Home » پوھوزانت » شعور کی علامت ،عنقا ۔۔۔۔ محمد رفیق مغیری

شعور کی علامت ،عنقا ۔۔۔۔ محمد رفیق مغیری

محمد حسین عنقا ایک باشعور انسان باشعور شاعر و ادیب ، مورخ صحافی سیاستدان اور ایک باشعور دانشور تھا ۔ اِس میں ہر گز کوئی شک نہیں کہ اس نے شعور کی بیداری کے لےے جو جدوجہد کیا ہے وہ لائق اعتراف اور لائق صد تحسین ہے ۔ اس نے شعور ی طور پر اپنے جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور آخردم تک اس پر قائم رہا۔ تمام حالات اور مصیبتوں کے باوجود وہ اپنے اِس سوچ و فکر اور نظرےے سے ذرہ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ بلکہ اِس میںہر لمحہ آگے ہی آگے رہا۔ تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اور تمام آفرز کو قربان کرتے ہوئے اپنے مشن میں ہمہ وقت مگن رہا۔ ہم جب عنقا صاحب کے شعور کی بیداری کا جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں سب سے پہلے اس وقت کے ملکی سیاسی اور شعوری حالات کا جائزہ لینا چاہےے ۔ اسی طرح جب ہم عنقا صاحب کے حالات اور اس کی بلو چ راج کے لےے جدوجہد اور شعوری کوشش کو دیکھتے ہیں۔ تو بے حد فخر ہوتا ہے کہ وہ ہمارے قوم میں ایسے عظیم شخصیت تھا کہ جن کی بدولت آج ہماری بقا قائم ہے۔ عنقا صاحب نے جب اِس دھرتی پر شعوری طور پر آنکھ کھولی تو ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ بلوچ راج کا سفینہ اندھیرے کے سمندر میں فرنگی نا خداﺅں کے ہاتھوں ہچکولے کھارہی تھی۔ فرنگی سامراج بلوچ قوم کو غلام بنانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا۔ اور ہر طبقہ زندگی میں بلوچ عوام کو نیست و نابود کرنے کے لےے ریاستی تمام قوتوں کو استعمال کیا جارہا تھا۔اور بلوچ راج کے لےے تمام دروازے بند کےے جاچکے تھے۔ حتیٰ کہ بلوچ نمائندوں یعنی سرداروں اور نوابوں کو جاگیریں عنایت کرکے انہیں بے جا اختیارات دے کر خریدا جا چکا تھا اور انہیں سرمایہ داری اور جاگیرداری کی حرص و لالچ میں اس قدر بدمست کیا گیا تھا کہ وہ تمام بلوچی ننگ و ناموس کو بھول کر انگریز کے ذہنی غلام بن چکے تھے۔

عنقا صاحب بلوچ قوم کا وہ چشم و چراغ تھا جس کو اپنی قوم بلوچ اور بلوچ دھرتی سے جو اُنس اور والہانہ محبت تھی وہ کسی باشعور بلوچ سے ہر گز پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ اس نے اپنی زندگی بلوچ راج کی شعور کی بیداری کے لےے وقف کررکھا تھا۔ اس کی جدوجہد اور ایثار و قربانی کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ ہمارے اس مایہ ناز شاعر ادیب مورخ و محقق دانشور صحافی اور سیاستدان نے بلوچ قوم کے لےے جو بیش بہا خدمات سرانجام دی ہیں جس کی وجہ سے آج ہم اور ہماری نسل ان پر فخر کررہی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری عنقا صاحب کی قربانیوں کے اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” عنقا صاحب نے وطن کی آزادی کی خاطر بیس سال چار ماہ اور گیارہ دن غیر انسانی جیلوں میں گزار دےے۔ ان میں ہمارے اس بزرگ کی جلا وطنی والے دس برس شامل نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں کہ صرف انگریز سرکار نے اس کے سترہ اخبار ضبط کےے۔ جی ہاں سترہ اخبار ۔ سب سے پہلا البلوچ بھی عنقا ہی نے نکالا تھا۔ بلوچ کا پہلا سیاسی جلسہ بھی اسی نے کیا تھا۔1929 میں بلوچی میں پہلی نظم اس نے لکھی تھی۔ جس پر انگریز سرکار نے اسے ساٹھ ہزار روپے جرمانہ اور دو سال کی قید سنائی تھی۔ ڈاکٹر صاحب مزید آگے لکھتا ہے کہ آل انڈیا کانگریس کے 1935کے سالانہ اجلاس بمبئی میں قرارداد بلوچستان کے لےے جب لیت و لعل کیا گیا تو عنقا صاحب نے وہیں بھوک ہڑتال کردی۔ مہاتما گاندھی کی اپیل پر عنقا نے بھوک ہڑتال ختم کردی مگر اپنی قرارداد شامل کرکے “۔ یہ تو محض چند واقعے میں نے بیان کےے ہیں ۔ اندازہ کریں بلوچستان جیسا پسماندہ خطہ اور مچھ جیسے چھوٹے گاﺅں سے تعلق رکھنے والے بڑے آدمی نے بمبئی میں جاکر وہاں نہ صرف بلو چ قوم کی بلکہ بلوچستان گل زمین کی نمائندگی کی۔اپنے سوچ و فکر کے مطابق اپنا نظریہ موقف اور قرارداد گاندھی جیسے بڑے بڑے لیڈروں کے سامنے غیر ملک میں پیش کی۔ ذراتصور میں لائیے کہ آج کل ہمارا کوئی ایسا لیڈر ہے جو کہ اپنے ملک اسلام آباد میں جاکر اپنی بات منواسکے ۔ ہر گز نہیں کیونکہ سب جو ٹھہرے مفاد پرست چور کون اُن کی سنے گا۔ آئیے اِس بڑے آدمی کی بلوچ راج کی شعوری آگہی کی جدوجہد پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اِس بڑے آدمی نے جب بلوچ قوم کو ہر طرف اندھیرے میں دیکھا تو انہیں جگانا اپنا فرض سمجھا انہیں بیدار کرنا اپنا فرض سمجھا ۔

جب نوجوانوں کو مایوس دیکھتے ہیں تو انہیں جگانے کی کوشش میں فرماتے ہیں۔ اے جوانو یہ تو ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ شروع شروع میں حق کی آواز کو ہر ایک دبانے کی کوشش کرتا ہے اور حق دیکھنے میں مظلوم اور کمزور نظر آتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے ۔ اور باطل ہمیشہ رُسوا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمت نہ ہارو اور اپنی جہد کو جاری و ساری رکھو۔ بڑے آدمی فرماتے ہیں:

تو اس واسطے اے وطن کے جوانو

نہ چھوڑو اسے چاہے کیسی ہو حالت

یہ ہوتا ہی آیا ہے کہ ابتدا میں

رہا کرتی ہے حق کی مظلوم حالت

ولیکن نتیجہ یہ ہوتا رہا ہے

کہ حق نے بنائی ہے باطل کی دُرگت

عنقا صاحب بلوچوں کے اس غلط رسم کے بھی سخت خلاف تھا جو کہ سنڈے من نے اپنی ذہنی چالاکی کی بنا ءپر اِن پر مسلط کرکے رکھا تھا تاکہ اِن کی سرکار کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ لیکن ان مکاروںنے اپنی ذات کے لےے اسے مفید سمجھا اور اسے بلوچ رسم و رواج اور روایات کا حصہ بنایا ہے ۔ اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے جو کہ بلوچوں کی بربادی کا باعث ہے۔ اس بارے میں عنقا صاحب فرماتے ہیں:

منافی شریعت کے ہے یہ رویہ

یہ گمراہی ہے اس سے ہو جاﺅ ہشیار

خلافت سیاست نہیں ہے وراثت

ذرا دیکھو اپنے خلیفوں کے اطوار

اسی طرح عظیم رہنمایوسف عزیز مگسی سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حق تعالیٰ اِس سارے جہاں میں لاثانی ہے۔کوئی اس کا ثانی نہیں ۔انہوں نے ہمیشہ حق کی رہنمائی کی ہے آپ محض حضرت یوسف کی طرح اپنا چہرہ سامنے لاﺅ تو بلوچ راج کا ہر بچہ زلیخا بن کر آپ کو پانے کے لےے کود پڑے گا۔ پھر ان عشاق کی طاقت سے آپ ایک آن میں دنیا کی تقدیر کو بدل ڈالو تو پھر کوئی آپ کو روک نہیں سکتا۔ صرف آپ ہمت کرو۔ فرماتے ہیں۔

ہے لاثانی خدا کون ومکاں میں

تو اپنا عکس لا یوسف جہاں میں

زلیخا ہے ترا ہر بچہ قوم

پلٹ دے دہر کو چاہے تو آں میں

اِسی طرح بڑے آدمی سردار اعظم جان مزاری سے مخاطب ہوتے ہوئے انہیں تلقین کرتے ہیں کہ اگر آپ کو بلوچ راج بلوچ قوم پر ترس نہیں آتا تو کم از کم آپ اپنے نام کی تو لاج رکھیں۔ کیونکہ سکندر اعظم نے پوری دنیا پر حکومت کی تھی ۔ وہ آپ کا ہم نام تھا ۔ آپ محض اپنے قوم کے لےے بیدار تو ہوجاﺅ۔ یہ بھی ہمارے لےے غنیمت ہے۔

سکندر کی اگر چہ شان تجھ سے

ہے قائم اسم کی بھی آن تجھ سے

اے اعظم آﺅ ہم میں بھی خدارا

کہ پیدا ہم میں بھی ہوجان تجھ سے

میر مرید حسین مگسی شریف آدمی تھا بڑے صوم و صلوٰة کا پابند تھا۔ ہمہ وقت اللہ کی یاد میں شاید مسجد میں بیٹھے رہتے تھے ۔ دنیاوی الجھنوں میں نہیں پڑتے تھے۔ تو بڑے آدمی نے اُس شریف شخص کو بھی نہیں بخشا ۔ جس طرح شاعروں کے سرتاج شاہ عبدالطیف بھٹائی نے فرمایا تھا کہ نماز پڑھنا تو اچھی بات ہے بندہ لیکن وہ اور کوئی کام ہے جس سے ربّ راضی ہوتا ہے۔ عنقا صاحب نے بھی مرید مگسی کو اس انداز سے مخاطب کیا:

بڑا ہے اجر گرچہ صوم کو بھی

نہیں کم حق مرید قوم کو بھی

تمہارا فرض ہے کہ جاگ جاﺅ

کرودور اِس ہمارے نوم کو بھی

میر عبدالعزیز کرد کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ ہمارے بہت بڑے سیاسی رہنما تھے۔ ان کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ۔عنقا کے دوستوں میں سے تھے۔ عنقا کے ہم سفر بیلی تھے لیکن اس کے باوجود بھی عنقا نے انہیں بیدار رہنے کے لےے آواز دیا۔

عزیز اس درج ہے اپنی ادامیں

کھچا جاتا ہے چشم کیمرا میں

بلوچستان کی آنکھیں ہیں تجھ پر

توبن کر صاعقہ دوڑ اس فضا میں

میر محمد امین کھوسہ کو کون نہیںجانتا ان کی بلوچ قومی جدوجہد سے کون کا فر منکر ہوسکتا ہے ۔ لیکن بڑے آدمی نے انہیں بھی خبردار کیا ہے کہ اے امین بیدار ہوجاﺅ کہ تیرا نام و نشان مٹایاجارہا ہے ۔

امیں ہے کیا پیارا نام تیرا

ہے ہم سب میں تسلط عام تیرا

ترے ہوئے خیانت کا ہو دورہ

بچا کہ مٹ رہا ہے نام تیرا

یقینا اِس بڑے آدمی کو بلوچ راج اور بلوچ دھرتی کے ساتھ عمیق عشق تھا۔ اس عشق نے اس کی روح کو عدم میں جاکر بھی چین لینے نہیں دیا ہوگا۔ کیونکہ وہ بلوچ راج اور بلوچستان کی گل زمین کو خوشحال دیکھنا چاہتے تھے۔

لیکن زہے افسوس کہ ان کے اس جہان ِ فانی کو چھوڑ جانے کے ربع صدی بعدبھی بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی بلوچ قوم اور بلوچستان گل زمین کی تقدیر نہیں بدلی ہے ۔ بلکہ مزید ابتر ہوئی ہے اللہ ہم پر رحم کرے ۔ عنقا صاحب نے تو بلوچستان کے لےے اور اس کی مستقبل کے لےے کچھ اس انداز سے اظہار خیال کیا تھا۔

کیا ہے ضبط اپنے کو بہت پر اب نہیں ہوتا

یہ مانا کہ اجانب کو یہ دیتا ہے بہت آزار

ستارہ جلد چمکے گا بلوچستان کا عنقا

کےے دیتا ہوں میں تو آج سے غیروں پر یہ اظہار

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *