Home » شیرانی رلی » نئی پیدائش ۔۔۔ فروغِ فرخ زاد / ازہر ندیم

نئی پیدائش ۔۔۔ فروغِ فرخ زاد / ازہر ندیم

مرا تمام تر وجود ایک اداس مصرع ہے

جو تمہیں سحر ہونے تک دہراتا رہتا ہے

ایک ایسا پھول جو تازگی سمیت پھیلتا جاتا ہے

میں نے ایک آہ بھر کر تمہیں نظم میں ڈھال لیا

اور پانی، آگ اور درختوں میں پیوند کر دیا

 

شاید زندگی اک طویل راستہ ہے

جسے ایک عورت کئی بوجھ اٹھائے روز طے کرتی ہے

شاید زندگی ایک رسی ہے

ایک مرد درخت پر ڈال کر جس سے پھندہ لے لیتا ہے

یا کوئی بچہ ہے جو سکول سے واپس آرہا ہے

 

ممکن ہے زندگی سگریٹ سلگانے کے عمل کا نام ہو

محبت کرنے کے بے توجہ وقفوں کے دوران

یا کسی راہگیر کا محض خالی پن سے دیکھنا

اور اپنا ہیٹ اتار کر صبح بخیر کہہ دینا

ایک بے معنی مسکراہٹ کے ساتھ

 

شاید زندگی ایک گْھٹا ہوا لمحہ ہے

جب مری نظریں

تمہاری آنکھوں کی پتلیوں میں فنا ہو جاتی ہیں

میں اس احساس کو چاند پکڑنے اور تیرگی کو سمجھنے کے ساتھ ملا کر دیکھوں گی

 

ایک کمرہ جہاں تنہائی کا حجم

میرے دل میں موجود محبت کے حجم جتنا ہے

زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بہانے ڈھونڈتی ہے

کہ ایک خوبصورت گلدان میں مرجھاتے ہوئے  پھول کیسے ہوتے ہیں

وہ شاخ    جو تم نے ہمارے باغ میں اگائی تھی

اور بلبل کا نغمہ۔۔۔۔۔۔۔۔کھڑکی کی وسعت

 

مرے دکھوں کا یہی اثاثہ ہے

یہی اثاثہ

جو ایک آسمان پر مشتمل ہے جسے غائب کیا جا سکتا ہے

صرف ایک پردہ گرا دینے سے

مرے اثاثے میں نیچے کو جاتا ہوا ایک اداس تنہا زینہ ہے

جہاں کوئی چیز اپنی جلا وطنی میں گل سڑ اور بکھر رہی ہے

مرا اثاثہ یادوں کے جھنڈ میں ایک چہل قدمی ہے

اور ایک خواہش اس آواز کی

جو کہتی ہو مجھے تمہارے ہاتھوں سے پیار ہے

میں اپنے ہاتھ باغ کی مٹی میں بو دیتی ہوں

مجھے معلوم ہے

مری ہتھیلیوں کے روشنائی زدہ خالی پن میں

ابابیلیں اپنے گھونسلے بنائیں گی

 

میں اپنے کانوں میں چیری کی شاخیں سجا?ں گی

اپنے ناخنوں پر ڈالیا کی پتیوں کو پہنوں گی

اس گلی کی یاد میں جہاں مجھ سے محبت کرنے والے لڑکے

اپنے بکھرے بالوں،پتلی گردنوں اور منحنی ٹانگوں کے ساتھ موجود ہیں

ایک لڑکی کی مسکراہٹ میں گم

جسے ایک رات ہوا اڑا کر لے گئی

 

ایک گلی ہے جو میرے دل نے چرا کر خود میں رکھ لی ہے

میرے بچپن کے راستوں سے

ایک جسم وقت کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے

جو اس کی بانجھ رو کو سر سبز کر دیتا ہے

اور آئینے کا لطف بڑھانے آجاتا ہے

اپنے عکس کی قربت میں سرشار

اس طرح ایک مر جاتا ہے اور دوسرا زندہ رہتا ہے

 

کسی متلاشی کو اس ندی کے موتی نہیں ملیں گے

جو کھائی میں جا گرتی ہے

میں ایک ایسی اداس پری کو جانتی ہوں

جو سمندر میں رہتی ہے

اور لکڑی کی بانسری پر مدھر گیت سناتی ہے

بہت مدھرتا سے

ایک اداس چھوٹی سی پری جو رات کو ایک بوسے سے مر جاتی ہے

اور سحر دم ایک بوسے سے پھر پیدا ہو جاتی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *