Home » پوھوزانت » حاجی گل محمد شیرانی۔۔۔عبدالغفار شیرانی

حاجی گل محمد شیرانی۔۔۔عبدالغفار شیرانی

شاہراہِ حیات پر ہر شخص اپنے قبیلے کے لئے مثلِ قندیل بننا چاہتا ہے۔مگر حقیقت میں بہت کم شخصیات اپنے علاقے کے لئے مشعلِ راہ بن پاتے ہیں۔ ریاست قدیم ہو یا جدید، نسلیت و لسانیت کے رسم و رواج ہر سماج میں عروج پر ہیں۔ یہاں ہر فرد صرف اپنے قبیلے کو مقدس سمجھتا ہے، بالکل اپنے قبلے کی مانند۔ اکثر پورا قبیلہ ہم قبلہ بھی ہوتا ہے۔ اپنے ہم قبلہ قبیلے میں مقبولیت کے لئے تمام قبائل کی قبولیت بھی ضروری ہے اور قبائلی امور میں قابلیت بھی۔ فیروزہ جواہرات کے قبیلے کا نرینہ نگینہ ہے۔ حاجی گل محمد عرف گلک شیرانی اپنے قبیلے فیروزئی میں مثلِ فیروزہ تھے۔

ملا مقام فیروزئی کے نواسے، اعظمو معروف زئی کے پوتے، طاہر شاہ عرف ملا بھاگو کے بھتیجے، سلیمان شاہ عرف شینک کے لختِ جگر، در محمد اور سردار محمد کے چچا زاد، پائی محمد، اختر محمد اور نور محمد کے برادرِ کبیر، فضل محمد عرف فاضل، محمد یار، شاہ جہان اور محمد وکیل کے والدِ بزرگوار۔ موسمِ گل جیسے باوقار، باسلیقہ، بارعب اور بارونق، اسمِ گرامی حاجی گل محمد، عرف حاجی گلک، درزئی کی شاخ فیروزئی سے تعلق، لایعنی امور سے یکسر لاتعلق، تعلقات میں ہمدرد و مشفِق، شفق سے بلند مہرِ درخشاں در اْفق.

قومی شناختی کارڈ پر آپ کی تاریخِ پیدائش 1926 درج ہے، تاہم ان کی زبانی سماعت شدہ حالات و واقعات اور آثار و قرائن کی بنیاد پر غالب گمان یہی ہے کہ آپ اس سے بھی کافی قبل جنم لے چکے تھے۔ آپ نے انتہائی پسماندہ دیہاتی ماحول میں اخلاق و اقدار اور تہذیب و روایات کا پرچم بلند کئے رکھا۔ دورِ شباب سے ہی فلاحت کو آپ معاشی استحکام اور معاشرتی فلاح و بہبود کا سبب سمجھتے تھے۔ باغبانی سے آپ کو فطری لگاؤ اور زراعت سے خصوصی رغبت تھی۔ کافی عرصہ تجارت کی۔ دورانِ تجارت سیر و تفریح اور سیاحت بھی کی۔ تھوڑی بہت سائیں کے سنگ سیاست بھی، مگر ذریعہ معاش اول و آخر اپنی محنت کو ہی بنایا۔

مقدس مقامات کے دیدار کا شرف ان کی سب سے بڑی دلی تمنا تھی۔ پہلی بار اس سعادتِ عظیم کے حصول کو ان کے برادرِ صغیر حاجی نور محمد کی معاونت نے جبکہ دوسری دفعہ ان کے فرزندِ کبیر حاجی فاضل کی اعانت نے ممکن بنا دیا۔ 1974میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ اپنا اولین سفرِ حج کیا۔ دسمبر1998میں دوبارہ دو ہفتوں کے لئے بغرض عمرہ سعودی عرب جانے کی سعادت حاصل کی۔ مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کو وہ تا دمِ آخر اپنی زندگی کی سب سے عظیم سعادت سمجھتے رہے۔

جولائی 2002کو انہوں نے چار ماہ لگا کر تبلیغی جماعت کے ساتھ اپنی رفاقت پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔ علاقے کی تمام لوگوں کی بلا تفریق خدمت ان کا شیوہ جبکہ ہر فرد سے کامل تعاون و معاونت ان کے تمام تعلقات کا شیرہ تھا۔ آپ ہمہ وقت عبادات میں مشغول رہتے۔ نوافل و اذکار آپ کی روزمرہ معمولات کا مستقل حصہ تھے۔

آپ صاحبِ کمال نہیں بلکہ مجموعہ کمالات تھے۔ اپنے دور کی اکثر باکمال علاقائی شخصیات سے انتہائی قریبی اور مستحکم تعلقات تھے۔ سائیں کمال خان ہیزئی، حاجی کمال خان درزئی اور مولوی کمال الدین عیسب زئی تینوں باکمال شخصیات آپ کے رازداں دوست تھے۔ گلا خان اسماعیل زئی ہوں، گلا خان کرمیزئی یا کلا خان عیسب زئی، آپ ان سب کے معتمدِ خاص تھے اور یہ سب آپ کے خصوصی معتقد۔ اپنے سے عمر میں دوگنے حاجی بدر الدین بھی ان کے رفیقِ راز تھے، اپنے ہم عمر ملا کمال الدین بھی اور اپنے چھوٹے بیٹوں کے ہم عمر حاجی جمال الدین بھی.

اپنے معاصر میں دلیل شیخ، اسلام خان اور قیمت خان آپ کے حقیقی آشنا اور آپ کی قدر و قیمت کے حقیقی شناسا تھے۔ محمد زمان شیخ، عبداللہ خان کرمیزئی اور بدر الدین شموزئی آپ کے پھوپی زاد تھے۔ تینوں سے انتہائی مستحکم ضوابط کی بنیاد پر انتہائی مضبوط روابط تھے۔ شینک کے سرخیل کی حیثیت سے آپ نے زرین خیل میں شین کہول کی تین نسلوں کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھا. فرزندانِ تیمور شاہ آپ کے بھانجے تھے جبکہ ملک اخلاص، ان کے فرزند ملک عبدالمنان اور پوتے ملک فضل الرحمن سے تین نسلوں پر محیط مبنی بر اخلاص تعلق تھا.

ثقافت کے پابند، سماجی اقدار سے آشنا، قبائلی رسوم سے واقف اور تاریخی روایات کے پاسدار تھے۔ رات کو جلد بلکہ بہت جلد سونے کی عادت تھی۔ بیداری کا یہ عالم کہ نیند میں پہلی آواز پر چوکنے ہوکر بیٹھ جاتے۔ صبح لوگ نمازِ فجر کے لئے اٹھ رہے ہوتے تو آپ تہجد پڑھ کر شروعاتِ یوم کی چائے بھی پی چکے ہوتے۔ طعام میں مالیدہ آپ کی پسندیدہ تھی۔ جوانی میں کبھی کبھار بخار چڑھ جاتا تو خالص دودھ اور دیسی گھی کو ملا کر خوب تپشِ آتش کے بعد نوشِ جان فرماتے۔ آپ کی دوا یہی تھی۔ علاج میں ہمیشہ مقامی نسخوں، دیسی دواؤں اور یونانی طب کو ترجیح دیتے تھے۔

حق گو تھے اور صلح جو بھی، جن شخصیات سے اختلاف ہوتا، ان کا نام بھی مکمل ادب و احترام سے لیتے۔ جن شخصیات کی صلاحیتوں کے معترف تھے، ان سے بھی برملا اختلاف کی جرات رکھتے تھے۔ کسی کا حق کھانے کو جائز سمجھتے تھے نہ کسی کو اپنا حق کھانے کی اجازت دیتے تھے۔ آپ کے گفتار میں صداقت کی تکرار کے ساتھ آپ کے کردار کی للکار بھی شامل ہوتی۔ آپ سے ملنے والا ہر شخص یہی سمجھتا کہ ان کی شفقت کی خصوصیت تنہا میرے پاس ہے، مگر وہ جس سے بھی اور جتنی بار بھی ملتے، خلوص و اپنائیت سے ملتے۔ پرخلوص محبت آپ کی عادت بن گئی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بڑی حد تک جزِ فطرت۔

آپ کی زندگی میں آخر دم تک تازگی تھی۔ سنجیدگی اس حد تک کہ بعض معاملات میں بظاہر درشتگی تک پہنچ جاتی، اس درشتگی میں بھی مگر رنجیدگی کا شائبہ دور دور تک نظر نہ آتا۔ کبھی کبھار خاطر میں کبیدگی محسوس ہوتی تو وہ بھی حالات کی درستگی کی خاطر۔ زندگی بھر ان کے ناز میں نصیحت اور انداز میں اپنائیت رہی۔ گفتگو ہمیشہ سادہ، سادگی پر آخر دم تک آمادہ اور آمادگی ہر وقت بسوئے استفادہ رہی۔ آپ کی طنز میں شائستگی اور مزاح میں لطافت کی آمیزش ہوتی تھی۔ آپ ملامت میں بھی ملائمت کا خیال رکھتے تھے۔

پشتو زبان میں گلک گْل کی تصغیر ہے اور گْل سے مراد پھول ہے، حاجی گلک مگر گلْ نہیں گل کدہ تھے۔ جس قبائلی سماج میں آج بھی مہمان کی آمد پر انہیں گْل دان نہیں اْگال دان پیش کئے جاتے ہیں۔ وہاں آپ نے گْلوں کی آبیاری اور گل دستوں کی تیاری کا فریضہ سرانجام دیا۔ اردو میں گلک تجوری کو کہتے ہیں۔ حاجی گلک ہماری شاندار ماضی کی تجوری تھی۔ صداقت، شرافت اور دیانت سے لبریز تجوری، جس میں امن کے سکے اور امانت کی اشرفیاں بھی جمع تھیں۔ جو کرنسی ان کے ٹکسال میں ڈھل کر آتی، اس پر گردشِ ماہ و سال کا اثر ہوتا نہ عْسر کے نشیب اور عَصر کے فراز کا۔

آپ دلاور، سخن ور اور قد آور تھے۔ آپ کی سخاوت مثلِ گل نار، عمل مانند گل بار، سخاوت میں مجتہد، ہر وقت مستعد، ہر ایک کے معتمد، دیندار، دیانتدار، تقویٰ دار، پرہیزگار اور عبادت گزار۔ آپ نے فرسودہ رسومات کے ماحول میں مقیم اپنے قرابت داروں کو امن کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ دل کے قریب لوگوں کو کھبی کھبار شہد میں ملفوف شفقت آمیز ڈانٹ سے بھی نوازتے. اس ڈانٹ میں مگر اپنائیت کی جھلک عیاں اور محبت کی مٹھاس نمایاں ہوتی۔ زبان و بیان پر آپ کو عبور حاصل تھا. ارادوں کے مضبوط اور وعدوں کے پکے تھے۔دیانتداری اور دینداری کو آپ لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔

آپ کا ہر ہم نشین جمیل اور ہر جملہ دل نشین ہوتا تھا۔ اپنی مادری لغت کے ماہر جبکہ مدر پدر آزاد ہر لغویت سے کوسوں دور تھے۔ تکلم انتہائی بے تکلف، گفتگو نہایت بے باک، رائے انتہائی بے لاگ اور سوچ بے حد آزاد تھی۔ زبان کے پکے تھے اور بس ایک ہی زبان ان کو آتی تھی پشتو، جبکہ پشتو لغت میں لفظِ پشتو غیرت کا مترادف ہے۔ آپ الفاظ کی حرمت کے قائل، سخاوت کے پتلے اور غیرت کے پیکر تھے۔ آپ سیاسی تھے اور نہ ولی مگر پشتون ولی میں آپ ولایت سے بھی ایک قدم آگے آفاق کے افق پر ایستادہ تھے. قد ان کا پانچ فٹ چھ انچ مگر کردار کے لحاظ سے مثلِ کہسار اور مانندِ بہار بلکہ سدا بہار.

حاجی گلک پشتو زبان میں غیرت و مردانگی کے عناصر اربعہ کا تذکرہ کرتے تھے۔ ان چاروں عناصر کو بلاشبہ پشتون ولی کی خمیر و بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ بقول آپ کے جس شخص میں ایمان، دیوان، میدان اور دسترخوان کی چار صفات میں سے ایک بھی علامت پائی جاتی ہے، اس میں کسی نہ کسی درجے میں مردانگی موجود ہے۔ آپ کی لغت میں ایمان سے مراد دین داری، دیوان سے مراد خوش گفتاری، میدان سے مراد بہادری اور دسترخوان سے مراد مہمان داری تھی۔ سچ یہ ہے کہ آپ ان تمام صفات کے حامل تھے۔ ان چار صفات کی موجودگی نے آپ کی زندگی اور شخصیت کو چار چاند لگا رکھے تھے۔

آپ خواندہ نہ ہونے کے باجود انتہائی سنجیدہ و فہمیدہ اور جہاندیدہ شخص تھے۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے، مجھے بیلوں کی پہچان ہے اور مَردوں کی بھی۔ آپ کسی کے پیر تھے نہ مرید مگر تمام جائز مرادوں کی تکمیل میں آپ ہر ایک کے معاون و مددگار ہوتے۔ انتہائی مہذب اور انسان دوست روایات کے علمبردار انسان تھے۔ خود دار اتنے کہ کسی سردار کو خاطر میں لاتے تھے نہ رعونتِ سرکار کو۔ آپ کے تعلقات صرف شیرانیوں تک محدود نہیں تھے۔ کوئٹہ کے ڈاکٹر شاہ محمد مری ہوں یا سلیازئی کے سائیں کمال خان شیرانی، وزیرستان کے سرور سرکی خیل ہوں یاڑوب کے حاجی غلام مندوخیل، آپ ان سب کے دلدادہ تھے اور یہ تمام آپ کے گرویدہ۔

آپ کے پاس عِلم نہیں تھا تاہم آپ نے افلاس کے ماحول میں بھی اخلاص کا عَلم تھامے رکھا۔ نماز باجماعت، تبلیغی جماعت، سائیں کمال خان اور ان کی جماعت، علمائے اسلام اور جمعیۃ علماء اسلام کا انہوں نے ہمیشہ خیال رکھا۔ یہ خیال اپنے اس خواب کی تعبیر کے لئے تھا جس میں ان سے منسلک علاقائی نسبت اور قبائلی اجتماعیت کے ہر فرد کا مستقبل وابستہ تھا۔ ان میں سے بعض کے باہمی تضادات کو آپ نے اپنے حلقہ ارادت کے لئے مترادفات بنا دیا تھا۔ احساسات میں اعتدال کا مطلب جذبات سے عاری ہونا ہرگز نہیں۔ آپ کا سینہ آپ کے منفی جذبات کا مقتل اور اسی قبیل کے تمام احساسات کا مدفن تھا۔

آپ مہمانوں کو خدا کی رحمت کہتے تھے۔ رحمت کی آمد پر سر تا پا مجسم خدمت بن جاتے۔ والدی مکرم راوی ہیں۔ ایک دفعہ تین چار دن مہمانوں کی آمد نہیں ہوئی۔ عصر کو مسجد میں تینوں بھائی تشریف فرما تھے۔ یکایک برادرِ کبیر اٹھے۔ اِدھر اْدھر نگاہ ڈالی۔ دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ آپ یاس و افسوس کی ملی جلی کیفیات میں گویا ہوئے۔ اللہ رحم کرے، تین دن ہونے کو ہیں مگر کوئی مہمان وارد نہیں ہوا ہے، کہیں کوئی عذاب تو نازل ہونے والا نہیں۔ ان کو قریب سے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کوئی ریاکاری یا لفظی مینا کاری نہیں تھی، دردِ دل تھا، دردِ دل۔

ایک دفعہ کچھ مہمان وارد ہوئے۔ ان کی خاطر تواضع کے لئے بکری ذبح ہوئی۔ گوشت تیار کرکے مہمانوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ مہمان کھانے میں تکلف سے کام لے رہے تھے۔ میزبان نے بار بار کھانے کی ترغیب دی۔ مہمان مگر پھر بھی کھانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔ میزبان کے جوانی کے ایام تھے۔ جوش میں قسم کھائی کہ جتنی گوشت ممکن ہے تناول فرمالیں، جو گوشت بچے گا وہ سامنے موجود کتا کھائے گا۔ مہمان قسم کو شاید مذاق سمجھے۔ تھوڑا بہت کھا لیا البتہ تکلف برقرار رکھی۔ میزبان نے گوشت کی تھالی اٹھائی کتے کو آواز دی اور پھر اس بقیہ گوشت سے کتے نے اپنے پیٹ پوجا کا بندوبست کیا۔ مہمان بھی مہا لوگ تھے، میزبان مگر حاجی گلک تھے۔

ایک دفعہ گھر میں چار پانچ مہمان وارد ہوئے، روٹی مگر صرف ایک تھی اور وہ بھی جَو کی۔ گھر کا کل سرمایہ یہی تھا۔ مہمانوں میں سے بعض اپنے لئے غلے کی تلاش میں تھے۔ آپ کی والدہ جو بیوہ بھی تھیں، ان سے عرض کیا روٹی کو چورہ کرکے خوب دودھ اور پھر دیسی گھی ڈال دیں۔ جَو کی روٹی، خالص دودھ اور دیسی گھی کے ملاپ سے تیار شدہ روٹی کے چند نوالوں سے ہی مہمانوں کے معدے سیر ہوگئے۔ ایک وقت کی ضیافت ہوگئی۔ مہمانوں کو ساتھ لے کر جو کے تیار فصل کی صفائی شروع کی۔ اگلے دن کے لئے نہ صرف اپنے کھانے کا بندوبست اْس سے کیا بلکہ مہمانوں کو بھی اسی سے غلہ فراہم کیا۔

آپ خود مختاری کے لئے خود داری کو انتہائی لازمی اور خود انحصاری کو بے حد ضروری سمجھتے تھے۔ آپ بیش تر کہا کرتے تھے کہ عادات نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ رشتوں اور تعلق میں آپ اکثر ارد گرد کے ماحول کو مدِ نظر رکھتے تھے۔ اعصاب کی مضبوطی اور نفسیات پر عبور نے آپ کو انسانی عادات سے متعلق لاتعداد تجربات سے مالا مال کردیا تھا۔ آپ خاندانی شرافت و نجابت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا کرتے تھے۔ ایک پشتو ضرب المثل آپ بکثرت دہرایا کرتے تھے کہ شاہین کا بچہ شاہین بنتا ہے اور اْلو کا بچہ اْلو، جو کا بیج بونے والے گندم حاصل نہیں کرسکتے۔ بجا کہا ہے کند ہم جنس با ہم جنس پرواز. کبوتر با کبوتر، باز با باز

آپ اپنے دور میں علاقے کے معروف ترین شکاری اور ماہر نشانہ باز کے طور پر مشہور تھے۔ شکار آپ کا ذاتی شوق بھی تھا، گھر کی ضرورت بھی، اس عہد کی واحد عیاشی بھی اور اس دور کے لحاظ سے مجبوری بھی۔ ایک عمدہ شکاری نہ صرف جسمانی قوت، مضبوط ذہانت، قوتِ فیصلہ، اعلیٰ مہارت اور تیز بصارت کا حامل ہوتا ہے بلکہ وہ وقت کی قدر و اہمیت سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ جنگلی حیات کے معمولات پر آپ کو دسترس اور انسانی نفسیات کے معاملات میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کی شخصیت پرکشش، فطرت پرجوش اور طبیعت میں مقناطیسیت تھی.

تعلقات کی تعمیر اعتماد پر ہوتی ہے۔ معاشرے میں سے بہت سے لوگ اپنے تخریب شدہ تعلقات کا ملبہ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ آپ تعلق بنانا اور تعلقات نبھانا دونوں بخوبی جانتے تھے۔ اپنی حیات میں پیش آمدہ ہر افتاد سے آپ نے باقی ماندہ زندگی کے لئے استفادہ کیا۔ چوبیس نومبر 2009کو آپ کے لائق و فائق لختِ جگر  حاجی فضل محمد عرف فاضل اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ یہ صدمہ آپ کے لئے زندگی کے جانکاہ حادثات میں سے ایک تھا۔ اپنے فرزند کی رحلت نے گویا آپ کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد آپ صرف نو ماہ بیس دن ہی مزید جی سکے۔

ستمبر ان کے متعلقین کے لئے ستمگر ثابت ہوا۔ چودہ ستمبر 2010بروز منگل بمطابق ۵ شوال المکرم جبکہ عیدالفطر کو گزرے دو دن ہوئے تھے، آپ شہر کے ایک مشہور ماہرِ چشم سے اپنی آنکھوں کا علاج کرانے ژوب تشریف لے گئے۔ نمازِ فجر باجماعت ادا کی۔ مسجد سے نکلے تو سینے میں درد کا احساس ہوا۔ مقامی میزبان کے گھر کی دہلیز تک پہنچے تو نقاہت طاری ہوئی۔ حاضرین سے باآواز بلند سورۃ یاسین کے تلاوت کی گزارش کی۔ تلاوت کی صداؤں میں جہر سے کلمہ توحید پڑھتے ہوئے اپنی روح جان آفرین کے سپرد کردی۔ آپ نے درویشانہ زندگی گزاری اور مردانہ وار موت کو گلے لگایا.

معروف قوم پرور رہبر اور مشہور سیاسی دانشور سائیں کمال خان شیرانی اور حاجی گل محمد کو ایک دوسرے سے قلبی محبت تھی۔ یہ باہمی محبت و رفاقت قیسہ غر سے بلند اور شین غر سے مضبوط تھی۔ دونوں خلوت و جلوت کے آشنایانِ راز تھے. سائیں کمال خان حاجی گلک کو شیرانیوں میں اپنا حقیقی کامریڈ قرار دیتے تھے۔ اپنے سچے کامریڈ کی رحلت کو سائیں نے قدرت کی جانب سے اپنی موت کا پیغام قرار دیا تھا۔ اور ہوا بھی یہی کہ آپ کی رحلت کے صرف ایک ماہ بیس یوم بعد 5نومبر 2010کو سائیں کمال خان شیرانی بھی رختِ سفر باندھ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے.

ایک ناخواندہ دیہاتی کے لئے سائیں سے حقیقی کامریڈ کا خطاب پانا کوئی عام بات نہیں۔ اس خطاب کے پسِ منظر میں وفاداری، رواداری اور بردباری کے ساتھ ظالم کے خلاف مزاحمت کا اقرار اور مظلوم کی مذمت سے انکار سبھی شامل تھے۔ حاجی گلک ایک حقیقت پسند، راست باز، انسان دوست اور خدا پرست کامریڈ تھے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *