Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ وصاف باسط

غزل ۔۔۔ وصاف باسط

حبس ہے غم کی روانی قید ہے
کس سمندر میں یہ پانی قید ہے

خوف آتا ہے مجھے اس شخص سے
جس کے ہاتھوں میں کہانی قید ہے

اب کسی کو بھی نہیں ہے ڈر کوئی
یہ کوئی صدیوں پرانی قید ہے

اس طرف رستہ نہیں جاتا کوئی
جس طرف اس کی نشانی قید ہے

کیا ضرورت ہے یہاں زندان کی
جو جہاں رہتا ہے یعنی قید ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *