Home » پوھوزانت » بلوچی دوچ کی کہانی۔۔۔شہناز شبیر

بلوچی دوچ کی کہانی۔۔۔شہناز شبیر

بلوچی دوچ “کڑھائی” کی ثقافت بنیاد سے ہی بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ پھل پھول رہی ہے۔

آج کی ماڈرن دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری نئی نسل دوسرے شہروں میں جا کر فیشن کے مطابق شاید ہی کبھی کبھی شلوار قمیص پہنتے ہوں، لیکن ہمارے جو پرانے لوگ تھے یا آج سے کچھ سال پہلے کی ہم بات کریں تو بلوچستان میں بلوچ قوم کے لوگ صرف بلوچی کپڑے ہی زیب تن کرتے تھے،لیکن ہماری نئی نسل شوقیہ طور پر دوسرے کپڑے بھی پہنتی ہے جیسے پینٹ، شرٹ، شلوار قمیص، جینز وغیرہ سب ہوتے ہیں،لیکن پھر بھی جو ہمارے رسم و رواج کے مواقع آتے ہیں یا کوئی فنکشن وغیرہ ہوتا ہے تو ہماری نئی نسل کے جوان اپنے خوبصورت دوچ والے بلوچی کپڑے زیب تن کرتے  ہیں اور اہمیت دیتے ہیں۔

مطلب کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے کی بلوچ قوم نے کسی بھی فنکشن میں اپنی ثقافت سے ہٹ کر کپڑے پہنے ہوں۔

بلوچستان میں جیسے نوشکی، دالبندین، ایرانی بلوچستان، یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بلوچ اپنے کپڑوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں،مستونگ، کلات، ڈیرا مراد جمالی، نوشکی، شمالی ایران، مغربی بلوچستان، ان سب جگہوں کی کڑھائی بھلے ہی ہمارے مکران کی کڑھائی سے مختلف ہو لیکن ان کی خوبصورتی اور ان کا انداز ان کی کڑھائی کا طرز بالکل ایک جیسا ہے، بس جو چیز ان میں مختلف ہے وہ یہ ہے کہ مکران کی کڑھائی” دوچ” میں چنے ہوئے سات رنگ ہوتے ہیں اور دوچ کو انہی سات رنگوں سے بنایا جاتا ہے جو کہ بہت ہی بہترین اور خوبصورت نظر آتا ہے۔ سب سے پہلے شونز یعنی سبز رنگ اس کے بعد زرد  سرخ سبز نیلا اسپیت سیاہ اس طرح ترتیب وار رنگوں کو دوچ میں استعمال کرتے ہیں جو کہ بہت ہی خوبصورت لگتے ہیں۔

باقی بلوچستان کے جو دوسرے علاقے ہیں وہ مختلف رنگ استعمال کرتے ہیں۔

بلوچی کڑھائی کو بطور جاب اگر ہم لیں تو ہماری بلوچ خواتین جو کہ کراہ کاری جسے ہم بلوچی میں کرایہ پر دوچ” کڑھائی ” کرنا  کہتے ہیں بلوچ خواتین اپنا پورا گھر اس کام سے چلاتی ہیں وہ ایک سوٹ کا کرایہ تیس ہزار سے آگے لاکھوں تک  کماتے لیتے ہیں۔مکران یا بلوچستان کے جو میتگ یا دیہات کے گاؤں ہوتے ہیں وہاں کمائی مردوں سے زیادہ عورتیں اسی کڑھائی کے ذریعے کرتی ہیں،جیسے کولواہ، آواران، گیشکور، پنجگور، اور باقی بلوچستان کی بہت سی جگہوں کی خواتین اپنے اس ہنر سے اپنا گھر چلاتی ہیں۔اور اپنے بچوں کو پڑھاتی ہیں،مکران کے ہی بہت سے علاقے نودز، ہوشاپ، سامی، کلگ، تمپ، مند، بالیچہ، دشت،اور بہت سے گاؤں جہاں مرد محنت مزدوری کر کے گھر چلاتے ہیں اور عورتیں اپنے ہاتھوں کی خوبصورت ہنر کو استعمال کر کے کراہ کاری کر کے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔جو کہ ڈاکٹر، لکچرر، انجینئر، اور بہت بڑے افسر بنتے ہیں، ایسی عورتیں بھی ہیں جو اپنے شوہروں تک کی پڑھائی میں سپورٹ کرتی ہیں جیسے وہ کمیشن، سی ایس ایس،پی سی ایس، وغیرہ کی تیاری کے لئے کراچی،اسلام آباد، اور کوئٹہ وغیرہ میں پڑھائی کر رہے ہیں، ان کو ان کی والدہ، بہن یا بیوی سپورٹ کر رہے ہیں، ایک بڑا حصہ عورتوں کی کمائی کا علاج معالجہ میں بھی کام آتا ہے وہ اس طرح کہ اگر ایک سوٹ وہ چالیس ہزار کا لیتے ہیں تو اس کا آدھا پیسہ وہ ایڈوانس میں مانگ کر اپنے یا گھر والوں کے علاج میں صرف کرتے ہیں

روچکی اس چیز کا نام ہے کہ کچھ خواتین مل کر ایک سوٹ کڑھائی کرتی ہیں۔اسی طرح اس کراہ کاری کے شعبے میں تین یا چار عورتیں مل کر ایک سوٹ لیتی ہیں اور اس کام کا طریقہ یہ ہے کہ صبح آٹھ سے شام پانچ تک وہ مسلسل یہ کام جاری رکھتی ہیں اور کھانا وغیرہ ان کا ایک اور عورت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس طرح ایک ہفتے یا دو ہفتوں میں وہ سوٹ تیار کر لیتی ہیں اور کرایہ کے پیسوں کو ایک حساب میں بانٹ دیتی ہیں۔

اور ایک عام جاب والے بندے سے یہ عورتیں زیادہ کماتی ہیں کیونکہ ایک سوٹ کا کرایہ تیس ہزار سے لاکھوں تک ہوتا ہے یعنی گھر بیٹھے یہ اپنا جاب کرتی ہیں۔

وہ اپنے ہاتھوں کے اس کام میں اس قدر ماہر ہوتی ہیں کہ ہر ہفتے ایک نیا “دوچ ” ڈیزائن کرتی ہیں یعنی یہ گھر یلو ڈیزائنرز بھی ہوتے ہیں،اور اس طرح وہ دوچ مشہور ہو جاتا ہے اور راتوں رات انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے اور اس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے، اور ہر علاقے میں ان کے نام مختلف ہوتے ہیں، لیکن کچھ دوچ ایسے ہیں جو شروع سے آج تک اپنے ایک ہی نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں جیسے کانٹک، کش، چیلکو، تناب، جالر، کپوک، مرگ پانچ، بہارو، گڑابند،مرگو پانچ۔اگر ہم اس دوچ کا نام لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی سمبل ہے  اس وقت لوگ ان کو اپنی بات اپنے خیالات کے اظہار کے طور پر استعمال کرتے ہونگے لیکن اس چیز پر کبھی تحقیق نہیں کی گئی ہے۔ اگر تحقیق ہوتی تو ضرور معلوم ہو جاتا کہ یہ بلوچی دوچ جو اتنے خوبصورت اور خاص ہیں ان کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور تھا۔جیسے کہ چائنا کی زبان کو اسی طرح سمبل اور پھر ان کا رسم الخط بن گیا اسی طرح بلوچی دوچ بھی شاید یا واقعی سمبل تھے لیکن پھر ان کو رسم الخط کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہوگا،

جو دوچ ہماری ہنر مند عورتیں ڈیزائن کرتی ہیں تو اس کے بعد اس دوچ کو مارکیٹ میں ٹپہ کی صورت میں متعارف کیا جاتا ہے کیونکہ وقت کی ضرورت بھی اب بن گئی ہے کہ ٹپہ کی صورت میں مشین سے بھی اب کچھ دوچ ٹپہ لگا کر بنائے جاتے ہیں اور ٹپہ لگانے سے وہ عورتیں جن کو یہ کام آسانی سے نہیں آتا وہ بھی آسانی سے بنا سکتی ہیں۔ایک خوبصورتی ہماری بلوچی دوچ کی یہ ہے کہ یہ کپڑے کے تاروں کو نکال کر بنائی جاتی ہے جو کہ بہت ہی باریک اور دل کو لبھاتی ہے، لیکن ٹپہ سے اب تار بھی نکالنے کا جھنجھٹ ختم ہو گیا ہے اور کم وقت میں زیادہ کمائی بھی ہو جاتی ہے۔

لیکن بلوچ عورت کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ بغیر ٹپہ کے بھی آسانی سے یہ کڑھائی “دوچ ” بنا سکتی ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *