Home » حال حوال » سنڈے پارٹی رپورٹ ۔۔۔ عابدہ رحمان

سنڈے پارٹی رپورٹ ۔۔۔ عابدہ رحمان

۔4 فروری 2018
آج سنڈے ہے!۔
یہ سوچتے ہوئے کہ سنڈے پارٹی میں جانا ہے ۔ میں جلدی سے تیار ہو کر جو پروفیشنل اکیڈمی پہنچی تو دروازہ لاک دیکھ کر میں ایک لمحے کو ٹھٹک گئی کہ” کہیں سنڈے گزر تو نہیں گیا؟” جلدی سے بابا جان کو جو کال کی تو انھوں نے کہا ’ بیٹا مری لیب آجاؤ‘ تب میں نے فون بند کر کے خود کلامی کی ’ آرہی ہوں بابا جان‘۔
لیب جو پہنچی تو بابا جان ، وحید زہیر بھائی،سرور صاحب، جاوید صاحب اور چند اور سنگت بیٹھے تھے۔ میں نے اپنی پسند کی جگہ یعنی ( بابا کے بائیں بازو) والی کرسی سنبھالی۔ کچھ دیر میں نور خان صاحب اور شیام کمار صاحب بھی پہنچ گئے ۔ شیام صاحب بابا جان کے عین سامنے بیٹھنے لگے تو باتوں کے موتی لڑھک لڑھک کر ٹیبل پر بکھرتے رہے اور ہم چنتے رہے۔ پھر جو کچھ اور ساتھی آئے تو خیر جان صاحب کو کمپیوٹر والی ٹیبل پر ٹکنا پڑ گیا۔ڈاکٹر عنایت صاحب آئے تو ہم ساتھ میں ایک ہوٹل کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے (کہ جگہ کی تنگی کے سبب اب مری لیب ایک “پشین بس” کی سی صورت اختیار کر گئی)۔ پیدل چلتے ہوئے بابا جان نے سب کو دیکھتے ہوئے کہا “ایک چھوٹا جلوس تو ہم نکال سکتے ہیں یار۔۔۔نہیں ؟”
ٹیبلز جوڑ جوڑ کر اس کے ارد گرد جو ہم کرسیاں کھینچ کے بیٹھے تو بات پارٹی کے بننے ، نا بننے سے شروع ہوئی تو بابا جان نے نور خان صاحب کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ تم نے بھی تو گروپ میں حامی بھری تھی پارٹی بنانے کے حق میں۔ تو ہنستے ہوئے انھوں نے کہا ’ سر نوکری میں کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں تو اس لئے کہہ دیا تھا‘۔
ڈاکٹر عنایت صاحب نے کہا کہ بلوچستان میں اہلِ دانش کے ایک گروپ کی مستقل ضرورت کو بہت کم لوگ اہم سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اکیسویں صدی میں ادب ، ریسرچ اور ڈاکومنٹیشن کے بغیر کسی معاشرے کا تصور تک نہیں ہو سکتا۔ ہمیں Intense مطالعے کی ضرورت ہے۔ پڑھے لکھوں کو مطالعہ اور لکھنے کی طرف لانا ہے، انھیں پڑھنے کی عادت دلانی ہے۔
باقی دوست بھی بحث میں شامل ہو گئے۔ اتفاق اس بات پہ تھا کہ بلوچستان میں ایک تھنک ٹینک مستقل بنیادوں پر ہو۔ دانشوروں کا ایسا کمٹڈ گروہ ہو جو بلوچستان پہ ڈاکومنٹیشن کا کام ہی کرتا رہے، سوچتا رہے، مباحثے کرتا رہے، متبادل مہیا کرتا رہے ، تاکہ عوام اپنے متبادل بیانیہ کا مالک ہو۔۔۔ اور یہ گروہ ہمیشہ کے لئے بالائی طبقات کی حکومت کا اپوزیشن ہو۔ یہ ہمارا کام ہے۔ اہلِ دانش بہت کم ہیں۔ ہمیں انھی کم لوگوں پر مشتمل گروہ سے ہی کام لینا ہے۔( میں نے سر ہلایا، جی ہاں خود کو دوسرے کاموں میں الجھانا نہیں چاہیے۔۔۔ یہ جملہ دل میں کہا تھا)۔
ایک دوست نے یہ بھی کہا کہ ہر ڈیپارٹمنٹ میں کام کی ضرورت ہے جیسا کہ اگریکلچر میں یہ تک کسی کو پتہ نہیں کہ زیادہ تر نہری زمینیں کس جاگیردار کے پاس ہیں۔( اس گرما گرم بحث میں گرما گرم چائے آئی اور ٹیبل پر کپ سرکتے رہے)۔
اس اثناء میں وحید بھائی نے بھی ماہتاک سنگت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لقمہ دیاکہ اس میں لکھنے والے ان چند لوگوں کو کلئیر ہے اپنی منزل۔
لہذا آخر میں سب اس بات پر متفق ہوئے کہ ہم دانش ور ہیں ، یہی بنیادی کام ہمارا ہے اور یہی ہم نے کرنا ہے اور یہی ہماری آخری بات رہنی چاہئے۔ ( اس ڈر سے کہ کہیں ہمیں کچھ بولنے کے لئے نہ کہا جائے میں اور ایک دو اور سنگت بڑے زور سے سر اثبات میں ہلاتے رہے)۔ نور صاحب نے کہا کہ ہاں سیاست ساری کی ساری فیوڈلوں کے پاس ہے۔ عوامی اقتدار ابھی کافی محنت اور وقت مانگتا ہے۔
سیف صاحب نے کہا کہ Wisdom کیا پرانے دور میں تھا اور اب کیا نہیں ہے یہ؟ ۔تو اس پر بابا جان اور نور صاحب نے کہا کہ ہر دور کا اپنا Wisdom ہوتا ہے۔ آج ہم جس فیصلے کا اعادہ کر چکے ہیںیہی آج اور اس وقت کا Wisdom ہے۔
اور یوں سنڈے پارٹی فوٹو گرافی کے بعد ختم ہو گئی۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *