حبس ہے غم کی روانی قید ہے
کس سمندر میں یہ پانی قید ہے
خوف آتا ہے مجھے اس شخص سے
جس کے ہاتھوں میں کہانی قید ہے
اب کسی کو بھی نہیں ہے ڈر کوئی
یہ کوئی صدیوں پرانی قید ہے
اس طرف رستہ نہیں جاتا کوئی
جس طرف اس کی نشانی قید ہے
کیا ضرورت ہے یہاں زندان کی
جو جہاں رہتا ہے یعنی قید ہے