Home » پوھوزانت » مرزا ابراہیم ۔۔۔ احمد علی شاہ مشال

مرزا ابراہیم ۔۔۔ احمد علی شاہ مشال

مرزا محمد ابراہیم کا شْمار برِصغیر میں مزدوْر تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنی ساری زندگی ریلوے مزدوروں کی تحریک میں گزاردی۔

مرزا محمد ابراہیم 1905 میں جہلم کے قریب کالا گجراں میں پیدا ہوا۔والد مرزا عبداللّٰہ بیگ ایک چھوٹا اور بے زمین کسان تھا۔ اس کابڑا بھائی مرزا اللّٰہ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار ”روشنی“ نکالتا تھا۔ مرزا محمد ابراہیم نے جوانی میں قدم رکھتے ہی 1920میں خلافت تحریک میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ اس نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا۔ بعد میں مزدور کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ بعد ازاں وہ 1926ء   میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوگیا۔ 1920 میں محکمہ ریلوے میں یونین بن چکی تھی۔ 1930 میں اس کا تبادلہ جہلم ورکشاپ سے لاہور مغلپورہ پاور ہاؤس میں ہوگیا۔ جہاں اس نے 1931 میں یونین میں حصہ لینا شروع کردیا۔اس وقت ریلوے میں این ڈبلیو آر یونین مضبوط تھی جس کا صدر ایک انگریز جے بی ملر تھے جبکہ جنرل سیکرٹری ایم اے خان تھا۔ مرزا صاحب مغلپورہ کا صدر مقرر ہوا۔ 1930 میں برطانیہ میں صنعتی بحران آیا ہوا تھا اس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی پڑا۔ یہاں کے کارخانے بند ہونے لگے‘ ریلوے مزدوروں کی بھی چھانٹیاں ہونے لگیں۔ ان اقدامات کے خلاف مرزا ابراہیم کی قیادت میں مزدوروں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ 1917 میں روس میں انقلاب آگیا جس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی ہوا۔جب کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑی تو اس کا پہلا جنرل سیکرٹری پورن چندر جوشی تھا۔ اسی دوران مرزا ابراہیم کا رابطہ ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا اور وہ 1935 میں باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لیبرونگ کا انچارج بن گیا۔ اسی زمانے میں ”ریلوے مین فیڈریشن“ کی بنیاد پڑی جس کا مرکزی سینئر نائب صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوا جبکہ صدر وی وی گری منتخب ہوا جو بعد میں بھارت میں صدر بھی رہا۔ جنرل سیکرٹری ایس اے ڈانگے بنا۔ تقسیم سے ایک سال قبل یکم مئی 1946 کو ہندوستان بھر میں ریلوے کے مزدوروں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چھانٹیوں کے خلاف مکمل ہڑتال کردی جس کی قیادت مرزا محمد ابراہیم کررہا تھا۔ تقسیم کے فوری بعد مرزا ابراہیم کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ پاکستان کا پہلا سیاسی قیدی بنا۔ آزاد پاکستان میں یہ اس کی پہلی گرفتاری تھی۔ بعد میں وہ 17 مرتبہ جیل گیا‘ 6 مرتبہ قلعہ لاہور میں نظر بند رہا۔ پاکستان میں جب وہ 1951میں جیل میں تھے توحکومت نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا اعلان کردیا۔ مرزا صاحب کو جیل سے کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی طرف سے امیدوار نامزد کردیا گیا۔ اس کے مقابلے میں برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ کا امیدوار احمد سعید کرمانی تھا۔ مرزا صاحب یہ الیکشن جیت گیا‘ اعلان بھی ہوگیا مگر بعد میں دوسرے نمبر پر آنیو الے سرکاری امیدوار کو جتادیا گیا۔ مرزا ابراہیم کے 2500 ووٹ رد کردیئے گئے اور یوں پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔

پاکستان میں پہلی ٹریڈ یونین فیڈریشن یعنی پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو اس کا پہلا صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوا جبکہ نائب صدر فیض احمد فیض‘ آفس سیکرٹری ایرک اسپرین‘ جوائنٹ سیکرٹری فضل الٰہی قربان اور سندھ کا صدر سوبھوگیان چندانی مقرر ہوئے۔

مرزا ابراہیم کارل مارکس، اینگلز، لینن، ماؤزے تنگ اور ہوچی من کے نظریات کا کٹر حامی تھا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہا۔ وہ ساری دنیا کی عوام کے ساتھ اپنی عوام کی خوشحالی بھی چاہتا تھا۔

مرزا ابراہیم ایک غیر طبقاتی اور سوشلسٹ نظام کے لیے عمر بھر لڑتا رہا۔اس نے ہمیشہ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور ملکی شناخت سے بالاتر ہو کر عالمی انسانیت کے لیے تمام عمر جدوجہد کی۔

محنت کشوں کا یہ مرد قلندر 11 اگست 1999 کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کو سوگوار کر گیا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *