Home » پوھوزانت » لیون ٹراٹسکی کے نظریات۔۔۔ جاوید اختر

لیون ٹراٹسکی کے نظریات۔۔۔ جاوید اختر

لیو ڈائیو نچ برونسٹائین،جو تاریخ میں لیون ٹراٹسکی کے نام سے مشہور ہوا،8نومبر 1879ءمیں روس کے ایک چھوٹے سے گاﺅں یا نووخامیں پیدا ہوا۔اس کا والد ایک یو کرینی یہودی کسان تھا۔ بعد میں وہ کولاک (امیر کسان )بن گیااور اس نے تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا۔ لیون ٹراٹسکی نے نوجوانی میں سیاسی سرگرمیوںمیں حصہ لینا شروع کردیا۔وہ انقلابی سیاسی حلقوں میں بہت جلد مفکر اور ادیب کے طور پر مشہورہوگیا۔اسے خوب صورت تحریرکی وجہ سے لوگ پیرو(قلم) کہتے تھے اور انقلابی حلقے اس کی پر جوش رومانویت پسندی کی بنا ءپرنوجوان عقاب کہتے تھے۔اسے سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1898ءمیں زار حکومت نے قید کردیا۔تیس ماہ کی قید کاٹنے کے بعد اس نے دو ماہ سائبیر یا میں بھی گزارے ۔
اکتوبر1902 میں لیون ٹراٹسکی،   لینن سے اس ملاقات کے بعد لیون ٹراٹسکی نے باقاعدہ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں کام کرنا شروع کردیا ۔اس نے اس پارٹی کے اخبار ”ایسکرا”(چنگاری)کے لیے مضامین تحریر کیے ۔بعد ازاں وہ مغربی یورپ میں مقیم روسی حلقوں سے بات چیت کرنے کے لیے روانہ ہوا۔وہ ” ایسکرا” کے ادارتی بورڈ میں شامل رہنماﺅں سے بہت متاثر ہوا،جس میں جارجی یلخانوف ،جیولیس مارٹوف ،لینن اور ویرا زا سلوئچ (روسی سوشل ڈیموکریٹک خاتون )شامل تھے۔ لینن نے جارجی پلیخانوف کی مخالفت کے باوجود بھی ٹراٹسکی کو ادارتی بورڈ میں شامل کردیا ۔
لیون ٹراٹسکی کی لندن آمد کے نو ماہ بعد 1903ءمیں برسلز میں روسی سوشل ڈیمو کریٹک لیبر پارٹی کی تیسری کانگریس منعقدہوئی ۔اس کانگریس میں “ایسکرا”اور معیشت پسندوں کے درمیان ایک سخت قسم کا تنازعہ سامنے آیا اور اس کے نتیجے میںپارٹی دو حصوں : بالشویک (اکثریتی )اور میشویک (اقلیتی )گروہوں میں تقسیم ہوگئی ۔لیون ٹراٹسکی مینشویک گروپ میں لینن اور لینن ازم کے مخالف کے طور پر شامل ہوا۔وہ اس مخالفت میں اس انتہا پر پہنچا کہ اس نے لینن کی پارٹی کو مطلق العنان افسر شاہی سے تعبیر کیا۔
ٹراٹسکی نے 1904ءمیں جنیوا سے ایک مضمون بہ عنوان “Our Political Tasks”شائع کیا۔اس مضمون میں اس نے لینن کے انقلابی پارٹی کے نظریے کو یکسر رد کیا۔اس نے لینن کی اس بات سے بھی انکار کیا کہ محنت کش سوشلشٹ شعور تک خود نہیں پہنچ سکتے ہیں بلکہ ان میں سوشلزم بحیثیت نظریہ باہر سے پارٹی (جو انقلابی دانشوروں پر مشتمل ہوتی ہے)کے ذریعے لایا جاتا ہے ۔اس نے اس نظریے کو نعم البدل کا نظریہ قراردیا۔اس نے کہا کہ لینن پارٹی تنظیم کو من حیث المجموع پارٹی کا نعم البدل قراردیتا ہے اور پھر تنظیم کو مرکزی کمیٹی کا اور پھر آخرکار واحد ڈکیٹر یعنی خود کو مرکزی کمیٹی کا نعم البدل قراردیتا ہے۔اس نے لینن کو بد نیت ،اخلاقی لحاظ سے قابلِ نفرت اور ناقابلِ اعتماد قراردیا۔(1)
پارٹی اور طبقے کو باہم خلط ملط کرکے ایک سمجھتا تھا اور ان ہر دو کو ایک دوسرے کا نعم البدل تصور کرتا تھا۔وہ پارٹی اور طبقے کے باہمی جدلیاتی رشتوں کو سمجھنے میں ناکام رہا۔کیوں کہ پارٹی اور طبقہ سماجی ڈھانچے کی مختلف پرتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ان دونوں کے درمیان باہمی تبادلہ ممکن نہیں ہوتااور نہ ہی ان کے درمیان مشابہت پائی جاتی ہے۔انقلابی پارٹی اور مزدور طبقے کے عمل کی نوعیت یکسر مختلف ہوتی ہے۔ٹراٹسکی سیاسی اداروں کے کردار کوبالعموم اور انقلابی پارٹی کے کردار کو بالخصوص سمجھنے میں ناکام رہا۔
لینن نے ٹراٹسکی میں فردینند لاسال کے اثرات محسوس کر لیے تھے۔ٹراٹسکی کی تحریروں میں لاسال کا ذکر ظاہر کرتا ہے کہ وہ لاسال سے بے حد متاثر تھا۔وہ اس کی بہت تعریف کرتا تھا اور اس کی طرح شہرت حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس لیے ٹراٹسکی 1904ءمیں پاروس کا ساتھی بنا،جو ایک روسی پناہ گزین تھا اور جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل تھا۔پاروس نے ٹراٹسکی کو دوسری انٹرنیشنل میں شامل جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے متعارف کروایا۔ٹراٹسکی دوسری انٹرنیشنل کے بائیں بازو کے گروہ سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے خیالات سے متاثر ہوا،جو دائیں بازو کے گروہ کی معیشت پسندی کے رحجان کے برعکس سماجیت پسندی کا رحجان رکھتے تھے۔یہی رحجان ٹراٹسکی کے نظریات اور عمل پر فیصلہ کن حد تک ہمیشہ غالب رہا۔
کسی بھی سیاسی تنظیم سے اس کے تعلقات کا عدم استحکام ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہ تو انقلابی پارٹی کی تنظیم کو ضروری سمجھتا تھا اور نہ ہی اس کے کردار سے باخبر تھا۔یہی بات اس کے 1905کے انقلاب میں کردار سے بھی واضح ہوجاتی ہے۔یہ ایک خودرو ابھار تھا،جس کی رہنمائی کوئی انقلابی پارٹی نہیں کر رہی تھی۔اس لیے وہ ناکامی سے دوچار ہوگیا۔بالشویک اور مینشویک دونوں اس سے حیرت زدہ رہ گئے اور جب وہ اس کی رہنمائی کرنے آئے تو بہت دیر ہوچکی تھی ۔ٹراٹسکی ،جو شروع میں پیٹر سبرگ میں تھا۔اس میں شامل ہوا۔وہ پیٹر سبرگ کی سوویت کا رہنما بن گیا۔اس کے اندر اس انقلاب کا نا پختہ پن مجسم ہوا،یہ انقلاب 5ماہ بعد ناکام ہوگیا۔یعنی روسی محنت کش تحریک کی خودروی تاریخ میں اپنی موت آپ مرگئی۔
ٹراٹسکی نے1906ءمیں ایک اورکتاب بہ عنوان ”Results and Prospects” تحریرکی۔ اس کی مذکورہ بالا کتاب میں کی گئی بحثیں مزید وضاحت کے ساتھ اس کی کتاب ”Permanent Revolution”میں ظاہر ہوئیں ۔اس کتاب میںاس نے اکتوبر 1917ءکے بالشویک انقلاب کی طبقاتی خصوصیا ت پر بحث کی ہے۔ اس میں اس نے کسان طبقے کی اہمیت سے انکار اور ایک ملک میں سوشلزم کی کامیابی کو ناممکن قرار دیا۔ اس کی اس کتاب میں رومانویت پسندی اور تصوریت پسندی واضح طور پر دکھائی دیتی ہےں اور اس میں اس کی مارکسزم کی غلط تفہیم بھی جا بجا ظاہر ہے۔اس کتاب کی میکانکی اور تصوریت پسند نوعیت کے بارے میں ڈیوڈ میٹرز تحریر کرتا ہے:
“مستقل انقلاب کا تصور انتہائی طور پر میکانکی ہے۔یہ حقیقی انقلابی سلسلہ ہائے عمل۔۔۔۔۔طبقات کی تحریک،طبقات کے تعلقات میں تبدیلیوں اور حقیقی سیاسی شعور کی سطح وغیرہ کا تجزیہ یا ادراک نہیں کرتا ہے۔”(2)
یہ کتاب روسی سماج کے طبقاتی تجزیے پر مشتمل ہے ۔لیکن اس میں سوشلسٹ جدوجہد میں سیاسی تنظیم کے کردار سے انکار کیا گیا ہے۔ جب وہ سوشلزم کے تقاضوں (منصوبہ بند پیداوار ،وسیع پیمانے پر کارخانوں کے جال اور پرولتاریہ ڈکیٹر شپ ) پر بحث کرتا ہے تو کہیں بھی کمیونسٹ پارٹی یا اس کے کردار کا ذکر نہیں کرتا ہے۔جب وہ بلینکیسٹوں اور انارکسٹوں پر تنقید کرتا ہے تو محض یہ کہتا ہے:
” سوشل ڈیموکریٹ طاقت کی فتح بحیثیت انقلابی طبقے کے باشعور عمل کی بات کرتے ہیں۔ “اس جملے میں انقلابی محنت کش کے ہر اول دستے کمیونسٹ پارٹی کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ایک سوصفحات کی اس کتاب میں مغربی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں پر تنقید کی گئی ہے لیکن اس میں بھی انقلابی پارٹی کے و جودکی مخالفت کی گئی ہے۔جب بھی ٹراٹسکی نے روس میں سیاسی جدوجہد پر بات کی اس نے انقلابی تنظیم کے بجائے سیاسی قوتوں پر بات کی۔ٹراٹسکی کی اس کتاب میں پارٹی کے مسائل،اس کے کردار اور اہمیت سے عدم ِواقفیت پائی جاتی ہے۔
اس کے برعکس ٹراٹسکی ریاست کے کردار کی بات کرتا ہے، جو افسر شاہی اور قومی قوت کی حامل ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹراٹسکی روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے دونوں گروہوں بالشویک اور مینشویک کے مخالف رہا۔ اس نے ان دونوں کے خلاف ایک ڈھیلا ڈھالا مختلف النظریات عناصر پر مشتمل گروہ اگستی بلاک تشکیل دیا۔ اس لیے اسے پارٹی نظم و ضبط کا کوئی تجربہ نہیں تھا،جو اس کے مخالفین سٹالن ،کیمونوف،زائینوف اور بخارین کو تھا۔ اساق ڈیشر اس کے بارے میں تحریر کرتا ہے:
1907″ءاور 1917ءکے سالوں کے درمیان اس کی زندگی میں ایک باب ایسا آیا،جس میں اس نے کوئی سیاسی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔۔۔اس کی تحریر یں،جو صحافت اور ادبی تنقید پر مشتمل ہیں،اس عہد کے دوران منظرِ عام پر آئیں۔لیکن اس دوران اس کی سیاسی نظریے پر کوئی کتاب قابلِ ذکر نہیں آئی۔ان سالوں میں لینن،جسے اس کے پیروکاروں کی حمایت حاصل تھی،نے پارٹی تشکیل دی اور زائینوف،کیمونوف،بخارین اور بعدازاں سٹالن ایسی شخصیات کی تشکیل کی،جو انقلاب کی طرف آگے بڑھتے گئے۔اس بات نے انہیں اس قابل بنایا کہ انہوں نے 1917ءمیں پارٹی کے اندر قائدانہ کردار ادا کیا۔ٹراٹسکی نے 1904ءتا1906 ءکے عہد میں جو کچھ حاصل کیا وہ بہت کم یا کچھ بھی نہیں تھا۔”(3)
لیون ٹراٹسکی نے 1910ءمیں ایک اور مضمون تحریر کیا،جس کاعنوان ہے:”The Intalligentsia and Socialism”۔اس مضمون میں اس نے سوشلسٹ تحریک میں دانشوروں کے کردار کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔وہ دانشوروں کو بورژوا تصور کرتا ہے،جو محض تصورات اور ادب کے دائرے میں محدود ہیںاور پرولتاریہ اور سیاسی جدوجہد سے کوسوں دور ہیں۔اس کا دانشوروں کا تصور ادیبوں اور شاعروں تک محدود ہے۔اس کی دانشوروں کی سطحی مخالفت بذاتِ خود ایک بورژوا رویہ ہے۔
ٹراٹسکی کہتا ہے کہ دانشور طفیلی اور بھگوڑے ہوتے ہیں۔دانشوروں پر اس کی اس تنقید سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے لینن کی کتاب”What is to be Done?”کے اصلی جوہر کی صحیح تفہیم نہیں کی ہے،جس میں انقلابی پارٹی میں دانشوروں کے اصل کردار کی وضاحت کی گئی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے: بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والے دانشور انقلابی پارٹی کی تشکیل کے لیے بہت ضروری ہیں۔وہ اکیلے محنت کش طبقے کو سائنسی سوشلزم پر عبور حاصل کروانے کے قابل ہوتے ہیں۔انقلابی پارٹی کا کام اس کے درجوں کے اندر دانشوروں اور مزدوروں کے مابین تفریق کو مٹاتا ہے۔
جب ٹراٹسکی دانشوروں کی بات کرتا ہے تو اس کے ذہن میں ماسکو کے وہ دانشور اور ان کے گروہ ہیں،جن پر اس نے بعد ازاں اپنی ادب پر ایک مشہورِ زمانہ کتاب بہ عنوان ادب اور انقلاب میں حملہ کیاتھا۔ وہ ان دانشوروں کی طبقاتی فطرت کو نہیں سمجھ سکا،جو بالشویک پارٹی میں رہ کر ارتقاءپذیر ہوئے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا دانشوروں کے بارے میں نظریہ مارکسسٹ نظریہ نہیں تھا۔وہ دانشوروں کے انقلابی تحریک سے رشتے کی نوعیت کو بھی سمجھنے سے قاصر رہا۔اس نے دانشوروں کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے انقلابی کردار کو بھی رد کیا۔وہاںکے متعلق لکھتا ہے:” اپنی پوری تاریخ میں ۔۔۔یورپ کے طلباءمحض بورژوا طبقات کا بیرومیٹررہے ہیں۔ ”
ٹراٹسکی دانشوروں کے کردار کو سماجی طبقات کے کردار کا نعم البدل تصور کرتا تھا۔
دوسری انٹرنیشنل کے دانشوروں اور رہنماﺅں میں معیشت پسندی (Economism)کا رحجان پایا جاتاتھا۔یہ ایسا رحجان تھا،جو سماجی تشکیل کے دیگر عناصر کی مکمل نفی پر مشتمل تھا۔وہ میکانکی انداز میں معاشی عنصر کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا اور سماجی گروہوں،سیاسی اداروں اور ثقافتی پیداوار کو معاشی عنصر کا محض عکس سمجھ کر ان کے سماجی تشکیل پر اثرات کا انکار کرتا تھا۔یہ رحجان وسیع پیمانے پر دوسری انٹرنیشنل کے دائیںبازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں میں عام تھا۔
جب کہ دوسری انٹرنیشنل کے بائیںبازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں میں اس قسم کا ایک اور غلط میکانکی رحجان پایا جاتا تھا،جو سماجیت پسندی (Sociologism)سے عبارت ہے۔اس رحجان میںسماجی تشکیل میں معیشت کے بجائے سماجی طبقات کو اہمیت حاصل تھی۔چنانچہ انہوں نے طبقاتی جدوجہدکو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ معیشت پسندی کے رحجان نے دوسری انٹرنیشنل کے دائیںبازو کے دانشوروں کو بے عمل اور دم چھلہ بنا دیا۔ جب کہ سماجیت پسندی کے رحجان نے دوسری انٹرنیشنل کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو رضا کارئیت پسندی (Voluntarism) کا راستہ دکھایا۔
ٹراٹسکی کے ہاںسماجیت پسندی کا رحجان غالب ہے،جو اسے رضاکاریت پسندی کی بے عملی کی طرف لے گیا۔اس کی تحریروں میں سماجی تشکیل میں عوامی قوتیں بغیر کسی سیاسی تنظیم اور سیاسی اداروں کے غالب دکھائی دیتی ہیں۔اور یہی غلط اور میکانکی رحجان انقلاب سے پہلے اور بعد میں ٹراٹسکی کی نظریاتی وعملی غلطیوں کی بنیاد ہے۔ جب کہ اس کے برعکس لینن کے ہاں سماج کی تمام سطحیں معاشی،سماجی سیاسی اور نظریاتی باہم دگر تعامل کے جدلیاتی مادی رشتوں میں مربوط دکھائی دیتی ہیں۔یہی مادی و تاریخی جدلیات ہے،جو ٹراٹسکی کی تحریکوں میں مفقود ہے۔جن کی وجہ سے وہ نظریاتی وعملی غلطیوں کا پوری زندگی شکار رہا۔
ٹراٹسکی کی سماجیت پسندی اس کی تین جلدوں پر مشتمل مشہور کتاب “History of Russian Revolution” میں پوری طرح واضح دکھائی دیتی ہے۔اس کے نظریہ ِ انقلاب میں جیسا کی سطورِ بالا میںکہا گیا ہے کہ اس کی تصوریت پسندی اور رومانویت پسندی کے رحجانات غالب حیثیت کے حامل ہیں،جن میں معاشی اور سیاسی قوتوں کے کردار کی نفی پائی جاتی ہے۔اس کتاب میں وہ طبقات کی نفسیات کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس کے خیال میں سماجی قوتیں اور نظریات انقلابی عمل کو متعین کرتے ہیں۔وہ تحریر کرتا ہے:
“ایک ایسے سماج میں، جس پر انقلاب حاوی ہو، اس میں طبقات باہم دگر دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔”
ٹراٹسکی نے اس کتاب میں انقلاب کے آغاذ سے لے کر اس کے انجام تک جن تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے، ان کا تجزیہ وہ سماج کی معاشی وسیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ طبقات کی نفسیات کی روشنی میں کرتا ہے۔اس سلسلے میں اس کے اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
“انقلابی واقعات کا تحرک طبقات کی نفسیات میں تیز، شدید اورزبردست جذباتی تبدیلیوں سے براہِ راست ہوا، جو ان میں انقلاب سے پہلے برپا ہوچکی تھیں۔”
اس جملے میں ٹراٹسکی کی تصوریت پسندی بالکل واضح ہے۔مارکسسٹ فلسفے کی رو سے انسانی یا طبقاتی نفسیات میں تبدیلیاں خارجی ومعروضی عناصر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں نہ کہ طبقاتی نفسیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خارجی تبدیلیاں برپا ہوتی ہیں۔
1907ءسے لیکر 1917ءتک ٹراٹسکی لینن کے پارٹی نظریہ کو نہ سمجھتے ہوئے نہ تو بالشویک پارٹی میں شریک ہوسکا اور نہ ہی اس میں کوئی اہم کردار ادا کر سکا ۔بعد ازاں اس نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:
”   میں نے مستقل انقلاب کے تصورات کی بنیاد پر کبھی بھی گروہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔میرا پارٹی کے اندر موقف صلح جوئی کا رہا اور جب اکثر اوقات میں گروہ بنانے کی کوشش کی تو اسی بنیاد پر کی۔ میری سمجھوتہ پسندی سماجی انقلابی جبریت پرستی سے ختم ہوگئی ۔مجھے یقین تھا کہ طبقاتی جدوجہد کی منطق دونوں گروہوں کو ایک انقلابی راستے تک چلنے پر مجبورکردے گی۔ لینن کی حکمت ِعملی کی عظیم تاریخی اہمیت اس وقت مجھ پر واضح نہیں ہوئی تھی۔ اس کی حکمتِ عملی نا قابلِ مصالحت نظریاتی حد بندی کی حکمت ِعملی تھی۔حقیقی انقلابی پارٹی کے ڈھانچے کو بنانے کے مقصد کے لیے جب پارٹی میں تقسیم ضروری ہوگئی تو لینن نے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی۔۔۔۔ جب بہت سے تدبیری یا تنظیمی معاملات میں میں لینن کے ساتھ اختلافات کرتا تھا،تو ہمیشہ صحیح اس کا ہی موقف ہوتا تھا۔“
ٹراٹسکی پرولتاریہ طبقے کی خود رواحتجاجی تحریک کو ہی کافی سمجھتا تھا ، ایک آہنی نظم و ضبط پر مشتمل کمیونسٹ پارٹی کو محنت کش طبقے کا ہراول نہیں مانتا تھااور اسی کو ہی طبقاتی جدوجہد سے تعبیر کرتا تھا۔جب کہ اس کے برعکس لینن پرولتاریہ طبقے کی خود رو تحریک کو سوشلزم سے مربوط کرنے کا قائل تھا۔اس لیے وہ ایک منظم کمیونسٹ پارٹی کو محنت کش تحریک کے انقلاب کے لیے اس کے ہراول کے طور پر ضروری سمجھتا تھا،جو پرولتاریہ تحریک کو ٹریڈ یونین شعور سے بلند کر کمیونسٹ شعو رکی بلندی تک پہنچا سکتی ہے۔منظم کمیونسٹ پارٹی پرولتاریہ کا ہراول دستہ ہے۔اس لحاظ سے ٹراٹسکی کا پارٹی کا نظریہ لینن کے پارٹی کے نظریہ سے بالکل متضاد تھا۔یہی وجہ ہے آج دنیا بھر کے ٹراٹسکائیٹ گروہ ٹراٹسکی کے سماجیت پسندی اور رضاکاریت اور خود رومعیشت پسندپرولتاری احتجاجی ابھار پر مبنی پارٹی نظریے پر قائم اور سرگرمِ عمل ہیں۔(5)
جب روس وجاپان جنگ جاری تھی تو مینشوییکوں اور ٹراٹسکی کا اس جنگ کے بارے میں موقف تھا کہ جاپان کے خلاف زارشاہی کا ساتھ دینا چاہیے۔ جب کہ اس کے برعکس لینن کا موقف یہ تھا کہ اس جنگ میں زار کی شکست فائدہ مند ہوگی۔کیوں کہ زار شاہی کی ہر کمزوری انقلابی قوتوں کے حق میں مفید ثابت ہوگی۔اس طرح لینن نے مارکسسٹ موقف اختیار کرتے ہوئے ٹراٹسکی کے بورژوا وطن پرست اور شاونیت پسند قوم پرستانہ موقف پر کڑی تنقید کی۔لینن نے کہا کہ زار اس جنگ کے بہانے آنے والے انقلاب کو ٹالنا چاہتا ہے۔آخر کار تاریخ نے لینن کے مارکسسٹ موقف کو درست ثابت کردیا۔اس جنگ میں روس کو1904 ءمیںشکستِ فاش ہوئی اور اس شکست کے نتیجے میں 1905ءکا انقلاب برپا ہوا۔جنگِ عظیمِ اول میں بھی اس نے یہی شاونسٹ حب الوطنی کا موقف اور نہ فتح نہ شکست کا مرکزیت پسند راستہ اختیار کیا اور لینن کی سخت تنقید کا نشانہ بنا۔
اسی دوران ٹراٹسکی نے اپنا نظریہِ مستقل انقلاب پیش کیا۔اس نظریے میں ٹراٹسکی کی رومانویت پسندی اور تصوریت پسندی ظاہروباہر ہے اور وہ جدلیاتی وتاریخی مادیت کے اصولوں کے برعکس ہے۔بنیادی طور پراس کے اس نظریے کے دو اہم نکات ہیں۔اول انقلابی جدوجہد کے عمل میں کسان طبقے کی اہمیت سے انکار اور دوم ایک ملک میں کامیاب سوشلسٹ ریاست کی تعمیر ناممکن ہے۔حالاں کہ کمیونسٹ انقلابات کی تاریخ نے ٹراٹسکی کے نظریہِ ِمستقل انقلاب کے ان دونوں دعوﺅں کو رد کر کے کب کا ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔
1905ءمیں ٹراٹسکی نے یہ نعرہ بلند کیا کہ زار نہیں بلکہ مزدور راج ہو۔اس نے 1906ءمیں تحریر کیا : یورپی پرولتاریہ کی براہِ راست مدد کے بغیر روسی مزدور طبقہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور اپنی عارضی حکومت کو دیرپا سوشلسٹ ڈکیٹرشپ میں تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔لینن نے اس پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کیا:
“ٹراٹسکی اپنا 1905ءکا نظریہ بار بار دہراتا رہتا ہے اور کیوں کے سوال پر سوچنے سے انکار کرتا ہے۔دس سالوں کی مدت میں زندگی اس نظریے سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔۔۔۔ٹراٹسکی درحقیقت روس میں ان آزاد خیال سیاست دانوں کی مدد کررہا ہے،جو کسانوں کے کردار کو ختم کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ کسانوں کو انقلاب کے لیے نہیں ابھارا جاسکتا ہے۔”
لینن نے ٹراٹسکی کے اس نظریے کی حقیقت کی قلعی کھولتے ہوئے تحریر کیا:
” ٹراٹسکی کے نظریے میں فیصلہ کن پرولتاریہ انقلابی جدوجہد اور پرولتاریہ کے ذریعے سیاسی اقتدار کے حصول کامطالبہ بالشویکوں سے مستعار ہے ۔جب کہ کسانوں کے کردار سے انکار مینشویکوں سے مستعارہے۔”
لینن اس کے بارے میں مزید تحریر کرتا ہے:
“ناہموار معاشی و سیاسی ترقی سرمایہ داری کا اٹل قانون ہے کہ تمام ملکوں کی سیاسی اور معاشی ترقی یکساں نہیں ہوسکتی ہے۔لہذا سوشلزم کی کامیابی پہلے چند ملکوں یا اکیلے ایک ہی ملک میں ہوگی۔اس ملک میں کامیاب مزدور طبقہ اپنے ملک کے سرمایہ داروں کی ملکیت کو ضبط کرکے دولت کی سوشلسٹ پیداوار کو منظم کرکے بقیہ سرمایہ دار دنیا کا مقابلہ کرے گا اور دوسرے ملکوں کے مظلوم طبقے اس کا ساتھ دیں گے۔”
“سرمایہ داری مختلف ملکوں میں انتہائی غیر یکسانیت سے ترقی کرتی ہے اور ظاہر ہے کہ جنس کی پیداوار کے نظام کے اندر اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتاہے،اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سوشلزم تمام ممالک میں ساتھ ساتھ کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔پہلے یہ ایک یا ایک سے زیادہ ممالک میں کامیابی حاصل کرے گی جبکہ بقیہ ملکوںمیں سرمایہ داری یا اس سے پہلے کا نظام کچھ دنوں اور قائم رہے گا۔اس وجہ سے نہ صرف آپس میں تصادم ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ یہ بھی ہوگا کہ دوسرے ملکوں کے سرمایہ دار اشتراکی ملک کے فتح مند مزدور طبقے کو کچلنے کی براہ راست کوشش کریں گے۔ ایسی صورت میں ہماری لڑائی حق اور انصاف کی لڑائی ہوگی۔یہ لڑائی سوشلزم کے لیے اوردوسری قوموں کو سرمایہ داروں سے نجات دلانے کے لیے ہوگی۔”
مئی 1907ءمیں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی پانچویں کانگریس لندن میں منعقد ہوئی ،جس میں کل336 نمائندے شامل ہوئے ،جن میں 105 بالشویک اور 97مینشویک تھے۔اس کانگریس میں ٹراٹسکی نے اپنا الگ گروہ بنانے کی کوشش کی مگرناکام رہا۔
1905   ءکے کسان بورژوا انقلاب کی ناکامی کے بعد مینشویک گروہ کے ارکان نے کوشش کی کہ پرولتاریہ انقلابی غیر قانونی پارٹی کا انسداد کرکے اشو لینی مزدور پارٹی کے نام ایک موقع پرست پارٹی منظم کی جائے ،جس کی سرگرمیاں زار شاہی کی حدود تک محدود ہوں۔ٹراٹسکی نے بھی اس موقع پرست انسداد پسندی کے رحجان کا پر چار کیا اور بالشویک اور مینشویک گروہوں کے درمیان سمجھوتے کی بات کرتا رہا۔لینن اس دوران اوتزویت پسندی (دیوتا پرستی) کے رحجان کے خلاف نظریاتی جنگ میں مصروف تھا،جو ماخ ازم کے رجعت پسند اور تصوریت پسند فلسفے کے روپ میں ظاہر ہوا تھا۔
لینن نے اس غلط فلسفیانہ رحجان کے خلاف اپنی مشہور زمانہ کتاب ” مادیت اور تجربی تنقید”میں سخت الفاظ میں تنقید کی، جس کے نتیجے میں اوتزویت پسند گروہ لینن کے خلاف ہوگیا۔ٹراٹسکی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اوتزویت پسندگروہ کو اپنے ساتھ ملا کر لینن اور بالشویک گروہ کے خلاف اگستی گروہ تشکیل دیا۔لیکن بہت جلد مینشویکوں کی نظریاتی اور عملی شکست کے بعد اگستی گروہ بھی شکست وریحت کا شکار ہونے لگا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ گروہ مختلف النظریات عناصر پر مشتمل اور دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا گروہ تھا منظم نہیں تھا۔
ٹراٹسکی نے اس موقع پر بظاہر مینشویک اور بالشویک گروہوں کے درمیان خود کو درمیانی حالت میں رکھ کر مرکزیت پسندی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ نہ تو مینشویک ہے اور نہ بالشویک ہے۔ بلکہ ان دونوں کے درمیان مصالحت کا خواہاں ہے۔لیکن وہ در پردہ بالشویک گروہ کے خلاف مینشویک گروہ کی مدد کرتا رہا۔ لینن نے اسے اس کی منافقت ،سازشی فطرت ،فرقہ واریت،غداری اور تنگ نظری کی بنا پرمشہورروسی ناول نگارسالٹیکوف ۔شیڈرن کے ایک ناول “)گلوویلوف خاندان” ) کے ایک پست اور گھٹیا کردارگلوویلوف جوڈاس سے مشابہت دی۔یہ جوڈاس (یہودا)دراصل حضرت عیسیٰ کے بارہ حواریوں میں سے ایک تھا،جس نے حضرت عیسیٰ کی مخبری کرکے اسے گرفتار کروایا تھا۔اس لحاظ سے یہ نام غدار کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔مذکورہ بالا ناول میں یہ کردار تاریخی طور پر زوال پذیر جاگیردار طبقے کا نمائندہ اورتنگ نظر، منافق،دغا باز، اور ظالم انسان تھا،جس کی وجہ سے لوگ اسے جوڈاس کہتے تھے۔اس لیے لینن نے ٹراٹسکی کو اس کی منافقت، سازشی فطرت، فرقہ واریت کی بنا پر جوڈاس سے تشبیہہ دی۔
لینن نے ٹراٹسکی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مشہور روسی ناول نگار گوگول کے ناول “Dead Souls” (مردہ جانیں” )کے کردار کردارنوزڈرئیف کو یاد کرتا تھا ،(جوایک جھوٹا، فریبی، مکار اور متشدد قسم کا جاگیردار تھا اور اپنی طاقت سے کمزوروں کو دباتا تھا) ۔ اس لیے لینن نے اس گھٹیا کردار کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کو اکثر مشابہت دی ہے۔ اسی طرح لینن نے انسداد پسند مینشویکوں، بشمول ٹراٹسکی کو بھی اسی کردار سے مماثلت دی ہے۔لینن نے اپنے ایک اور مضمون ”Judas Trotsky Blush of Shame” میںبھی ٹراٹسکی کو اس کی منافقت ،سازشی فطرت ، غداری ،فرقہ واریت اور تنگ نظر ی کی وجہ سے اس گھٹیا کردار سے تشبہیہ دی ہے۔لینن نے اسے شور مچانے والا فقرے باز،ڈرامہ اداکار،سازشی، منافق،بے اصول اوردھوکہ بازبھی قراردیا۔لینن نے 1911ءمیں ٹراٹسکی کے بارے میں تحریر کیا:
“ٹراٹسکی سے کسی بھی مسئلے پر بحث کرنا ناممکن ہے۔کیوں کہ ٹراٹسکی کا کوئی نقطہِ نظر نہیں ہے۔ہم انسداد پسندوں اور اوزویستوں سے بحث کرسکتے ہیں اور ہمیں ان سے بحث کرنی بھی چاہیے۔لیکن ایک ایسے شخص سے بحث کرنا بے کار ہے،جس کا مشغلہ ان دونوں رحجانوں کی غلطیوں پر پردہ پوشی کرنا ہے۔ایسے شخص کے معاملے میں بات کرنا اس کی گھٹیا درجے کی منافقت کو ظاہر کرنا ہے۔”
لینن نے 1914ءمیں ٹراٹسکی کی غیر مستقل مزاجی اور تلون مزاجی کے بارے میں مندرجہ ذیل الفاظ استعمال کیے:
” ٹراٹسکی ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتاہے۔گروہوں کو بدلتے رہنا اس کی عادت ہے۔ آزاد خیالوں کے گروہ سے نکل کر مارکسٹوںکے گروہ میں شامل ہونا اور پھر دوبارہ واپس لوٹ جانا اس کی فطرت ثانیہ ہے۔خوب صورت الفاظ اور زبردست جملے جو اس نے طوطے کی طرح رٹے ہوئے ہیں،انہیں باربار دہراتارہتا ہے۔”
جنگ ِعظیمِ اول کے موقع پر لینن نے جو موقف اختیار کیا کہ یہ جنگ ایک سامراجی جنگ ہے اور یہ انقلابی تحریک کو روکنے کے لیے لڑی گئی ہے۔دنیا بھر کے کمیونسٹوں کو اس جنگ کی مخالفت کرنی چاہیے اور اسے ہر ملک میں خانہ جنگی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ٹراٹسکی نے اس جنگ میں نہ فتح نہ شکست کا مرکزیت پسند موقف اختیار کیا اور جنگ اور سوشلزم کے اہم مسائل پر لینن اور بالشویک پارٹی کے موقف کی مخالفت کی ۔
بالشویک انقلاب کے وقت پارٹی کی چھٹی کانگریس کے موقع پر ٹراٹسکی کے ایک چھوٹے سے گروہ مزار ایونتسی کو بالشویک پارٹی میں شامل کر لیا گیا۔ یہ گروہ پیٹرو گراڈ میں1913ءسے قائم تھا۔ اس گروہ میں کچھ مینشویک اور کچھ پرانے بالشویک ،جو پارٹی کو چھوڑ گئے تھے،شامل تھے۔جنگِ عظیمِ اول کے دوران یہ گروہ مرکز یت پسند موقف اختیار کیے رہا اور یہ بالشویک پارٹی کا سخت مخالف تھا ۔لیکن مینشویکوں سے بھی کئی معاملات میں اختلافات کا حامل تھا۔ پارٹی کی چھٹی کانگریس میں اس گروہ نے بالشویک پارٹی سے اتفاق کیا اور یہ درخواست پیش کی کہ اسے بالشویک پارٹی میں شامل کیا جائے۔ پارٹی کانگریس نے اس کی سابقہ غلطیوں کو درگزر کرتے ہوئے اسے بالشویک پارٹی میں شامل کرلیا۔اس گروہ میں شامل وولووارسکی اور یورتسکی حقیقی بالشویک ثابت ہوئے ۔لیکن اس گروہ کی اکثریت ٹراٹسکی سمیت حقیقی بالشویک نہ بن سکی۔
اکتوبر1917 ءکے بالشویک انقلاب کی کامیابی کے بعد نئی روسی سوشلسٹ ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ جرمن حملے کا تھا۔لینن جرمنی اور ویاناسے امن کا معاہد ہ کر نا چاہتا تھا۔کیوں کہ اس کے خیال میں روس جنگ کرنے کا اہل نہیں اور اگر جرمنی نے اس پر حملہ کردیا توبالشویک انقلاب ختم ہو جائے گا۔روس کی مشرقی سرحد پر جنگی خطرہ روزبروزبڑھتا جارہا تھا۔1917ءکے آخری دنوں میں ٹراٹسکی ،جو اس وقت عوامی کمیسار برائے خارجی امور تھا،بریسٹ لیٹوسک کے مقام سے جرمن حکام سے مذاکرات کر کے واپس لوٹا ۔وہ ابھی تک سمجھ رہا تھا کہ جرمن جنگی خطرے کو اپنی جنگ نہ امن کی حکمتِ عملی سے ٹال دے گا ۔
ٹرٹسکی نے لینن کو اطلاع دی کہ جرمنی روس پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔اس وقت لینن جرمنی کے تمام مطالبات تسلیم کرنے پر زور دے رہا تھا۔لیکن ٹراٹسکی”نہ جنگ نہ امن کی تصوراتی اور افسانوی حکمتِ عملی پر ڈٹا ہوا تھا۔چناں چہ لینن نے اس مسئلے کو پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور مقامی کمیٹیوں میں پیش کیا۔8جنوری 1918 ءکو سوویتوں کی تیسری کانگریس میںاس نے اپنا مقالہ بہ عنوان “The Theses on Question of a Separate and Annextionist Peace”پیش کیا ۔بالشویک رہنماﺅں کی اکثریت نے ٹراٹسکی کی” نہ جنگ نہ امن ”کی تجویز کی حمایت کی۔
اگلے روز مرکزی کمیٹی میں لینن نے اپنا موقف پیش کیا۔10فروری 1918ءمیں ٹراٹسکی کو جرمن حکومت سے روس پر حملے کی دوسری دھمکی ملی،جس سے اس کی نہ جنگ نہ امن کی حکمت ِعملی کا پول پوری طرح کھل گیا۔17فروری 1918ءمیں مرکزی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔لینن نے تمام ارکان کو ایک سوا لنامہ پیش کیا۔اس اجلاس میںبھی دوبارہ لینن کو شکست ہوئی اورمرکزی کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے ٹراٹسکی کی نہ جنگ نہ امن کی تجویز کی حمایت کی اور لینن کے معاہدہِ امن کی مخالفت کی۔
18 فروری 1918ءمیں مرکزی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں لینن نے پھر سے اپنا معاہدہِ امن کے حق میں موقف پیش کیا ۔لیکن اس بار بھی اسے کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔حتیٰ کہ جرمن افواج نے روس کی طرف پیش قدمی بھی شروع کردی اور وہ اس وقت صرف پیٹرو گراڈ سے چار سو میل کے فاصلے پر تھیں۔مرکزی کمیٹی کا اجلاس فوری طور پر بلایا گیا ،جس میں لینن نے کہا کہ”تاریخ کہے گی کہ تم نے انقلاب کو ترک کردیاہے۔”
آخر کار لینن مرکزی کمیٹی کو معاہدہِ امن کے حق میں قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔لہذا اس کے موقف کو کامیابی حاصل ہوگئی۔اور بخار یںاور ٹراٹسکی کو شکست ہوئی۔اس موقع پر ٹراٹسکی نے عوامی کمسیار برائے امور خارجہ کے عہد سے استغفیٰ کا اعلان کیا۔آخر کار 3مارچ 1918ءمیں جرمنی سے بریسٹ لیٹوسک کے مقام پر معاہدہ اِمن ہوگیا۔ٹراٹسکی کا موقف نہ جنگ نہ امن ایک تصوریت پسند موقف تھا۔اگر اس پر روسی کمیونسٹ پارٹی عمل کرتی تو جرمن حملے سے بالشویک انقلاب سبوثاژ ہوجاتا۔لینن کے امن پسند موقف کو تاریخ نے درست ثابت کردیااور اس سے بالشویک انقلاب جرمن حملے سے محفوظ ہوگیااور نئی سوشلسٹ ریاست کو پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا۔
ٹراٹسکی جب عوامی کمیسا برائے جنگ تھا تو اس کے اکثر اقدام کمیونسٹ پارٹی کے خلاف تھے۔اس مسئلے پر اس کا تنازعہ سٹالن اور وروشیلوف سے اکثروبیشتر ہوتا رہا۔1919ءمیں پارٹی کی آٹھویں کانگریس میں یہ تنازعہ بہت شدت اختیار کر گیا۔لینن نے اس معاملے میں ٹر اٹسکی کا ساتھ دیا۔لیکن کانگریس کی خفیہ ہدایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی ارکان کی اکثریت اس کے سخت خلاف تھی۔پارٹی کی بارہویں کانگریس میں میکویان نے ٹراٹسکی کے خلاف اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:
“ٹراٹسکی ریاست کا آدمی ہے نہ کہ پارٹی کا“۔
1920ءمیں ٹراٹسکی لینن کی حکمتِ عملی اور نظریات کے خلاف سرگرمی سے عمل پیراہوا۔سوویت روس میں ٹریڈ یونینوں کے کردار اور ان کے محنت کش طبقے سے تعلق کے مسئلے پر اس نے لینن سے شدید اختلاف کیا۔اس نے اس مسئلے پر ایک کتابچہ بہ عنوان
“The Role and Tasks of Trade Unions” تحریر کیا، جس میں اس نے ٹریڈ یونینوں کو سرکاری تحویل میں لینے کی تجویز پیش کی۔اس نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ٹریڈیونینوں کو جھنجوڑنا چاہیے ۔وہ مزدور ٹریڈ یونینوں کو فوجی طریقے سے نمٹنا چاہتا تھا۔لینن نے 1920ءمیں ٹراٹسکی کے کتابچے پر اپنی تنقیدی رائے دیتے ہوئے تحریر کیا:
” میں اس کتابچے میں بہت سی نظریاتی غلطیوں پر حیرت زدہ ہوں۔ٹریڈ یونین صرف تاریخی طور پر ضروری نہیں ہیں۔ بلکہ وہ پرولتاریہ ڈکیٹر شپ کے تحت صنعتی پرولتاریہ کی تنظیم کے طور پر بھی ناگزیر ہیں ۔یہ بات بنیادی ہے ۔لیکن کا مریڈ ٹراٹسکی نے اسے فراموش کیا ہے۔ وہ نہ ان کی تعریف کرتا ہے، نہ اس سے اپنا دامن چھڑاتا ہے۔
اس پر ذیل میں میں نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ پرولتاریہ ڈکیٹر شپ کے ہر قدم پر ٹریڈ یونینوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔لیکن ان کا کردار کیا ہے؟۔۔۔۔ایک طرف ٹریڈ یونینیں،جو صنعتی مزدوروں میں اپنا کردار اداکرتی ہیں،حکمران غالب طبقے کی تنظیمیں ہیں۔ لیکن یہ ریاستی تنظیم نہیں ہیں ۔اور نہ ہی انہیں جبر سے بنایا جاسکتا ہے۔ بلکہ انہیں تعلیم سے بنایا جاسکتا ہے۔یہ ایک ایسی قسم کی تنظیمیں ہیں ،جنہیں تربیت دی جاسکتی ہے۔یہ دراصل ایک اسکول ہے ۔۔۔انتظامیہ کاسکول ،معاشی انتظام کا سکول اور کمیونزم کا سکول ہے۔پرولتاری ڈکیٹر شپ کے نظام کے اندرٹریڈ یونینیں پارٹی اور حکومت کے درمیان پل ہیں۔سوشلزم کے عبور میں پرولتاری ڈکیٹر شپ ناگزیر ہے۔مگر یہ ایک تنظیم کے ذریعے نافذ نہیں کی جاتی ہے،جو تمام صنعتی مزدوروں کی تنظیم ہوتی ہے۔کیوں نہیں؟ کیا ہوتا ہے؟ پارٹی پرولتاریہ کے ہر اول کو جذب کرتی ہے اور یہ ہر اول پرولتاری ڈکیٹر شپ کو چلاتا ہے۔ڈکیٹرشپ یا حکومت کے انتظام کو بغیر بنیاد کے یعنی ٹریڈ یونینوں کے بغیرنہیں چلا جاسکتاہے۔۔۔ ٹریڈ یونینیں ہر اول اور عوام کے درمیان رابطہ ہیںاور ان کا روز مرہ کا کا م عوام میں یقین پیدا کرتا ہے۔ عوام اکیلے ہمیں سرمایہ داری سے سوشلزم میں لے جانے کے قابل بناتے ہیں۔دوسری طرف ٹریڈ یونینیںریاستی قوت کا اثاثہ ہیں۔”
اس کا فوری نتیجہ یہ ہے کہ ٹراٹسکی اور بخارین کے مقالوں میں بہت سی نظریاتی غلطیاں ہیں: ان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں،جو اصولی طور پر غلط ہیں۔کامریڈ ٹراٹسکی کا مقالہ سیاسی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔اس کی حکمتِ عملی کا جو ہر ٹریڈیونینوں پر افسر شاہانہ خوف طاری کرنا ہے۔ ہماری پارٹی کانگریس ۔مجھے یقین ہے کہ اس کی مذمت کرے گی اور اسے رد کرے گی۔”
پارٹی کانگریس نے ٹراٹسکی کے مقالے کو رد کردیا۔لیکن ٹراٹسکی نے اس کے20 سال بعد1938ءمیں ایک اور کتاب ”Transsititional Program for Socialist ”Revolution میںٹریڈ یونین کے بارے میں اپنے غلط نظریے کو پھر دہرایا۔ اس نے لینن سے اس مسئلے پر کچھ بھی سبق نہیں سیکھا ۔وہ تحریر کرتا ہے:
” سخت طبقاتی جدوجہد کے زمانوںمیں ٹریڈ یونینوں کی قیادت کا مقصد ہے کہ وہ عوامی تحریک پر قبضہ کرلیں تاکہ اسے بے ضرر بنادیں۔” (7)
1921ءمیں سوویت یونین نے خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کرلی۔ چناں چہ بالشویک پارٹی نے اپنی ساری توجہ فوجی اور جنگی مسائل سے معاشی مسائل کی طرف مبذول کردی۔سوویت معیشت کی ازسرِ نو تعمیر و تنظیم اب اس کے اہم مقاصد تھے۔ٹراٹسکی نے معاشی مسائل کو فوجی طریقے سے حل کرنے کی تجویز پیش کی،جسے اس نے جنگی کمیونزم سے موسوم کیا اور اس نے اس سلسلے میںجبری محنت اور بیگار کو بھی متعارف کرایا۔اس کی اس حکمتِ عملی میں بھی پارٹی ، اس کے کردار اور اس کے عوام سے تعلق سے اس کی کج فہمی اور لاعلمی ظاہر تھی۔اس نے جیسا کہ سطورِ بالا میں بتایا جاچکا ہے، ٹریڈ یونینوں کو ریاستی تحویل میں لینے کی تجویز پیش کی تھی۔اس سلسلے میں اس نے عوامی محنت کی نگرانی کے لیے مستقل افسر شاہی کی تعیناتی کی بھی بات کی۔اس کے باوجود بھی وہ جبری محنت اور بیگار کا جواز پیش نہیں کرسکا۔اس سلسلے میں اس نے محض یہ دلیل پیش کی کہ ہر سماج میں محنت ضروری ہوتی ہے۔صرف جبر کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔چناں چہ اس نے محنت کشوں کو محنت کرنے کے وقت سوشلسٹ نغمے گنگنانے کی ترغیب دی۔اس بات سے بھی اس کی رضاکاریت کا تصور اور رویہ واضح ہوتا ہے۔
ٹراٹسکی نے اس سلسلے میں لینن کی حمایت بھی حاصل کرلی تھی۔لیکن ٹریڈ یونینوں اور پولش جنگ کے خاتمے کے تنازعے پرلینن نے اسے ہدفِ تنقید بنایا۔پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے عوامی سطح پر ٹراٹسکی کی حکمتِ عملی کو محنت کی شکلوں کو فوجی اور تحکمانہ بنانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔بالشویکوں کی اکثریت نے ٹراٹسکی کو جنگی کمیونزم کا نظریہ دان قراردیا۔کیوں کہ ٹراٹسکی کی یہ حکمتِ عملی لینن کے سخت نظم وضبط کی حامل کمیونسٹ پارٹی کے نظریے سے سخت متصادم اور متضاد تھی۔اس کے برعکس یہ فوجی نظم ونسق کی حامل ریاست کے نظریے پر مبنی تھی۔
1920 ءکے بعد ٹراٹسکی کمیونسٹ پارٹی میں روز بروز تنہا ہوتا گیا۔ زائینوف، کیمونوف، سٹالن ، کیلینن اور ٹومسکی لینن کی زندگی میں ہی ٹراٹسکی کے مخالف ہوگئے تھے۔ کیوں کہ وہ بالشویک پارٹی کا پرانا رکن نہیں تھا۔بلکہ وہ بغیر کسی پارٹی اور تنظیمی تجربے کے پولٹ بیورو کی رکنیت تک چھلانگ لگا کر پہنچ گیا تھا۔اس وجہ سے بالشویک پارٹی کے پرانے رہنما اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ بریسٹ لیٹوسک معاہدے کے سلسلے میں اس کی نہ جنگ نہ امن ایسی غیر عملی حکمتِ عملی اور ٹریڈ یونینوں کو ریاستی تحویل میں لینے کی مزدوردشمن حکمتِ عملی نے پارٹی میں اس کی حیثیت کو مزید مشکوک بنادیا تھا۔حتیٰ کہ ان باتوں کی وجہ سے لینن نے بھی اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تھا۔
چناں چہ ایسی صورت ِحال نے سٹالن کو 1923ءمیں لینن کا جانشیں کمیونسٹ پارٹی کاسیکرٹیری جنرل بننے میں مدد دی۔لیکن ٹراٹسکی اس ساری صورتِ حال کو سمجھنے سے قاصر رہا۔وہ یہ سمجھتا رہا کہ زائینوف اور کیمونوف سٹالن سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔لہذا وہ نئے سیکٹری جنرل کے کردار کی اہمیت کا اندازہ نہیں کرسکا۔حالاں کہ لینن خود اپنی زندگی کے آخری دنوں میں سٹالن کی روزافزوںبڑھتی ہوئی مطلق العنانی سے فکر مندہوگیا تھا۔اس لیے اس نے ایک وصیت نامہ تحریر کیا،جس میں اس نے سٹالن کے ساتھ ساتھ ٹراٹسکی اور دیگر بالشویک رہنماﺅں کو بھی ہدفِ تنقید بنایا۔اس کے وصیت نامے کے مندرجہ ذیل الفاظ سٹالن اور ٹراٹسکی دونوں کی خامیوں کو واضح کرتے ہیں:
“Comrade Stalin, having become General Sectary, has concentrated unlimited power in his hands, and I am not convinced that he will always manage to use this power with sufficient care. On the other hand, comrade Trotsky, as is shown by his struggle against the central committee in connection with the question of People’s Commissariat of the means of Communication, is characterised not only by outstanding talents. To be sure, he is personally the most capable person in the present Central Committee but he also over-brims with self-confidence and with an excessive preoccupation with the purely administrative side of affairs.”(8)۔
یہ وصیت نامہ پولٹ بیورو کے ارکان نے دبا دیا اور اسے منظرِ عام پر نہ آنے دیا۔ان ارکان میں ٹراٹسکی بھی شامل تھا۔اس نے اس وصیت نامے کو دبانے میں پولٹ بیورو کے دیگر ارکان کا ساتھ دیا۔اس نے اس وصیت نامے کی اشاعت کے لیے پارٹی میں کوئی جدوجہد نہیں کی۔بلکہ وہ خاموش رہا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وصیت نامے میں لینن نے اس کی خامیاں بھی گنوادی تھیں۔
لینن کی وفات کے بعد ٹراٹسکی پولٹ بیورو میں بالکل تنہا رہ گیا۔چناں چہ وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتا گیا۔1923ءتا 1925ءاس نے اپنے غیض وغضب کا نشانہ کیمونوف اور زائینوف کو بنایا۔جس کی وجہ سے سٹالن کو انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کا موقع مل گیا۔بعدازاں ٹراٹسکی نے بخارین کو اپنا دشمن تصور کیااور اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں اس پر برسنے میں سرف کردیں۔وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا کہ سٹالن اسے پارٹی سے نکالنے کی ٹھان چکا ہے۔بخارین اس کی سازشی چال کو سمجھ چکا تھا اور اس نے کیمونوف سے کہا:”ٹراٹسکی ہمیں سٹالن سے الگ کرنے سے زیادہ ہمیں آپس میں لڑوانا چاہتا ہے۔”
سٹالن، جو پہلے سے پارٹی کے سیکٹری جنرل کے عہدے پر قابض تھا،اسے اگر پارٹی کے اندرکسی سے خطرہ تھا توپرانے بالشویکوں زائینوف، کیمونوف اور بخارین سے تھا۔ٹراٹسکی نے ان کے خلاف تنقید کا مورچہ کھولنے سے انہیں سٹالن کے راستے سے ہٹانے میں بہت مدد دی۔زائینوف،کیمونوف اور بخارین کو یہ سب کچھ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا فائدہ تو سٹالن کو ہوا ہے۔لیکن اس وقت بہت تاخیر ہوگئی تھی۔سٹالن کی روزافزوں بڑھتی ہوئی قوت کے بارے میں لینن کی تنبیہہ کے باوجود ٹراٹسکی پارٹی میں سٹالن کے بجائے زائینوف اور کیمونوف کو اپنے حصولِ اقتدار کے راستے کا کانٹا سمجھتا رہا۔کیوں کے وہ مارکسسٹ نظریہ دان اور مفکر تھے۔ان کے مقابلے میں وہ سٹالن کو جاہل اور اوسط درجے کی ذہنیت کا حامل ، بے صلاحیت اور کم ترانسان تصور کرتا رہا۔ٹراٹسکی سیاسی داﺅ پیچ نہیں جانتا تھا،جس کے نتیجے میں وہ مسلسل سٹالن کے ہاتھوںمیں کھیلتا رہا۔سٹالن کوپارٹی کو تحکمانہ انداز میں چلانے کے لیے ٹراٹسکی ایسے ہی ایک شخص کی ضرورت تھی۔اگر ٹراٹسکی نہیں بھی ہوتاتو وہ ٹراٹسکی کو ایجاد کرلیتا۔اس مفہوم میں ٹراٹسکی سٹالن کی ایجاد تھا۔
رابرٹ سروس اس سلسلے میں تحریر کرتا ہے:
“ٹراٹسکی بہت سے معاملات میں غلط تھا۔سٹالن متوسط ذہنیت کاحامل نہیں تھا۔بلکہ وہ بہت سی متاثر کن صلاحیتوں اور فیصلہ کن قیادت کی صلاحیت کا بھی حامل تھا۔۔۔۔۔۔ٹراٹسکی کے نظریات اور عمل نے سٹالنسٹ سیاسی، معاشی،سماجی اور حتیٰ کہ ثقافتی محل کی تعمیر کے لیے ٹھوس بنیادیں مہیا کیں۔”(9)
رابرٹ سروس مزید ٹراٹسکی کے بارے میں تحریر کرتا ہے:
“ٹراٹسکی نے اپنی ذاتی اہمیت کو مبالغہ آمیزی سے بیان کیا۔1917ءسے پہلے اس کے نظریات کسی طور پر بھی طبع زاد اور وسیع نظریات کے قریب نہیں تھے،جیسا کہ وہ یقین کرتا ہے۔بالشویک انقلاب کی پیش قدمی میں اس کا حصہ اہم تھا۔ لیکن اس قدر بھی نہیں،جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے۔اگرچہ 1918ءتا1919ءمیں اس نے سرخ فوج کو منظم کیا۔لیکن اس میں اس نے غیر ضروری مسائل بھی پیدا کیے اور ناقابلِ نظرانداز غلطیاں بھی کیں۔
بعد کے سالوں میں وہ کمزور اور ناقابلِ اعتماد رہا۔اس میں سیاسی داﺅ پیچ کی صلاحیت نہیں تھی۔وہ ایک مغرور شخص تھاار حتیٰ کہ 1920ءتا1930ءکے دوران اپنی شخصی مخالفت کے زمانے میں بھی وہ اپنے پیروکاروں کی آنکھوںکو اپنی اہمیت کی چکاچوند سے خیرہ کرتا رہا۔لیکن وہ ان کو مکمل طور پر نہ تو قائل کرسکا اور نہ ہی ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی۔بلکہ وہ اپنی اناپسندی سے یہ کہتا رہا کہ اگر اس کے خیالات صاف زبان میں بیان کیے جاتے تو وہ اسے کامیابی سے ہم کنار کرتے۔وہ سیاستدان سے زیادہ بہتر ایک منتظم تھا۔۔۔۔۔۔۔
کچھ وقت کے لیے 1920ءکے اوایل میں ٹراٹسکی نے ایسا رویہ ظاہر کیا،جیسے کہ عوامی تشدد کرنے کے لیے کمیونسٹوں کے راستے میںکوئی بھی رکاوٹ نہیں ہے اگر وہ بہت زیادہ قوتِ فیصلہ، اتحاداور مستعدی کا مظاہرہ کریں۔لیکن پھر وہ آہستہ آہستہ محسوس کرنے لگا کہ یہ کوئی یوٹوپیا نہیں ہے۔اس کے باوجود بھی اس نے کبھی بھی اس غیرحقیقی خیالی ایجنڈے کو ترک نہیں کیا، جو اس نے خود کو اور پارٹی کو پیش کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔وہ ساری زندگی اس خواب کے لیے جیا،جسے اکثر لوگ خوف ناک خواب تصور کرتے ہیں۔
اس ساری بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹراٹسکی کا پارٹی اور اس کے انقلابی کردار کو کم تر سمجھنا، اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تھی۔وہ اپنی پوری جدوجہد کے دوران پارٹی کے بجائے روسی سماج کے طبقات کو اہمیت دیتا رہا اور اان کی نفسیات کا تجزیہ کرتا رہا،جو اس کے سماجیت پسندی کے رحجان کو ظاہر کرتا ہے۔اس نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاذ انقلابی تحریک سے باہر رہ کر کیا اور کسی بھی پارٹی کے نظم وضبط میں اس کی سیمابی طبیعت نہ ڈھل سکی۔اس لیے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم کے نظم و نسق کی پابندی تا دیر گوارہ نہ کرسکا۔
اگرچہ بالشویک انقلاب کے وقت وہ پارٹی میں شامل ہوا،جس کی وجہ سے وہ ایک رہنما اور فوج کے منتظم و منظم کے طور پر مشہور ہوا۔1920ءمیں وہ ایک ناکام حذبِ اختلاف رہنما ثابت ہوا۔1929ءمیں اسے روس بدر کردیا گیا۔اس نے ترکی،فرانس،ناروے اور میکسیکو میں سیاسی پناہ لی۔1936ءتا 1938ءاس پر سوویت یونین میں مختلف الزامات کی بناءپر مقدمات چلائے گئے اور آخرکار 1940ءمیں ایک نامعلوم شخص نے اس کے سر پر برف کے سوئے سے وار کر کے اسے ہلاک کردیا۔
ٹراٹسکی اپنی سیاسی شکست،جلاوطنی اور ناگہانی موت کے بعد ایک متھ بن گیا۔جلاوطنی کے دوران اس کی سیاسی سرگرمیاں اور سٹالن اور سوویت یونین پر اس کی تنقیدیں غیر موثر اور لاحاصل ثابت ہوئیں۔وہ ایک تصوراتی وافسانوی سیاسی تحریک کا غیرموثر رہنما ثابت ہوا۔جس وقت سٹالن کا پارٹی میں کوئی مخالف نہیں رہا تواس وقت ٹراٹسکی نے”Bulletin of The Opposition”کی اشاعت میں خود کو محو و مصروف رکھا۔
ٹراٹسکی کے نظریات طبع زاد نہیں تھے اور نہ ہی وہ کارل مارکس کی طرح طبعزاد فلسفی تھا اور نہ ہی وہ لینن کی طرح طبع زاد سیاست دان تھا۔اس نے خود کو طبع زاد مفکر اور سیاست دان کے طور پر بیان کیا ہے اور اس کے پیروکار ٹراٹسکائیت پسند بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں۔اس کے بارے میں اڈمنڈ ولسن تحریر کرتا ہے:
“ٹراٹسکی نہ مارکس کی طرح عظیم طبع زاد مفکر تھا اور نہ لینن کی طرح عظیم طبع زاد سیاست دان تھا۔” (10)
ٹراٹسکی نے چوتھی انٹرنیشنل کی تشکیل کی،جس میں کوئی سخت قسم کا لینن اسٹ پارٹی نظم وضبط نہیں تھا۔بلکہ اس میں بھی اس کی سماجیت پسندی کا رحجان غالب تھا۔وہ پارٹی کے بجائے مزدور طبقے کو ہی اہم تصور کرتا رہا۔جس کی وجہ سے چوتھی انٹرنیشنل میں شامل ٹراٹسکائیت پسند دانشور ہمیشہ رضاکارئیت سے آگے نہ بڑھ سکے ۔اس لیے چوتھی انٹرنیشنل کوئی سیاسی قوت ثابت نہیں ہوئی ۔ آخری عمر میں ٹراٹسکی کو یقین ہوگیا تھا کہ اس نے لینن کی پارٹی تشکیل کو کم تر سمجھ کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔لیکن پھر بھی اس نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا اور چوتھی انٹرنیشنل کو لاحاصل سماجیت پسندی اور رضا کاریت کی تنظیم میں تبدیل کردیا۔
زندگی کے آخری دنوں میں ٹراٹسکی نے شدت سے محسوس کرلیا تھا کہ وہ ان دانشوروں کی سنگت میں گھرا ہوا ہے،جن سے وہ ہمیشہ نفرت کیا کرتا تھا۔اس قسم کے بہت سے دانشور اس کی چوتھی انٹرنیشنل میں شامل تھے ۔خاص طور پر امریکہ کے برنہامز،ششمانزااور دیگر قابلِ ذکر ہیں۔ان دانشوروں کی وجہ سے ٹراٹسکی اکثر وبیشتر ہدفِ تنقید بنتا رہا۔ایسے دانشوروں کی سنگت ظاہر کرتی ہے کہ وہ سیاسی طور پر کتنا بالغ نظر تھا۔
ٹراٹسکی کے سماجیت پسند رحجان کے زیرِ اثر اس کے پیرو کار ٹراٹسکائیٹ پسند ٹیڈ گرانٹ مرحوم ،ایلن وڈ اور دیگر گزشتہ کئی سالوں سے برطانوی لیبر پارٹی کارضاکار دم چھلا بنے ہوئے ہیں۔اور کئی اور ٹراٹسکائیت پسند گروہ یورپ اور امریکہ میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں میںانٹرازم کے نام پر رضا کاریت کا شکار ہیں۔پاکستان میں پیپلز پارٹی میں ٹراٹسکائیوں کا ایک دھڑاگزشتہ 34 سالوں میں اس کی قیادت میں شامل سرمایہ داروں ،جاگیرداروں اورر وڈیروں کا رضا کار دم چھلا بن کر جاگیردار اور سرمایہ ریاست کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔ یہ سب گروہ تعداد کے اعتبار سے بھی چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں اور نظم و ضبط اورپارٹی نظریے سے عادی ہیں۔یہ آج تک برطانوی لیبر پارٹی اور دیگر سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں ،پاپولسٹ پارٹیوں (پیپلز پارٹی وغیرہ) کو بالشویک پارٹیوں میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں اور نہ کبھی ان کا ایسا پروگرام تھا اور نہ اب ہے۔
ٹراٹسکی کے نظریات نظری تھے عملی نہیں تھے۔ اس کے نظریات میں رومانویت پسندی اور تصوریت پسندی غالب حیثیت کے حامل ہیں اور مارکسزم میں رومانویت پسندی اور تصوریت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس کے سارے نظریات مستقل انقلاب کے نظریے کے گرد گھومتے ہیں،جن میں سماجیت پسندی کا رحجان غالب ہے۔یہی سماجیت پسندی کا رحجان ٹراٹسکی کو پارٹی نظم وضبط کی پابندی سے روکتا رہا اور اسے رضا کاریت (Voluntarism)کی طرف لے جاتا رہا۔
اسی رحجان کی وجہ سے ٹراٹسکی نے ہمیشہ غلطی پر غلطی کی اور پھر ان غلطیوں سے کبھی بھی سبق نہ سیکھا۔وہ مارکسزم اور لینن ازم سے نظریاتی و عملی طور پر اس قدر دور ہوتا چلا گیا کہ چوتھی انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم پر سٹالن اور سویت یونین پر اس کی تمام تنقید اور مخالفت کی حوصلہ افزئی عالمی سامراجی سرمایہ دارقوتیں کرتی رہیں ۔اس لحاظ سے اس نے اور اس کی چوتھی انٹرنیشنل نے عالمی سامراجی سرمایہ دار قوتوں کے ہاتھ مضبوط کیے۔اس نے نہ تو مارکسزم سے کچھ سیکھا نہ لینن کے نظریات اور سنگت سے اس نے کچھ حاصل کیا۔
         حوالہ جات

1.Issac Deutscher, The Prophet Armed, Trotsky: 1879-1921, Vol. 1, New York: Vintage Books, 1952, pp. 90-92
2.David Matters, The DSP’s Attempt to Dress Trotsky in Lenin’s Clothes: A Reply, Australia: 65 Campbell Street, Surry Hills. NSW, 2010, p. 27
3.Issac Deutscher, The Prophet Armed, p. 176
4.Leon Trotsky, Permanent Revolution, New York: Pathfinder Press,1976, P.29
-5اپنی سندھی زبان میں کتاب” آزادی جو فکر ”. (آزادی کی فکر)میں عاصم اخوندمرحوم ٹراٹسکی کے پارٹی نظریہ اور ٹراٹسکائیوںکی موجود حکمت ِعملی کے بارے میںتحریر کرتا ہے، جس کا اردو ترجمہ یہ ہے:
”    ٓٓٓٓآج کل کے ٹراٹسکائیوں کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ وہ اپنے ہر خیال کو لینن کے حوالے سے پیش کرتے ہیں ۔مثلاََان کی یہ رائے کہ پاپولسٹ پارٹیوںمیں ان کی مداخلت (enterism)لیننی اصول کے مطابق ہے۔جب کہ لینن کا کام کرنے کا طریقہ ِ کار مراحل پر مشتمل ہے ۔لینن ہر پاپولسٹ پارٹی میں کام کرنے کا قطعاََ حامی نہیں ہے۔ مثلاََ کسی ملک میں جماعت اسلامی عوام کی حمایت حاصل کرلے تو کیا لینن جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرے گا؟ لینن صرف ان تنظیموں میں عارضی طور پر کام کرنے کا حامی تھا،جن میں محنت کش طبقہ بطور محنت کش طبقے کی نمائندگی کی انقلابی جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہو۔ مثلاََ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے جدوجہد کررہی تھی۔اس کے سب دانشور اور رہنما مارکسی فکر سے مربوط تھے۔نہ کہ پیپلز پارٹی کی طرح جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور وڈیروں کے نام نہاد سوشلزم کے نعرے کے تحت تھے”(عاصم اخوند ،”آزادی جو فکر”،آدرش پبلیکیشنز حیدرآباد ، 2009ء،ص69)
اسی کتاب میںعاصم اخوند مزید تحریر کرتا ہے:
”   یہی نقطہِ نظر آج کل کے ٹراٹسکائیوںکی تحریروں میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ایلن وڈ،ٹیڈ گرانٹ اور ان کے یہاں موجود ساتھی لال خان الگ الگ ملکوں میں موجود محنت کشوں کے ابھرتے ہوئے سیاسی احتجاجوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان ملکوں میں انقلاب کے ابھرنے کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔کیوں کہ ان کی نظریاتی سوچ کے انداز میں محنت کشوں کی سیاسی پارٹیوں کی اہمیت کم مگر محنت کشوں کی خود رو تحریکوں کی اہمیت کچھ زیادہ ہے۔ اس لیے لال خان پاکستان میں ہر پانچویں سال انقلاب کی پیش گوئی کرتا رہتا ہے اور ہر پانچویں سال یہ دوست اپنے تجزیوں میں موضوعی قوت (subjective Force) کی عدمِ موجودگی اور پیپلز پارٹی کی غداریوں پر روتا رہتا ہے۔”(ایضاًص156 )
6.V. I. Lenin, Collected Works, Vol. 32, pp. 19-20
7. Leon Trotsky, The Transtional Program for Socialist Revolution, New York: Pathfinder Press, 1974, p.118
8.Leon Trotsky On The Suppressed Testament of Lenin, New York: Pathfinder Press, pp. 5-6
9.Issac Deutscher, The Prophet Unarmed, Trotsky: 1921-1929, Vol. 2 , New York: Vintage Books, 1959, p. 442
10. Robert Service, Trotsky: A Biography, London: Macmillan, 2009, p. 2
31.Ibid. p. 3
32.Edmund Wilson, To The Finland Station, Collins: Fontana Library, 1968, p. 432

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *