی تعداد زیادہ تھی۔یہ کوئی کمی نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ توازن برقرار رہنا چاہیے۔

صنوبر الطاف

راولپنڈی

Spread the love

Check Also

انیس ہارون

ایڈیٹر صاحب اسلام علیکم۔ امید ہے کہ گوئٹہ کے ٹھنڈے ٹھنڈے موسم میں آ پ ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *