Home » پوھوزانت » ارشاد مستوئی کا قتل ۔۔۔۔ آغا گل

ارشاد مستوئی کا قتل ۔۔۔۔ آغا گل

یونانی دیوتا پرومیتھیس نے آگ چُرا کے انسان کو تحفت ً دے ڈالی تھی۔ جس پہ اسے عبرتناک سزا دی گئی جو کبھی ختم نہ ہوگی۔

چٹان سے زنجیروں میں بند ھے پرومیتھیس پر خونخوار عقاب ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پورا دن تکہ بُوٹی کرتے ہیں۔ اس کی چیخ و پکار کوئی نہیں سنتا ۔ اگلی صبح وہ دوبارہ درست ہوجاتا ہے ۔

ارشاد روشنی بانٹتا پھرا۔ ارشاد مستوئی کو علم و شعور بانٹنے کی سزا دی گئی۔ کیونکہ Primitive انسانوں پر حکومت کرنا آسان نہیں۔ حاکم خاندان عوام کو لاعلم اور جاہل ہی رکھتے ہیں۔شاہی واہ کی آب جو سندھ بلوچستان کو جغرافیائی طور پر الگ کرتی ہے۔ جبکہ لسّانی ۔ نسلی اور ذہنی طور پر سندھ بلوچستان ایک ساتھ چلتے ہیں۔

ارشاد مستوئی کا تعلق پس ماندہ علاقے سے ہے جہاں وہ پیدا ہوا ۔ وہ ایک نیم قبائلی اور بے رحم جاگیردارانہ نظام میں پلا بڑھا ۔ چند خاندانوں کی حکومت تھی۔ دولت کی دیوی بھی انہی ظالموں کے گھروں میں سیاسی پناہ لےے رہتی ہے۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ دولت کی دیوی نے تو لوکل سر ٹیفکیٹ بھی بنوا رکھا ہے۔ اب وہ ان جاگیردار خاندانوں ۔ سرکاری افسروں مولویوں کے ہاں ہمیشہ رہ سکتی ہے۔ ازلی و ابدی مثلث یعنی بادشاہ ۔ ملاں۔ سپاہی کااہرام ارشاد نے دیکھا تو وہ بائیں باز و کی جانب راغب ہوا۔ خدا کے نام پر حکومت کرنے والوں سے وہ نالاں ہوگیا۔ پہلے تو بادشاہ خود کو خدا کا بیٹا کہلایا کرتا ۔ جب انسانی ذہن قدرے باشعور ہوا تو بادشاہ خدا کا بیٹا کی بجائے ظِل الٰہی کہلوانے لگے۔ آنے والی صدیوں میں مولوی پنڈت ، پادری، دستورجی اور گرو کے توسط سے خدائی رابطے میں آکر خدائی مرضی سے حکمرانی کرنے لگے۔ جیسے ہمارے جنرل ضیا اور مسلمان کی تعریف اور معیار بھی ریاست ہی طے کرنے لگی۔

یہ خاندان جیکب آباد چلا آیا تو بچوں کو بہتر تعلیم ملی۔ یہاںمعتدل مزاج اور لبرل سوچوں کے ہندو بھی ہیں۔ جو کتابوں اور نئی سوچوں کے رسیا ہوتے ہوئے بھی امن پسند ہیں۔ پھر کوئٹہ چلے آنا ان کی ضرورت بن گئی۔ اعلیٰ تعلیم کے جیکب آباد میں امکانات نہ تھے ۔ اس کے بھائی یوں تو پڑھے لکھے اور باشعور تھے مگر زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ ڈاکٹر سعید اور خورشید عالم جوانی میں آسمان پہ بلوالےے گئے۔ ارشاد اکیلا رہ گیا۔ البتہ غم روزگار آسیب کی مانند اس کے ساتھ ساتھ ہی رہا۔ ارشاد نے قتل گہہ میں قدم رکھنا پسند کیا۔ اس نے صحافت کو اپنایا ۔ ارشاد کوئٹہ کے مختلف اخبارات میں اور ٹی وی چینلز پر کام کرتا رہا۔ روشن خیال حلقے اور Liberal Forum اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے رہے۔ ادبی رسائل میں بھی اس کی شمولیت ہونے لگی۔ اس محنت کے سبب وہ سنگت اکیڈمی ،مشرق اخبار کے ادبی صفحہ کا انچارج رہا۔ اکادمی ادبیات، ماہنامہ سنگت میں بھی کام کیا۔ اس کی ادبی کاوشوں کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شیخ ایاز اور امر جلیل جیسے بڑے ادیبوں کی سندھی تخلیقات کے اردو زبان میں تراجم پیش کرنے لگا۔ شیخ ایاز میرے مہربان تھے۔اور امر جلیل کا تو میں مرید ہوں۔ جس کے باعث ارشاد میری نظروں میں مزید معتبر ٹھہرا۔

ارشاد شاعر اور افسانہ نگار بھی تھا۔ پروفیسر رزاق صابر اور پروفیسر صبادشتیاری جیسے صاحب علم تخلیق کار کے ساتھ میں نے اسے علمی مباحث کرتے دیکھا تومیں سخت متاثر ہو ا کہ یہ نوجوان کس قدر مطالعہ کرتا ہے ۔ اور کیسا صاحب ذوق ہے۔ ارشاد بیک وقت ادب، صحافت، ادبی سرگرمیوں اور غم روزگار سے نبردآزما تھا ۔ وہ Trojan تھا ۔ جو ہماری طرحCircuitous Route میں رومانس کے گرد گھومنے کی بجائے خط مستقیم میں سفر کرنے کا عادی تھا۔

ہمارے ہاں نہ تو کوئی ہائیڈپارک ہے ۔ جہاں تھوڑی دیر کے لےے ہی من کی بات کی جاسکے۔ میر غوث بخش بزنجو کی جیب سے ایک نوٹ برآمد ہوا تھا جس پر مرقوم تھا۔ ”ون یونٹ توڑ دو“۔ اس نوٹ کی عبارت پر انہیں سات برس جیل میں رکھا۔ ایک بار راولپنڈی کی سمری کورٹ نے صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سنائی اور اڈیالہ جیل لے جاکر ستر منٹ کے اندر سزا بھی دے ڈالی۔ یعنی عدالت کے حکم اور کوڑے لگنے میں ستر منٹ کا وقفہ تھا۔میں چاہتا تھا کہ ارشاد ایک ناکام عشق کرے اورپھر ایک رومانی شاعر بن کر نام کمائے۔ مشاعروں میں داد وصول کرے۔ سو بوتلوں کا نشہ ہے ۔ اس واہ واہ میں۔

یار لوگ جان سولیکی کو اٹھا کر لے گئے کہ اچھا مرغا ہے ۔ گورے کا اغواءکسی قیامت سے کم نہ تھا۔ سرکاری حلقوں میں بھونچال آگیا ۔ارشاد جھٹ جان سولیکی کی خبروں کی تلاش میں دوڑ کپڑا۔ صحافی بھی خبروں کے کھّرے اٹھانے لگے۔ پیشہ وارانہ رقابتیں بڑھیں۔ صحافی تواتر سے قتل ہورہے تھے۔ جانے کونسا نادر شاہ افشار موتی مسجد میں تلوار کھینچ بیٹھا تھا۔ ہوا یہ کہ میں اخبار میں اپنی خبر تلاش کرتا اور شکر ادا کرتا کہ الحمد اللہ زندہ ہوں۔ زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔

پیشگی بیعانہ کے طور پر ایک رو زمیں اپنی تصویر ڈاکٹر شاہ محمد ایڈیٹر سنگت کے پاس خودہی لیتا گیا۔ کہ میرے طبقے کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے یہ تصویر رکھ لو ۔وہ کم کم بولتا ہے ۔ گن کر سانس لیتا ہے ، وقت پرکلینک سے اٹھ جاتا ہے۔ پابندی اوقات میں بھی آئیزک نیوٹن کا ہم پلہ ہے۔ ” میری ٹارگٹ کلنگ ہو تو اگلی اشاعت میں یہ تمہارے کام آئے گی ۔ یوں کرنا کہ سنگت کے سرورق پر یہ بڑی تصویر لگانا ”بلوچستان کا ناکام افسانہ نگار“ اور نیچے یہ شعر لکھنا۔

بال بکھرا کے ٹوٹی قبروں پہ

جب کوئی مہ جبین روتی ہے

مجھ کو اکثر خیال آتا ہے

موت کتنی حسین ہوتی ہے

شاہ محمد کم الفاظ خوش حال گھرانہ پر سختی سے عمل پیرا ہے۔اس کے اندر ہٹلر کی روح دکھائی دیتی ہے۔لاپرواہی سے میری تصویر دراز میں رکھتے ہوئے گوہرافشانی کی۔”بلوچستان میں سینیارٹی لسٹ نہیں چلتی کیا خبر میری تصویر ہی سرورق پہ پہلے لگ جائے“۔

جان سولیکی کو اغواءکرنے والوں نے Postal Volume نہیں پڑھ رکھے تھے۔ انہوںنے کوئٹہ جی پی او کے لیٹر بکس میں بیرنگ خط ڈال دیا کہ کس طرح وہ جان سولیکی کی جان بخشی کرسکتے ہیں ۔ اورفون پر صحافیوں کو سرکاری اصطلاح میں” نامعلوم مقام“ سے اطلاع بھی دے دی۔ یہ نامعلوم مقام بھی ایک لطیفہ ہے سٹیلائٹ موبائل نتھو پتھو کے کھوکھے پر نہیں ملتا۔ شناختی کارڈ، ٹیکس نمبر، پتہ وغیرہ دینے کے بعد ہی ملتا ہے اور اس ملک کی خفیہ ایجنسی کو ایک کاپی بھی دی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں وہ موبائل بذریعہ سٹیلائٹ کام کرتا ہے۔ ایک ایک حرکت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ خیر پنچ کہیں بلی تو بلی ہی سہی ،ڈاکخانے کا کیا کام۔

اغوا کاروں نے ایک تو محکمہ کو چار روپے کا Revenue Lossدیا۔ ڈاک ٹکٹ نہ لگائے علاوہ ازیں صحافیوں کو اطلاع دی کہ ” وہ وہیں باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھاہے “۔ ارشاد مستوئی نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ وہ جی پی او دوڑپڑا، اسے ڈر تھا کہ جان سولیکی کا لال کباب یا لہڑی سجّی نہ بنا دی جائے۔ جھٹ ٹاﺅن انسپکٹر کو ساتھ لیا اور رات گئے اس ناہنجار انسپکٹر نے لیٹر بکس کا تالا توڑ ڈالا۔ بطور ثبوت کے خط کہاں سے برآمد ہوا ویڈیو بھی بنا ڈالی۔ چار روپے کے نقصان پہ پیچ و تاب کھا رہا تھا کہ تالہ علی گڑھ والا بھی گیا ( برطانوی عہد میں ڈاکخانوں کو علی گڑھ سے تالے آیا کرتے )۔ جی تو چاہتا تھا کہ اپنے ٹاﺅن انسپکٹر کو توپ دم کرا دوں اس کا سر جاکر چھتّر( ایک قصبہ) پہ گرے۔ مگر اس کے افسر کے ذریعے اُسے معطل کرنے پر ہی اکتفا کی۔ وہ کمبخت معطل ہوکر بالکل ہی آزاد ہوگیا۔ اور میرے خلاف لا بینگ کرنے لگا۔ صحافی اس کی مظلومی کی کہانیاں کہنے لگے کہ اس نے تو ایک امریکی کی جان بچائی ہے ورنہ کیا عجب ہمیں سود پر ادھار دینے والے ہاتھ ہی کھنچ لیتے۔ ارشاد مستوئی بھی ضد کرنے لگا کہ اُسی کے کہنے پر تالہ ٹوٹا تھا۔ لہٰذا یہ اُسی کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ دوبارہ اسے ڈیوٹی دلوائے۔ نواب زادہ لشکری رئیسانی بھی ٹاﺅن انسپکٹر کے لےے کہنے لگا۔ بلوچستان کا رواجی قانون ہے کہ معززین جس کی سفارش کریں اس کا کام کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس مرد نا ہنجار کو ڈیوٹی پہ لے لیا۔ تاہم حفظ ما تقدم کے طورپر انکوائری شروع کرادی۔ ہمارے ملک میں انکوائری داستان الف لیلیٰ کی مانند کبھی ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں مروجہ انداز تھا کہ حکومت نے انکوائری ٹیم بٹھادی۔ مرغی بھی انڈوں پر ایک مقررہ مدت تک ہی بیٹھتی ہے۔ جبکہ انکوائری ٹیمیں تیس چالیس برس سے بیٹھی ہیں تو شور اٹھا کہ ان بیٹھی انکوائری ٹیموں کو اٹھانے کے لےے بھی انکوائری ٹیمیں قائم کردی جائیں۔ اب یہ اٹھک بیٹھک ریڈیو کی مانند متروک ہوئی۔ اب حکومت کی زبان یوں بدلی” صدر نے نوٹس لے لیا۔وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا“۔ نوٹس لے لیا یا جلاب لے لیا ۔ہوتا کچھ بھی نہیں ۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ یاد رہے کہ باقی بلوچ نے لاہور ہائی کورٹ میں کیس لگایا تھا کہ ایوب خان نے بلوچستانی علاقہ ایران پہ بیچ ڈالا ہے ۔ وہ کیس گزشتہ پچاس برس سے زیر سماعت ہے۔ بغیر کمیٹی بٹھائے بھی کام چلتا ہے۔ ارشاد مستوئی نے جان سولیکی کے اغواءپر مجھ سے تبصرہ چاہا تو میں کنّی کترا گیا۔

بھئی میں تو افسانہ نگار ہوں۔

ارشاد مستوئی کہاں نکلنے دیتا ” دنیا کا کوئی بھی ادیب اپنے ملکی حالات سے لا تعلق نہیں رہتا۔ یہ جو اغواءہورہے ہےں لاشیں گر رہی ہیں ۔ ان پہ تبصرہ کریں“۔

” برخوردار “ میں نے چائے پیش کی” میرے دوست ڈاکٹر امیر الدین نے بھی تبصرہ پیش کیا تھا۔ چند ہی روز میں مرحومین میں شمار ہونے لگا۔ افسانے کے اسرار و رموز البتہ سمجھا سکتا ہوں“۔

چونکہ ارشاد مستوئی میرا احترام کیا کرتا۔ مسکراتا ہوا اپنے کیمرہ مین کے ساتھ واپس چلا گیا۔ میں نے بھی پورا گلاس پی ڈالا۔ یہ نوجوان تو آگ سے کھیل رہا ہے۔ جوان ہوتا نظر نہیں آتا ۔ مجھے بھی مرواڈالے گا جبکہ میں ترقی کے لےے مرا جاتا ہوں۔
میں نے کوئٹہ پریس کلب کے گیٹ پر ارشاد مستوئی کی یہ بڑی سی تصویر دیکھی تو بہت خوش ہوا۔ کم عمری کے باوجود محض انتھک محنت اورلگن کے باعث اس نے یہ مقام حاصل کیا تھا ۔ صحافت میں ایمانداروں کو تنخواہ سے زیادہ موت کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ تنخواہ تو پہلی تاریخ کو ہی ملتی ہے جبکہ موت کی دھمکیاں مہینہ بھر ملتی رہتی ہیں۔ ارشاد مستوئی کی ذہین سیاہ آنکھیں دیکھتا۔ اس کی جوانی، اس کے ارادے تو میں اُسے پرومیتھیس کہا کرتا۔

پرومیتھیس تو Titan تھا۔ اس نے یونانی دیوتاﺅں سے جنگ کی ،Olympian دیوتاﺅں سے مقابلہ کیا۔ Olymus سے آگ چُرا کر انسانوں کے پاس لے آیا ۔یوں اس نے انسانوں کیMisery ختم کردیHesiod لکھتا ہے کہ اس جرم اور بغاوت کے باعث Eternal punishment inflicted by zeus ۔

جبکہ ارشاد گوشت پوست کا انسان تھا دنیائے صحافت کاHector تھا۔ اور وہ بھی نکلا تھا۔Achile( ایکلی اس)کا مقابلہ کرنے۔Achilesکی ماں دیوی (Nymph)تھی۔ اس نے اپنے بیٹے کو حیات جاوداں دینے کے لےے دریائے Styx میں غوطہ دیا تھا ۔ لیکن دو انگلیوں سے ایڑی تھامے رہی تھی۔ چنانچہ وہاں دریا کا پانی نہ چڑھا۔ اور یہی ایڑھی والی جگہ کمزور رہ گئی۔ جہاں ہتھیار اثر کر سکتا تھا ۔آج کے ایکلیز ماں کے ہاتھوں دریائےStyx میں غوطہ نہیں کھاتے۔ بلکہ دولت کے دریا میں غوطے کھاتے باہر نکلتے ہیں۔ وہ بلٹ پروف کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ بلٹ پروف جیکٹ پہنچتے ہیں۔ ان کے گھر بلوچستان سیکریٹریٹ کی مانند قلعہ نما دیواروں کے اندر ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے گیٹوں پر ہمارے ٹیکس سے تنخواہ پانے والے سپاہی ہوتے ہیں۔ جو ہمیں ڈنڈے مار مار کر پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ ریڈ لائیٹ ایریا تو تھا نہ روڈ کی گلیوں سے ختم کردیا گیا تھا۔ اس کی جگہ اب ریڈ زون ایریا نے لے لی ہے ۔ جہاں ٹیکس چور ، جعلی ڈگری والے ، جعلی ووٹوں والے ڈریکولا عوام کا خون چوسنے کے لےے برا جتے ہیں۔ جو صحافی جو ادیب ان کی راہ میں آیا جس نے سچ لکھا وہ مارا گیا ۔ چاہے کسی بھی لسانی گروہ یا نظریاتی طبقہ کا انسان رہا ہو۔ ان کے جنازوں کو کندھا دیتے دیتے میں توکبڑا ہوگیا۔ مگر کبھی کسی کا قاتل نہ پکڑا گیا۔ چند روز احتجاج ہوا ۔ دھرنا دیا گیا ۔ پھر وزیراعلیٰ ایک ادائے دلربائی سے دو ہاتھ اٹھائے وہاں فاتحہ خوانی کرتا دکھائی دیا۔ وزیراعلیٰ ماڈلنگ کرتا تواس کا سٹاف اگلے ہی روز اشتہاری چیک کے ساتھ تصویر کسی بڑے اخبار کے حوالے کردیتا کہ نمایاں طو رپر پہلے صفحہ پر لگائی جائے۔ صدر نے نوٹس لے لیا۔ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا جیسےCaptionپڑھ پڑھ کر عوام خوش ہوتے رہے مگر پھر مایوس ہوگئے کہ نوٹس لیا ہے یا کہ جلاب لیا ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلا ۔ ادھر جرم تھا اور بہت ہی بڑا جرم تھا کہ ارشا د مستوئی بلوچستان میں علم کی روشنی پھیلانا چاہتا تھا ۔ حالانکہ ہمارے حکمران گھرانے صدیوں سے جاپ رہے ہیں کہ Ignorance is Bliss ۔جو مزہ کچّھی کی بھنگ پی کردیائے بیجی کے کنارے لیٹنے میں ہے۔ وہ خبریں کھوجنے میں کہاں۔ اور دنیا میں کہیں بھیAbsolute Truthنہیں ہے ۔ سبھی کچھRelativity پر قائم ہے ۔ میں نے وہ زمانہ دیکھا کہ بنگالی سپاہی پاکستانی سپاہی گولیاں ایک دوجے پر برسا رہے تھے۔ دو قومی نظریہ کی بندوق سے ایک دوسرے کو مارتے ہوئے کلمہ پڑھ پڑھ کر جان دے رہے تھے ۔ دونوں شہید تھے دونوں ہی مظلوم ۔ اور ہمارے حکمران پاکستان کے وسیع تر مفاد میں معاملہ سلجھانے کی بجائےBlack Box Administrationسے کام لے رہے تھے۔ وہ کسی طورپر کبھی بھیConsultative Administrationپہ آمادہ نہ ہوتے۔ قتل و غارت کا دائرہ پھیل رہا تھا۔ اسلحہ بک رہا تھا ، کلینک چل رہے تھے۔ سرجنوں کی چاندی تھی۔ کفن فروش گورکن مال سمیٹ رہے تھے ۔ مگر کوئی سمجھوتہ کوئی تصفیہ کوئی میڑھ نہیں ہورہی تھی۔ ایک غیر اعلانیہ سول وار زور پکڑ رہی تھی۔

ارشاد مستوئیPredictment of a divided selfکی بجائے edekrysen( یسوع مسیح کے آنسوﺅں کے لےے یونانی لفظ ) کی دنیا میں چلا آیا تھا۔ وہ بہت بالاتر ہوکر انسانوں کے دکھوں کو دور کرنا چاہتا تھا۔ غربت اور افلاس کو دور کرنا چاہتا تھا ۔ تھانوں کے سامنے سر پر تیل ڈال کرنے مرنے والیRape Victimsکو باعزت زندگی دلوانا چاہتا تھا۔

اسAge of violant commercialism میں بھی وہ انسان انسانیت اور معاشی برابری کی بات کرتا تھا ۔
اس دانشور گھرانے سے میں متاثر تھا۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب مہر در میں میری تحریری کپوت بھی شامل ہے۔ اس کا بھانجہ عابد میر جسے میں پیار سے پروفیسر کہتا ہوں میری کتاب پرندہ شائع کرنے کی جرات کرسکا ۔لوگ تو موت کا منظر ۔ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ بہشتی زیور یا رضیہ گھنٹوں میں پڑھنے کے عادی ہیں۔ پرندہ ڈوب گیا ۔جس پہ ہمیں نہ تو تاسف ہوا نہ ہی حیرت۔

ارشاد مستوئی14 اپریل1977 کو علی آباد تحصیل چتھرمیں حاجی خان مستوئی کے ہاں پیدا ہوا۔ ان کے بیٹے ڈاکٹرسعید اور اشفاق بھی نہایت ہی دانشور ثابت ہوئے۔ اپنے بھتیجے گل مستوئی کو گود لیا تھا۔ لہٰذا وہی ان کا بڑا بیٹا شمار ہوتا۔ ارشاد مستوئی نے نہایت ہی کم عمری میں ساتھی نونہال سنگت میں شمولیت کی۔ نو برس کی عمر میں کراچی میں ایسی تقریر کی کہ میرے کرم فرما شیخ ایاز جھوم اُٹھے ۔ اور فطرطِ مسرت سے ارشاد کا پدرانہ بوسہ لیا۔ یہ بوسہ ارشاد کو Baptizeکر گیا ۔ وہ عمر بھر بائیں بازو کے نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ سوویت یونین کمیونزم کا Iconتھا۔1990 میں سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل منہدم ہوگیا۔ جس میں ہمارا بھی ہاتھ ہے ۔ ہم بھی داڑھیاں بڑھا افغان مجاہد بن کر ان پر ٹوٹ پڑے تھے ۔ موجودہ طالبان پاکستان اسی جرم کا خمیازہ ہے۔ یہ کرم یوگ ہے بابا۔ افغان جنگ کے Illegitimte child ہیں۔

چھتر میں تعلیم کے امکانات نہ تھے۔ لہٰذا حاجی خان مستوئی نے خان گڑھ ( جیک آباد) ہجرت کی ۔ ارشاد کی تعلیم بھی یہیں ہوئی۔
1999 میں وہ کوئٹہ چلا آیا۔ ان دنوں میں بلوچستان کا پوسٹ ماسٹر جنرل تھا۔ پریس کلب نے ڈاکٹر چشتی مجاہد کو اور مجھے اعزازی ممبر شپ دے رکھی تھی ۔ کیونکہ ہم باقاعدہ صحافی نہ تھے البتہ صحافیانہ سرگرمیوں سے وابستہ رہا کرتے۔ اور میں تو 1973 سے جنگ ،مشرق اور بلوچستان ٹائمز وغیرہ میں لکھتا چلا آرہا تھا ۔میں نے ارشاد کو ایک ذہین دلیر اور Devotedنوجوان سمجھ کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔ میری کوشش رہی کہ وہ آگ سے نہ کھیلے صحافی نہ بنے اور صحافی بننا بھی ہو، تو اس گروہ کا حصہ بنے جنہیں غیر ملکی دورے خطیر رقوم قیمتی پلاٹ اور پٹرول پمپ دےے جاتے ہیں۔ جن کے نام پر سڑکیں رکھی جاتی ہیں ۔ جو اپنا ضمیر لوڑ کاریز میں پھینک آتے ہیں۔ ان کے بچوں کے سوا گھر میں کچھ بھی ان کا اپنا نہیں ہوتا۔ امداد ، عطیہ ، تحفہ، وظیفہ پانے والے صحافی جنہیں تمغہ امتیاز، تمغہ بسالت ، تمغہ ذلالت ملتا ہے۔

ارشاد نہ مانا تو میں نے افسانہ نگاری ناول نگاری پر راغب کرنا چاہا کہ ملک میں جعلی ڈگری والے ٹیکس چور، انگوٹھا چھاپ وزیر وزراءہیں۔ وہ اول تو ادب پڑھ ہی نہیں سکتے۔ اور اگرخدانخواستہ کتاب اٹھا بھی لیں تو ان کے پلّے کچھ نہیں پڑے گا۔ افسانہ نگاری بھی محبت کی مانند ناقابل دست اندازی پولیس جرم ہے ۔ شاید ہی کوئی افسانہ نگار پکڑا گیا ہو۔

2001 میں میری تبدیلی اسلام آباد ہوئی جسے میں پیار سے کوفہ کہتا ہوں۔ اسلام آباد کوئی شہر نہیں بلکہ ایک بہت بڑا دفتر ہے جس کے قبرستان سے بھی گزرو تو آوازیں آتی ہیں کہ سنبھل کے بھیا میں فلاں گریڈ کا افسر رہا۔ اسلام آباد پاکستان سے یہی کوئی بائیس کلومیٹر دور ہے ۔ دس برس میں نے اسلام آبادی بیوروکریسی میں کاٹے۔ اس دوران ارشاد ایک بڑا نامور صحافی بن چکا تھا۔ گوادر میں بجلی کے تاروں سے اس کا دائیاں ہاتھ جھلس کر ضائع ہوچکا تھا ۔Horse Mouth سے سنا تھا کہ ایک راکٹ نازل ہوا تھا ۔ جس نے بجلی کی تاریں یوں لٹکا دی تھیں۔

28 اگست2014 کو میں ایک ڈنر میں تھا کہ فون آیا ارشاد کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کی گئی ۔ اس کے دونوں ساتھی بھی گھائل ہوئے ہیں۔ میں نے عالم بدحواسی میں عابد میر کو فون کیا۔ عابد میر ہے تو چھوٹا سا مگر بلند حوصلہ انسان ہے۔ اس نے بتلایا کہ وہ خود بھی ہسپتال جارہا ہے ۔ اس کے لہجے میں استقامت تھی۔

اور پھر یوں ہوا کہ میں نے دیکھا سچ کی آواز کو ایدھی ٹرسٹ والے تابوت میں سلا رہے ہیں۔ کیا لکڑی کا تابوت سچ کی آواز روک لے گا؟ لیکن سچ توطاقتور بولتا ہے ۔پاکستان کے 99 اعشاریہ9فی صد تو جھوٹے ہیں کیونکہ وہ کمزور ہیں وہ غریب ہیں۔ مجھے اس37سالہ صحافی کی 4 سالہ اور 2 سالہ بیٹی یاد آئی اور 8ماہ کا بیٹا ۔جانے بلوچستان کی مٹی اپنے نوجوانوں سے اتنی محبت کیوں کرتی ہے انہیں جوان ہونے کیوں نہیں دیتی؟ یا وہ سبھی یونانی محاورہ کی مانند دیوتاﺅں کے پسندیدہ ہیں۔

They die young whom gods love ۔ارشاد مستوئی ہمارے دور کا پرومیتھیس تھا۔ وہ آگ نہیں آگاہی لینے گیا تھا۔ آگ تو یوں بھی ہمارے گرد بھڑک رہی ہے۔ پرومیتھیس ہمارے سامنے قتل ہوگیا۔ اور ہم اس کے قاتلوں کے سامنے سربسجود ہیں۔ کبھی فرشتوں نے انسان کو سجدہ کیا تھا آج وہی انسان اپنے دور کے شیاطین کے حضور سجدہ ریز ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *