Home » شیرانی رلی » دھوپ سے مکالمہ ۔۔۔  کشور ناہید

دھوپ سے مکالمہ ۔۔۔  کشور ناہید

میں نے کئی دفعہ

دھوپ کو پکڑنے کی کوشش کی

وہ کبھی مرے آگے،کبھی پیچھے تھی

وہ ساتھ ساتھ چلنے کا حوصلہ کرتی

تو میں جھلس جاتی

بلبلا کرسا یہ تلاش کرتی

وہ روٹھ کر افق کی جانب جاتے ہوئے

پیغام دیتی

بس دیکھ لیا تم نے اپنا حوصلہ

میں تو تم لوگوں کے عیب وہنر

دیکھ کر، جلتی کڑھتی،

افق پار بھی جاتی ہوں

واپس زمیں پہ ٹیڑھی کرنیں

بھیجتی ہوں

اس طرح تمہارا سایہ پیچھے رہے

دھوپ لگ کے تمہاری خمیدہ کمر

سیدھی ہوجائے

اور تم مجھے سامنے دیکھ کر

ہمزادگی کا رتبہ دے سکو

میں تمہاری طرح روز پیرہن بدلتی ہوں

کبھی کبھی مجھے اس کھلنڈرے بچے کے پاس

بھی جانا ہوتا ہے

جو ویرانے میں سوکھی ندی کے کنارے بیٹھا

بانسری بجا رہا ہوتا ہے

اس شوق سے نا آشنا

کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے

میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑتی

بادلوں کو تمہارے پاس بھیج دیتی ہوں!۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *