Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ شمامہ افق

غزل  ۔۔۔ شمامہ افق

ہوا کا شور یہ بتلا رہا ہے
ہماری سمت دریا آ رہا ہے

مجھے وہ دیکھتا ہے جس نظر سے
وہی اک زاویہ تڑپا رہا ہے

ابابیلوں کی منقاروں میں کنکر
ہمیں یہ خواب کیا سمجھا رہا ہے

جو قسمت کی لکیروں میں نہیں ہے
ہمارے زائچے بنوا رہا ہے

یہ آئینہ بنانے والے ہم ہیں
تو آئینہ کسے دکھلا رہا ہے

کوئی دریا کے اس جانب نہیں ہے
مگر اک ہاتھ سا لہرا رہا ہے

نمک کی کان ہیں اب میری آنکھیں
سمندر اک یہاں ٹھرا رہا ہے

یہ آنسو آنکھ سے پونچھو شمامہ
یہ پانی آگ کو بھڑکا رہا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *