Home » پوھوزانت » مجید امجد کا سماجی شعور ۔۔۔۔ انوار احمد

مجید امجد کا سماجی شعور ۔۔۔۔ انوار احمد

’مجید امجد(۹۲ جون ۴۱۹۱۔۱۱ مئی ۴۷۹۱) نے اس وقت شاعری کو عملِ خیر کہا تھا،جب ایک طرف بعض ترقی پسند صالحیت کے زعم سے زچ ہو کر شاعر کو صرف جنگ جُو یا چھاپہ مار بنانے پر تلے تھے اور دوسری طرف خود اذیتی اور خود ملامتی ’بدی کے پھولوں‘ کی نمائش لگائے بیٹھی تھی۔مجید امجد کی تنہائی اور اداسی پر مقالات لکھنے والوں نے فطرت اور معصوم بچوں سے اس کی والہانہ محبت کو نظرانداز کیا۔اسی طرح اپنے وطن اور اہل وطن پر تذلیل کا نظام مسلط کرنے والوں نے جس طرح تلقینِ صبر کو مشیتِ ایزدی سے جوڑنا چاہا،اس کے بارے میںموثر شاعرانہ سوال اٹھانے والے مجید امجد کو اپنی اپنی پسندیدہ فکری تحریکوں کی قوت سے سرشار یا بعض تہذیبی ٹکسالوں کی برتری کے گمان میں مبتلا لوگوں نے نظرانداز کیا،مگر مجھ ایسے افسانے کے طالب علموں کے لئے یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ منٹو نے مجید امجد سے فرمائش کی کہ مجھ پر نظم لکھو اور ایک روایت کے بعد منٹو نے اپنی فرمائش کے بعد بھیجی جانے والی نظم کو پھر سے لکھنے کو کہا اور زود رنج مجید امجد نے اپنے عہد کے تخلیقی ضمیر کی فرمائش پر وہ نظم تخلیق کی جو ان کی شاہکار نظموں میں سے ہے تو یہ محض ایک نظم کی فرمائش کا ماجرا نہیں، اپنے زمانے کے ایک ولی نے دوسرے ولی کے مقام کو پہچانا تھا، اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تخلیق کی دنیا میں ولایت کی پہلی شرط ریاکاری سے اجتناب ہے،اور یہ بات دونوں میں مشترک تھی،یہ اور بات منٹو کے بلند آہنگ جارحانہ اظہار کے لئے ممکن ہے کہ مجید امجد تحسین کے جذبات رکھتے ہوں،مگر وہ توللکارنے کے تصور سے ہی ہراساں ہوسکنے والے تخلیق کار تھے۔

بروزِ جنگ صفِ دشمناں میں سب کچھ تھا

ہمارے پاس تو کچھ بھی نہ تھا،نہ مکر،نہ حرص

بس ایک سادہ سی دل دادگی تھی اپنی متاع

اور یہ جو شاعروں،فن کاروں کے پاس سادہ سی دل دادگی ہوتی ہے،اس میں غریب،امیر کی تخصیص تو نہیں ہونی چاہیئے،مگر محلات میں بسنے والی زلیخا یا شیریں کے التفاتِ جوہر شناس کی تمنا،کم وسیلہ طبقے میں آنکھ کھولنے اور انہی سے ہم کلام ہونے کی آرزو سے زیادہ گرم جوش ہوتی ہے،[مشتاق احمد یوسفی نے فیض کے ذکر میں شاہی ٹکڑوں کی جو تمثیل استعمال کی ہے،اس کی معنویت عیاں ہے] آپ چاہیں تو مجید امجد کی نظم ’آٹو گراف‘ کو اس نفسیاتی تناظر میں بھی پڑھ سکتے ہیں،مگر ان کی افسردہ سی خود شناسی نے بعد میں انہیں شیریں کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے خسرو پرویز سے پنجہ آزمائی سے باز رکھا۔

۸۳۹۱ میں مجید امجد نے جو نظم ’شاعر‘ کے عنوان سے لکھی،،اس کا مرکزی خیال اس بند میں موجود ہے:

یہ دنیا،یہ بے ربط سی ایک زنجیر یہ دنیا،

یہ اک نامکمل سی تصویر

یہ دنیا نہیں میرے خوابوں کی تعبیر

اسی نظم میں وہ مصرعے بھی ہیں،جوساحر لدھیانوی کے ایک گیت میں شامل ہو کر اس حد تک مقبول ہوئے کہ آج مجید امجد کے کسی مداح کے لئے یہ باور کرنا آسان نہیں ہو گا کہ یہ مجید امجد کے ہیں:

یہ محلوں،یہ تختوں،یہ تاجوں کی دنیا

گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا

محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا

قرةالعین حیدر نے اپنے سوانحی ناول میں لاہور کے ایک پروفیسر کو پروفیسر صنعتِ لف و نشر مرتب کہا ہے،میَں اسی پھبتی کے ڈر سے مجید امجد کے تجربے میں آنے والی ہماری مانوس دنیا کے طبقاتی تضادات اور امتیازات کی تفصیل میں جائے بغیر تین باتیں کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ایک تو یہ کہ مذہب،رواج اور نظام کے نام پر جن کے سروں پر ذلت کی گٹھڑی رکھ دی گئی ہے،منٹو کی طرح مجید امجد بھی انہیں اپنے سینے سے لگاتا ہے ،ان کے آنسو پونچھتا ہے اور ان کے لازوال انسانی جوہر یعنی اس کی معصومیت کی تصدیق کرتا ہے،وہ چاہے اچھوت ہو، بھکارن ہو،طوائف ہو یا خاک روب،اور خاص طور وہ بچے،جنہیں ایک بیمار،بوڑھے باپ کی ارتھی اٹھنے کے بعد اس کی اس دکان کی زینت بننا ہو،جس کی آرائش خالی ڈبیوں نے کی ہو،یا جس کی ماں نے اس کے لئے ایک ایک کرکے میلی چوڑیاں خونی بازاروں میں بیچی ہوں اور وہی زخمی کلیاں ایک ٹھیلے پر ڈال کر موڑ موڑ پر بیچنے کا جتن کر رہا ہو،وہ ان ہری بھری فصلوں،ان پھولوں کی پلٹنوں کو والہانہ انداز میں دعائیں دیتا ہے،جن سے سول سو سائٹی کے نمایندے پراٹھوں جیسے خوشبو دار،اشتہا انگیز مگر تہہ دار یاریاکار چہروں کے ساتھ سوال کرتے ہیں:

ننھو سردی تمہیںنہیں لگتی کیا؟

مجید امجد کی ان بچوں سے والہانہ محبت عیاں ہے:

غریب بچے کہ جو شعاعِ سحر گہی ہیں

ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں۔

اور سن لو

یہ توتلی نو خرام روحیں کہ جن کی ہرسانس انگبیں ہے

اگر انہی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے

تو بہتی ندیوں

میں آنے والی ہزار صدیوں

کا یہ تلاطم

سکوتِ پیہم کا یہ ترنم

یہ جھونکے جھونکے

میں کھلتے گھونگھٹ نئی رتوں کے

تھکی خلاﺅں

میں لاکھ ان دیکھی کہکشاﺅں

کی کاوشِ رم

ہزار نا آفریدہ عالم

تمام باطل

نہ ان کا مقصد نہ ان کا حاصل

اگر انہی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے

اسے احساس ہے کہ ان کونپلوں کو خود کش بمبار بنانے والے تقدس مآب بردہ فروش کون ہیں

اور ان کے نظام کے پشتی بان کون ہیں کہ ایک طرف تو وہ کہتا ہے:

جا بجا وقت کے گنبد میں نظر آتے ہیں

یہی عفریت،خداوندِجہاں کے اب و جد

ان لوگوں کی ریڑھ کی نلکی میں ہے گودا بھی سونے کا

کوئی کیسا ریلا آئے

ان کا پشتی بان وہ پشتہ بہہ نہیں سکتا،جس کے ذرّے آبِ زر سے جڑے ہیں

عرشوں تک

جس میٹھے مٹیالے شہد کی بانٹ ہے

اس کو نارسا عاجزیاں ان پھولوں سے حاصل کرتی ہیں،جو

فرعونوں کے باغوں میں کھلتے ہیں،

دوہا،بول،کبت کیا رکھا ہے ان میں

زخم بھلا کب سلے ہیں شبدوں سے

جلتی سطروں سے کب ڈھلی ہیں،تقدیریں؟

کم وسیلہ لوگوں کی امداد کے لئے قائم ہونے کلبوں،سیاسی جماعتوں،مذاکروں اور مشاعروں کی خالی کنستروں جیسی بے برکت آوازیں سننے والے نے خود کو رفتہ رفتہ ایک کمرے میں مقید کر لیا تھا اور چھٹی کے دن بھی اپنے ہم عصر مفکرین سے ملاقات کی زحمت سے بچنے کے لئے وہ باہر سے تالہ لگوا دیتے تھے

یہ کبوتر دیکھتے تھکتے نہیں

دیکھتے ہیں،سوچتے ہیں کیا کریں

یہ مفکر کچھ سمجھ سکتے نہیں

ممکن ہے کہ یہ کسی اور ملک کی کتھا ہو

کہانی ایک ملک کی

راج محل کے اندر ایک رتناسن پر

کوڑھی جسم اور نوری جامے

روگی ذہن اور گردوں پیچ عمامے

جہل بھرے علامے

ماجھے گامے

بیٹھے ہیں اپنی مٹھی میں تھامے

ہم مظلوموں کی تقدیروں کے ہنگامے

جیبھ پہ شہد اور جیب میں چاقو

نسلِ ہلاکو

یہ روحیں،بِس بھرے،ذی جسم،آہنیں سائے

انہی کے گھیرے میں ہیں اب یہ بستیاں،یہ دیار

شاید یہ وہ ملک تھا،جس کے قیام کو خوش خبریاں دینے والے ایک خواب سے منسلک کیا گیا تھا،جسے ہم نے عبرت ناک خواب بنا دیا۔ مجید امجد کے یہ دو مصرعے دیکھئے:

اب وہ خوبی بھولا ہوا اک خوابِ خوباں ہے

لوگوں کے ذہنوں میں اس خوبی کی بابت اب اک میٹھی میٹھی نفرت ہے

مجید امجد کو اس بات کا احساس ہے کہ اس آہنی نظام کے مقابل شاعر کے دو چار لفظ جو کبھی نم ناک آنکھیںادا کرتی ہیں،شعلہ فشانی کی تمنا میں کبھی راکھ کا ڈھیر بن جانے والی زبان،جو کبھی بے بس ماں کی دعا بن جاتے ہیں اور کبھی پر غیظ باپ کے کوسنے،یہ کیا تبدیلی لا سکتے ہیں؟

تو کس دنیا سے ٹکرانے آیا ہے

تو کس جگ کی کایا بدلنے آیا ہے

کوڑھی،اوگن ہار دلا!

اس سب کے باوجود اس کی آخری آرزو مندی جانئے یا اپنے دل شکستہ تخلیق کاروں سے پھولوں کی پلٹن کے حق میں ایک اپیل

پھول مرجھا نہ جائیں بجروں میں

مانجھیو کوئی گیت ساحل کا

اے وارثانِ طرہ طرفِ کلاہ کے

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے

وہ چھپر اچھے،جن میں ہوں دل سے دل کی باتیں

ان بنگلوں سے،جن میں بسیں گونگے دن،بہری راتیں

ایک بوسیدہ،خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ سینکڑوں گرتے ہوﺅں کی دستگیری کا امیں

آہ ان گردن فرازانِ جہاں کی زندگی اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں

پڑا رہے گا،یونہی کب تک اے خسِ پامال بلند محلوں کے رفعت نورد زینوں

آنے والی سحر کی دھندلی آس دو تڑپتے دلوں میں تیر گئی

اوندھی ہنڈیا،خنک توے کے پاس

انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے،وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے

طلوعِ صبح کہاں ہم طلوع ہوتے رہے

ہمارا قافلہ بے درا روانہ ہوا۔

ہری بھری فصلو

دامن دامن،پلو پلو جھولی جھولی ہنسو

وہ فصلِ دیر رس جانے کب آئے گی؟

گر اس جہان میں جینا ہے

نہ تاجِ سر تو بیچ اور نہ تو سریر کو بیچ

گر اس جہان میں جینا ہے تو ضمیر کو بیچ

حیا کو اپنی نگاہوں سے حکمِ رخصت دے

زباں کو زہر ملے شہد کی حلاوت دے

فریبِ سجدہ سے اپنی جبیں کو واقف کر

ریا کے آنسوﺅں سے آستیں کو واقف کر

ہے تیرے دل میں جو چنگاری اس کا نام نہ لے

وہ نکلا پھوٹ کر نورِ سحر سے

نظامِ زیست کا دریائے خونناب

پسینوں،آنسوﺅں کا ایک سیلاب

کہ جس کی رَو میں بہتا جا رہا ہے

گداگر کا کدو بھی جامِ جم بھی

کلھاڑی بھی،درانتی بھی،قلم بھی

سماجی تفریق: میں عطا ہوا ہے تجھے بھی یہ حق مشیت سے

خراج مانگ بہاروں کی بادشاہت سے

وہ شے جو ایک نئے دور کی بشارت ہے

ترے لہو کی تڑپتی ہوئی حرارت ہے

دلوں کی جھونپڑیوں میں بھی روشنی اترے

جو یوں نہیں تو یہ سب سیلِ نور اکارت ہے

جیون دیس

بوڑھی کبڑی دیواروں کے پاﺅں چاٹتی گلیاں

ٹوٹتے فرش،اکھڑتی اینٹیں،گزرے دنوں کے ملبے

دکھے دلوں کے سجدے چنتی پلکیں،بچھڑے پریمی

بجتی ڈھولک،گاتی سیاں نیر بہاتی خوشیاں

جاگتے ماتھے،سوچتے نیناں،آنے والے زمانے

خونی بازاروں میں بکتی اک اک میلی چوڑی

پنکھیاں جھلتی ننگی بانہیں نیند آنند پنگھوڑے

کنٹھا پہنے اک متوالا بالا رہڑی والا

موڑ موڑ پہ جیون رت کی زخمی کلیاں بانٹے

اچھی تھی وہ اپاہج بڑھیا،جس نے جیتے جی

بچے کھچے ٹکڑوں کے بدلے جنت کی جاگیر

امرت پیتی زندگیوں کے چرنوں پر رکھ دی

ندی بھی زر افشاں،دھواں بھی زر افشاں

مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما

ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں

تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں

’پژمردہ پتیاں‘ صرفِ خزاں بھی ہو کے نقیبِ بہار ہیں

’کنواں

طلوعِ فرض

یہ کیا ہے مالکِ زندانِ تقدیر جوان و پیر کے پاﺅں میں زنجیر

شبِ رفتہ کی یادوں کو بھلانے

دکاں پر پان کھانے آ گئی ہے

جہاں کا منہ چڑانے آ گئی ہے

ہے اس میں،مجھ میں کتنا فرق! لیکن

وہی اک فکر اس کو بھی،مجھے بھی

کہ آنے والی شب کیسے کٹے گی!

ایکٹریس کا کنٹریکٹ

اکائیوں کے ادھر جتنے دائرے ہوں گے ادھر بھی اتنے عکس ان برہنہ شعلوں کے

[۳۶۹۱]

سانحات:

چاہو تو واقعات کے ان خرمنوں سے تم

اک ریزہ چن کے فکر کے دریا میں پھینک دو

پانی پہ اک تڑپتی شکن دیکھ کر ہنسو!

چاہو تو واقعات کی ان آندھیوں میں بھی

تم یوں کھڑے رہو کہ تمہیں علم تک نہ ہو

طوفاں میں گھر گئے ہو کہ طوفاں کا جزو ہو

ریزہ¿ جاں

تری ہی دین،سیہ سانحوں کو سونگھتی حس

ترا ہی خوف اس ان بوجھے رابطے کا ثمر

مرے خدا مرے دل

یہ زہر کون پئے؟ کون اپنے سینے میں

یہ آگ انڈیل کے ان ساحلوں سے بھید چنے

جہاں پہ بکھرے ہیں صد ہا صداقتوں کے صدف

یہ زہر کون پئے؟ کون بجھتی آنکھوں سے

غروب وقت کی خندق کے پار دیکھ سکے

جلوسِ جہاں

یہ لطفِ کریمانہ خوش دلاں بھی،یہ پر غیظ خوئے سگاں بھی

مرے ساتھ رو میں ہیں،لوگوں کے جتنے رویے،یہ سب کچھ یہ سارے قضیے

غرض مندیاں ہی غرض مندیاں ہیں،یہی کچھ ہے،اس رہگزر پر متاعِ سواراں

میَں پیدل ہوں،مجھ کو جلوسِ جہاں سے انہی ٹھوکروں کی روایت ملی ہے

اب کے تو بِک گیا،سرِ مسجد ان سیہ آرھتوں میں اک بانگا

ایک اگر میَں سچا ہوتا

مری اس دنیا میں جتنے قرینے سجے ہوئے ہیں

ان کی جگہ بے ترتیبی سے پڑے ہوئے کچھ ٹکڑے ہوتے

میرے جسم کے ٹکڑے،کالے جھوٹ کے اس چلتے آرے کے نیچے!

کبھی کبھی وہ لوگ

مجھ پہ جھپٹ کر مجھ سے آخر وہ چھینیں گے بھی کیا

اپنے پاس کوئی رجواڑہ لالچ کا نہیں ہے

گورا پلٹن کی سنگینوں کے سائے میں بھی بھوجن ملتا تھا

فرعونوں کی خدائی میں بھی بندے پتل بھات سے بھر لیتے تھے

تو کیا صرف ہمیں سچے ہیں؟

کیا وہ سب جھوٹے تھے؟

جس بھی روح کا گھونگھٹ سرکاﺅ۔۔۔نیچے اک

منفعت کا رخ اپنے اطمینانوں میں روشن ہے

اور یہ انساں۔۔

قاہر جذبوں کے آگے بے بس ہونے میں مٹی کا یہ ذرہ اپنے آپ میں

جب مٹی سے بھی کم تر ہو جاتا ہے سننے والا اس کی سنتا ہے

سننے والا جس کی سنے،وہ تو مٹی ہونے میں بھی انمول ہے

بستے رہے سب تیرے بصرے،کوفے

اور نیزے پر بازاروں بازاروں گزرا

سر۔۔۔۔ سرور کا

اور

چھینٹے پہنچے تیری رضا کے ریاضوں تک،خون ِشہدا کے

اور تیری دنیا کے دمشقوں میں بے داغ پھریں زرکار عبائیں

۲۱ فروری ۳۷۹۱

جن لفظوں میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں،کیا صرف وہ لفظ ہمارے کچھ بھی نہ کر نے
کا کفارہ بن سکتے ہیں؟

کیسے یہ شعر اور کیا ان کی حقیقت؟

نا صاحب اس اپنے لفظوں بھرے کنستر سے چلو بھر کر بھیک کسی کو دے کر

ہم سے اپنے قرض نہیں اتریں گے

۴۲ اپریل ۳۷۹۱

ماتھے جب سجدے سے اٹھے تو،صفوں صفوں جو فرشتے تھے

سب اس شہر کے تھے اور ہم ان سب کے جاننے والے تھے

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *