Home » قصہ » ایک پرانا البم۔۔۔جاوید صدیقی

ایک پرانا البم۔۔۔جاوید صدیقی

ٓ             ارے یار تو اتنی دیر سے کیا ڈھونڈ رہا ہے؟۔میری الماری میں کوئی کتاب وتاب نہیں ملے گی۔ کتابیں تو بڑے لوگوں کا شوق ہوتا ہے۔ہم غریبوں کو روزی روٹی کا سبق پڑھنے سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے جو کوئی کتاب رسالہ دیکھیں۔کیا مل گیا؟۔البم؟ ہاں یہ میر اہی ہے مگر تو دیکھ کے کیا کرے گا، دو چار پرانی تصویریں لگی ہوئی ہیں،جن لوگوں کی تصویریں ہیں اُن میں سے قریب قریب سبھی جا چکے ہیں،تو کسی کو نہیں پہچان سکے گا ایک دو کو چھوڑ کے۔ہاں تیرا باپ زندہ ہوتا تو سب کو پہچان لیتا،بڑا اچھا آدمی تھا اور سچا دوست تھا،بہت وقت گزارا ہے ہم دونوں نے ساتھ میں۔

ارے ٹھہر ٹھہر اتنی جلدی کیا ہے۔ذرا مجھے بھی دیکھنے دے کس کی تصویر ہے؟وہ چشمہ دینا!۔ارے وہ نہیں یار دوسرا والا موٹے گلاس کا جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے۔ہاں یہ ہے دیکھنے والا چشمہ۔ اب دکھا۔ابھی بتا دونگاکس کی تصویر ہے۔یہ فوٹو دھندلے ہو گئے ہیں مگر میری یاد دھندلی نہیں ہوئی۔ یہ؟۔ ارے یہ توبڑے سرکار کی فوٹو ہے۔ ایسا بھلا مانس تو میں نے کبھی دیکھا نہ سنا۔ دیکھ دیکھ چہرے پر کیا نور برس رہا ہے جیسے اندر سے چاندنی پھوٹ رہی ہو اور پیچھے جو بچہ پنکھا لیے کھڑا ہے،اِسے پہچانا؟۔ نہیں پہچانا؟ابے للّو یہ میں ہوں،اتنی لمبی ناک اور اتنے چھوٹے چھوٹے کان کس کے ہو سکتے ہیں میرے سوا!۔ گیارہ برس کا تھا جب میرے باپ نے بڑے سرکار سے شکایت کی تھی۔ بڑے سرکاربہت زیادہ بھروسا کرتے تھے میرے ابّا پر۔ انھیں زنان خانے میں جانے کی اجازت بھی تھی۔ہا ں تو ایک دن ابّا نے بڑے سرکار سے کہا

”سرکار، میرے لونڈے نے بڑا حیران کرکے رکھا ہے۔ نہ اسکول جاتا ہے نہ کوئی کام کرتا ہے،صبح سے شام تک محلے کے لونڈوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتا رہتا ہے۔ مارتا ہوں تو کھیتوں میں جا کے چھپ جاتا ہے۔کیا کروں سمجھ میں نہیں آتا۔!“

”کل ہمارے پاس لے آنا۔!“بڑے سرکار نے کہا تھا”سب ٹھیک ہو جائے گا۔!“

میں نے سنا تو میرا دم ہی نکل گیا۔ارے بڑے سرکار کا نام سن کر اچھے اچھوں کا پیشاب خطا ہو جاتا تھا،بہت بڑے جاگیر دار تھے اورسارے شہر میں ایسا دبدبہ تھا کہ کیا کہوں مگر دوسرے دن جب میں ابّا کے ساتھ ڈرتے ڈرتے ان کے سامنے پہونچا۔ تو معلوم ہے کیا ہوا؟۔ ارے اب سوچتا ہوں تو ہنسی آنے لگتی ہے۔ بڑے سرکار نے پوچھا

”کیوں بھئی دِلّن تمہاری گلی کتنی دور جاتی ہے؟“

میں تو حیران ہی ہوگیا۔بڑے سرکار ایسی بات پوچھیں گے بھلا کوئی سوچ سکتا ہے؟مگر جواب دینا بھی ضروری تھا اس لیے سر جھکا کے بولا

”بہت دور جاتی ہے۔!“

”کتنی دور جاتی ہے؟“انھوں نے پوچھا

”یہاں سے گلی اڑاؤں تو کھیتوں میں جاکے گرتی ہے۔!“

ایسا تین چار دفعہ ہی ہوا تھا مگر ہوا تو تھا۔ اُس میں کوئی جھوٹ تھوڑ ی تھا اس لیے بتا دیا۔

”بس؟“بڑے سرکار نے مسکراکے سر ہلایا ”ارے جب ہم گلی اڑا تے تھے تو کھیتوں کے پار ندی میں جا کے گرتی تھی۔ سب ٹاپتے رہ جاتے تھے کہ گلی گئی کدھر؟“

میری تو آنکھیں ہی پھٹ گئیں۔

”آپ گلی ڈنڈا کھیلتے تھے سرکار؟“

”کیوں نہیں کھیلتے؟ جب کرکٹ نہیں تھا تو سب یہی کھیلتے تھے۔ ہمارے دیس کا سب سے پرانا کھیل ہے۔!“

پھر مجھے سر سے پاؤں تک دیکھ کر بولے

”تمہاری گلی ندی تک اس لیے نہیں جاتی کہ بازو میں زور کم ہے۔کل سے تم یہاں آجاؤ۔کچھ کھاؤ پیو، رگ پٹھوں میں جان آجا ئے گی پھر دیکھناگلی کہاں تک جاتی ہے۔!“

میں نے بولا نا ویسا آدمی اب دو بارہ کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ گھر گھر جا کے پانی بھرنے والے بھشتی کے بیٹے کو اتنی عزت دیتا،ہے کوئی؟ بتاؤ؟ اور میر اکام کیا تھا؟ گرمی ہو تو پنکھا جھلنا،دوپہر میں آرام کریں تو پاؤں دبانا۔ ارے پاؤں بھی کیا تھے بس ہڈیاں تھیں اس لیے بہت رسان رسان دباتا تھا کہ کہیں آنکھ نہ کھل جائے۔بعد میں جب حبیب خان چوبدار مر گیا تو چلم بھرنے، حقہ تازہ کرنے اور فرشی دھونے کی ذمہ داری بھی مجھی کو دیدی گئی۔ چلم بھرنا ہر ایک کے بس کا نہیں ہوتا میاں۔ سب کام بڑی ناپ تول کے ساتھ کرنا پڑتا ہے، ورنہ ساری محنت برباد اور پینے والے کا مزہ خراب!۔مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ بڑے سرکار کو کیا چاہئے اس لیے چاندی کی چلم اپنے ہاتھ سے مانجھتا تھا، اس کے اندر بہت سنبھال کے توا رکھتا تھا،ارے نہیں نہیں وہ توا نہیں بدھو جس پر روٹی پکتی ہے۔مٹی کی ایک چھوٹی سی گول ٹکیا ہوتی ہے جس میں چھید ہوتے ہیں اس کے اوپر تمباکو جمائی جاتی ہے۔ اختری باورچن میری صورت دیکھتے ہی چار پانچ کچے کوئلے چولہے میں ڈال دیتی تھی، جب تک میں شیرے والی خوشبو دار تمباکو توے پرجماتا،کوئلے لال ہوجا تے،میں بڑی احتیاط سے دہکتے کوئلوں کو تمباکو کے اوپر رکھتااور جب تمباکو سے مہک آنے لگتی تو چلم پوش رکھ کے باہر لے جاتا اور پیچوان پر رکھ دیتا۔ بڑے سرکار منہ نال ہونٹوں میں دبا کر ایک لمبا کش کھینچتے اور ان کی آنکھیں بتا دیتیں کہ میری محنت رنگ لائی ہے یا نہیں۔!

ارے بھیا تو کہاں آنکھیں پھاڑے گھوررہا ہے۔ تو کسی کو پہچان ہی نہیں سکتا۔ یہ سب بہت پہلے کے قصّے ہیں، لا میں دیکھوں کس کی تصویر ہے۔یہ چار بچے جو قالین پر بیٹھے ہیں ان میں سے یہ جو ٹوپی والا ہے نا یہ میں ہوں۔ ہاں پچھلی تصویر سے ذرا الگ دکھائی دے ر ہا ہوں۔ گالوں کی اُبھری ہوئی ہڈیاں غائب ہوگئی ہیں،بدن بھی بھر گیا ہے۔ تیل لگا کے مانگ نکالنے لگا تھا۔ یہ کونے والے عامر میاں ہیں۔ عمر تو ہم دونوں کی برابر ہی تھی مگراُن کو جاگیر دار کا بیٹا ہونے کا غرور بہت تھا۔ بڑے سرکار نے کبھی غریب کو غریب اور چھوٹے کو چھوٹا نہیں سمجھا مگر عامر میاں تو ماش کے آٹے کی طرح بات بات پر اینٹھ جاتے تھے۔ جب سرکار نے منشی جی سے کہا کہ دِلن بھی پڑھے گا تو عامر میاں تُنک کرکھڑے ہو گئے تھے۔

”یہ ہمارے ساتھ کیسے پڑھ سکتا ہے بابا؟“

بڑے سرکار نے عامرمیاں کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور کہاتھا

”یہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں پڑھ سکتا بیٹا۔ تمہاری طرح اس کی بھی دو آنکھیں ہیں، دیکھ سکتا ہے،کان ہیں سن سکتا ہے۔ زبان سے بول بھی سکتا ہے تو پڑھ کیوں نہیں سکتا؟“

”مگر بابایہ تو…“عامر میاں کچھ کہنا چاہتے تھے مگر بڑے سرکار نے روک دیا

”کیا تم اپنے بابا کی بات نہیں مانو گے؟“

عامرمیاں نے سر جھکا دیا تھا مگر میں سمجھ گیا تھا وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں۔ایک نوکر کے ساتھ بیٹھنا ان کی شان کے خلاف تھا۔لڑکیاں؟ کون لڑکیاں؟ اوہ اچھا یہ جو بیچ میں بیٹھی ہیں،اس میں دائیں طرف والی سلمہ بی بی ہیں،بہت نیک تھیں بالکل بڑے سرکار پہ گئی تھیں عید کے دن تھیلی لے کے بیٹھتی تھیں اور ایک ایک کو بلا کے عیدی دیا کر تی تھیں ہر وقت مسکراتی رہتی تھیں اور یہ جن کے سامنے کتاب ہے یہ شہلا بی بی ہیں، ان کی تو بات ہی مت پوچھو سب کی لاڈلی تھیں بس ذرا سی ضدّی تھیں مگر کسی کو دکھ نہیں پہونچاتی تھیں اور یہ جو پڑھا رہے ہیں ان کا نام منشی دیا نارائن تھا،انگریزی،اردو اور حساب پڑھاتے تھے، اتنا میٹھا بولتے تھے کہ جی چاہتا تھا بس سنتے جائیے۔ قرآن شریف کے لیے ایک مولوی صاحب بھی آتے تھے، ان کی کمر جھک گئی تھی اس لیے سب ان کو ملّا جھکّو کہا کرتے تھے،ہم چاروں میں سے سب سے تیز عامرمیاں تھے پھر سلمہ بی بی،شہلا بی بی کا نمبر تیسرا تھا اور میرا تو کوئی نمبر ہی نہیں تھا، جی ہی نہیں لگتا تھا پڑھنے میں مگر بڑے سرکار کے ڈر سے ہر سبق کو رٹ لیاکرتا تھا۔ کیا پتہ کب کچھ پوچھ بیٹھیں اور میں جواب نہ دے سکوں تو کیا ہو گا۔یہ والی تصویر اس وقت کی ہے جب شہلا بی بی گھوڑے سے گر گئی تھیں بڑی اچھی گھوڑ سوار تھیں ہمارے شہر کے باہر ندی کے کنارے ایک کچّی سڑک تھی اُس پہ روزانہ سویرے سویرے نکل جاتی تھیں،جب برجیزپہن کے اور انگریزی ٹوپی لگا کے گھوڑے پہ بیٹھتیں تو بالکل انگریز معلوم ہوتی تھیں مگر ایک دن پتہ نہیں کیسے گھوڑا بِدک گیا اور وہ گر پڑیں،چوٹ تو زیادہ نہیں آئی تھی مگر انھیں غصّہ بہت آیا تھا گھوڑے پہ نہ بیٹھنے کی قسم کھالی پھر کبھی سواری نہیں کی۔ اور یہ فوٹو اس وقت کی ہے جب عامر میاں نے کرکٹ میں کپ جیتا تھا۔ کیا خوبصورت جوان تھا،سنا تھا کالج کی ساری لڑکیاں جان دیتی تھیں ان کے اوپرمگر مزاج کے تیز تھے اور زبان بھی اچھی نہیں تھی اس لیے بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے تھے۔اور یہ تینوں فوٹو عامر میاں اور سلمہ بی بی کی شادی کے ہیں۔ارے شادی کیا تھی یار،لین دین ہو اتھا۔ لکھنؤ کے ایک جج تھے،بھلا سا نام تھا ان کا، ہاں مرتضیٰ علی۔ ان کی بیٹی عامر میاں کو بیاہی اور بیٹے کا بیاہ سلمہ بی سے ہوا۔بس ایک ڈولا گیا ایک آیا مگر کیا دھوم کی شادی تھی میاں سات دن تک جشن ہوا تھا۔ ولیمے کی بریانی کھانے گورنر صاحب بھی آئے تھے۔ یہ بیچ میں بڑے سرکار کے برابر وہی تو بیٹھے ہیں۔ میں کہاں ہوں؟ٹھیک کہتاہے۔ تو مجھے کیا پہچانے گا۔ تُو تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا تیرا باپ ہو تا تو فوراً انگلی رکھ دیتا۔ بڑے سرکار اور دولہا کے پیچھے زربفت کی شیروانی اور اسی کپڑے کی ٹوپی میں جو جوان کھڑا ہے وہ میں ہی توہوں،بڑے سرکار نے صفدر خاں ٹیلر ماسٹر سے کہا تھا

”ہمارا دِلّن بھی دولہا نظرآنا چاہیے۔!“

لگ رہا ہوں نا دولہا، بس سہرے کی کمی ہے۔ کون سی تصویر؟ اچھا یہ والی۔یہ فوٹو بڑے سرکار کی آخری تصویر ہے دل کی بیماری لگ گئی تھی۔ بس سال بھر میں چٹ پٹ ہو گئے۔ کیا بات کرتا ہے بھائی؟یہ عامر میاں کی دلہن نہیں ہیں۔یہ شہلا بی بی ہیں۔ عامر میاں کی بیوی تواُن کے پاؤں کی دھول بھی نہیں تھیں۔ دلہن تواس لیے لگ رہی ہیں کہ بھائی کا بیاہ تھا۔ یہ فوٹو میں نے عامر میاں کی تصویر وں میں سے چوری کی تھی۔دیکھ دیکھ ذرا غور سے دیکھ۔لگتا ہے نا جیسے کوئی پرستان کی پری زمین پر اُتر آئی ہو۔ ابے چوری نہیں کرتا تو کیا کرتا۔ شہلا بی بی کی کوئی اچھی سی تصویر تھی ہی نہیں میرے پاس اورعامر میاں نے زنانے میں آناجانا بھی بند کر دیا تھا کہ ان کی بیوی پردہ کرتی تھی…

ہاں یہ سوال تو برابر ہے میں نے شہلا بی بی سے ان کی تصویر مانگی کیوں نہیں،چوری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ابے عقل کے دشمن اتنا تو سوچ کہ ایک نوکر جوان مالکین سے اس کی فوٹو مانگتاتو اس کا کیامطلب لیاجاتا؟جوتے مار کے نکال دیا جاتا،جوتے مار کے۔چپ نہیں ہوا ہوں۔یادکررہا ہوں۔ کیازمانہ تھا۔ کیا لوگ تھے سب،پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔!

شہلا بی بی بھائی کی شادی میں دلہن لگ رہی تھیں نا۔ لے یہ دیکھ جب وہ سچ مچ دلہن بنی تھیں تو کیسی لگ رہی تھیں ان کے بیاہ کی ایک نہیں کئی تصویریں ہیں۔ یہ دیکھ بڑے سرکار کا پور ا خاندا ن دولہا دلہن کے ساتھ۔ہاں دیکھنے میں تو ایسا گبرو جوان تھا کہ دیکھے ہی بنے،حیدرآباد کا نواب زادہ تھا مگر مہا حرامی تھا سالا۔ ارے اس نے شادی کے بہت پہلے سے ایک لونڈیا پھنسا کے رکھی تھی۔ شہلا بی بی سے چھپ چھپ کراُس سے ملا کرتا تھا مگر ایک دن بھانڈا پھوٹ گیا۔ وہ لڑکی آئی اورشہلا بی بی کو سب کچھ بتا دیا۔ ارے وہ پیٹ سے تھی۔پاپ کی پوٹ کو لے کے کہاں جاتی۔ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ڈاکٹری جانچ کروالو پیٹ کا بچہ نوابزادے کا نہ نکلے تو پھانسی چڑھا دینا۔ شہلا بی بی کا دل بہت بڑا تھا مگر اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ ایک دھوکے باز کو معاف کر دیں جو ایک ساتھ تین زندگیاں برباد کر رہا تھا۔ میری زندگی نہیں بے۔ مجھے بیچ میں کہاں گھسا رہا ہے۔تیسری زندگی اس بچے کی تھی جو پیدا ہونے والا تھا۔تو ہوا یہ کہ شہلا بی نے نوابزادے کو لات ماری اور گھر آگئیں۔وہ بے چاری یہ سوچ کر آئی تھیں کہ میکے میں بھائی ہے سہارا دیگا مگر عامر میاں اور ان کی بیوی نے تو جینا دو بھر کر دیا۔ عامر میاں کہتے تھے مرد چار چار بیویاں رکھتے ہیں اگر وہ ایک اور لے آئے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا اور عامر میاں کی بیوی تو پوری چڑیل تھی کہتی تھی شہلا کے نخرے اتنے ہیں کہ شوہر دوسری عورت کے پاس جانے لگاہوگا۔ خدا کی پناہ کیسے کیسے لوگ ہوتے ہیں دنیا میں۔ کسی پر الزام لگاتے وقت اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ اختری باورچن نے بتایا تھا شہلا بی بی نے گولی کھاکے مر جانے کی کوشش بھی کی تھی مگر ڈاکٹر وں نے بچا لیا۔

جب شہلا بی کی شادی ہوئی اور پھر طلاق ہوگئی تو میں دلّی میں تھا۔ میں نے الکٹرک کا کام سیکھ لیا تھا اورقرول باغ میں ایک سردار کی دوکان پرکام کرتا تھا۔جسونت سنگھ بہت اچھا آدمی تھا مجھے چھوٹے بھائی کی طرح رکھتا تھا اس کا مال دوسرے شہروں میں بھی جاتا تھا۔ اورمیں مال کی ڈلیوری دینے اکثر باہر جایا کرتا تھا۔ایک دفعہ میں مال پہونچاکر مرادآباد کے اسٹیشن پر آیا۔دلّی کی گاڑی میں دیرتھی تو پلیٹ فارم پر گھومنے لگا اچانک دیکھا کہ ایک بنچ پر شہلا بی بی بیٹھی ہوئی ہیں، انھوں نے شال سے خود کو لپیٹ رکھا تھا بس ذرا سا منہ کھلا ہو اتھا مگر میں تو ان کو لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا وہ اکیلی تھیں،بالکل اکیلی۔ میں ان کے سامنے جا کھڑا ہوا اور میں نے کہا

”بی بی آپ یہاں۔؟“

وہ مجھے دیکھ کر اس طرح چونک پڑیں جیسے چوری کرتے پکڑی گئی ہوں۔میں نے پوچھا

”آپ اکیلی کہاں جا رہی ہیں۔؟“

تو بولیں ”لکھنؤ جا رہی ہوں۔!“

میں سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ لکھنؤ کی ٹرین تو اس پلیٹ فارم پر آتی ہی نہیں تھی۔ میں نے کہا

”لکھنؤ کی ٹرین تو پانچ نمبر سے جاتی ہے ادھر تو دلّی کی گاڑی آئے گی۔!“

شہلا بی بی پریشان ہو گئیں پھر سنبھل کر بولیں

”ہاں میں لکھنؤ نہیں،دلّی جا رہی ہوں۔!“

میں بنچ پر ان کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے کہا

”یہ تو بڑی اچھی بات ہے میں بھی دلی ہی جا رہا ہوں۔!

کہنے لگیں ”مجھے تیرے ساتھ نہیں جا نا ہے تو جا۔!“

اختری کی باتیں میرے دماغ میں گھوم رہی تھیں اس لیے میں نے کہا

”بی بی جب تک بتائیں گی نہیں کہ کیا بات ہے،میں ادھر سے ہلنے والا نہیں ہوں۔!“

انھوں نے اونچی آواز میں کہا

”دلّن مجھے غصّہ آجائے گا۔!“

میں بھی کہاں ماننے والا تھا

”تو غصّہ کر لیجیے مگر یہ بتا دیجیے آپ یہاں اکیلی اس اجنبی شہر کے اسٹیشن پر کیا کر رہی ہیں آپ کے ساتھ کوئی سامان بھی نہیں ہے۔ آخر کہاں جا رہی ہیں آپ۔؟“

اُس دن دوسری بار میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔میرا دل کٹ گیا۔پہلی بار تب دیکھے تھے جب عامر میاں نے ان کی گڑیا چھین کر کنویں میں پھینک دی تھی اور بڑے سرکار نے حبیب خاں کو بلا کے کہا تھا گاڑی لے کر جاؤ اور شہلا کو جیسی گڑیا چاہیے لے کر آؤ ہم اپنی بیٹی کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتے۔مگر اس دن اسٹیشن کی بنچ پر بیٹھی ہوئی ایک اکیلی شہلا بی کے پاس ایسا کوئی نہیں تھا جو کہتا ہم تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے۔میں ضرور کہہ دیتا مگر مجھ میں جرأت نہیں تھی۔ انھوں نے پلکیں جھپکا کر آنسو روکے اور کہا

”مجھے نہیں معلوم میں کہاں جا رہی ہوں۔!“

پتہ نہیں اس وقت مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی میں نے کہا تھا

”مجھے معلوم ہے آپ کہاں جا رہی ہیں۔آپ میرے ساتھ میرے گھر جا رہی ہیں۔!“

شہلا بی کو سچ مچ غصّہ آگیا تھا

”یہ کیا بک رہا ہے تو؟“

میں نے انھیں ساری بات بتائی کہ میں نوکری کرتا ہوں میرا اپنا گھر ہے جہاں وہ جب تک چاہیں آرام سے رہ سکتی ہیں۔ وہ بہت دیر تک سوچتی رہیں پھر بولیں

”تیرے گھر والوں کو بہت پریشانی ہو گی دلّن۔!“

میں ہنس دیا اور میں نے کہا

”میرے گھر والوں میں کبوتر کا ایک جوڑا ہے اور اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔!“

وہ بہت دیر تک مجھے دیکھتی رہیں پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولیں

”ٹھیک ہے دلّن،چل،میں بھی بھٹکتے بھٹکتے تھک گئی ہوں۔!“

اس فوٹو میں بی بی حضرت نظام الدین کی درگاہ پر دعا مانگ رہی ہیں۔یہاں کناٹ پلس میں گھوم رہی ہیں اور اس فوٹو میں بنگا لی مارکیٹ کی چاٹ کھا رہی ہیں۔ابے تو عجیب گھامڑ آدمی ہے۔ اتا بڑا قطب مینار نہیں دکھائی دے رہا ہے کیا؟۔ابے میں قطب صاحب کی لاٹ کو مول لینے تھوڑی گیا تھا۔ شہلا بی بی کو دکھانے لے گیا تھا۔ نہیں نہیں پردہ نہیں کرتی تھیں مگر کسی ایسی ویسی جگہ جا تی تھیں تو چادرڈال لیا کرتی تھیں۔ورنہ اُن جیسی لاکھوں میں ایک حسینہ کے پیچھے غنڈے نہیں لگ جاتے کیا؟۔یہ سارے فوٹو میں نے اپنے کیمرے سے لیے تھے۔ سکنڈ ہینڈ تھا مگر اصلی جاپانی تھا کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی بس آنکھ کو لگایا اور بٹن دبا دیا۔ہو گیا کام۔

میرے ساتھ ہی رہتی تھیں اور کہاں رہیں گی؟ ارے ہاں بھائی ایک ہی گھر میں۔ ابے کیا بھیجا ہل گیا ہے۔ میں نے تو ان کو کبھی آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھا، ہمت ہی نہیں ہوئی۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بہت ہی قیمتی چیز میرے پاس رکھی ہو اور میرا کام اس کی رکھوالی کرنا ہو۔ چھوٹا سا گھر تھا۔ گھر بھی کیا تھا بس ایک کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں باور چی خانہ اور دوسرے میں غسل خانہ تھا۔ سڑک کی طرف ایک بالکنی تھی جو اتنی چوڑی تھی کہ ایک کھاٹ آ سکے۔ اس میں پردے ڈال کے اپنے رہنے سونے کا بندوبست کر لیا تھا۔ باقی گھر شہلا بی بی کے لیے تھا۔انھوں نے کئی بار کہا

ارے تو بالکنی کا دروازہ بند کر کے کیوں سوتا ہے،مگر میں ڈرتا تھا کہ کبھی رات کو پانی پیشاب کے لیے اندر جاؤں اور وہ نیند میں کھلی،ادھ کھلی پڑی ہوں اور میری نظر پڑ جائے تو گناہ گار ہو جاؤں گانا؟۔

گھر کے نیچے ہی جسونت سنگھ کی دوکان تھی جس پر میں کام کرتا تھا وہ گھر بھی اُسی نے دیا تھا۔اس جیسا نیک سردار تو میں نے ساری دلّی میں کہیں نہیں دیکھا۔کہتا تھا دلّن تو میرا نوکر نہیں ہے میرا بھائی ہے۔بھائی۔ کبھی کبھی اپنے ساتھ گردوارے لے جاتا تھا لنگر کھلانے کے لیے۔اس گردوارے کاکڑھا پرساد تو اب بھی یاد ہے اصلی گھی میں بنا ہوا سوجی کا میوہ دارحلوہ آہا… میں کیا کہہ رہا تھا؟ ہاں تو میں کہہ رہا تھا جسونت سنگھ خود کیا کرتا تھا معلوم ہے؟گردوارے میں آنے والوں کے جوتے صاف کر کے لائن سے لگا تا تھا۔کہتا تھا بڑے ثواب کا کام ہے۔ میں نے بھی محلے کی مسجد کے دروازے پر نمازیوں کے جوتے صاف کرکے رکھے تھے مگر جوتے چپل صاف کرنے کے چکر میں نماز نکل گئی تو میں نے کہا یہ اپنے بس کا کام نہیں ہے۔یہ دیکھ یہ ہے جسونت سنگھ اپنی بہن کی شادی میں بھنگڑاکر رہا ہے۔اور اس فوٹو میں بی بی چائے بنا رہی ہیں۔ارے انھیں تو پانی بھی اُبالنا نہیں آتا تھا مگر بعد میں روٹی بھی بنانے لگی تھیں۔ وقت سب کچھ سیکھا دیتا ہے۔ان کی سفید مخمل جیسی انگلیوں پر جلنے کے داغ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی تھی مگر کیا کرتا انھیں روز روز بازار کا کھانا اچھا نہیں لگتا تھا۔

میں نے بہت سی تصویریں کھینچی تھیں صبح سے لے کر شام تک ان کی ایک ایک بات کی،ایک ایک کام کی اور ایک ایک ادا کی تصویریں تھیں میرے پاس مگر ایک دن پتہ نہیں کیا موڈ آیا کہ سب پھاڑ دیں،کہنے لگیں کیا فائدہ ان تصویروں کا یہ نہ تیرے کام کی ہیں نہ میرے۔بس یہ تھوڑی سی رہ گئی ہیں۔

ابے اس میں پوچھنے اور بتانے کی کیا بات ہے،پیچھے تھانہ ہے، سامنے حوالدار ہے اور میں ہوں۔ بڑا حرامی افسر تھا اس تھانے کا،بات ہی نہیں سنتا تھا اور ہاتھ تو خدا کی قسم ہتھوڑا تھا۔ ایک ہی ریپٹ میں داڑھ نکل گئی تھی میری۔ ارے نہیں بھیّا،چوری ڈکیتی کا مقدمہ نہیں تھا۔ اغوا کا کیس تھا۔ لونڈیا کو زبر دستی اٹھا کر لانے کا۔ اور کون کرے گا،وہی میرے ہم درد عامر میاں۔ پولیس میں رپٹ لکھا دی کہ میں نے شہلا بی بی کو اغوا کر لیا ہے۔

ذرا سوچ۔ کیا کسی غلام کی اتنی جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ملکہ کو لے بھاگے۔مگر پولیس کو تو تم جانتے ہی ہو۔ نہ دیکھتی ہے نہ سوچتی ہے بس سنتی ہے۔ کسی نے کہا چور چور اور وہ ڈنڈا لے کے دوڑے۔ ارے وہ تو شہلا بی بی تھیں جنھوں نے بچا لیا نہیں تو چکّی پیس رہا ہوتا۔ معلوم ہے انھوں نے بھری عدالت میں کیا کہا تھا؟۔انھوں نے کہا تھا

”جج صاحب میں پڑھی لکھی ہوں،بالغ ہوں اپنا اچھا بُرا سمجھتی ہوں۔ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا۔ میں اپنی مرضی سے اس کے ساتھ آئی ہوں اور اپنی خوشی سے اس کے ساتھ رہتی ہوں،مجھے کوئی قانون نہیں روک سکتا۔ کیونکہ دلدار حسین میرا شوہر ہے۔!“

ارے بھیّا پوچھ مت کیا ہوا۔عدالت میں بم ہی تو پھٹ گیا۔عامر میاں کی صورت تو دیکھنے کی تھی ایسے لال ہو رہے تھے جیسے گلال لگ گیا ہو۔ میں تو چکرا ہی گیا تھا۔ارے بات ہی چکرانے وا لی تھی،میں نے پوچھا

”بی بی یہ آپ نے کیا کیا؟“

کہنے لگیں

”تو کیا تجھے جیل جانے دیتی؟“

میں نے کہا

”مگر وہ شوہر والی بات کہنے کی کیا ضرورت تھی؟“

بولیں ”وہ تو بھائی جان کو جلانے کے لیے کہی تھی۔“

پھر ہنس کر پوچھا

”اچھا اگر میں کہوں تو کیا تو مجھ سے بیاہ نہیں کرے گا؟“

میں تو ٹھنڈا ہی پڑ گیا۔بولتی ہی بند ہو گئی۔ بڑی مشکل سے پوچھا

”بی بی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟“

بہت دیر تک میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں،اللہ جانے کیا سوچ رہی تھیں پھر مسکرا کے کہا

”گھبرا مت۔ مذاق کررہی تھی۔!“

میرا ان کا رشتہ کیا تھا؟۔ہاں یہ سوال تو میں نے ہزار دفعہ خود سے بھی پوچھا ہے مگر جواب نہیں ملا۔بس یوں سمجھ لے کے انوکھا رشتہ تھا۔ ٹھہرے پانی کے اندر چاند اترا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر وہاں ہوتا نہیں ہے۔یہ تینوں فوٹو جسونت سنگھ کی بیٹی کے بیاہ کے ہیں۔ شہلا بی بی کو جسونت بہن کہتا تھا نا اس لیے چار دن پہلے ہی اپنے گھر لے گیا تھا اور انھوں نے بھی بہن ہونے کا حق ادا کر دیا۔دلہن کے جوڑے سینے سے لے کر سہاگ گانے تک کوئی کام ایسا نہیں تھا جس میں وہ آگے آگے نہ ہوں۔ ببلی جب رخصت ہوئی تو دروازے پہ کھڑے ہو کر بابل ایسا گایا کہ دولہا والوں کے بھی آنسو نکل پڑے۔وہ خود بھی ایسے رو رہی تھیں جیسے اپنی بیٹی کو بدائی دے رہی ہوں۔عورت چاہے کوئی بھی ہو کیسی بھی ہومیاں اس کے دل میں دو ارمان ضرور ہوتے ہیں۔پہلا کسی مرد کی چھاتی پر سر رکھنے کا اور دوسرا اپنی اولاد کو چھاتی سے لگانے کا۔مامتا کوکھ کی قیدی نہیں ہوتی بیٹا۔

کیا ہوا؟ البم بند کیوں کر دیا؟۔اوہ اچھا۔ہاں شاید وہی آخری تصویریں تھیں جب تصویر والی ہی نہ رہی تو تصویر کہاں سے ہو گی۔ نہیں ان کا انتقال نہیں ہوا۔ انتقال تو بڑا چھا لفظ ہے اس کا مطلب ہوتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔مگر شہلا بی بی کہیں نہیں گئیں،وہ کہیں جانا بھی نہیں چاہتی تھیں مگر انھیں زبر دستی بھیج دیا گیا۔میں جسونت سنگھ کے کام سے میرٹھ گیا تھا۔ واپس آیااور دروازہ کھولا تو لاش پڑی تھی بدن پر گھاؤ ہی گھاؤ تھے مگر آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔شاید وہ میری راہ دیکھ رہی تھیں۔ وہ ہر شام میری راہ دیکھتی تھیں اور دیر ہو جاتی تو ڈانٹتی بھی تھیں۔اس دن انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ یہ بھی ان کی عادت تھی غصّہ زیادہ ہوتا تھا تو بات نہیں کرتی تھیں۔

ہاں بیٹا وہ سب کچھ ہوا جو ہوتا ہے۔ پولیس کتے بھی لے کر آئی مگر کوئی نہیں پکڑا گیا۔پولیس نے یہ بول کو کیس بند کر دیا کہ چوری کی واردات ہے کیونکہ شہلا بی بی کے ہاتھ کے کنگن اور کانوں کی بالیاں غائب تھیں۔ میں نے لاکھ سر پٹکا کہ اگر چور آئے تھے تو وہ زیور کیوں چھوڑ گئے جو الماری میں سامنے ہی رکھا تھا۔مگر کسی نے نہیں سنی یا شاید سن کے ان سنی کر دی۔ یہ کہاوت جھوٹی ہے بھیّا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ اگر لمبے ہوتے تو اس کی گردن تک ضرور پہونچتے جس نے شاید اپنے باپ دادا کی عزت کو ایک بھشتی کے بیٹے کے ہاتھوں لٹنے سے بچا لیا تھا۔ ایک آخری تصویر رہ گئی ہے وہ بھی دیکھ لے۔ ابے اس پرانے البم میں نہیں ہے وہ سامنے دیوار پر لگی ہے۔ ہاں۔ یہ شہلا بی بی کے مزار کی فوٹو ہے۔ اپنے ہاتھ سے یہ سفید پتھر لگائے تھے میں نے اور یہ جوہی کی جھاڑیاں بھی میں نے ہی بوئی تھیں جن سے چھوٹے چھوٹے سفید پھول قبرپر گرتے رہتے ہیں۔ انھیں سفید رنگ بہت پسند تھا نا۔اور قبر کے برابر چبوترے پر جو جگہ خالی ہے وہ میری ہے۔ میں نے بینک سے ادھار لے کے ایک لاکھ روپے میں خریدی ہے۔

”ابے تجھے کیا ہو گیا؟۔تو کیوں آنکھیں چھلکا رہا ہے۔میں کوئی پیار محبت کی کہانی تھوڑی سنا رہا تھا۔ میں تو بس یہ بتا رہا تھا کہ ایک شہلا بی بی تھیں اور ایک ان کا نوکر تھا…“

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *