Home » قصہ » کوئل ۔۔۔ سعیدہ گزدر

کوئل ۔۔۔ سعیدہ گزدر

سہ پہر میں کام ختم کر کے جنرل اپنے آفس سے نکلا اور گھر جانے سے پہلے اُس اونچے چبوترے پر ذرا دیر کے لیے آکر کھڑا ہوا جو گھر اور آفس کے بیچ میں وسیع لان پر بنا تھا۔ ڈیوٹی پر تبدیل ہونے والے گارڈ نے جنرل کو سلامی دی، فوج کابگل بجا، اُسی لمحے کوٹھی کے چاروں طرف آم کے اونچے اونچے پیڑوں پر، جو بوروں سے لد گئے تھے کوئل نے اُڑتے اُڑتے مست ہو کر تان لگائی“۔ کووووو“

جنرل نے بھنوئیں چڑھا کر اُوپر دیکھا مگر آسمان تیز چُندھیا دینے والی دھوپ سے بھرا تھا۔ وہ اپنی چھڑی کو بغل میں دبائے تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چل دیا۔

اردلی نے دروازہ کھولا جنرل کاتازہ سفید سیوئلین سوٹ، سفید جوتے، سفید موزے تیار رکھے تھے۔ ہلکی سی خوشبو لگا کر وہ باہر نکلا تو اس کی بیوی ہلکے گلابی سائے میں تازہ تازہ دھلی دھلائی تیار کھڑی تھی۔ دونوں بچے اپنی سجی بنی تعلیم یافتہ آیا کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔ جنرل نے سوالیہ نظروں سے بچوں کی طرف دیکھا۔

”میں نے سوچا سکول کا فنکشن ہے اور۔۔۔“

”اچھا اچھا“ جنرل نے بیوی کی بات کاٹ دی اسے لمبے چوڑے جواب اور وضاحتیں سننے سے الجھن ہوتی تھی۔ بچے اتنے تندرست،خوبصورت اور تمیز دار تھے کہ ان کی موجودگی عموماً لوگوں کے دل اُس کے لیے جیت لیتی ۔

بڑی سی چھ دروازوں کی مخصوص مرسڈیز جس پر فوج کا جھنڈا لہرا رہا تھا سکول کے پھاٹک میں داخل ہوئی تو شامیانے کے نیچے منتظر بینڈ نے ایک فوجی دُھن چھیڑدی۔ سکول کی شاندار عمارت کے سرے پر کھیل کے میدان میں پرنسپل اور گورننگ باڈی کے عہدے دار جنرل اور اس کی بیوی کا استقبال کرنے کے لیے کھڑے تھے۔ بچیوں نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔بینڈ کی دھن پر جنرل، جنرل کے پیچھے اس کی بیوی اور سفید کپڑوں میں سکول کی دبلی پتلی پرنسپل اور دوسرے لوگ فوجی انداز میں قدم بڑھاتے سامنے رکھے صوفوں تک آئے۔ پچھلی نشستوں پر بیٹھے دوسرے مہمان جنرل کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ دو بچیوں نے جنرل اور اس کی بیوی کو سرخ گلاب کے بڑے بڑے گلدستے پیش کیے۔

اب لڑکیاں مارچ پاسٹ کر رہی تھیں۔

”لیفٹ رائٹ“

”لیفٹ رائٹ“

”لیفٹ“

”لیفٹ“

”لیفٹ“۔۔۔۔ آج جنرل  نے لیفٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں اور طالب علموں کی سزاؤں کے فیصلوں کی توثیق کی تھی۔

”تیسرے کوڑے کے بعد بہت گاڑھا گاڑھا خون نکلتا ہے بالکل آپ کے سامنے رکھے گلاب کے ان سرخ پھولوں کی طرح۔سمجھ میں نہیں آتا ان دبلے پتلے کمزور آدمیوں میں اتنا رنگ دار خون کہاں سے آتا ہے“۔ سزاؤں کی تکمیل کے بعد ایک میجر نے تفصیل سناتے ہوئے کہا تھا۔

***

جنرل نے لمحے بھر کے لیے سرخ گلاب منہ کے قریب لا کر سونگھے اور پھر میز پر رکھ دیئے۔

”اب قومی ترانہ ہوگا اور پرچم لہرانے کی تقریب“ اناؤنسر نے کہا۔

سب با ادب کھڑے ہوگئے۔ جنرل ایک سکاؤٹ کے ہمراہ پرچم کے سٹینڈ کی طرف چلتا ہوا آیا۔ ترانہ ختم ہو رہا تھا۔ لپیٹے ہوئے پرچم کو کھولنے میں کچھ دِقت پیش آرہی تھی۔ کہیں کوئی گرہ غلط اٹک گئی تھی۔ سکاؤٹ نے ذرا زور سے جھٹکا دیا تو جھنڈا اُس کے ہی ہاتھوں کُھل گیا اور اُس میں لپٹی گلاب کی معطر پتیاں ڈھیر کی شکل میں گر پڑیں۔ ترانہ ختم ہوا۔ جنرل نے پرچم کو سلیوٹ کیا۔ اسی  لمحے ہوائی فائرکا تڑاخہ ہوا اور فضا میں رنگ برنگے نیلے۔ اودے۔ لال پیلے غبارے پھیل گئے۔ جنرل نے اوپر دیکھنے کی کوشش کی۔  مگر دھوپ بہت تیز تھی۔اسے اینٹی ایئر کرافٹ گن سے لال پیلے شعلے نکلتے محسوس ہوئے۔

بچے رنگ ریس میں حصہ لے رہے تھے۔

***

طالب علموں کے رنگ لیڈر ہتھکڑیاں پہنے فوجی عدالتوں کے سامنے سزا کے انتظار میں کھڑے تھے۔

***

سفید براق کپڑوں میں بچیاں جسمانی ورزش کے مظاہرے کر رہی تھیں۔ مائیکرو فون پر ورزش کی تربیت دینے والی استانی موسیقی کی دھن پر ہدایات دے رہے تھیں۔

JOIN HANDS AND MAKE LINES

(ہاتھ تھا مو،صفیں بناؤ)

سڑکوں پر فوجی جیپ سے اعلان ہورہا تھا۔

TAKE ARMS AND BREAK THE LINES

(ہتھیار اٹھاؤ اور صفیں توڑ دو)

استانی کہہ رہی تھیں۔

ONE TWO, ONE TWO, HANDS UP

(ایک دو، ایک دو، ہاتھ اُوپر)

ایک دم سیکڑوں ننھی منی تالیاں بج اٹھیں۔ جیسے بہت سے کبوتر ایک ساتھ پھڑ پھڑا کر اڑ گئے ہوں۔

فوجی جیپ سے اعلان ہورہا تھا۔

ONE  TWO, ONE TWO, FIRE

(ایک دو، ایک دو، فائر)

ایک ساتھ سڑک پربہت سی لاشیں تڑپ رہی تھیں۔

***

اس سے پہلے کہ میں اسکول کے پچھلے سال کے کارناموں کی تفصیل میں جاؤں بہتر ہے کہ آج کی دنیا میں دی جانے والی تعلیم اور اُس کے مقاصد کی ایک مختصر شکل پیش کروں“۔

پرنسپل کی عالمانہ آواز مائیکرو فون پر گونجی۔ ”تعلیم پانے کا مقصد محض ڈگریاں حاصل کرنا نہیں ہے۔  بہت سے لوگ بڑی بڑی ڈگریاں لے کر بھی جاہل رہتے ہیں“۔

اہم شہریوں کا ایک وفد جس میں وکیل، ڈاکٹر، سیاستدان، ماہرین تعلیم، بینکر اور دانشور شامل تھے  جنرل کے ساتھ ہاتھ باندھے اپنی وفاداریوں اور شہریوں کی نمائندگی کا یقین دلانے کے لیے کھڑا تھا۔

پرنسپل کہہ رہی تھیں۔ ”تعلیم کا مقصد انسان کے اندر ایک صحت مند سوچ پیدا کرنا ہے۔ اور دوسرے انسانوں کی عزت کرنا۔۔۔“۔

جنرل نے شہر میں سر پھرے نوجوانوں کے ہنگاموں کی رپورٹ سُنی تو تھوڑی دیر خاموش رہا پھر دانت پیستے ہوئے حکم دیا۔

”ان حرامزادوں کی ایسی پٹائی کرو کہ یہ دوبارہ سر نہ اٹھا پائیں۔ انہیں ہماری طاقت کا اندازہ ہوجانا چاہیے“۔ پتلی سی بید سے وہ اپنے سینے پر سجے تمغوں کو بڑی نرمی سے تھپک رہا تھا۔

پرنسپل کہہ رہی تھیں ”آپ کی بچیاں جب اس سکول میں داخل ہوتی ہیں تو یہ ہماری بچیاں بن جاتی ہیں۔ انہیں ایک بہتر اور خوش آئند مستقبل کے لیے تیار کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اسی لیے ہمارے سکول کا تعلیمی تہذیبی اور کھیل کا معیار اتنا بلند اور اطمینان بخش ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں اپنے بچوں کو ہمارے پاس داخل کرنے کے آرزو مند والدین مایوس لوٹ جاتے ہیں“۔

جنرل نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کی دونوں بڑی بیٹیاں ملک میں گنتی کے چند ایسے سکولوں میں سے ایک سکول میں پڑھ رہی تھیں اور اگلے سال اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے والی تھیں۔

کھیل کے میدان کی دیوار کے ساتھ گورنمنٹ سکول کی ٹوٹی پھوٹی عمارت کی چھت پر بہت سے میلے کچیلے بچے مَیل بھرے ناخنوں کو دانتوں سے چباتے آنکھیں پھاڑے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔

جنرل کی بیوی جیتنے والی بچیوں میں انعام تقسیم کر رہی تھی۔ ”آج کا رنگ سبز ہے“۔ مائیکرو فون پر اعلان ہوا۔ جن لڑکیوں کے گروپ کا رنگ سبز تھا انہوں نے سب سے زیادہ انعام حاصل کیے تھے۔ جنرل اطمینان سے ہاتھ کی انگلیاں صوفے کے ہتھے پر سجانے لگا۔ سڑک پر سبز فوجی ٹرکوں کی لمبی قطار کے باعث سارا ٹریفک رُک گیا تھا۔ اور سکول تک اُس کے شور کی آواز آرہی تھی۔

”مجھے پرنسپل صاحبہ کی بصیرت افروز تقریر نے بے حد متاثر کیا“۔ جنرل کی بیٹھی بیٹھی، ٹھہری ہوئی آواز گونجی۔ سفید جوتوں اور سفید سوٹ میں اس کا پلا ہوا جسم، پھولے سرخ چہرے پر چوڑا جبڑا کھنچی آنکھیں اور ہونٹوں کے کناروں پر جمع درشتی یہ سب بہت نمایاں ہوگئے تھے۔ اچھی تربیت کے لیے آزاد اور پُر حوصلہ ماحول کی بہت ضرورت ہے۔ مگر آزادی کو استعمال کرنے کا ایک طریقہ بھی ہوتا ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے“۔

سکول کے میدان کے سرے پر اُگے آم کے پیڑوں کی ہری بھری پتیوں پر کوئل کوکی، جنرل نے آنکھ  چڑھا کر اوپر دیکھا، دھوپ کی تیزی ختم ہوگئی تھی بس اب اُجالا باقی تھا۔ دو تین سال کی ایک بچی جس کے بالوں میں بڑے بڑے گلابی ربن بندھے تھے قریب کی ایک کرسی پر آکر بیٹھ گئی اور اپنے گدرائے ہاتھ کرسی کی پشت پر ٹکا کر کوئل کی نقل اتارنے لگی۔ بچی کی ماں لپک کر پیچھے سے آئی، کچھ جھینپتے ہوئے جنرل کی طرف دیکھا اور بچی کو گود میں اٹھا کر چلی گئی۔

***

رات کا کھانا ختم کر کے وہ سب ڈرائنگ روم میں آگئے اور اپنے دن بھر کے کارنامے ایک دوسرے کو سنانے لگے۔

پھر کارتوسوں اور گولیوں کی بات چل نکلی۔ کون سا کار توس کتنا اثر کرتا ہے۔

بریگیڈیئر کی بیوی اپنے بیگ میں سے بہت سی رنگ برنگی چکنی چکنی گولیاں نکال کر کچھ لڑکھڑاتے ہوئے قالین پر بیٹھ گئی۔

”گولیاں کھیلنے کا شوق مجھے بچپن سے ہے“۔

وہ گنگناتے ہوئے بولی۔

”اس کھیل کے ماہر تو ہم ہیں“۔ جنرل قالین پر بچھی شیر کی کھال پر بیٹھ گیا۔ بریگیڈیئر کی بیوی اور جنرل بڑے انہماک سے گولیاں کھیلنے لگے۔ جب ان کی گولیاں آپس میں ٹکراتیں تو دوسرے لوگ جو سَرک سَرک کر اب قالین پر اُن کے چاروں طرف دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے تھے زور زور سے تالیاں بجانے لگتے۔

صبح کے چار بج رہے تھے۔ کھڑکی کے کُھلے پٹوں سے ہلکی تازہ ہوا کے ساتھ کوئل کی رسیلی آواز آئی“۔ کُو ووو۔“

جنرل کے ہاتھ سے گولی پھسل گئی اور نشانہ چوک گیا۔ بازی بریگیڈیئر کی بیوی نے جیت لی۔ جنرل نے ناگواری سے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ بریگیڈیئر نے جو یونیفارم میں ہی آگیا تھا اور اس لیے فرش پر بیٹھنے کے بجائے سامنے صوفے پر ٹیک لگائے کھیل دیکھ رہا تھا کونے میں رکھی بندوق اٹھائی اور کمرے کے باہر چلا گیا۔ پہلے اُسے خیال ہوا کہ پہرے پر موجود کسی سپاہی سے کہہ دے پھر کچھ سوچ کر برآمدے کی سیڑھیاں اترتا ہوا باغ میں آگیا اور آم کی ہلتی پتیوں کو دیکھنے لگا۔ بہت اوپر ایک ہوائی جہاز جارہا تھا۔ اُس نے مہینوں سے گولی نہیں چلائی تھی۔ آج کل شکار پر جانے کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا۔

آم کے پیڑوں کے قریب جا کر وہ رک گیا۔ پھر بندوق اُوپر کر کے اُس نے گولی چلائی۔ فائر کی آواز گونجی۔ دوسرے لمحے ایک کانپتی ہوئی خوفزدہ کوئل ٹہنی پر سے اُڑی۔

”گاتی چڑیا“۔ بریگیڈیئر نے ایک آنکھ بند کر کے نشانہ باندھا۔

سفید چاندنی سے بھرے آسمان کے نیلے سمندر میں کوئل ایک چھوٹی سی ناؤ کی طرح ڈولی اور دوسرے لمحے اس کے سیاہ پر راکھ کی طرح بُھر بُھرا کر فضا میں بکھر گئے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *