Home » شونگال » پرچم سرنگوں نہ ہوئے

پرچم سرنگوں نہ ہوئے

عطاء اللہ مینگل پوری زندگی کرب و قربانی کی مثال بنا رہا۔چھوٹا تھا جب والد کی سرداری چھنی۔خاندان کلات ریاست بدر ہو کر بیلہ چلا گیا ۔ ماں جواں مرگی کی نذر ہوگئی۔ بچپن لڑکپن بہت مشکل گزرا۔

خانِ کلات احمد یار خان 1954میں والد کے بجائے بیٹے عطاء اللہ کو سردار بنانے پہ راضی ہوا۔ یوں اُس نوجوان کی بطور سردار دستار بندی ہوئی۔تقریباً دس برس بعد  بزنجو ایوب کے زمانے میں اسے سیاست میں لایا۔ وہ اُس وقت عام بلوچ سرداروں جیسا تھا۔ اپنے اور اپنے قبیلے کے کام سے کام رکھنا۔مگر جب ایک بار سیاست میں قدم رکھا تو وہیں یہ شخص اصل عطاء اللہ مینگل بنا۔اُس زمانے میں سیاست زوروں پہ تھی۔ ایوب اور مارشل لا سے نفرت بہت تلخ اور وبائی شکل اختیار کر چکی تھی۔کراچی کا لیاری پیٹروگراڈ بن چکا تھا۔سیاست میں ککری گراؤنڈ عطاء اللہ کا لانچنگ پیڈ بن گیا۔ خوش لباس سردار اردو میں کمال کی تقریر کرتا تھا۔ الفاظ، فقرے، روانی اور جذبات سیدھا سامعین کے دل دماغ پہ۔

عطاء اللہ خان پھر ون یونٹ کا گورکن بن گیا۔ وہ لاہور کی بالادستی ختم کرنے اور ملک میں صوبوں کے قیام کا داعی، مارشل لا کا دشمن اور پارلیمانی جمہوریت کا پکا وکیل بن گیا۔

ایوب کو چلتا کرنے والوں میں مینگل صاحب کا حصہ ناقابلِ فراموش تھا۔ ون یونٹ توڑ دینے والوں میں بھی مینگل صاحب کا کردار سنہرے لفظوں کا ہے۔

۔1970میں الیکشن ہوئے اور وہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنا۔ بہت اچھے کام کیے، کچھ زیادتیاں غلطیاں بھی بڑی سرزد ہوئیں۔

مگر 9ماہ کے اندر اندر بھٹو ”سرکار“ نے اس کی سیاسی پارٹی پر پابندی لگادی اس کی حکومت برطرف کردی اور اسے ساتھیوں سمیت جیل میں ڈال دیا۔

کمال بہادر عطاء اللہ تو اس سے قبل ایوب کے زمانے کی تشدد گاہ،کلی کیمپ سہہ چکا تھا، اپنا بیٹا سرکار کے ہاتھوں قتل کروا چکا تھا، اب بھلا اُسے بھٹو ئی جیل سے کیا ڈرایا جاسکتا تھا۔ ”کور بہادر“ اپنے موقف پہ ڈٹا رہا۔

سیاست میں حکمران کی درباری سازشیں جاری رہیں۔نتیجے میں بھٹو کا گلا ضیاء الحق نے گھونٹ دیا۔ ایک اور مارشل لا لگا۔ اور عطاء اللہ اور ساتھی جیل سے رہا ہوگئے۔

یہیں کہیں سیاسی ساتھی باہمی اختلافات کا شکار ہوئے۔ اجتماعی طور پر از سرِ نو غور کرنے کے بجائے ہر ایک نے اپنی راہ اختیار کی۔عطا ء اللہ خان تو تین چار مشترک و متفق نکات کی سیاست کرتا رہا تھا۔ اُسے بہت سی تفصیلات اور نظریات سے واسطہ نہ تھا۔ وہ بس اُنہی تین چار مشترک ومتفق نکات کے گرد تاریک راہوں میں اپنی سیاست اور موقف بچاتا رہا۔ بلوچستان کے آئینی حقوق کے حصول کے لیے کبھی یہ سیاسی پارٹی بنائی،کبھی وہ فرنٹ بنایا۔ کبھی یہاں جلاوطن کبھی وہاں ہسپتال میں۔ ایک طویل عرصے سے مگر، عوامی سطح پر سیاست ہوش میں نہ آسکی۔

عطاء اللہ خان ثابت ایمان کے ساتھ، سلامت ضمیر کے ساتھ بڑھاپا جھیلتا رہا۔ معروض سارا بدل چکا تھا۔ تقریباً سارے ساتھی اختلافات کا شکار ہوگئے۔ وہ ایک ایک کر کے مرتے بھی گئے اور یوں وہ تنہا رہتا رہا۔ جب سب رفقا حیات نہ رہے اور اس کی اپنی صحت بھی اچھی نہ رہی تو سردار صاحب نے خاموش زندگی جینے کا فیصلہ کیا۔ اپنے گاؤں میں رہا اور بہت خاموشی سے دنیا کو الوداع کہا۔ سوائے اُس کے بیٹے کی سیاسی پارٹی کے، باقی کوئی پارٹی پرچم، اور بالخصوص قومی و ریاستی پرچم سرنگوں نہ ہوا۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *