Home » شیرانی رلی » The Axiom Of Soil— Nosheen Qambrani

The Axiom Of Soil— Nosheen Qambrani

یہ بہشت ِ اجل

محوِ خوابِ رواں

عمر کی پیاس کا تاس (1) تھامے ہوئے

میں بھی آئی یہاں

غرقِ کاریزِ جاں

 

میں نے دیکھا درختوں پہ سائے کھلے

اور سایوں میں روشن ہوئے راستے

اور رستوں پہ چلنے لگیں عورتیں

جن کے ہاتھوں میں تھیں وہ جڑی بوٹیاں

جو زمانے کے زخموں کا مرہم بنیں

 

میں نے دیکھا پہاڑوں میں کچے مکانوں کے آنگن میں

شہتوت کے پیڑ تھے

اور پیڑوں سے آگے قطاروں میں کمرے تھے

کمروں میں تہذیب کے دیگداں (2)۔

شب زدہ نرم عمروں کو بانہوں میں بھرنے لگے

صبحِ کوہسار پھوٹی تو بچے بھی

کرنوں کی طرح بکھرنے لگے

دیگدانوں کی سیاہی کو چہروں پہ

دیکھا تو ہنسنے لگے

اُن کی آواز سن کر پہاڑی پرندے اٹھے

کوچ کرنے لگے

 

میں نے دیکھا پرندوں کی چونچوں میں خوشبو کے سِنجِد

طلسماتی جھیلوں کے سینوں میں دُھن بھر رہے تھے

جھیلوں پہ سائے تھے،

سایوں میں رستے اُگے

اوررستوں پہ چلنے لگیں عورتیں

جن کے ہاتھوں میں پہلے

جڑی بوٹیاں تھیں مگر

اب کے جنگوں میں مارے گئے

سنگ تراشوں کی دیدہ وروں، شاعروں،

خواب سازوں کی آنکھیں تھیں

آنکھوں میں خوابِ رواں عشقِ دیدہ وراں

لَوئیں دیتا ہوا زرد ہونے لگا

میں نے دیکھاکہ دَیرَک (3) بجانے لگیں

عورتیں

مودہ (4)گاتی ہوئی

سرد ظلمت کدوں، ہجرزاروں سے آگے

نکلتی گئیں

اور خدا کے فسوں کی رگوں میں اترنے لگیں

خیر کی قبر کھودی گئی

اور آنکھیں بھی دفنائی جانے لگیں

۔۔۔۔

۔1۔تاس۔۔ کشکول

۔2۔ دیگدان۔۔ روایتی چولہے جو زمین کے اندر کھود کر بنائے جاتے ہیں۔ تنور کی ایک قسم

۔3۔ دیرگ /دیرہ۔۔ روایتی دائرہ نما ڈھول جو عورتیں ہاتھوں میں اٹھاتی ہیں۔ شادی بیاہ خوشی کے موقع پر بجایا جاتا ہے۔

۔4۔ مودہ۔ نوحہ

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *