Home » کتاب پچار » سنگت کے بکھرے موتی ۔۔۔ عابدہ رحمان

سنگت کے بکھرے موتی ۔۔۔ عابدہ رحمان

فروری 2018

آج تو سنگت کا دیوان سجا تھا۔بڑا شور تھا دوستو۔ بڑی گہما گہمی بڑی گپ شپ۔میں پہنچی تو بابا جان محوِ گفتگو تھے کہ چاہے بیوروکریٹ ہوں، دانشور یا ماہرِ تعلیم، یا ٹیچرز اور سٹوڈنٹ ہوں تعلیمی پالیسی کسی کے پاس نہیں۔جب ہمارا معاشی نظام طبقاتی ہے تو ظاہر ہے کہ تعلیمی نظام بھی طبقاتی ہی ہوگا۔جو تعلیمی نظام ہمارا ہے اس میں سوائے بنیاد پرستی کے پھیلاؤ کے اورکچھ نہیں۔اساتذہ کے لئے کسی قسم کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے۔سائنس کونہ اپنانا،ترقی کے خلاف ہونا ، سوال کرنے کو گناہ قرار دینے کا مطلب معاشرے کو جمود کے حوالے کرنا ہے۔ (’’ بس اب کیا کریں ماما ڈگری تو ڈگری ہے چاہے طبقاتی ہو یا غیر طبقاتی‘‘ انجیل کے منہ سے نکلا تو سب کی ہنسی چُھوٹ گئی)۔
باباجان نے شان گل کو کہنی ماری جو قریب ہی بیٹھے تھے کہ تم بھی توکچھ بولوتوانھوں نے کہا کہ شریعت بل کے نفاذ پر جن خدشات کا اظہار کیا تھا کہ بنیادی انسانی حقوق کا اختتام، درس گاہوں میں سائنس کے ساتھ سوتیلا پن ، سرداری جاگیرداری نظام، لوٹ کھسوٹ جاری رکھنا سب کچھ ہمیں آج اتنے سال بھی کسی نہ کسی صورت نظر آتے ہیں۔شان گل کی نظر بات کرتے ہوئے جو شیام کمار صاحب پر پڑی تو ان کو کچھ بے چین پایا پتہ چلا کہ وہ اپنی داستان مزید اپنے پاس رکھ نہیں پا رہے اور جلدی سے سنا دینا چاہتے ہیں تو شان گل مزید مُخل نہ ہو ئے اور انھیں بولنے دیا گیا۔
شیام صاحب جو زبردست داستان گو ہیں ، بہت اچھا بولتے ہیں اور بولنے کے شوقین بھی بہت ہیں۔ انھوں نے سنگت کے پیہم سفر کی داستان سناتے ہوئے اس قدر خوبصورتی سے سنگت کوجس طرح ماضی کی دمکتی لڑی روس و فرانس، رسالہ Bell و نیا زمانہ سے جوڑا اور کہنے لگے کہ یہی ایک سفر ہے جو انیسویں صدی سے بھی پہلے شروع ہوا اور آج تک جاری و ساری ہے۔ وحید زہیرصاحب جوخیالوں میں کھوئے ہوئے تھے سمجھے کہ شیام صاحب کی بات ختم ہو چکی ہے، کچھ کہنے والے تھے لیکن شیام صاحب کے دل کو نہ بھایا لہذا انھوں نے اپنی بات جاری رکھی اور کہاکہ سنگت تسلسل ہے اس تاریخ کا اور سنگت سے وابستہ شخصیات مختلف ناموں کے ساتھ مارکس و لینن کی فکر کو ہی لے کر آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی بات ختم کرتے ہوئے باباجان کو کہا ’ کیوں ڈاکٹر تم تو جانتے ہو تم نے خود بھی تو لکھا ہے اس پر‘۔ ( چائے آنے پر سب اپنا اپنا کپ اٹھانے لگے)۔ اور جاوید صاحب مسلسل کہہ رہے تھے جی جی ۔۔۔بالکل جی۔۔۔تسلسل ہے۔۔۔تسلسل ہے!
بات مکمل کرنے پر وحید بھائی جو کرسی کھینچ کرکچھ دور ’ جانے کیوں ‘جا بیٹھے تھے بولے جی شیا م صاحب میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ ’ سنگتی کے ماہ و سال ‘ کا جائزہ لوتویہ تحریک بھی لٹ خانے سے مختلف نہیں صرف زمانے کا فرق ہے ۔ یہ تحریک روزانہ کی بنیادوں پر لڑتی ہے اور اپنے اجلاسوں اور پوہ زانت کی نشستوں میں مزمتی قراردادیں پاس کرتی ہے۔بے شمار بین الاقوامی ادب کے تراجم کئے اور کر رہے ہیں۔ اس اثناء میں پیچھے سے افضل مراد صاحب کی آواز آئی بھائیو ’ عطا کی بات کرو‘۔ یکم نومبر 1939 سے 13 فروری 1997 کے درمیان دیکھیں تو ؑ عطا صاحب نے اتنے سے وقت میں ہمیں صدیوں کا سفر کروایا ہے۔ ان کی تخلیقی اپج( اپج افضل صاحب کا دل پسند لفظ ہے) اور تخلیقی مزاج نے ہمیں اس خطے کی تہذیب و تاریخ، ثقافت و سماج، سیاست و ادب کے بڑے دائرے سے متعارف کرایا۔اور پھر عطا شاد صاحب کی شاعری گنگنانے لگے؛ میری زمین پر ایک کٹورا پانی کی/ قیمت سو سال وفا ہے/ آؤ ہم بھی پیاس بجھا لیں/زندگیوں کا سودا کر لیں۔ اور سب سنگت سردھنتے رہے۔
اچانک باہر سے آواز آئی ’ پاپُڑے کرارے ے ے بھئی، مزیدار ۔۔۔مصالحے دار جی‘ اور بزنجو صاحب یہ کہہ کر پاپڑ لینے اٹھے کہ جو پاپڑ نہیں کھاتے وہی تو پاپڑ کھاتے ہیں‘ اور کُرچ کُرچ کے ساتھ باباجان ’پاپڑوں کے بیچ ملاقات‘ تہذیبی اقدار کا اکیسویں صدی سے ایسا تقابلی جائزہ دینے لگے کہ کرچ کرچ کے ساتھ سب کے قہقہے بھی شامل ہو گئے۔رند و لاشار کی تیس سالہ جنگ ہویا پھر سسی پنوں کا عشق، پاپڑ کے بنا ہی انجام پائے۔ بلوچ کی پاپڑوں سے پہلی ملاقات جو تلے بنا اُگلے گئے تو دوسری طرف انگریز جوار کے ساتھ ساتھ ڈنٹل کے پھوگ بھی نکل گیا۔پاپڑوں کی قرارداد جو پاس ہوئی تھی وہ قصہ تو پاپڑ کی کرچ کرچ میں سنائی نہ دیا ۔اور ان قہقہوں کے بیچ جو جاوید صاحب لینن کے بچپن کا قصہ سنانے لگے تو خود ان کا تو پتہ نہیں کیا حال ہوا لیکن سننے والے سارے سنگتوں کے گلے میں کِھچ کِھچ ہونے لگی کہ بلوچستان کی خشکی کو بھی مات ہو گئی اور منیر بھائی کو جلدی سے Strepseles تقسیم کرنا پڑ گئی۔
حالات کے پیشِ نظر اویس معلوم صاحب نے تمثیل کی شاعری اور مصوری کے وہ رنگ بکھیرے کہ ہولی یاد آگئی ؛ کہیں دور سے گنگنانے کی آواز آرہی تھی ’ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے‘ اوراویس معلوم ایک آہ نکال کر بولے ’ زندگی اے زندگی‘۔ اور اس سے پہلے کہ بزنجو صاحب کہتے کہ Sahir is Sahir کہ محسن چنگیزی صاحب نے جلدی سے اپنی غزل سنائی؛ دریا کی بوند بوند میں آنکھوں سے پی گیا/ وہ پیاس تھی کہ کوزہ دھرا رہ گیا میرا۔سیماب ظفر صاحب سمجھے کہ مشاعرہ شروع ہو گیا جلدی سے کھنکھارتے ہوئے اک غزل پھڑکا دی؛ بیانِ زیست میں اس اک نگہ کے رنگ تو سن/ کتابِ عمر میں اس کُنجِ لب کے باب تو دیکھ! اور واہ واہ کا جو غلغلہ اٹھا تو بابا جان کو کہنا پڑا ’ شانت دوستو ! شانت! طاہر حسنی بڑی دور سے آیا ہے اسکی سنو گلوکار احمد ظاہر کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ دیوان میں خاموشی چھا گئی اور مہمان کی کی مختصر گفتگو بڑے تحمل سے سنی گئی۔ بابا جان کو لگا کہ کہ احمد ظاہر کے ساتھ بزنجو صاحب کہیں رفیع کا گانا نہ چلا دیں تو انھوں نے جلدی سے پوچھا ’ عطاء اللہ تم کیسے آگئے آج کے دیوان میں ؟ کہیں تمھاری بھی بکری تو بھوکی نہیں تھی۔ ( بھوکی بکری کا قصہ پھر پہ اٹھا رکھتے ہیں)۔ اور ان کے جواب سے پہلے ہی ستارہ سید نے محبت پر تھوڑی سی بات کی تو محبت کو آگے انجیل صحیفہ نے بڑھاتے ہوئے اپنی نظم کہی جس کا آخری حصہ تھا کہ ’ تب ہم اپنی محبت کے مکمل احساس کی نظم/تاج محل کی دیواروں پر لکھ آئے تھے!!
اتنی خوبصور ت نظم ہو اور محبت کی باتیں ہوں توآسمان کوتو جوش میں آنا ہی تھا ؛ چھم چھم بارش برسنے لگی تو بابا جان نے قریب ہی سے پکوڑے منگوائے اور اب تو فضا میں ایک دفعہ پھرپاپڑوں کی کرچ کرچ کے ساتھ پکوڑوں کی مہک بھی پھیل گئی۔ اور پھر تو بارش کی پھوار اور پکوڑوں کے مزے کے ساتھ فیصل ریحان دہائی دینے لگے ؛ کوئی تو آئے/جو تپتے صحرا میں ابر پارے کا عکس رکھ دے/ہمارے ظلمت بھرے افق پر/کسی چمکتے ہوئے ستارے کا عکس رکھ دے/کوئی تو آئے ۔۔۔اور منیر بھائی کی آواز آئی جو نہیں آتے وہی تو آتے ہیں ۔۔۔ کیوں بزنجو صاحب ٹھیک ہے نا؟ اور کونے میں Pdf Files لئے جیند صاحب نے بھی کہا جی جی بالکل ڈاکٹر صاحب ( دراصل جیند صاحب سمجھے کہ یہ Sangat Whatsapp Group کا دیوان ہے اس لئے خالی ہاتھ نہیں آئے)۔ بابا جان کہنے لگے ( ویسے بابا جان بھی شیام صاحب کی طرح پکے داستان گو ہیں) کہ جب میں اپنے گاؤں ماوندمتمکن، محکم و متکبر فیوڈلزم کے اندھیرے سے جو اس وقت ہر سُو چھایا تھا سبی پڑھنے آیا توجیسے اچانک کوئی جاندار ، چمچماتی روشنی میں آجائے تو وہ نیم دیوانگی کی تجسیم بن جائے گا۔ رنگوں اور خوشبو کی جانب یو ں لپکے گا کہ جیسے سر پر زور سے ڈانگ لگی ہو۔سارے سنگتوں کے لبوں پر مسکراہٹ تیر گئی توبابا نے کہا سنو آگے سنو کتاب کم ال سنگ کی زندگی پر جو مجھے کچھ لڑکوں نے دی تھی مروجہ نظریات کے الٹ تھیں لہذا کتاب کم ال سنگ اپنی تصویروں میں سلامت آنکھوں کے ساتھ واپس ان لڑکوں کے پاس نہ جا سکی۔ رسالہ عوامی جمہوریت انھی کے پاس میں نے دیکھا تھا۔ بابا جان ، ڈاکٹر محمد شیر کھوہ کی بات کرنے کی خواہش کو بھانپتے ہوئے کہنے لگے جی جی بولیں ڈاکٹر صاحب کہا کہ کیوبا میں علاج اور تعلیم مفت ہے۔ وہاں شرح خواندگی ۹۷ فیصد ہے اور جو والدین اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے حکومت انھیں جیل اور بچوں کو سکول بھیجتی ہے۔ ان باتوں پر سب اداس ہو گئے کہ ہمارے ملک میں ایسا کب ہو گا تو بابا جان نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے تو بہت پہلے بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس، جیکب آباد تک میں بلوچستانی پسماندہ اقوام کے تحفظِ حقوق، تعلیمی، معاشرتی ،اقتصادی، مذہبی اصلاح، صحت ، عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تھی اور تب سے اب تک یہی کہہ رہے ہیں جس پر پیر حسام الدین راشدی، محمد نواز کھوسہ بولے کہ جی ایسا ہی ہے اور محمد امین کھوسہ بھی اس کانفرنس کے ایک فعال کردار تھے۔ ماحول کچھ اداسی والا ہو گیا تو بابا جان نے ایک دم سے کہا اب ہم سب چپ رہیں گے اب تمثیل بولے گی ۔ خاموشی ہو گئی تو تمثیل مسکراتے ہو ئے اپنی نظم سنانے لگی ؛ آؤ ڈالی کی پینٹنگ سے/وقت کی گرتی خالی گھڑیاں/گن گن کر رکھتے جائیں! اور پھر نظم ختم ہوتے ہوتے محفل واپس اپنے رنگ میںآئی تو وحید نور صاحب نے بھی اپنی خوبصورت نظم ’ مقفل‘ سنا دی۔ تو ہیٹر کے قریب بیٹھی ہوئیں نوشین قمبرانی کی مدھر سریلی آواز گونجی ؛ اے سحر ۔ گاہِ زماں/ اے مادرِ۔ نابودگاں۔۔۔ فاصلے تاریک ہیں پر فاصلوں میں ہے اماں!
باہر سے بارش کی خوبصورت آوازاندر نوشین کی آواز کے ساتھ مل کر ایک مسحورکن سماں دے رہی تھی جو اس سال کی کوئٹہ کی سردیوں کی پہلی بارش تھی۔
عابدہ کیا پڑھ رہی ہو آج کل؟ عابدہ جو نظم میں کھوئی ہوئی تھی ایک دم سے کہا بابا جان آپ کی کتاب ’ شاہ عبدالطیف بھٹائی‘ ختم کی ابھی۔اور جو سب سے اہم مجھے اس سے پتہ چلی وہ یہ کہ پوری دنیا لیکن بالخصوص مشرق میں ان بزرگوں کو اصل میں امن آشتی کے پیمبر تھے لیکن ان کی تعلیمات کا اصل مغز نکال کر انھیں ڈھول، دھمال، جلوس، غسلِ مزاراور جھنڈوں کے حصار میں گم کر دیا، انھیں کرامات و معجزات کے حوالے کر دیا۔ علی بابا تاج صاحب جو کافی دیر سے بڑے خاموش بیٹھے تھے انھوں نے کہا میں نے بھی ابھی اختر ؑ عثمان کی غزلوں پر مشتمل ایک کتاب ’ چراغ زار‘ پڑھی۔اور میں تو کہتا ہوں کہ شاعر جب تک عزا خانہء احساس میں نہیں قیام کرتا اس کے حرف ولفظ میں سوز و گداز اور تاثیر پیدا نہیں ہو سکتی اور اختر عثمان اس بات سے بخوبی آگاہ ہے اور آگاہانہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تاج صاحب نے ان کی خوبصورت اشعار بھی سنگتوں کو سنائے۔۔۔۔
اچانک بزنجو صاحب نے مڑکر دیکھتے ہوئے کہا بھائیو ہم سن رہے ہیں کیوں کہ ہمیں آواز نہیں آرہی جس پر علی احمد بروہی اور عبدالسلام کھوسہ نے کہا ہم بول ہی نہیں رہے بزنجو صاحب تب ہی تو آپ سن رہے ہیں۔ اور ایک قہقہہ بلند ہوا۔ اور پھر انھوں نے ایک بہت روشن خیال شخصیت دیا رام شاہانڑیں کا تعارف کرایاکہ کس طرح انھوں نے سندھ میں سندسیا کے نام سے سنگت کی بنیاد رکھی، سندھ ٹائمز میں اداریہ لکھتے رہے، انھی کی کوششوں سے 1886 میں سندھ آرٹس کالج کا قیام عمل میں آیا۔غریبڑی بینک کا قیام بھی ان کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ اپنی تمام جمع پونجی انھوں نے خیراتی اداروں میں دے دی۔ روشن خیالی کے دیوانے دیا رام جیسے روشن خیال سے متعارف ہو کر بہت خوش لگ رہے تھے۔
بابا جان کہنے لگے دنیا میں بڑے لوگ گزرے ہیں ہم جن کے قرضدار ہیں ۔توماسو کمپنیلا کا نام سنا ہے کبھی؟ انھوں نے عابدہ اور تمثئل انجیل سے پوچھا تو انھوں نے زور زور سے سر نفی میں ہلائے ۔ اچھا نہیں سنا؟ بڑا انسان تھا وہ بھی۔فرسودگی سے بغاوت کے اس دور میں اس نے زندگی کا علم سیکھا اور انسان اور فطرت کے مطالعے کا فلسفہ دیا۔ بے سکول کے اس فلسفی کے دل میں مذہبی شکوک ابھرے اور اس نے کہا کہ ؛ ’ سچ کی خصوصیت تجربہ ہے نا کہ عقیدہ۔ ‘ اس نے بے شمار کتابیں لکھیں جس کے نتیجے میں بے شمار بار جیل بھی گیا۔جان لیوا تشدد کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے خود پاگل ثابت کیا اور بلا شبہ ایسے لوگ جو مروجہ سے ہٹ کر سوچ رکھیں ، پاگل ہی تو ہوتے ہیں۔
بزنجو صاحب نے پوچھا ’سر کوئی شخصیت ہے جن پر آپ نے نا لکھا ہو؟‘ اور بابا نے جواب دیا کہ ہاں عطاء اللہ بزنجو ہے نا۔ اور بزنجو صاحب نے کہا ’ سر آپ ڈئیر ہیں ۔ سر ساحر ہو جائے اب ؟‘ اور بابا جان نے کہا نہیں ابھی نہیں ابھی عرفان شہود کچھ سنائے گا۔ اور عرفان صاحب نے اپنی نظم ’ کلیدِ نشاط‘ سنائی؛ نیلگوں آسماں پہ مہاجر پرندوں کی سب ٹولیاں /اور لاوا اگلتی زمیں پہ بھی خیمہ نشیں ہیں کئی کیکڑے/گویا تمثیل کا اک جہاں پیچ در پیچ کھلتا گیا/میری بے لذتی کسمساتی ہوئی خاک ہونے لگی/ایسے ارژنگ میں ، میں تو گوشہ نشیں ہو گیا! واہ واہ کے شور کے ساتھ ہی تمثیل نے بھی نظم سنانے کا اعلان کر دیا اور اپنی خوبصورت نظم ’ دو صفر ایک سات‘ سنائی اور داد پائی۔
واہ واہ کی برسات ختم ہوئی توحمیرا اشفاق نے ایک بہت دکھ بھرا قصہ شروع کیا جس کا نام انھوں نے ’ کتبوں کے درمیاں ‘ بتایا۔ قصے میں عورت کے ساتھ نا روا سلوک رسم و رواج کے نام پر اس طرح سے سنایا کہ سارے سنگتوں کی آنکھوں میں اک نمی تیر گئی اور دکھ کو مدھم کرنے میں سبین علی کے خوبصورت قصے ’ سمندر کے نام ایک غنائیہ‘ میں بڑا کام کیا لیکن اس قصے میں خود ایک عجیب سی اداسی تھی کہ دل بوجھل ہو گئے۔ اس دوران جمال ابڑو صاحب نے بھی گوہر ملک صاحبہ کا خوبصورت افسانہ سنایا۔
جیند صاحب جوPdf کے بوجھ سے لدے پھندے آئے تھے سب واٹس اپ کے حوالے کر کے فارغ ہو چکے تھے، انھوں نے نور محمد شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر کہا سر نے آج آپ نے کچھ نہیں سنایا توانھوں نے کہا لیجئے ابھی سنا دیتے ہیں :سنا کہ اے میرے اچھے دل تم/اپنا آدرش کبھی نہ بھلانا/قلم، کاغذ ، کتاب/انسانی تہذیب کا در ہیں/ان کی روشنی میں رہو۔
دیوان اپنے آخری لمحات میں داخل ہو چکا تھا اور بابا جان کے قریب بیٹھے ہوئے ایوب صاحب جو بڑے غور اور خاموشی سے سب کو دیکھتے اور سنتے رہے تھے کہنے لگے سنگتو بلوچ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مالامال ہیں ورثے میں، ثقافتی ورثے میں۔ اوراپنے ورثے کے ان علاقوں کا خیال اپنے گھر سے ہی شروع ہوگا۔دنیا کے لئے اسکی اہمیت نہیں ہوگی لیکن جو لوگ اس سے ہیں وہ ضرور ذمہ دار ہیں ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی اہمیت کو سب سے پہلے جانیں تب ہی ہم یہ زمہ داری لیں گے۔ دیوان ختم ہوا اور سب بارش کی پھوار میں باہر نکلے تو بزنجو صاحب بولے ’ جو جاتے ہیں ، وہی تو واپس آتے ہیں ‘ اور سب ہنس پڑے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *