Home » شیرانی رلی (page 134)

شیرانی رلی

July, 2016

  • 5 July

    غزل ۔۔۔ ڈاکٹر وقار خان

    زیادہ سوچنے والے تجھے پتہ نہیں ہے جو تجھ کو سینے لگاتا ہے وہ ترا نہیں ہے وہاں پہ ہم بھی ہیں موجود ڈھونڈنے والی سو تیرے دل میں اکیلا ترا خدا نہیں ہے تمہیں پتہ ہے کہ تم کس لیے ہوئے ہو ذلیل ؟ تمہارے پاس کوئی اپنا نظریہ نہیں ہے ہیں بد دماغ مرے سارے دوست میری طرح ...

  • 5 July

    غزل ۔۔۔ شبیر نازش

    کم ترے ضبط کی قیمت نہیں کرنے والے ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے اپنے نزدیک محبت ہے عبادت کی طرح ہم عبادت کی تجارت نہیں کرنے والے یہ الگ بات کہ اظہار نہیں کر سکتے یہ نہ سمجھو کہ محبت نہیں کرنے والے کاٹ کر پھینک دے سر،چاہے سجا نیزے پر ہم ترے ہاتھ پہ بیعت نہیں ...

  • 5 July

    نظم ۔۔۔ شمامہ افق

    “بہت کٹھن ہے” وفا کے رستوں سے خار چننا یا خواب بْننا۔۔ بہار موسم میں ذرد پتوں کی دوستی میں وجود کی کونپلیں کھرچنا۔۔۔ نئے زمانے کی جرسیوں میں پرانی سردی سے لڑتے رہنا جلن چھپانا , ہنسی دکھانا۔۔۔ بہت کٹھن ہے۔۔ بہت کٹھن ہے ہواؤں کی سازشیں سمجھنا۔۔ مگر انہی سے ہی چوٹ کھانا۔۔ پرائی آنکھوں میں اپنے خوابوں ...

  • 5 July

    امر بیل ۔۔۔ کائنات آرزو

    عشق امر بیل کا ناتوان بدن ہے جو چاہے کتنے نازک کیوں نہ ہو بڑے سے بڑے درخت کو چٹ کر اس کا خون چوس کر اس کو ختم کردیتی ہے

  • 5 July

    لمحہ موجود کا کرب  ۔۔۔ شمائلہ حسین

    تیرگی کے لمحوں میں توڑنے جو آئے ہو تھا کبھی کہیں کوئی, سلسلہ محبت کا؟ خواب تھا تعلق کا, یا کسی تعلق کی ایک وجہ خواب تھا سلسلہ تھا خواہش کا لفظ اور معنی سا! ا مستقل سا رشتہ تھا پانیوں سے گہرا تھا روشنی کے پودے سا روح کو ضیاء دیتا اک عجیب بندھن تھا , بے وجہ طوالت ...

  • 5 July

    قطعہ ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں

    وہ کروفر کے مقابل ہمارے عجز میں بھی جو دیکھتے ہیں سدا آن بان ، چونکتے ہیں کبھی ، ہمارا گزر اُس طرف جو ہوتا ہے سگانِ کوچہ ءِ مال و منال بھونکتے ہیں

  • 5 July

    غزل ۔۔۔ مندوست بگٹی

    مناں مریض دلئے دوایاں تئی دستا حُذا دِے تھئی ء منی اشکُنت ۔ دُعا یاں تئی دستا اول نیا ختہ من دستا ، نہ آخری توشغ منی تہ بہریں من تُروٹاں ، نفع یا ں تئی دستا اے قوم دِ گوش کھایاں کُلیں ، تئی اومنی ٹھوکاں منی تہ دروغ انت دعویٰ، نوایاں تئی دستا تھرا تہ تُڑس ھچی نے ...

  • 5 July

    خالی جھونپڑی ۔۔۔ وصاف باسط

    بہنے لگتی ہے خنک رات کی سردی اندر جانے کیا سوچنے میں محو ہے یہ خاموشی چیختی رہتی ہیں چیخیں مری تنہائی میں خواب آنکھوں میں کہیں دور پڑے روتے ہیں اب دریچے سے کبھی چاند برستا ہی نہیں زیست تھک ہار کے لیٹی ہوئی مر جائے گی خاک چپ چاپ بکھر جائے گی اک دن مجھ میں جھونپڑی جو ...

  • 5 July

    غزل ۔۔۔ انجیل صحیفہ

    اپنی تنہائی کا احساس ڈراتا ہے مجھے ہاں مگر دور سے اک شخص بلاتا ہے مجھے جب یہ دنیا نہیں ہوتی میرے چاروں جانب نئی دنیا کے نئے رنگ دکھاتا ہے مجھے وہ میرا ہاتھ پکڑ لیتا ہے ہر مشکل میں ہر کٹھن راہ میں ٹھوکرسے بچاتا ہے مجھے پہلے یہ درد برستا ہے میری آنکھوں سے پھر یہی درد ...

  • 5 July

    غزل  ۔۔۔ شمامہ افق

    ہوا کا شور یہ بتلا رہا ہے ہماری سمت دریا آ رہا ہے مجھے وہ دیکھتا ہے جس نظر سے وہی اک زاویہ تڑپا رہا ہے ابابیلوں کی منقاروں میں کنکر ہمیں یہ خواب کیا سمجھا رہا ہے جو قسمت کی لکیروں میں نہیں ہے ہمارے زائچے بنوا رہا ہے یہ آئینہ بنانے والے ہم ہیں تو آئینہ کسے دکھلا ...