Home » پوھوزانت »  سٹیٹ ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

 سٹیٹ ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

سٹیٹ اتھارٹی کی ایک تنظیم ہے۔ یہ سماج کی طبقاتی تقسیم سے وابستہ ہے۔سٹیٹ معاشی طور پر حاوی طبقے کی سیاسی تنظیم ہے۔ یہ اُس طبقے کے ہاتھ میں جبر کا، ڈنڈے کا، جیل و پھانسی کا ایک آلہ ہوتا ہے جس کو یہ طبقہ محکوم طبقے کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ اس میں فوج، پولیس، عدالتیں، جیلیں میڈیا سب شامل ہوتی ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ ریاست حکمرانوں کے طبقے کے ہاتھ کا ہتھیار ہے جسے وہ غیر حکمران طبقات کو زیر کرتا ہے۔ریاست سرداروں، خانوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور اِن سب کے مرشد (امریکہ) کے مفادات کی چوکیدار ہوتی ہے۔ ریاست کے ستون یعنی عدالت، فوج، اسمبلی اور میڈیا انہی طبقات کی خدمتگزاری کرتے ہیں۔

اس ریاست کی صورت خواہ بادشاہت والی ہو،خواہ مارشل لا کی ہو، یا، خواہ وہ جمہوری ریاست ہو۔

سٹیٹ سماج کی اپنی پیدوار ہے۔ یہ باہر سے مسلط نہیں ہوتا۔ یہ کھمبی کی طرح اچانک بھی زمین سے نہیں اگتا۔یہ تو سماجی ارتقا کی ایک خاص منزل پہ پیدا ہوجاتا ہے۔  یہ ایک مسلسل تاریخ رکھتا ہے۔ یہ شروع سے موجود نہ تھا اور نہ یہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ موجود نہ تھا اس لیے کہ پرانے زمانوں میں خونی رشتوں پہ مشتمل سماج ہوا کرتا تھا۔ زبان و عقیدہ اور اٹھک بیٹھک ایک جیسی ہوا کرتی تھی۔ انسان بستیاں بسانے سے قبل کسی علاقے یا سر حد تک محدود نہ تھا۔ بارشوں کا پیچھا کرتے ہوئے، یاشدیدموسموں کے عذاب سے بچنے کے لیے کبھی یہاں کبھی وہاں پڑاؤ ڈالا جاتا تھا۔ وہاں خونی رشتوں کی یہ آبادی طبقات میں بٹی ہوئی نہ تھی۔اِسی لیے حاکم محکوم والا معاملہ نہ تھا۔ اسی لیے پولیس و جیل موجود نہ تھا۔

جوں جوں سماج ترقی کرتا گیا۔ تو طبقات وجود میں آگئے۔ کوئی امیر بنتا بنتا بالادست بن گیا اور بقیہ آبادی درجے میں گرتی گئی۔ بالادست زمین، چراگاہ، پانی اور مویشی پہ قابض ہوتا گیا اور بقیہ آبادی ان سب سے محروم ہوتی گئی۔  مطلب یہ کہ  جب سردار، خان، جاگیردار موجود نہ تھے تو ریاست تھی ہی نہیں۔ ریاست اُس وقت پیدا ہوئی جب انسان اپنی ضرورت سے زیادہ پیداوار کرنے لگا۔ تب زور آور اور مکار شخص نے پیدا وار کے سرچشمے کو ہتھیا لیا۔ اسے برقرار رکھنے کے لیے اسے گارڈ کی ضرورت پڑی۔ یعنی اب بالادست، یا امیر یا جائیداد و ملکیت والے طبقے کو اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت پڑی۔ تب پولیس یا لیویز وجود میں آئی۔ اپنی جائیداد کی حفاظت کے لیے باغی کو جیل میں بند کرنے کے لیے جیل خانے بنانے پڑے اپنے حق میں فتوے دینے کے لیے اس نے ملا کا ادارہ ایجاد کیا۔ شاعر سے اپنے حق میں گیت کہلوائے اور اپنے لیے فیصلے لینے کے لیے کرایہ دے کر طرفدار جرگہ یعنی عدلیہ تشکیل دیا۔اور ایک ایک کر کے دوسرے ادارے بنانے پڑے۔ اِن سب ناجائز اداروں کے مجموعے کو ”سٹیٹ“ کہاجاتا ہے۔ یوں پراسراریت میں لپٹا ہواایک دیوتا نما سردار اور بادشاہ کا سٹیٹ چل پڑا۔

دوسرے لفظوں میں، سٹیٹ طبقات کی پیداوار ہے۔ اس کا کام ہی یہ ہے کہ یہ حاکم طبقہ کی بالادستی کو قائم و دائم اور بچائے رکھے۔ حکمران طبقہ خواہ بادشاہ ہو، تھیوکریسی ہو، جاگیردار ہو، کپٹلسٹ ہو یا سوشلسٹ، سٹیٹ اُس کی خدمت کرے گا۔ سٹیٹ کی صورت خواہ بادشاہت والی ہو، تھیوکریسی والی ہو، مارشل لاوالی ہو، وہ اپنا بنیادی فریضہ ادا کرتا ہی رہے گا: یعنی حکمران طبقہ کی خدمت۔ سٹیٹ طبقاتی اداروں کا کُل ہوتا ہے۔ سٹیٹ طبقاتی ہوتا ہے۔

سٹیٹ اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ سماج خود اپنے ناقابلِ حل تضاد میں پھنس گیا ہے۔ جسے وہ خود دور نہیں کرسکتا۔ یعنی طبقات میں مصالحت ممکن نہیں رہتی تب ریاست پیدا ہوتی ہے۔

ریاست سارے سماج کی مستند نمائندہ تھی۔ یہ ایک مجموعہ کی شکل میں اس کا”نظرآنے والا“ اظہار تھی۔ لیکن اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ ریاست اس طبقے کی تھی، جو اس عہد میں سارے سماج کی نمائندگی کر رہا تھا۔ عہد قدیم میں ریاست غلام دار لوگوں کی تھی۔ سرداری نظام میں ریاست سرداری ہوتی ہے، جاگیرداری میں بادشاہت اور کپٹلزم میں رپبلک۔

سماج ارتقا کرتا گیا تو ریاست بھی جدید بنتی گئی۔ مگر اُس کی بنیادی ڈیوٹی نہیں بدلی۔ آج جدید کپٹلزم میں عام جرگہ کی جگہ فل فلیجڈ جوڈیشری سامنے آئی۔ ایک ڈھیلے ڈھالے قبائلی لشکر کی جگہ سٹینڈنگ آرمی کھڑی کردی گئی۔ پارلیمنٹ بنی۔ اخبار اور ریڈیو سے بڑھتے بڑھتے میڈیا نے ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا کی صورت ارتقا کیا۔۔۔۔ اور یہ سب (یعنی ریاست) کپٹلزم کی خدمتگزاری کرتے ہیں۔

ریاست کی طرف سے کپٹلزم کی اِس خدمتگزاری کا مطلب ہے: مخالف طبقات یعنی کسانوں مزدوروں اور دانشوروں کو دبانا،اور اُن کی تحریک کو کچلنا۔

آج کی ماڈرن ریاست مناپولیز کے مفاد میں معیشت کو کنٹرول اور ریگولیٹ کرتی ہے۔ اس طرح کر کے ریاست نہ صرف مناپولیز کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ نہ صرف خود اپنے سرمایہ (کپٹل) کو اپنے فائدے کے لیے موڑ دیں، بلکہ وہ انہیں ریاستی خزانے کو بھی استعمال کرنے کا موقع دیتی ہے جو کہ آبادی پر ٹیکس لگا لگا کر بھرتا جاتا ہے۔ گویا ماڈرن ریاست سوپر منافعوں کو پمپ کرنے کی ایک مشین ہے۔

ریاست ہر چیز کو سرمایہ داروں اور اشرافیہ کی نظر سے دیکھتی ہے، وہ انہی پر عنایتیں برساتی  ہے اورا نہیں ہی سارے حقوق عطا کرتی ہے۔ وہ ملک کا انتظام اُن کے حوالے رکھتی ہے اور اُن مزدوروں کو فسادی قرار دیتی ہے جو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ وہ فیکٹری مالکان اور مزدور دونوں کی بہبود کو مساوی طور پر اپنے دل کے قریب رکھتا ہے، مگر اندھے کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ وہ خالی خولی الفاظ ہیں۔

اس لیے ریاست عام آدمی کے لیے ماں نہیں ہوتی۔یہ صرف اور صرف بالائی طبقات کے لیے ماں ہوتی ہے۔عوام کے لیے، نچلے محکوم طبقہ کے لیے تو یہ ڈائن ہوتی ہے۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحدیں ایک ہوں۔ مثلاً جرمن قوم دیر تک دو آزاد ریاستوں میں بٹی رہی۔ یہی حال ویت نام کا رہا۔

ریاست کے حدود اربع گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ مثلاً آج ہندوستان کی سرحدیں وہ نہیں جو 1947سے پہلے تھیں پاکستان کی سرحدیں آج وہ نہیں ہیں جو 14 اگست 1947کو تھیں۔ مگر سرحدوں کے برعکس قوموں اور تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں۔

بعض ریاستوں میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے۔ جیسے جاپان میں جاپانی قوم، اٹلی میں اٹالین قوم اور فرانس میں فرنچ قوم۔ ایسی ریاستوں کو قومی ریاست کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوتی ہیں جیسے کینیڈامیں برطانوی اور فرانسیسی قومیتیں۔ پاکستان میں بلوچ پشتون سندھی وغیرہ قومیں۔

جدید ریاست ایک افسر شاہانہ درندہ ہے جو محنت کش طبقے کی پیدا کردہ دولت کے بہت بڑے حصے کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ سٹیٹ استحصال کا ایک ناترس آلہ ہے۔ محنت کش اس جدوجہد میں ہوتے ہیں کہ ریاست کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ مقصد نجی ملکیت کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے۔ محنت کش بورژوازی کو نکال کر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔

انارکسٹؔ کہتے ہیں کہ سٹیٹ کو کچھ نہ کہا جائے کیونکہ یہ ایک فضول ایجاد اور بیکار آلہ ہے۔ ہمارا اِس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ انارکسٹ کہتے ہیں یہ ایک ناپاک شئے ہے اس لیے اسے ہاتھ نہ لگایا جائے۔بورژوازی کہتی ہے یہ مقدس ہے  اس لیے اسے ہاتھ نہ لگایا جائے۔ دونوں کہتے ہیں کہ اسے نہ چھوا جائے۔

مگر انقلابی کہتے ہیں کہ اُس کو نہ صرف چھوا جائے بلکہ اسے اپنے ہاتھوں میں لیا جائے، اس پہ قبضہ کیا جائے۔اسے اپنے طبقاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جاسکے اور محنت کش طبقہ اپنی نجات کرے۔

محنت کشوں کا سیاسی اقتدار۔۔۔موجودہ بورژوا ریاست کے برعکس ایک زیادہ جمہوری سٹیٹ مندرجہ ذیل شرائط کے تحت ضروری ہوجاتا ہے۔

۔1۔ واپس بلائے جانے کا حق عوام کو دے کر تمام افسروں کو آزادانہ انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جائے۔

۔2۔ ایک ہنر مند مزدور سے کسی بھی افسر کی اجرت زیادہ نہ ہو۔

۔3۔ مسلح عوامی ملیشیا فوج کی جگہ لے لے۔

اس لیے پرولتاریہ کا سٹیٹ دراصل سٹیٹ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ بورژوا سٹیٹ تو عوام سے خود کو بیگانہ کرتی جاتی ہے،عوام کی مخالفت کرتی ہے اور عوام کو بالادست طبقہ کے نیچے رکھتی ہے۔ مگر پرولتاریہ والی سٹیٹ حتمی طور پر عوام کے مفادات کا اظہار کرتی ہے یہ نیم ریاست ہوتی ہے۔ یہ ریاست مستقبل میں کمیونسٹ رپبلک خود انتظامیہ کے لیے جگہ خالی کرتی جائے گی۔ حتی کہ یہ بطورِ ریاست اپنا وجود کھودے گی۔

یعنی آخر کار جب ریاست سچ مچ پورے سماج کی نمائندہ بنتی ہے، تو اُس وقت اُس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کوئی ایسا طبقہ ہی باقی نہیں رہتا، جس کو محکوم بنا کر رکھا جائے۔ طبقاتی تسلط اور انفرادی زندگی کی بقاء کی جدوجہد جو پیداوار کی طوائف الملو کی پر مبنی ہوتی ہے  اور اس کے ساتھ اس کے  بطن سے پیدا ہونے والے جھگڑے اور تصادم اور زیادتیاں سب ختم ہوجاتی ہیں۔ کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہتی جس پر جبر کیا جائے۔ اور اس لیے ریاست بطور جبری قوت آخری کام یہ کرتی ہے کہ سماج کے نام پر تمام ذرائع پیداوار پر قبضہ کرتی ہے۔ ریاست کی حیثیت سے یہی اس کی آخری خدمت ہے۔

اب  سماجی تعلقات میں ریاست کی مداخلت غیر ضروری ہوتی ہے، اور بالآخر خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ آدمیوں پر حکومت کرنے کے بجائے معاملات کا نظم و نسق، پیداوار کا انتظام اور ان کی نگرانی ہونے لگتی ہے۔  البتہ، ریاست کا یکا یک ’انسداد“ نہیں ہوتا اس کا پودا  رفتہ رفتہ خود سوکھتا جاتا ہے۔

مزدور طبقہ ریاست سے جتنے دن بھی کام لیتا ہے، وہ آزادی کی خاطر نہیں بلکہ اپنے دشمنوں کا سر کچلنے کا کام ہوتا ہے اور جو نہی آزادی کاا مکان پیدا ہوجاتا ہے، ریاست کی حیثیت سے ریاست کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

یہ زمانہ  ترقی یافتہ کمیونزم کا ہوگا۔ وہاں ریاست صرف اس وقت بکھرجانے کے قابل ہوتی ہے جب عوام الناس بنیادی اصولوں پر چلنے کے عادی ہو جائیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کر رہے ہوں اور پیداوار کی تقسیم اُن کی ضرورتوں کے مطابق ہو رہی ہو۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *