Home » پوھوزانت » کمیونزم کا بھوت ۔۔۔ جاوید اختر

کمیونزم کا بھوت ۔۔۔ جاوید اختر

” یورپ کے سر پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے—-کمیونزم کا بھوت۔اس بھوت کو اتارنے کے لیے قدیم یورپ کی تمام قوتیں پوپ اور زار،میٹرنک اور گیزو،فرانسیسی ریڈیکل اور جرمن پولیس کے جاسوسوں نے ایک مقدس اتحاد کرلیا ہے۔(1) ”

کمیونسٹ مینی فسٹو کے یہ الفاظ 174سال پہلے لکھے گئے۔مگر ان کی صداقت اور آفاقیت آج بھی اتنی ہی ہے،جتنی کہ اُس زمانے میں تھی۔1848ء میں کمیونسٹ مینی فسٹو کی اشاعت سے لے کرموجودہ عہد تک دنیا نے کئی سوشلسٹ انقلابات اور ردِانقلابات دیکھے ہیں۔1871ء میں پیرس کمیون کے قیام اور انہدام سے لے کر انیسویں،بیسویں اور اکیسویں صدی پر محیط تاریخ کا یہ زمانہ جہاں سوشلسٹ انقلابات کا دور دکھائی دیتا ہے وہاں یہ ردِ انقلابات کا زمانہ بھی۔1989ء  تا1991ء کے سال مشرقی یورپ میں ردِ انقلابات کی کامیابی کے سال تھے،جنہیں دنیا بھر کے پیٹی بورژوا اور بورژوا دانشوروں نے مارکسزم کی ناکامی  اور بورژوا ڈیموکریسی اور مارکیٹ اکانومی پر مبنی سرمایہ داری کی فتح پر محمول کیا ہے۔فوکویاما،سیموئل ہیٹگٹن، جارج بش اور دیگرنے عالمی سطح پر  پروپیگنڈہ کیا کہ کمیونزم کے خاتمے کے ساتھ ساتھ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا ہے اوراب دنیا بھر کے معاشروں میں طبقاتی جدوجہد بلاجواز ہے۔کیوں کہ اب انسان کا روشن مستقبل صرف اور صرف سرمایہ داری میں ہے۔

بورژوادانشوروں کے اس بیانیہ کا جواب بھی دنیا بھر کے مارکسسٹ دانشوروں نے دیا ہے اور تو اور فرنچ ڈی کنسٹرکشن ازم کے رہنما ژاک دریدانے بھی اپنی کتاب “Spectres of Marx”   (1) میں فوکویاما کے اس نیو ہیگلین ازم پر مبنی بیانیہ کو ڈی کنسٹرکٹ کرکے یہ ثابت کیا کہ مارکس اور مارکسزم کا بھوت ابھی تک دنیا سے ٹلا نہیں ہے بلکہ وہ ابھی بھی منڈلا رہا ہے۔  (2)  دریداکی بہت سی باتوں سے اختلاف کرتے ہوئے اکثر مارکسسٹ دانشوروں نے  “Ghostly Demarcations”    (3)  کے زیرِ عنوان ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا اور اس میں دریدا کو بھی مدعو کیا۔اس سمپوزیم میں مارکسسٹ دانشوروں نے دریداکی اس کاوش کو سراہا اور بعض معاملات پر اس سے اپنے نظریاتی اختلافات کا اظہار بھی کیا،جو عنوانِ بالا کے تحت ایک مجموعہِ مضامین کی صورت میں شائع ہوئے۔نیز مارکسسٹ دانشوروں کو جواب دیتے ہوئے دریدانے بھی اس سمپوزیم میں اپنا مفصل مضمون “Marx and Sons.” پیش کیا،جو مذکورہ بالا مجموعہِ مضامین میں شامل ہے۔(4)

دریداسے اپنے تمام نظریاتی اختلافات کے باوجود مارکسسٹ دانشوروں نے اس کی اس بات کی تائید کی کہ مارکس اور مارکسزم کا بھوت ابھی تک عالمی سرمایہ داری کے سر پر منڈلا رہاہے۔اس وجہ سے عالمی بورژوازی اس کے خوف سے بوکھلاہٹ اور تذبذب کا شکار ہے اور اس کی راتوں کی نیندیں حرام ہیں۔مینی فسٹو کے مذکورہ بالاالفاظ نے ایک مرتبہ پھر ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی ہے کہ کمیونزم کے بھوت کو اتارنے کے لیے اب بھی عالمی سرمایہ داری کئی جتن کررہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس بھوت کو اتارنے کے لیے دنیا بھر کی تمام قوتیں عالمی بورژوازی اور امریکی سی آئی اے،کلیسا اور زوال آمادہ اشرافیہ، جاں بلب قبائلی سردار اور سجادہ نشیں پیر،پنڈت اور ملا، لبرل انسان دوست اور این جی اوز،گرامچین اور ٹراٹسکائیٹ،سوشل ڈیموکریٹ اور پاپولسٹ، انارکسٹ اور فاشسٹ سب کے سب نے ایک مقدس اتحاد کرلیا ہے۔

بے شک سوویت یونین کا انہدام عالمی محنت کش طبقے کی بہت بڑی شکست تھی،جس نے اس سے اپنے روشن مستقبل کی امید چھین لی اور اسے مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔علاوہ ازیں عالمی کمیونسٹ تحریک سے وابستہ اکثر دانشور بھی مایوسی کا شکار ہوگئے۔ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔لہذا اب انہیں بورژوا ڈیموکریسی اور مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی سرمایہ داری میں امید کی کرن دکھائی دی۔انہوں نے موقع پرستی کا رویہ اپناتے ہوئے سول سوسائٹی، ہیومن رائٹس کمیشن،این جی اوز،گرامچی ازم،ٹراٹسکی ازم،لبرل ازم اور سوشل ڈیموکریسی ایسے روپ دھارلیے۔ان میں بہت سے ہیومن رائٹس  کے چئمپین بن گئے۔بعض نے این جی اوز میں اپنی فلاح کی راہ ڈھونڈ لی۔ٹراٹسکائٹس کو بھی اس دور میں اپنے پرپرزے نکالنے کا کھل کر موقع ملااور وہ سٹالن ازم کے نام پر مارکسز م پر تنقید کرنے لگا۔

کچھ دانشوروں نے سول سوسائیٹی کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنالیا۔کچھ نے لبرل ازم کا لبادہ اوڑھ کر” پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ”  کے مصداق وزرا اور گورنروں کے دربار تک رسائی حاصل کی اور وہاں منشی بن کر اپنا نان و نفقہ کمانا شروع کیا۔ اس قسم کے لبرل دانشوروں میں کمیونزم کے خلاف سب سے زیادہ شوروغوغا کرنے والا کرنے والا پیٹی بورژوا لبرل صحافی وجاہت مسعود ہے،جو بورژوا شریف خاندان کا درباری قصیدہ خواں اور محنت کش طبقے کا ہجو گو ہے۔وہ مختلف بورژوا اخبارات اور اپنی ویب سائیٹ ”ہم لوگ“میں کالم لکھتا ہے اور اپنے ہر کالم  میں کمیونزم دشمنی،انقلاب سے بیزاری اور کمیونسٹ رہنماؤں کی کردار کشی کا موقع نکال لیتا ہے۔اس طرح سے وہ اپنے بورژوا آقاؤں کی خوشنؤدی حاصل کرتا رہتا ہے۔اس کے کالم انتہائی سطحی،علمی،ادبی اور تحقیقی مواد سے عاری،تضادات سے مملو اور ژولیدہ فکری کے حامل ہوتے ہیں۔اس کے کالم پیٹی بورژوا قارئین میں بے حد مقبول ہیں۔ایک طرف تو وجاہت ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف دور تک تمام عسکری حکومتوں کے خلاف ہے۔مثال کے طور پر وہ عسکری حکومتوں اور ضیادور کے متعلق لکھتا ہے:

۔80″ کی دہائی کے ابتدائی برس تھے۔ہم سب ایک ابتلا میں تھے۔ہماری ابتلا بنیادی طور پر ایک ہی ہے،ہم منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اس کا نام کبھی ایوب خان رکھ دیتے ہیں اور کبھی یحیٰ خان کہتے ہیں۔کبھی اس کی مونچھوں کو بل دے کر پونے تین بجاتے ہیں اور مردِ حق اور مردِ مومن کے نعرے لگاتے ہیں۔کبھی اسے بغل میں کتے کے پلے دے کر کھڑا کردیتے ہیں اور اسے پرویز مشرف کہتے ہیں۔اب یہ مجھ سے نہیں پوچھیے کہ یہ ابتلا اصل میں ہے کیا۔دنیا میں سات ارب اور پاکستان میں 19کروڑ لوگ رہتے ہیں۔سچ بولنے کا ذمہ صرف میرا تو نہیں۔

تو میں یہ عرض کررہا ہوں کہ اب سے تیس برس پہلے ہماری ابتلا کا نام ضیاالحق تھا۔ یہ انگریزی محاورہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔مشکلات دستے بناکر خانہِ انوری کا پتا پوچھتی ہیں۔یہ محاورہ انگریزوں کے لیے درست ہوگا،ہمارے ضمن میں مشکلات پوری فوج کی صورت میں نازل ہوتی ر ہیں۔جہاں فوج ہوتی ہے،وہاں جنگ بھی ہوتی ہے۔تو مصیبت کا نام ضیالحق تھا اور جنگ ہم پہ افغان جہاد کی صورت میں مسلط کی گئی۔ (5)”

دوسری طرف وجاہت ضیاالحق کی باقیات المغلظات بورژوا شریف خاندان کی رجعت پسند اور قدامت پرست مسلم لیگ) ن(کو جمہوریت اور انسانی حقوق کی علامت سمجھتا ہے۔وہ انسانی حقوق کی بات تو کرتا ہے۔مگراس کے نزدیک انسانی حقوق صرف حکمران طبقے کو حاصل ہونے چاہییں اور مزدور،کسان اس زمرے میں کہاں آتے ہیں۔وہ اقلیتوں کے حقوق کا پرجوش حامی ہے۔لیکن محکوم قوموں کے حقوق کا منکر ہے۔وہ جمہوریت کا علم بردار ہے مگر اس کے نزدیک جمہوریت صرف مٹھی بھر حکمران طبقے کی لونڈی ہے۔اس پاک دیوی کا کروڑوں عوام کالانام سے کیا واستہ۔

وجاہت کمیونزم کے بھوت سے بہت خوف زدہ ہے اور اپنے ہر کالم میں وہ اس کے خلاف ہرزہ سرائی اور یاوہ گوئی کرتا رہتا ہے۔اس نے 2014 ء میں پروفیسر جمال نقوی کی کمیونزم سے برگشگی پر مبنی آٹو بائیوگرافی (6) “Leaving The Left Behind”  کا بہت پرجوش اندازمیں خیر مقدم کیا تھا،جس میں اس نے کہا تھاسوویت یونین ایک غلط تجربہ تھا، سوشلزم ناقابلِ عمل ہے اور بورژوا جمہوریت صحیح راستہ ہے۔ وجاہت نے ایک کالم میں اس کتاب پر تبصرہ بھی کیا تھا،جس میں اس نے کمیونزم کے خلاف اپنی خوب بھڑاس نکالی تھی۔اسی طرح اس نے فیڈل کاسترو کی وفات کے فوراًبعد اپنے ایک کالم میں اس عظیم رہنما کی کردار کشی کرتے ہوئے اسے 35000 عورتوں کا خاوند قرار دیا تھا۔اس کا یہ مبالغہ آمیز جھوٹ کسی طور بھی نہ توقرینِ قیاس ہے اور نہ  ہی قابلِ یقین اور اپنے اس بہتان کا کوئی ثبوت بھی اس نے پیش نہیں کیاتھا۔اسی طرح اپنی سنتِ جاریہ کو بروئے کارہوئے اس نے حال ہی میں اپنا ایک کالم  “ایاز میر کا خواب اور چی گویرا ” لکھا،جو 6جولائی 2022ء میں روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔اس کالم میں بھی وجاہت نے حسبِ عادت مبالغہ آرائی اور جھوٹ سے کام لیتے ہوئے چی گویرا کی موت کو ایک بزدل کی موت قراردیا ہے۔وہ لکھتا ہے: ” اس نے روتے ہوئے کہا تھا۔ پلیز مجھے مت مارنا۔میں چی گویرا ہوں۔زندہ رہنے کی صورت میں زیادہ مفید ثابت ہوں گا” (7)۔

وجاہت  نے اس مبالغہ آمیز جھوٹ کا کہیں کوئی ذریعہ بھی نہیں بتایا ہے۔چی بہادری کی موت مرا اور اس نے ایسا نہیں کہا تھا۔حالا ں کہ موت کے وقت چی کے الفاظ مندرجہ ذیل تھے:

“I know you’ve come to kill me. Shoot you are only going to kill a man.” (8)

چی کی موت کو ایک بزدل موت  پیش کرنے کے پیچھے دراصل وجاہت کی اپنی بزدلی کارفرما ہے۔وہ اپنی بزدلی کاایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

“ان دنوں پاکستان میں سوویت یونین کے سفیرکا نام سمرنوف تھا۔یہ حضرت بھی ایک طرفہ نمونہ تھے۔ پاکستان بغیراعلان کیے روس کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھا اور سمرنوف کبھی کراچی، کبھی کوئٹہ اور کبھی لاہور کا دورہ کرتے تھے۔ادبی تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔مذاکروں کی صدارت کرتے تھے۔اگر پاکستان نے افغان سرزمین پر روسیوں کا ناک میں دم کررکھاتھا تو سمرنوف کی ملنساری سے ضیا الحق کی جان ضیق میں تھی۔لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ایک سیمینار کی صدارت سمرنوف کررہے تھے۔جماعت اسلامی کے صالح نوجوانوں نے ہوٹل پر حملہ کردیا۔یہ خاکسار ایک تو بزدل تھا دوسرے گورنمٹ کالج کا طالب علم تھا۔جھگڑے کی آواز سنتے ہی بھاگ نکلا اور محفوظ فاصلے پر ایک باڑ کی اوٹ سے معرکہ دیکھتا رہا۔اگر بھاگتا نہیں تو مارا جاتا اور اگر مشاہدہ نہیں کرتا تو آپ کو یہ قصہ کون سناتا (9) “۔

اس سے قاری بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ چی کے قتل کے وقت بھی وجاہت محفوظ  فاصلے پر کہیں چھپ کر اس کی موت کا منظر دیکھ رہا ہوگا۔تاکہ اسے کسی سنسنی خیز ناول نگار کی طرح  اپنے کالم میں بیان کرسکے۔

کمیونزم کے خلاف عالمی بورژوازی  اور اس کے بھاڑے کے ٹٹوؤں کی مہم جوئی کوئی نئی بات نہیں ہے۔کلیسا،ملا،پنڈت اور گدی نشیں پیر کا کمیونزم کے خلاف ہونا بھی حیرت انگیز نہیں ہے۔لیکن مذکورہ بالا بہروپیوں کی کمیونزم کے خلاف جنگ اور نفرت بہت زیادہ خطرناک ہے۔کیوں کہ وہ مارکسسٹ اصطلاحات کو توڑ مروڑ کر محنت کش طبقے میں زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور مارکسسٹ طریقِ کار کی غلط تشریح اور غلط اطلاق کرکے مزدور طبقے کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں اور اسے بورژوازی کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔اس نوع کے دانشوروں میں سول سوسائٹی کے پرچارک،بورژواانسان دوست،گرامچین،ٹراٹسکائیٹ،سوشل ڈیموکریٹ، پاپولسٹ، انارکسٹ،فاشسٹ اور لبرل دانشور اپنے تمام باہمی اختلافات کے باوجود مارکسزم دشمنی میں متحد ہیں اور اس کے خلاف یہ محمودوایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے ہیں۔یہ اپنے اپنے انداز اور طریقوں کے مطابق مارکسزم کے خلاف عالمی سرمایہ داری کے محافظ اور حاشیہ بردار ہیں۔

وجاہت مسعود جو بورژوا لبرل ازم کا نمائندہ اور عالمی سرمایہ داری کا ڈھنڈورچی ہے،جو اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ نہ تو مارکسزم ناکام ہوا ہے اور نہ ہی اس کے جانثاروں چی اور دیگر کی عوامی مقبولیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔بلکہ اس میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے۔آج بھی لاطینی امریکہ پرسوشلزم کا سرخ پرچم لہراتا ہے اور باقی دنیا تیزی کے ساتھ سوشلزم کی طرف رواں دواں ہے۔عالمی محنت کش طبقے کی تحریک نئے  سرے کروٹ لے رہی ہے اور عالمی سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تیاری کررہی ہے۔دوسری طرف دنیا میں عالمی سرمایہ داری کے دیوالیہ پن نے بھی کمیونزم کی ضرورت کو ایک ناقابلِ تردید حقیقت ثابت کردیا ہے اور عالمی بورژوازی اور اس کے حواریوں کے خوف میں اور اضافہ کردیا ہے۔وجاہت مسعود ایسے پیٹی بورژوا  لبرل دانشوروں کا المیہ بھی یہی ہے۔ وہ اس تذبذب کا شکار ہیں کہ آخر کمیونزم کے بھوت کو طلسم کے ذریعے اپنے بورژوا آقاؤں کے سر سے کیسے اتار کر بوتل میں بند کریں،جس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ہرچند کہ وہ ایک پیٹی بورژوا ویب سائیٹ ”ہم سب“ میں متحد ہوکر کمیونزم کے خلاف اپنا زہر اگلتے رہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے بورژوا اخبارات،ٹی وی چینلز ا،سوشل میڈیاور دیگر  ذرائعِ ابلاغ کو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔لیکن ایسے لوگ اب محنت کش طبقے،پڑھے لکھے نوجوانوں اور انقلابی دانشوروں کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں اور وہ انہیں مزید گمراہ نہیں کرسکتے ہیں۔کیوں کمیونزم کے وارث کمیونسٹ نوجوان اوردانشور بے شک تعداد میں کم ہیں لیکن وہ ایسے ہزاروں لاکھوں پیٹی بورژوا لبرل صحافیوں سے نمٹنے کے لیے ان کے خلاف ہمہ وقت میدانِ جنگ میں کمر بستہ ہیں۔

 

ریفرنسز

 

Marx, K & Engels, F. The Communist Manifesto. Trans. Samuel Moore. Lahore: Readings, 2016. P 11

Derrida, J. Spectres of Marx: The State of Debt, the Work of Mourning and the New International. Trans. Peggy Kamuf. New York: Routledge, 1994

Derrida, J, Eagleton, E, Jameson, F, Negri, A. et al. Ghostly Demarcations: A Symposium on Derrida’s Spectres of Marx. (Ed.), Michael Sprinker. London & New York: Verso, 1999

Derrida, J. “Marx and Sons.” In: Ghostly Demarcations: A Symposium on Derrida’s Spectres of Marx. Pp. 213-169

۔وجاہت مسعود۔”شاہ رانجھا البیلا۔” مشمولہ شاہ محمد مری۔مرتبہ۔ عابد میر۔کوئٹہ:  مہردرانسٹی ٹیوٹ ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز،2014ء۔ص  50

Syed Jamal Naqvi & Humair Ishtiaq. Leaving The Left Behind. Karachi: Pakistan Study Centre, University of Karachi, 2014

۔ وجاہت مسعود۔” ایاز میر کا خواب اور چی گویرا۔”   روزنامہ جنگ۔6جولائی 2022 ء۔

Lee, J. Che Guevara: A Revolutionary Life. London: Bantam Books, 1997. P. 739

۔وجاہت مسعود۔”شاہ رانجھا البیلا۔” مشمولہ شاہ محمد مری۔مرتبہ۔ عابد میر۔ص 51

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *