Home » پوھوزانت » استاد مکرم سی آر اسلم ۔۔۔ جاوید اختر

استاد مکرم سی آر اسلم ۔۔۔ جاوید اختر

سی آر اسلم 15جنوری 1915ء میں شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹ نظام الدین میں ایک کسان کے گھرپیدا ہوا۔ اس نے گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل میں میٹرک تک پڑھا۔  اپنے کلاس فیلو حمید نظامی سے مل کر ”روزنامہ نوائے وقت“ کا اجراء کیا۔ سکول میں اقبال نامی ایک استاد نے اس کو مارکسزم سے روشناس کرایا۔ بعد ازاں مدرسے سے ”گلستان سعدی“ اور ”بوستان سعدی“ ایسی کتابیں پڑھیں۔ فاضل کا امتحان پاس کیا۔ اور پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے ملٹری اکاؤنٹس لاہور میں ملازمت اختیار کی۔ دوران ملازمت کراچی، کلکتہ اور دیگر شہروں میں زندگی کے دن گزارے۔ جب یہ عارضی ملازمت ختم ہوگئی تو وہ لاہور واپس لوٹ آیا۔ اس وقت اجے کمار گھوش، سردار شوکت علی اور دادا فیروز الدین کی سنگت نے اسے کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ کردیا اور اُس کی کمیونسٹ نظریہ و تحریک سے عملی و نظریاتی وابستگی تادمِ مرگ قائم رہی۔تحریک خلاف اور تحریک آزادی کے ساتھ ساتھ مزدور یونین، کسان سبھائیں، طلباء انجمنیں اور کمیونسٹ پارٹی عام پر آچکی تھیں۔ 1930ء میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اس زمانے میں ہندوستان بھر میں مارکسی فلسفہ نچلے درمیانے طبقے تک مقبول ہوگیا۔ اقبال نامی، سی آر اسلم کے سکول کا ایک استاد مارکسزم سے متاثر ہوا، جس نے پہلی مرتبہ اسے اس فلسفے سے روشناس کرایا۔ سی آر اسلم نے جب میٹرک پاس کرلیا تو بد قسمتی سے 1929ء میں عالمی سرمایہ داری میں ایک زبردست بحران جسے Great Depressionکا دور کہاجاتا ہے، شروع ہوا۔ جس نے پوری دنیا کو بری طرح معاشی اعتبار سے متاثر کیا۔ ہندوستان میں بھی غربت و افلاس میں اضافہ ہوا کسان بری طرح فاقوں مرنے پر مجبور ہوگئے۔ سی آر اسلم کے والدین بھی اس معاشی بحران سے نہ بچ سکے۔ انہوں نے اس کی مزید تعلیم کو معرض التوا میں ڈال دیا اور اسے مشورہ دیا جب ہمارے حالات اس قدر خوش گوار ہوں گے کہ آپ کی کالج کے تعلیمی اخراجات برداشت کرسکیں تو آپ کو کالج میں داخلہ دلوادیں گے۔سی آر اسلم کا نام عالمی کمیونسٹ تحریک میں عموماً اور برصغیر کی کمیونسٹ تحریک میں خصوصاً ایک معتبر حوالہ تصور کیا جاتا ہے۔

۔1983ء میں مجھے استادِ محترم ڈاکٹر خیال امروہوی نے ایک کتابچہ ”خواتین کے بارے میں لینن کے خیالات“اور ”عوامی جمہوریت“ کے کچھ پرچے دیے اور کہا کہ انہیں پڑھو اور پڑھ کر مجھ سے ان پر بحث کرو۔ اس کے پہلے صفحے پر سی آر اسلم نے کلارازٹیکن کاایک مختصر سا تعارف تحریر کیا تھا۔ یہ سی آر اسلم سے میرا اولین غائبانہ تعارف تھا۔ نیز ”عوامی جمہوریت“ میں بھی سی آر اسلم کی خرد افروز تحریریں شامل تھیں۔ اس کتابچے اور سی آر اسلم کے مضامین کے مطالعے نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اس کے بعد مجھے اس کی دیگر تحریریں اورسوشلزم کے بارے میں کتابیں پڑھنے کااشتیاق پیدا ہوا۔ اب میں  ہفت روزہ ”عوامی جمہوریت“ کا باقاعدہ قاری بن گیا۔ اس کے مطالعے نے مجھے محنت کشوں کے مسائل اور ان کے حل سے روشناس کرایا۔اس وقت میں کوئٹہ میں پاکستان ریلوے ورکرز یونین میں کام کرتا تھا۔جلسے، اجلاس، سٹڈی سرکل، ہڑتالیں اور یوم مئی کے جلوس میرا شب و روز کا معمول تھے۔ اس دوران جس میں میری ملاقات کچھ انقلابی کامریڈوں سے ہوئی۔ جنہوں نے مجھے سٹڈی سرکل سے مربوط کردیا۔ یہ ہفتہ وار سٹڈی سرکل تھا۔ جس میں مارکسی فلسفہ، جدلیاتی مادیت، تاریخی مادیت اورعالمی پرولتاری تحریک پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ اس وقت میں نے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی مشہور زمانہ تصنیف ”کمیونسٹ مینی فسٹو“، فریڈرک اینگلز کی کتاب سائنٹفک اور یوٹوپیائی سوشلزم“  اور”خطوط لینن“ سوانحِ لینن کا مطالعہ کیا۔ علاوہ ازیں اس کے بعد مارکسزم پر جو بھی مواد ملتا میں اُسے پڑھتا چلا گیا۔

۔ 1987ء میں میں کوئٹہ ڈویژن کے ریلورے ورکرز یونین کے ایک وفد کے ساتھ مرزا ابراہیم سے ملنے لاہور  جانے  کا اتفاق ہوا تو عوامی جمہوریت کے دفتر میں مرزا ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔ اس وفد میں عبد اللہ جان، محمد امین اور پرویز احمد اور دیگر بھی شامل تھے۔ دریں اثناء سی آر اسلم سے بھی ملاقات رہی۔میں وہاں ایک ہفتہ رہا اور تقریباً ہر روز اس سے ملاقات کرتا رہا۔ وہ ایک سادہ سا، معصوم اور مخلص انسان تھا۔ وہ ایک معمولی سی معمولی بات کو ایسے فلسفیانہ انداز میں پیش کرکے اس کا مارکسسٹ تجزیہ کرتا تھا کہ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہر سطح کے سامعین متاثر ہو جاتے۔ وہ ایک موضوع کی دوسرے موضوع سے منطقی و جدلیاتی کڑیاں ملاتا چلا جاتا۔ اور آخرکار اس کی صاف تصویر کشی کردیتا تھا۔ اس دوران اس نے مجھے کچھ کتابیں  اور کتابچے  بھی دیے، جن میں ”علم المعیشت“، ”جدلی و تاریخی مادیت“ شامل تھیں۔ ان کتابوں سے میں نے ہمیشہ اکتساب فیض کیا۔ سی آر اسلم سے میری یہ ملاقاتیں ایک دائمی نظریاتی رشتے میں بدل گئیں۔ میں نے کوئٹہ واپس پہنچ کر اسے خط لکھا، جس کا اس نے فوراً بڑی شفقت سے جواب دیا۔ بعد ازاں اس سے میرا خط و کتابت کا ایک سلسلہ چل نکلا، جو اس کی وفات تک جاری رہا۔

۔1988ء میں میں حصول تعلیم کے سلسلے میں لاہور منتقل ہوگیا توسی آر اسلم سے میری صبح شام ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہرروز اس سے ”عوامی جمہوریت“ کے دفتر میں ملاقات ہوتی اور ہر شام اس کے گھر میں۔ اس دوران میں نے اس سے مارکسزم، فلسفہ، تاریخ، سیاست، مارکسی تنقید، اورادب پر لیکچرسنے اور ان سے بے حد استفادہ کیا۔ میں ہر روز اس سے ایک سوال کرتا۔ جس کے جواب میں اس کا دریائے علم ٹھاٹھیں مارناشروع کردیتااوروہ گھنٹوں اُس موضوع پر بولتا رہتا۔ ایک مرتبہ میں نے فلسفہ پر بات کی تو اس نے بے شمار کتابیں میرے مطالعے کے لیے تجویز کردیں، جنہیں میں کئی مہینوں تک پڑھتا رہا اور ہر شام ان کے مواد پراس سے بحث کرتا رہا۔ اس سے میری فلسفہ فہمی اور ذوقِ فلسفہ میں اضافہ ہوتاگیا۔اب میں یونانی فلسفہ، کلاسیکی جرمن فلسفہ، جدید فلسفہ اور مارکسی فلسفہ سے اچھا خاصااستفادہ کرچکا تھا۔ جس نے میرے نقطہ نظرمیں انقلابی تبدیلی پیدا کی۔

سی آر اسلم نے ایک روز مجھ سے پوچھاکیا تمہارے نصاب میں ولیم ہنری ہڈسن کی کتاب “An Introduction to the study of literature”شامل ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ تواس نے کہا کہ ہمارے زمانے میں یہ کتاب ادب کے نصاب میں شامل تھی۔ اور مجھے اتنی اچھی لگی کہ میں نے اس کااردومیں ترجمہ بھی کر ڈالا تھا۔ تم اسے ضرور پڑھو یہ تمہیں بہت فائدہ دے گی۔ میں نے یہ کتاب ڈھونڈ کر پڑھ لی جو واقعی ادب کے تعارف، ادبی اصناف اور ادبی مسائل پر بہت معلوماتی اور مفید کتاب تھی۔ ایک روز فرانسیسی انقلاب 1779ء پربات ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ انقلاب آگے بڑھ کر جولائی 1830ء کا انقلاب بنا۔ پھر 1848ء کے انقلاب میں تبدیل ہوا اور 1871ء میں پیرس کمیون کے قیام اور تحلیل تک جاری رہا۔ ان سارے انقلابات کے سلسلے کو سمجھنے کے لیے تم وکٹرہیو گو کے ناول “Les Miserables” اور کارل مارکس کی کتاب The Eighteenth Brumair of Louis Bonaparte”کا مطالعہ کرو۔ میں نے ہر دو کتابوں کا مطالعہ کیااور دوران مطالعہ بہت سے مشکل نکات جو مجھے سمجھ میں نہیں آتے تھے، اس سے دریافت کرتا رہا۔ وہ اتنی شفقت اورمہربانی سے انہیں اس قدرآسان اور سیدھے سادھے انداز میں سمجھا دیتا تھا کہ میں حیران رہ جاتا۔ وکٹرہیگو کے مذکورہ بالا ناول کے علاوہ میں نے اس کا ایک اور ناول “Hunchback of Notre Dame”بھی پڑھ لیا اور ایک شام کو جب میں نے اسے بتایا کہ میں نے یہ ناول بھی پڑھ لیا ہے تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے مجھے موپساں کے افسانے، بالزاک کے ناول Lost Illusions، “Pere Goriet”، “Human Comedy”، ایمل زولا کا ناول “Germinal”اور فلابیئر کاناول  “Madarre Borvary”اورستیند ہال کا ناول “Scarlet and Black”تجویز کردیے۔ ان کے مطالعے نے میری آنکھوں کے سامنے ایک نئی دنیا کھول کر رکھ دی۔ جرمن ادب میں اس نے گوئٹے، ہائینے، ٹامس مان اور بریخت کی کتابیں تجویز کیں، ایک روز اس نے مجھے کہا کہ اب تم ٹالسٹائی کے ناول “War and Peace”کو بھی پڑھ لو مگر یہ بہت مشکل ناول ہے۔ ایک بار پڑھنے سے سمجھ میں نہیں آئے گا۔ تم ایسا کرو کہ اس سے پہلے ٹالسٹائی کاناول “Anna Karenina” پڑھو پھر اس کے بعد “War and Peace”کو پڑھنا۔میں نے ایساہی کیا مگر مجھے دونوں ناول سمجھ میں نہیں آئے۔ پھر میں نے بہت بعد میں ان ناولوں کو پڑھ کر ان کا جزوی ادراک کیا۔ علاوہ ازیں اس نے مجھے روسی ادب میں پشکن، ہرزن، لرمنٹوف،گوکول گونچاروف، گورکی،ترگنیف، سوستووسکی،شولوخوف،ا ور مایا کوفسکی کو پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔میرے ایم اے انگریزی کے نصاب میں ایک پیپر امریکی ادب بھی شامل تھا،جس میں امریکی ادب کی تاریخ، ناتھانیل ہاتھورن، ہرمن ملوائل، ایملی ڈکن سن، مارک ٹوئن، رابرٹ فراسٹ، سنکلر لیوس، اڈگریلن پو، والٹ وھٹمن، ارنسٹ ہیمنگوئے ہنری جمیز، یوگینی اونیل، آرتھر ملر کی تحریریں شامل تھیں۔ میں نے ایک روز امریکی ادب کے بارے میں سی آر اسلم سے بات کی تو اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے نصاب میں جیک لنڈن اور ہاورڈ فاسٹ شامل ہیں؟۔میں نے جواب دیا نہیں۔ تو اس نے کہا کہ امریکی ادب میں بس آدمی یہی دو ہیں جو مجھے سب سے زیادہ متاثرکرتے ہیں۔ پھراپنے ذاتی کتب خانے سے اس نے مجھے جیک لنڈن کا ایک ناول “Call of Wild”اور   “Reader in Modern American Literature”دیں۔ثانی الذکر کتاب میں 1940ء اور 1950ء کے عشروں تک امریکی ناول، ڈرامہ اور شاعری سے انتخاب شامل تھا۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد میں مسز بیچر سٹو،اوپٹان سنکلئر، ہاورڈ فاسٹ، جان سٹین بیک، کارل سینڈ برگ ایسے امریکی ادیبوں کی انقلابی تحریروں تک رسائی کرنے کے قابل ہوا۔

سی آر اسلم نے ایک دن مجھے سبط حسن اور علی عباس جلال پوری کی کچھ کتابیں دیں اور کہا کہ میں نے انہیں پڑھ لیا ہے تم بھی انہیں پڑھ لو یہ تمہارے لیے بہت مفید ہیں۔ یہ دو مصنف ان دنوں ترقی پسند حلقوں میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ اور ان کی کتابیں بہت بڑی تعداد میں پڑھی جاتی تھیں۔ اور ان کی نئی آنے والی کتابوں کا بہت بے چینی سے انتظارکیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں سی آر اسلم نے مجھے مارکسزم پر بہت سی کتابیں اپنے دستخطوں کے ساتھ دیں۔ اورکہا کہ یہ اتنے باریک حروف میں چھپی ہوئی ہیں کہ میں انہیں نہیں پڑھ سکتا ہوں۔ ان کتابوں میں پی این فیڈوسئیف کی مرتب کردہ کتاب “Scientific Communism” بھی تھی،جس پراس نے  اپنے دستخط کے ساتھ لکھاتھا:

“Presented to Javed Akhter as a token of love and respect.”

C.R.Aslam

14/6/88.”

ایک دن سی آر اسلم نے مجھے ڈاکٹر مبارک علی کی بہت سی کتابیں دیں اور کہا کہ ڈاکٹرصاحب آیا تھا اور اپنی یہ کتابیں مجھے دے گیا تھا۔ میں نے انہیں پڑھ لیا ہے۔ تم بھی انہیں پڑھو یہ تاریخ پر بہت اچھی کتابیں ہیں۔ اس سے پہلے میں ڈاکٹر مبارک کی کچھ کتابیں پڑھ چکا تھا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کوجس سادہ، عام فہم اور سلیس انداز میں تحریرکیاتھا کہ وہ عام سے عام انسان کو بھی بہ آسانی سمجھاجاتی تھی۔

سی آراسلم نے مجھے کچھ کتابیں دیں،جن میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی منتخب تصانیف لینن کی منتخب تصانیف اور ماوزے تنگ کی منتخب تصانیف کے علاوہ فریڈرک اینگلز کی کتابیں “Ludwig Feverbach and the End of Classical German Philosophy”، “Engels on Marx’s Capital”، لینن کی کتابیں “What is to be Done?” اور “The Development of Capitalism in Russia” اور سسلوف کی ایک چھوٹی سی کتاب “Brilliant Teacher and Leader of the Working Class” شامل تھیں۔ ان کتابوں کو آہستہ آہستہ پڑھتا رہا، اور ہر روز ان کے مواد پر اس سے بحث کرتا رہا۔ اس نے ان کتابوں کی وضاحت اس قدرآسان اورسیدھے سادھے انداز میں کی کہ ان کی تفہیم میرے لیے بہت ہی آسان ہوگئی۔

ایک شام میں نے بالشویک انقلاب کے بارے میں بات کی تو اس نے اس کی تاریخ اور بالشویک پارٹی پر گفتگو شروع کی جو کئی ہفتوں تک جاری رہی اس نے مجھے ”کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ (بالشویک) دی، جسے انگریزی سے اردو میں نور الحسن، عبد العلیم، مخدوم محی الدین اور احتشام حسین نے ترجمہ کیا تھا۔ اسمیں 1880ء سے 1901ء تک روسی بالشویک پارٹی کی تشکیل اور 1937ء تک اس کے ارتقاء اور جدوجہد کی تاریخ بیان کی گئی تھی۔ اس کتاب کے مطالعے نے مجھے لینن اور اس کی بالشویک پارٹی اور اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب اورروس میں سوشلسٹ نظام کی تعمیر کو سمجھنے میں بہت مدد دی۔ پھر ہماری بحث انقلاب چین پر کئی ہفتوں تک جاری رہی اور سی آر اسلم نے مجھے اس کی کہانی اس قدردل پذیرانداز میں سنائی کہ میں نے مکمل طور پر اس کو سمجھ لیا۔

اس زمانے میں ہمارے خطے میں دو انقلاب نئے نئے برپا ہوئے تھے، جن میں افغان ثور انقلاب اور انقلابِ ایران شامل تھے۔ اس نے ثورِ انقلاب پر مجھے بہت سے لیکچر دیے اور اس وقت اس پر لکھی گئی عبد اللہ ملک کی کتاب ”انقلاب افغانستان“ بھی دی۔ اسی طرح انقلاب ایران پر اس نے مجھے کئی لیکچر دیے۔ جن میں ایرانی کمیونسٹ پارٹی (تودہ پارٹی) کی تاریخ، جدوجہد اور اس کی بے مثال جانی قربانیوں کا ذکر شامل تھا۔ علاوہ ازیں اس نے مجھے انقلاب ویت نام، انقلاب کیوبا، ایران کو سمجھنے کے لیے اس نے مجھ سے کہا کہ سبط حسن کی کتاب ”انقلاب ایران“ کا مطالعہ ضرور کرو انقلاب چلی اور انڈونیشیاء میں کمیونسٹوں کی قربانیوں کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا۔ اس نے انقلاب سپین کی ناکامی، خانہ جنگی، جنرل فرانکوکی ظالمانہ اور آمرانہ فوجی حکومت پر بھی تفصیل سے بات کی۔ اس میں انٹرنیشنل برگیڈ کے طرف سے برطانوی دستوں کی طرف سے لڑنے والے برطانوی ادیبوں،کے بارے میں بتایا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *