Home » پوھوزانت » اکیسویں صدی کے تقاضے ۔۔۔۔ پوہیں بلوچ

اکیسویں صدی کے تقاضے ۔۔۔۔ پوہیں بلوچ

یورپ کے 34 ملکوں بشمول کینیڈا، امریکہ اور سوویت یونین کے سربراہوں کا اجتماع 20نومبر1990 کو پیرس میں ہوا۔ انہوں نے اعلان ِپیرس کے نام سے ایک دستاویز تیار کی اور اعلان کیا کہ آج سے ہم سرد جنگ کاباضابطہ خاتمہ کرتے ہیں۔ انہوں نے امن اور عدم جارحیت کا بیس سالہ معاہدہ کیا اور طے کیا کہ اس صدی کے آخر تک اس دنیا کو ایٹمی اسلحہ سے پاک کردیں گے اور 2010 تک ہر قسم کے اسلحہ اور افواج کا خاتمہ کرکے مکمل ترک اسلحہ کا معاہدہ کریںگے۔

اعلان ِپیرس سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی جو امن برابری جمہوریت بنیادی انسانی حقوق، سماجی انصاف اور سوشلزم کادورہے۔

سرد جنگ کے 42 سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی ہوئی ہے، اور 1948سے1990 تک ان میں انقلاب برپا ہوگیا ۔ دوسری اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ قومی اجارہ دار سرمایہ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں میں اور ٹرانس نیشنل کارپوریشنوں میں ڈھل گیا ۔ عالمی جنگ کے امکانات ختم ہوگئے اور پائیدار عالمن امن کے امکانات روشن تر ہوگئے ۔ اعلان پیرس کے بعد علاقائی امن اور اشتراک کے معاہدے طے پانے لگے ہیں۔ ملکوں کے درمیان کشیدگیاں مذاکرات سے طے پانے لگی ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعات ختم ہورہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں کشمیر کا مسئلہ کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے اس کے حل کے لےے بات چیت جاری ہے۔ ملکوں کے اندر جمہوریت کے قیام کے لےے کوششیں ہورہی ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر شپوں کا زمانہ چلا گیا ہے۔

سائنس نے کائنات کے سربستہ راز دریافت کرلےے ہیں اور یہ ثابت کردیا ہے کہ مادی دنیا کی ترقی کا عمل ارتقائی ہے اور یہ برابر خوب سے خوب ترکی طرف ترقی کررہی ہے۔ سائنس نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ انسان نسل وحدت ہے اور بلا لحاظ قوم،نسل ، رنگ ، زبان ، عقیدہ اور جنس سب انسان برابر ہیں اور مادی دنیا کے وسائل پر برابر کا حق رکھتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کی جدید ایجادات، کمپیوٹر، الیکٹرانک اور روبوٹ نے انسان کے ہاتھ میں تسخیرِ کائنات کی بے پناہ قوت دے دی ہے ۔جدید ایجادات کی مدد سے مادی وسائل کو کام میں لا کر سب انسانوں کو متوازن غذا ،خوب صورت لبا س اور زندگی کی سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔

کارل مارکس نے انیسویں صدی میں مادی دنیا کے ارتقائی عمل اور انسانی سماج اور انسانی فکر کے ارتقائی عمل کے قوانین دریافت کےے تھے جو جدلی مادیت اور تاریخی مادیت کے سائنسی اصول ہیں۔سائنس کے ان قوانین نے انسان کے ذہن کو منور کردیا ہے اور وہ سماج کی ترقی کے قوانین سے آگاہی حاصل کرکے باشعور ہوگئے ہیں ۔اور وہ یہ جان گئے ہیں کہ اگلی صدی کا سماج انسانوں کا سماج ہوگا اور یہ ہر قسم کے استحصال جبر اور دباﺅ سے پاک گلوبل سوشلزم کا سماج ہوگا ۔ وہ یہ جان گئے ہیں کہ سرمایہ داری کا نظام ِپیداوار ترقی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور اب اس میں مزید ترقی کی گنجائش نہیں ہے۔

اس نظام میں سب انسانوں کو روزگار کے مواقع فراہم نہیں ہوسکتے اور اس نظام میں پیداوار کی تقسیم نا منصفانہ ہے اور رہے گی ۔اس لےے اس نظام میں سب انسانو ں کو خوراک اور پوشاک فراہم نہیں ہوسکتی اور نہ اس نظام میں غریبی دور ہوسکتی ہے۔ نہ غریبی اور امیری کے درمیان بڑھتا ہوا تفادت دور ہوسکتا ہے اور نہ ماحول میں بڑھتی ہوئی زہر آلودگی دور ہوسکتی ہے ۔کیونکہ سرمایہ داری نظامِ پیداوار استحصالی نظام پیداوار ہے اور سرمایہ دار اپنے منافعوں کی خاطر مادی دنیا کا بے تحاشا اور بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں منصفانہ اور انسان دوست سماج کی تشکیل کے لےے ضروری ہے کہ دنیا سے جہالت اور ناخواندگی دورکی جائے ۔نئی نسل کو سائنسی علوم کی تعلیم دی جائے ۔ عورتوں کو جو دبی اور کچلی ہوئی مخلوق ہے سماج میں مردوں کے برابر مقام دیا جائے، انہیں تعلیم دی جائے۔ اور پیداواری عمل میں اُن کو برابر کے مواقع فراہم کےے جائیں اور پیداوار کی تقسیم منصفانہ کی جائے۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے علم کے حصول کے بغیر اکیسویں صدی کے انسان دوست سماج کی تعمیر اور تشکیل نا ممکن ہے۔

اکیسویں صدی کی معمار نئی نسل ہے جو بیسویں صدی کی آخری دہائی میں پیدا ہوئی ہے۔ اس نسل میں لڑکے بھی ہیں اور لڑکیاں بھی ہیں ۔ان سب کو پڑھانا لازمی ہے ۔ پہلی جماعت سے مادری زبانوں میںسائنس کے علوم پڑھانے کا نصاب ابھی سے تیار کیا جائے۔ انگریزی زبان کی تعلیم لازمی قرار دی جائے اور میٹرک سے بی اے اور ایم اے تک فزکس اکنامکس اور جدلی اور تاریخی مادیت کا فلسفہ لازمی مضامین قرار دےے جائیں۔ میڈیکل اور انجینئرنگ اور زرعی نصابوں میں بھی ان مضامین کو پڑھایا جائے۔

اکیسویں صدی کے معاشی ترقی سماجی ترقی اور انسان دوست سماج کی تعمیر کے تقاضے پورے نہیں کرسکے گی اور پاکستان کو نئے عالمی نظام کا باوقار ملک نہیں بنا سکے گی ، اگر انہیں جدید سائنسی علوم اور جدلی اور تاریخی مادیت کا فلسفہ نہ پڑھایا گیا ۔ جو بیسویں صدی کے اہل فکر سائنس دانوں اور دانشوروں نے اُن تک پہنچایا ہے۔ وہ ان جدید ایجادات کو استعمال نہیں کرسکیں گے جو بیسویں صدی کے سائنس دانوں اور دانشوروں نے ان تک پہنچائی ہیں ۔ اکیسویں صدی صرف معاشی لحاظ سے ہی گلوبل نہیں ہوگی وہ سماجی اور ثقافتی لحاظ سے بھی گلوبل ہوگی ۔ قوم پرستی ، بنیاد پرستی ، روایت پرستی اور ماضی پرستی کے منفی رحجانات اور نظریات چرخے کر گھے اور دستکاری کے دوسرے آلات کے ساتھ عجائب گھروں میں رکھ دےے جائیں گے اور یہ دنیا سائنس کی روشنی اور انسان دوستی کی ثقافت سے جگ مگ کرے گی۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *