Home » پوھوزانت » امریکی قرضے ۔۔۔ فیڈل کاسٹرو

امریکی قرضے ۔۔۔ فیڈل کاسٹرو

جیفری ایلیٹ: جناب صدر، بار بار لگائے گئے اس الزام پر آپ کا کیا رد عمل ہے کہ لاطینی امریکہ کے ممالک پر انقلابی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرضہ ادا کریں۔ یہ کہ پیسہ نیک ارادوں کے ساتھ دیا گیا تھا اور یہ کہ قرضوں کی ادائیگی میں ان کی ناکامی بڑی نیت کی نشانی ہوگی؟

فیڈل کاسڑو: میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس پیسے کا کیا بنا۔ روایتی طور پر قرض لینے کے خواہشمند قرض لینے کے لیے بنکوں میں جایا کرتے تھے۔ حالیہ سالوں میں اس طریقے کو الٹ دیا گیا۔ بنکوں نے بھاری رقمیں ڈھیر کردیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ انہوں نے تیل کی قیمتوں کے عروج کے دوران تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مالیاتی منافعے کو جمع کیا اور اس طرح صنعتی ممالک نے بھاری رقموں کا ارتکاز کیا۔ بنکوں کا کردار پیسہ بڑھانا، پیسہ ادھار دینا اور سودکمانا ہوتا ہے۔ چنانچہ بنکوں نے پیسہ قرض پر دینے کے لیے لوگ خود تلاش کیے اور بہت پیسہ قرض دیا۔

تقریباً بیس پچیس سال قبل لاطینی امریکہ پر عملاًکوئی قرض تھا ہی نہیں۔ جبکہ اب اس کی مقدار 360بلین ڈالر ہے۔ یہ پیسہ کس مد میں گیا؟۔اس کا کچھ حصہ تو ہتھیاروں پر خرچ کیا گیا۔ مثال کے طور پر ارجنٹینا میں دسیوں بلین ڈالر فوجی اخراجات پر صرف کیے گئے تھے اور یہی کچھ چلی اور دوسرے ممالک میں ہوا۔ اس پیسے کا ایک اور حصہ غبن کیا گیا تھا، چرالیا گیا تھا اور سوئٹزر لینڈ اور امریکہ کے بنکوں میں جمع کیا گیا تھا۔ ایک اور حصہ سرمائے کے فرار کی حیثیت سے امریکہ اور یورپ کو واپس چلا گیا تھا۔ جب بھی کرنسی کی قیمت گر جانے کی افواہ اڑی۔ امیر لوگوں نے اپنی رقم ڈالر میں تبدیل کروادی اور امریکی بنکوں میں ڈیپازٹ کردی۔ اس پیسے کا ایک اور حصہ فضول خرچی کی نذر ہوگیا تھا۔ ایک اور حصہ ایندھن کے بڑھتے ہوئے داموں کی قیمت چکانے پر استعمال کیا گیا تھا اور آخر میں بچا کھچا ایک حصہ کچھ معاشی پروگراموں پر خرچ کیا گیا تھا۔

آپ کہتے ہیں کہ ملکوں کی ”اخلاقی ذمہ داری“ ہوتی ہے۔ جب آپ قوموں کی بات کرتے ہیں تو اصل میں آپ عوام کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، درمیانے طبقے یعنی ڈاکٹروں، انجینئروں، استادوں، دوسرے پروفیشنلزاور دیگر سماجی پرتوں کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ عوام کو اس 360بلین ڈالر سے کیا ملا۔ جو ہتھیاروں پر خرچ کیا گیا، جو امریکی بینکوں میں ڈیپازٹ کیا گیا تھا، غلط طور پر خرچ کیا گیا تھا، یا غبن کیا گیا تھا؟ عوام کو ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے کیاحاصل ہوا؟۔انہیں تو ملا ہی کچھ نہیں۔اور پھر یہ قرضہ اداکس طرح کرنا پڑتا ہے؟ یہ تو عوام نے دینا ہوتا ہے۔ مزدوروں نے، کسانوں نے، ہر آدمی کو کم اجرت، کم آمدنی پر بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ یہ کہاں کی اخلاقیات ہے کہ ان پر ایسی کاروائیاں مسلط کی جائیں جن کا نتیجہ لوگوں سے قرض ادا کروانے کی کوششوں کی وجہ سے ان کا خون بہانا نکلے۔ جس طرح کہ ڈومینین رپبلک میں ہوا تھا۔جہاں آئی ایم ایف کی کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ درجنوں لوگ مارے گئے۔ اور سینکڑوں کو گولیاں لگیں۔ لوگ تو احتجاج کریں گے ہی۔ کیونکہ انہں ایسے قرضے کی واپسی پر مجبور کیا جارہا ہے جو انہوں نے لیا ہی نہیں اور نہ ہی جس سے انہیں کوئی فائدہ ہوا۔

اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس قرضے کی واپسی معاشی ناممکنات میں سے ہے، سیاسی ناممکنات میں سے ہے۔ اس قرضے کی ادائیگی کے لیے درکار قربانیاں دینے کے لیے لوگوں کو مجبور کرنے کی خاطر لوگوں کو عملاً قتل کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی جمہوری عمل جو اِن پابندیوں کو مسلط کرنے کی کوشش کرے گا نیست و نابود ہوگا۔ آخر میں یہ اخلاقی ناممکنات میں سے ہے جس کے اسباب میں پہلے آپ کو بتا چکا ہوں۔

اس لیے میرا خیا ل ہے کہ زیادہ اخلاقی بات یہ ہوگی کہ اس قرضے کو منسوخ کیا جائے جس میں بلینوں انسانوں کا بھلا ہوگا۔ میں صرف لاطینی امریکہ کے قرض کی بات نہیں کر رہا، میں افریقہ اور ایشیا کے قرضے کی بات بھی کر رہا ہوں جس سے 80فیصد سے زائد انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ اسے ہتھیاروں پر خرچ کیا جائے۔ کیمیاوی ہتھیاروں پر، نیوکلیائی ہتھیاروں پر، بیالوجیکل ہتھیاروں پر، طیارہ برداروں پر، جنگی بحری جہازوں پر، سٹریٹیجک میزائلوں اور سٹار وار ہتھیاروں کے پروگرام پر خرچ کیا جائے۔ یہ حقیقی طور پر غیر اخلاقی کام ہے۔ بری نیت کا عمل ہے۔ بنی نوع انسان کو عملاً دغادینے کی بات تو یہ ہے کہ ہر سال ہتھیاروں اور جنگی سرگرمیوں پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کی خاطر لوگوں کو بھوکا رہنے پر مجبور کیا جائے۔کیونکہ یہ ایسی چیز پر خرچ کیا جارہا ہے جس سے تباہی کے حالات تیار ہوجائیں اور سینکڑوں ملین لوگ قتل کیے جائیں۔ اور شاید بنی نوع انسان کا وجود بھی صفحہ ہستی پر باقی نہ رہے ۔

جو لوگ ایسے بیانات دیتے ہیں ان سے ہمیں یہ کہنا ہے کہ اس قرضے کو منسوخ نہ کیا جانا ہی غیر اخلاقی بات ہے جس کی ادائیگی لوگوں سے نہیں کرائی جاسکتی ہے۔ اس پیسے سے انہیں کچھ نہ ملا اور اس پیسے سے ان کی کوئی بھلائی نہیں ہوئی۔

مارون ڈیمالی: جناب صدر، امریکہ کی طرف سے کیوبا کے خلاف معاشی بائیکاٹ کے کیا اثرات ہیں اور امریکہ کے ساتھ تجارت کے بغیر کیو با کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے؟

فیڈل کاسٹرو: جی ہاں، اگر آپ حساب کتاب لگائیں تو اس ناکہ بندی کے اثرات کی طویل فہرست بنے گی۔ ہم نے جو حساب کتاب کیا ہے اس کی رُو سے ہمیں پہلے ہی بلینوں ڈالر کا خسارہ ہوچکا ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر آپ کو اپنی درآمدات جاپان یا یورپ سے لانی پڑیں۔ حالانکہ آپ یہی مال امریکہ سے خرید سکتے ہوں اور یہ مسافت دس گنی یا کبھی کبھی بیس گنی زیادہ دور ہو۔ تو آپ اندازہ لگا ئیں کہ آپ ٹرانسپورٹیشن پر کئی گناہ زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جب آپ مال ڈھونڈنے کی خاطر دوسری جگہوں پر جاتے ہیں جو کہ آپ امریکہ سے نہیں خرید سکتے تو ان کے دام بھی آپ کو یادہ دینے پڑیں گے کیونکہ تاجر جانتا ہے کہ آپ کے پاس اس ملک کا سامان خریدنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں۔اگر آپ کیوبا کے اس نقصان کا حساب لگائیں جو اس کے چینی کے کوٹے سے اسے محروم کرنے پر ہوا اور قیمتوں کے اسی فرق کا اندازہ لگائیں جو ہمیں مروجہ سمجھوتوں کے تحت امریکہ سے ملتیں اور جن قیمتوں پر ہمیں اپنی شکر جاپان اور دوسرے ملکوں میں بیچنا پڑ رہی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ رقم بہت بھاری ہے۔

اگر آپ اس نقصان کا اندازہ لگائیں جو امریکہ ٹیکنالوجی پر مبنی سپیئرپارٹس، خصوصی مصنوعات اور صنعتوں کے لیے درکار آلات کی بندش لگانے سے ہمیں ہوا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ نقصان بھی اچھا خاصا ہے۔

کچھ باتیں تو مزید درد ناک تھیں کیونکہ ان سے انسان متاثر ہوگئے۔ جب آپ وہ طبی آلات نہ خرید سکیں جو صرف امریکہ میں بنتے ہوں، یا ایک دوائی جو ایک زندگی بچانے کے لیے ضروری ہوتی ہے تو یہ بلاکیڈ محض معاشی نہیں رہ جاتی بلکہ وہ ناکہ بندی انسانیت کی ہوجاتی ہے۔ جب کسی ملک میں کوئی  شخص ایک ایسے ہتھکنڈے کا شکار ہو جس سے اس کی زندگی ختم ہوجائے تو ایسی حالتوں میں مادی تلافی کا دعوی کرنے کے لیے عدالتی چارہ جوئی کے جواز موجود ہوتے ہیں۔ اور ہندوستان میں ایک کرم کش ادویات بنانے والے کارخانے پر جو ایک امریکی ٹرانس نیشنل کی ملکیت تھی، پر ایک بھاری اور مبنی بہ انصاف دعویٰ دائر کیا جاچکا ہے جہاں سے ایک مہلک کیس کے لیک ہوجانے کے نتیجے میں ہزاروں انسانوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔ مگر ان پہلوؤں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی اس ناکہ بندی سے ہمیں بلینوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ہمارے حساب سے ہمیں 10بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر بھی ہم نے اسے برداشت کیا اور برداشت کرتے رہیں گے۔ ہم 26سال تک زندہ رہ سکے ہیں اور مزید 25سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ ہم امریکہ سے تجارت کے بغیر سو سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ اس لیے کہ ہمیں مجبور کیا گیا تھا کہ ہم مزید محنت کریں، زیادہ سخت جان ہوں، زیادہ باصلاحیت ہوں، دوسرے لفظوں میں بلاکیڈ سے پہنچنے والی تباہی سے ہم نے کچھ فائدے حاصل کیے ہیں جو ایک ترقی پذیر ملک کے لیے بے انتہا قیمتی ہوتے ہیں۔ ہم نے متبادل حل تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کی اور وہ ہمیں مل گیا۔ ہم نے اپنے کام کو فوقیت دی اور امریکی معاشی جارحیت کو اس کے لیے ایک متحرک قوت میں تبدیل کردیا۔

ہم نے دوسرے سوشلسٹ ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کیے اور ان کے ساتھ تعلقات میں ایک قسم کے نئے معاشی نظام کو فروغ دیا۔ہمیں غیر مساوی تجارتی تعلقات، سود کے پھیلاؤ، روبل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، تحفظاتی ہتھکنڈوں یا دوسرے سوشلسٹ ملکوں کے ذخیرہ اندوزی کا شکار نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے اپنے ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے ایک ٹھوس بنیاد رکھی جس کی گارنٹی موجود ہے۔ ہمیں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ ہم اگلے پندرہ سالوں میں معاشی اور سماجی ترقی کے سارے میدانوں یعنی صنعتی، زرعی، رہائشی، تعلیمی، تہذیبی، کھیلوں اور طبی پروگراموں میں کیا کچھ کریں گے۔ بلاکیڈز کے باوجود کچھ ایسے میدان ہیں جہاں ہماری حاصلات امریکی حاصلات کے برابر ہیں۔ مثلاً صحت عامہ اور تعلیم۔اور ہمیں توقع ہے کہ ہم عنقریب ان میدانوں میں امریکہ سے آگے نقل جائیں گے۔ اس لیے کہ ہم عوام کے حق کی ترقی کے لیے اپنے وسائل کو مناسب انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم یقینا ایسے اقدامات نہیں کریں گے مثلاً یہ کہ بوڑھوں کو امداد دینے کا سلسلہ بند کردیں۔ بڑھاپے کی پینشن کو کم کردیں، بیماروں کے لیے ادویات میں کمی کریں یا ہسپتالوں اور سکولوں کی تعداد کم کریں۔ ہم سماجی پروگراموں کو کبھی قربان نہیں کرتے۔ جس طرح امریکہ نے انہیں طیارہ برداروں کی تعمیر پر، ایم ایکس میزائل اور جنگ کے دوسرے انجنوں کی تعمیر پر قربان کردیا ہے جن سے دنیا کو شدید نفرت ہے۔

فرق آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ نے تو سماجی امداد اور سماجی اخراجات کو قربان کرنے کی پالیسی اپنائی مگر ہمارے ہاں ان چیزوں کو اول درجے کی فوقیت حاصل ہے۔ انہیں امریکہ کی طرح منجمد کرنے کی بجائے جوں جوں ہماری معیشت اور معاشی کارکردگی بڑھتی جاتی ہے، ہم ہر سال اس مدمیں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاطینی امریکہ یا کیر یبین ممالک میں کیوبا وہ واحد ملک ہے جو اس بحران میں مبتلا نہیں ہوا۔ ہم اس بحران کا شکار نہیں ہوئے سوائے اس کے کہ یہ بحران ہماری تجارت کے اس 15فیصد کو متاثر کرتا ہے جو مغربی ملکوں سے ہوتی ہے۔ جو کہ اپنی مصنوعات کے مہنگے دام وصوں کرتے ہیں، ہماری چیزیں سستی خریدتے ہیں اور ہم سے ہمارے غیر ملکی قرضے پر بھاری شرح سود لیتے ہیں۔ مگر ہماری تجارت کا 85فی صد حصہ سوشلسٹ برادری کے ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے جس سے ہمیں اپنی مسلسل معاشی ترقی کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم ہوتی ہیں۔ بحران کے ان سالوں میں جبکہ لاطینی امریکہ کے ممالک کی مجموعی ملکی پیداوار اور فی کس پیداوار بحثیت مجموعی گر گئی ہے۔ کیوبا کی مجموعی سماجی پیداوار یعنی اس کی معیشت 24.8فیصد بڑھی ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے معاشی کمیشن برائے لاطینی امریکہ کے معاشی رپورٹ میں درج ہے جہاں سے کیوبا کی حالت کا بقیہ لاطینی امریکہ کے ممالک سے فرق دیکھا جاسکتا ہے۔

۔1981۔1984کے دوران کیوبا کی معاشی ترقی بقیہ لاطینی امریکہ کے ممالک سے بہت اونچی رہی ہے۔ ارجنٹینا میں مجموعی ملکی پیداوار 6فی صد گر گئی، بلیویا میں 16.1فیصد گر گئی۔ برازیل میں 0.3فی صد،چلی میں 5.4فی صد، پیرو میں 13.8فی صد او ریوروگوائے میں 3.9فی صد۔ پہ فہرست بہت لمبی ہے۔ میں صحت اور تعلیم کے بارے میں اعداد و شمار نہیں دے رہا۔ جہاں ہمارا ملک پوری تیسری دنیا کی قوموں میں سب سے آگے ہے اور کئی صنعتی ممالک سے بھی۔ ہمارے ہاں بے روزگاری، بھیک، غربت، عصمت فروشی، جوا اور منشیات کے مسائل ہیں ہی نہیں۔ حتی کہ شراب کے نشے کے بھی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم معاشی بحران اور لاطینی امریکہ کے قرض کے اس مسئلے پر بولنے کے لیے  اخلاقی جواز رکھتے ہیں۔ ہمیں خاموش نہیں رہنا پڑتا۔ یہی وجہ یہ کہ ہم توانائی کے ساتھ اس کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ اور پھر خود کو محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ خوش قسمتی سے مغربی دنیا پر ہمارا انحصار بہت معمولی ہے۔ اور امریکہ پر معاشی طور پر ہمارا انحصار بالکل ہے ہی نہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ دنیا میں اور کتنے ممالک ایسے ہیں جو بر ملا ایسی بات کر سکتے ہوں۔

مارون ڈیمالی: آئیے سکے کا دوسرا رُخ دیکھتے ہوئے ایک خواب دیکھیں۔ اگر امریکہ سے تجارت کھل جائے تو کیوبا کی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔

فیڈل کاسٹرو: میرے خیال میں امریکہ کے پاس کیوبا کو پیش کرنے کے لیے بہت کم چیزیں ہیں۔ ہم شکر برآمد کرتے ہیں مگر امریکہ اپنی شکر کی درآمدات کم تر کرتا جارہا ہے۔ اس نے لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک کے شکر کا کوٹا قریب قریب ختم کردیا ہے۔ تو کیا ہم اپنی شکر امریکہ کو بیچ سکیں گے؟۔ امریکہ، لاطینی امریکہ کے فولاد کی درآمد کو تیزی سے محدود کرتا جارہا ہے۔ ہم تعمیرات کے لیے کچھ فولاد برآمد کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے امریکہ میں کوئی منڈی نہیں ہے۔ امریکہ خود اپنی ٹیکسٹائل کی پیداوار کو تحفظ دینے کے لیے لاطینی امریکہ کے ٹکسٹائل برآمد کرنے والے ممالک کے کوٹے میں حد سے زیادہ کمی مسلط کر رہا ہے۔ ہمارے نئے جدید ٹیکسٹائل ملوں اور پرانے ملوں، جن کی اکثریت کو وسیع اور جدید بنا دیا گیا ہے، کا تیار کردہ ٹیکسٹائل امریکہ میں نہیں بیچا جاسکتا۔

جہاں تک سیاحت کا تعلق ہے تو ہماری ہوٹل کی گنجائش سے زیادہ مانگ ہے۔ ناکہ بندی اٹھانے سے محض طویل مدت میں ہمیں فائدہ ہوسکتا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ہم اس سے بالکل کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیونکہ ایسا کہنا سچ نہ ہوگا۔ ہمیں کچھ عملی فائدے پہنچ سکیں گے۔کچھ چیزیں جو ہم دوردراز واقع تیسری دنیا کے ممالک سے خرید رہے ہیں، امریکہ سے نسبتاً کم قیمت پرلے سکیں گے، اور ان کی نقل وحمل بھی نسبتاً تیز ہوگی۔ ہم امریکہ میں بنے ہوئے کچھ طبی آلات لے سکیں گے، کچھ فارماسیوٹیکل صنعت میں بنی ہوئی حالیہ ادویات ہم وہاں سے خرید سکیں گے۔ لیکن ایسی چیزوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس لیے یہ تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اگر امریکہ سے ہمارے تعلقات کبھی معمول پر آجائیں تو ہم کیڈ لاک اور دوسرا سامان تعیش وہاں سے خریدنا شروع کردیں گے۔ ہم عیاشی کے سامان پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کا معمولی ارادہ بھی نہیں رکھتے۔ امریکہ ایسی چیزیں دوسرے لاطینی امریکہ کے ممالک، لکھ پتیوں اور ان دوسرے لوگوں کو برآمد کرسکتا ہے جن کے پاس چیزیں خریدنے کے لیے پیسہ ہوگا۔ حالانکہ ان ممالک کو اس خریداری سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ الٹا قرضہ چڑھ جائے گا۔

مگر میں بلا تکلف یہ کہتا ہوں کیونکہ میں بے تکلفی پسند کرتا ہوں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خصوصاً معاشی تعلقات کیوباکو کوئی بنیادی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ اگر پہلے امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کی۔۔تجدید ہوجاتی اور اگر اہم اپنی پیداوار امریکہ کو برآمد کرنے کے قابل ہوجاتے تو ہم امریکہ کو پیداوار کی برآمد کے لیے اس نئی صورت حال کے مطابق منصوبہ بندی کرسکتے تھے۔ کیونکہ جو چیزیں ہم اب پیدا کر رہے ہیں اور جو چیزیں ہم اگلے پانچ سالوں میں پیدا کریں گے، وہ ہم پہلے ہی فروخت کر چکے ہیں۔ ہمیں امریکہ کو یہ چیزیں فروخت کرنے کے لیے انہیں سوشلسٹ ممالک سے واپس کرنا پڑے گا اور سوشلسٹ ممالک ہمیں قیمتیں بھی اچھی دیتے ہیں اور امریکہ کی نسبت ہم سے اچھے تعلقات بھی رکھتے ہیں۔

ہم اپنا میوہ، شکر کا ایک بڑا حصہ، نکل اور دیگر اشیا سوشلسٹ ملکوں کو برآمد کرتے ہیں جو نہ صرف ہماری مصنوعات کی قیمتیں  اچھی دیتے ہیں اور اپنی چیزیں کم قیمتوں پر بیچتے ہیں بلکہ قرضوں پر بہت ہی کم سود وصول کرتے ہیں اور ہمارے قرضے ادا کرنے کی میعاد بغیر سود کے دس دس پندرہ پندرہ سال اور بیس بیس سال تک بڑھا دیتے ہیں۔

تو ان تمام حقائق کو مد نظر رکھ کر ہمیں اس پرانی کہاوت پر عمل جاری رکھنا ہے کہ اپنی گائے کا سود اایک بکری سے مت کرو“۔

جیفری ایلیٹ: جناب صدر، پرانے قرضوں کی عدم ادائیگی نے لاطینی امریکہ کے لیے نئے قرضے حاصل کرنے کی خاطر مذاکرات کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟

فیڈل کاسٹرو: انہیں نئے قرضوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ اب اگر وہ 40بلین ڈالر ادا کر رہے ہیں اور اگر قرض بڑھتا نہ رہے تو انہیں ہر سال 40بلین ڈالر ادا کرنے پڑیں گے تو اس کا مطلب دس سال میں 400بلین ڈالر ادا کرنا ہوگا۔ یہ اتنی بڑی قربانی ہے کہ عوام کو اس کی ادائیگی پر قائل کرنا بہت مشکل ہوگا۔ انہیں قرضوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔وہ ترقیاتی پروگراموں کے لیے خود اپنے آپ کو 40بلین ڈالر اور 400بلین ڈالر قرض دے سکیں گے۔ لوگ بھی ایسی قربانیوں کی ضرورت کو سمجھ سکیں گے۔ اور خود اپنی ترقی کے لیے محنت بھی زیادہ کرنے کو تیار ہوسکیں گے۔ اب تک وہ عوام کو ایسی قربانیاں دینے کے لیے کہہ رہے ہیں جو پس ماندگی کو بڑھائیں گی، جو فی کس پیداوار کو گرائیں گی، جو مجموعی ملکی پیداوار کو گرا دیں گی۔ مگر بات جب لوگوں کی اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے قربانیاں دینے کی ہو تو لوگ راغب ہوتے ہیں۔

ان ممالک کو بنک اتنے وسائل مہیا نہیں کرسکتے جتنا وہ خود اپنے آپ کو دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر برازیل اپنے قرضے پر ہر سال 21بلین ڈالر کو سرمایہ کاری میں لگاتا تو دس سال میں اس کے پاس ترقیاتی منصوبوں کے لیے 120بلین ڈالر موجود ہوتے۔ میکسیکو بڑی باقاعدگی سے 23,5بلین ڈالر قیمت کی مصنوعات برآمد کرتا ہے اور صرف 10 بلین ڈالر مالیت کی چیزیں درآمد کرتا ہے۔ وہ اپنے قرض پر سود ادا کرنے کی بجائے ہر سال 10بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ اور دس سالوں میں یہ رقم 100بلین ڈالر سے بھی زیادہ بن جائے گی۔ اگر ارجنٹینا 5بلین ڈالر ادا کررہا ہے تو دس سال میں یہ رقم 50بلین ڈالر بن جائے گی۔

ترقی کے لیے اتنا بھاری قرضہ کوئی بھی انہیں نہیں دے سکتا اور اگر کسی نے دے دیا تو کچھ سالوں میں یہ تین ممالک 60بلین ڈالر سود کے طور پر ادا کر رہے ہوں گے بجائے اس 30بلین ڈالر کے جو وہ اب ادا کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانیاں جاری رہیں گے بلکہ وہ بڑھتی جائیں گی۔ معیشت محض اتنا پھل پھول سکے گی کہ سود ادا ہوسکے۔ یہ اذیت تو یونانی مذہب کی اس اذیت کی طرح ہے جس کے مطابق ایک شخص کو ابد تک ایک بڑے پتھر کو پہاڑ پر چڑھانے کی سزا دی جاتی ہے اور وہ پتھر ہر بار اوپر پہنچ کر پھر نیچے لڑ ھک جاتا ہے۔

میں کئی مثالیں دے چکا ہوں یہی مثالیں ونزویلا، کولمبیا، ایکوا ڈور، پیرو، یورو گوائے اور تقریباً تمام دوسرے ممالک پر صادق آتی ہیں۔ یہ سارے ممالک اپنا یہ سرمایہ جمع رکھ سکیں گے اور اسے ترقی کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ کوئی بھی ان ممالک کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کر سکے گا اور نہ ہی کوئی ان کی معاشی ناکہ بندی کرسکے گا۔ صنعتی ممالک کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تجارت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ ان کے خام مال کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، وہ ان کی معدنیات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، وہ ان کے ایندھن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، وہ ان کے چاکلیٹ کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے۔

کیا آپ صنعتی سماج یعنی سوئٹزر لینڈ، انگلینڈ، سپین، فرانس، اٹلی، مغربی جرمنی، امریکہ یا کینیڈا کا چاکلیٹ کے بغیر تصور کرسکتے ہیں؟۔کیا آپ ان ممالک کے مشروبات میں کافی، چائے، کاجو کے بغیر تصور کرسکتے ہیں؟۔کیا آپ ان کے نرم اور خوشبو دار صابنوں کا لونگ، مصالحے، کنجد، انناس،  کھوپرے اور کھوپرے کے تیل کے بغیر تصور کر سکیں گے؟۔جی ہاں، صنعتی ممالک میں زندگی بہت تلخ بہت بد مزہ ہوگی اگر فولاد، کاپر، ایلومینیم، کیمیائی اور توانائی کی صنعتیں بھی بند ہوجائیں۔ وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔

لہذا فیصلے کی قوت اب امیر ممالک کے ہاتھ میں نہیں، غریب ممالک کے بازو میں ہے۔  اگر آپ امیر ممالک سے کہہ دیں ”قرض دو، مدد کرو، تعاون کرو،اور ایماندار رہو”تو دس یا، پچاس سال تک تو وہ آپ کی طرف توجہ بھی نہیں کریں گے۔ اس بحران میں جس میں کہ عظیم الجثہ قرض سوانے منظم اور تاریخی قزاتی کے اظہار کے اور کچھ نہیں تو اب فیصلہ لاطینی امریکی ممالک اور دیگر تیسری دنیا کے ملکوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے کہ جس پیسے کو وہ ان کے حوالے کر رہے ہیں۔۔۔۔ اور جیسا کہ میں پہلے تشریح کر چکا ہوں کہ اس رقم کا بڑا حصہ غیر قانونی  ہے۔ ڈالر کی بڑھائی کی قیمت، شرح سود اور دوسرے ہتھکنڈوں کا نتیجہ ہے۔۔۔۔انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ ادائیگی کی منسوخی کا فیصلہ کریں۔ یہ کارروائی نئی نہیں ہے، یہ اتنی پرانی ہے جتنا کہ روم کا قانون۔ قرض کی ادائیگی کے التوا، ادائیگی اور عدم ادائیگی سب کا وجود دو  ہزار سال قبل بھی تھا، کبھی ریاست  اور کبھی خود قرضدار فرمان جاری کرتے تھے۔ یقینا ان زمانوں میں روم میں۔۔۔جو ویسا ہی جمہوریہ تھا جتنا امریکہ اور جس کا امریکی سینٹ کی طرز کا ایک سینٹ ہوتا تھا۔ اور امریکہ کے CAPITOLکی طرح ایک CAPITOL ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ جب کوئی شخص اپنا قرضہ ادا نہیں کرسکتا تھا تو اسے عدالت میں گھسیٹا جاتا تھا اور اسے ایک غلام ڈیکلیئر کیا جاتا تھا۔ قرض ادا نہ کرسکنے کی صور ت میں غلام بنانے کا رواج ہزاروں  برس تک جاری رہا۔ یونان اور روم کے دور سے۔ ابھی حالیہ دور تک ایسے ممالک موجود تھے جہاں ایسے لوگوں کو غلام بنادیا جاتا تھا جو اپنا قرضہ چکا نہیں سکتے تھے۔تو پھر بنی نوع انسان کی گذشتہ ہزار سال کے دوران کی حاصلات یعنی انسانی حقوق کا کیا فائدہ؟۔صنعتی ممالک دنیا میں بسنے والے 4بلین لوگوں کو نہ زنجیریں پہنا سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں غلام بنا سکتے ہیں اس لیے کہ جب وہ غلام تھے تب بھی ان کے خلاف وہ اور کچھ نہ کرسکے سوائے ان کا استحصال کرنے کے۔ آج تو وہ صنعتی ممالک کے لیے انتھک کام کرتے ہیں۔ وہ بغیر زنجیروں کے غلام ہیں اور صنعتی ممالک سے اپنی آزادی کا اعلان کرسکتے ہیں۔

ایسا بہت دفعہ ہوا ہے۔ پچھلی صدی کے دوران ہیٹی کے غلاموں نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ میں غلاموں نے اپنے آزاد ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ایسا دنیا کے کئی حصوں میں ہوا۔ کبھی بھی کسی نے اس سچائی پر اعتراض نہ کیا۔ یہ قرض ہتھوڑا بنے گا جس سے معاشی طور پر غلام بنائے گئے تیسری دنیا کے عوام اپنی زنجیریں توڑنا شروع کردیں گے۔

آزادی کے اعلان کے لیے قرضوں کی منسوخی اخلاقی بات بھی ہے اور ناقابل اعتراض بھی۔  یہ واضح ہے کہ انہیں کسی قسم کے قرضوں کی ضرورت نہیں۔ مزید برآں اس سے صنعتی دنیا کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ اس لیے کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس عظیم تر قوتِ خرید موجود ہوگی۔ مثال کے طور پر میکسیکو 10بلین ڈالر مالیت کا سامان درآمد کرنے کی بجائے 20بلین ڈالر کی اشیا در آمد کرسکے گا۔ ارجنٹینا 4.2بلین ڈالر کی بجائے 8.5بلین ڈالر مالیت کی چیزیں درآمد کرسکے گا۔ یہی حال برازیل اور دیگر لاطینی امریکہ کے ممالک کا ہوگا۔ وہ اور کہاں سے تیار شدہ مال، مصنوعات، زرعی اور صنعتی آلات خریدیں گے؟۔ظاہر ہے کہ امریکہ سے، جاپان سے اور یورپ سے۔ تیسری دنیا کی قوتِ خرید ہر سال 80بلین ڈالر بڑھ جائے گی۔ جس کی اگر صبح طریقے سے سرمایہ کاری کی جمائے تو ان کی معیشتوں کی مسلسل ترقی کی گارنٹی دی جاسکتی ہے۔ اس کے نتائج صنعتی ممالک کو زیادہ برآمدات، ترقی کی صلاحیت کے عظیم استعمال اور روزگار کے زیادہ مواقعے نکلیں گے۔

بے روزکاری،صنعتی ممالک کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ وہ روزگار کے مواقعے اور صنعتی منافعے بڑھا سکیں گے۔ برآمدی کمپنیاں زیادہ برآمدات کرسکیں گی۔ باہر سرمایہ کاری کرنے والے بڑے بڑے منافعے حاصل کریں گے۔ اور بنکیں اپنا پیسہ وصول کرسکیں گی۔ میں تجویز نہیں کر رہا کہ بنکیں دیوالیہ ہوجائیں یا بنکیں اپنا سرمایہ ڈبو دیں، میں تجویز نہیں کر رہا کہ ٹیکس دہندگان زیادہ ٹیکس ادا کریں۔ میں تو ایک بہت ہی سادہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ وہ یہ کہ جنگی اخراجات کا ایک چھوٹا سا حصہ اس مد میں خرچ کیا جائے جو 12فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ اس طرح قرض دینے والی ریاستیں اپنے بنکوں کو قرض دے سکیں گی۔ اس طریقے سے نہ تو بنکوں کو نقصان ہوگا اور نہ بنک میں روپیہ جمع کرنے والے کو۔بلکہ اس کے برعکس بنکوں کو گارنٹی کے ساتھ وہ رقم مل جائے گی۔ طاقتور صنعتی ممالک کے علاوہ یہ گارنٹی کون بہتر طور سے دے سکتا ہے جس کے لیے مغربی قوموں کو اتنا گھمنڈ ہے؟۔وہ خود کو خواب دیکھنے اور سٹار وار شروع کرنے کے اہل سمجھتے ہیں تو ذرا عالمی نیو کلیر جنگ میں اپنی شمولیت کے خطرے پر بھی ایک لمحہ کے لیے سوچیں جو کہ پہلے ہی منٹ میں بنکوں میں ان کے جمع سرمائے کے ذخائر سے 100گنا بڑی تباہی لائے گی۔۔۔۔مختصر یہ کہ اگر عالمی خودکشی کا یہ تصور انہیں دہشت زدہ نہیں کرتا تو وہ بھلا تیسری دنیا کے قرضوں کو منسوخ کرنے جیسی سادہ چیز سے کیوں گھبرائیں؟۔ وہ کونسی چیز ہے جو متاثر ہوگی؟ محض جنگی اخراجات۔ میرا خیال ہے کہ یہ بالکل اخلاقی بات بھی ہوگی اور اطمینان بخش و صحت مند بھی۔ اس طرح تیسری دنیا کے معاشی مسائل کا حل، امن سے بین الاقوامی دیتاں سے، جڑ جاتا ہے جس کا تمام ممالک مطالبہ کر رہے ہیں۔

اسلحہ کی دوڑ کے خاتمے اور جنگی اخراجات میں کمی کے مطالبے سے زیادہ مناسب اور زیادہ اخلاقی مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی ہے وہ خزانہ جس کا مطالبہ میں کر رہا ہوں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ بنکوں کی ادائیگی نہ کی جائے میری تجویز تو یہ ہے کہ ہر قرض و ہندہ ملک اس قرضے کو اپنے بنکوں کے حوالے کردے۔ یہی ہے اصل بات۔ یہ ایک سادہ اور ذمہ دار عمل ہے۔ اس عمل سے ایک فیکٹری بھی بند نہیں ہوگی۔ اس سے کوئی بھی بحری جہاز راستے میں نہیں رک جائے گا۔ یہ عمل منڈی میں ایک بھی سودے کے ٹھیکے میں مداخلت نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کے برعکس روزگار، تجارت، صنعتی اور زرعی پیداوار اور منافعے ہر جگہ بڑھیں گے۔ اس عمل سے کسی کو کوئی گزند نہیں  پہنچے گا۔ صرف جو نقصان دہ اثرات پڑیں گے وہ ہتھیاروں اور جنگی اخراجات پر پڑیں گے۔ اور یہ دو چیزیں نہ تو کسی کے لیے خوراک مہیا کرتی ہیں نہ ہی کپڑا، تعلیم، صحت، یا رہائش۔ میں یہی فارمولا پیش کر رہا ہوں۔

تکلیف بر طرف، مجھے لگتا ہے کہ یہ فارمولا ہر کسی کے مفادات کو تقویت بخشے گا۔ اس فارمولے کی اچھی بات یہ ہے کہ اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بلکہ سب کا فائدہ ہوگا۔

جیفری ایلیٹ: جنابِ صدر، فرض کر لیں کہ امریکہ تمام قرض منسوخ کردیتا ہے اور لاطینی امریکہ کے تعاون سے ایک عظیم بیرونی امداد کا پروگرام شروع کر دیتا ہے۔ کیا ایک ایسا عمل امریکہ کے بارے میں آپ کی رائے کو نمایاں طور پر تبدیل کر سکے گا اور امریکہ کیوباتعلقات میں ایک ڈرامائی تبدیلی لاسکے گا؟۔

فیڈل کاسٹرو: میں آپ کو یوں جواب دیتا ہوں۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے قرضوں کی منسوخی، ا س لیے کہ اس سے امریکہ، بین الاقوامی تجارت اور تمام ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ میرے خیال میں یہ بحران پر قابو پانے کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکہ بھی بحران سے باہر نہیں نکلا۔ بلکہ اس کے برعکس امریکہ ایک بڑے بحران کے لیے ایسے حالات خود پیدا کر رہا ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *