Home » کتاب پچار » لٹ خانہ ۔۔۔ علی عارض

لٹ خانہ ۔۔۔ علی عارض

لٹ خانہ عبدللہ جان جمالدینی کی نوشت اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی شائع کردہ کتاب ہے۔ کتاب جب پہلی دفعہ میری  نظر سے گزری میں نے نظر انداز کیا۔ چونکہ پچھلے دنوں گوشہِ ادب جناح روڈ پر 60فیصد کی رعایت تھی تو ہر دو دن بعد وہاں کا چکر ضرور لگاتا۔جب بھی گوشہِ ادب جاتا دروازے کے بالکل ساتھ ڈسپلے کتابوں میں موجود لٹ خانہ پرمیری نظر پڑتی۔ دو تین دفعہ نظر انداز کرنے کے بعد کچھ سوالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے کہ  لٹ خانہ کیا ہے؟، اسکی اہمیت کیا ہے؟۔کیونکر اس پہ کتاب لکھی گئی۔ کتاب کو اٹھایا۔پیش لفظ پڑھا جو کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے تیسری اشاعت پر لکھا تھا۔پڑھتے ہی پسند آگیا اور مزید سوالات ذہن میں آئے کہ کن لوگوں نے اس کی شروعات کی،کہاں پر تھا اور کیونکر شروع ہوا؟۔ لٹ تو عام طور پر سست لوگوں کو کہتے ہیں جو میرے خیال سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ُاسے لٹ کہا جائے۔لیکن کتاب پڑھنے کے بعد آپ لوگ بھی لٹ خانہ اور لٹ خانہ والوں  کا گرویدہ ہو جاؤگے اور لٹ کا مفہوم آپ کے لیے بدل جائے گا۔

عبداللہ جان جمالدینی چونکہ لٹ خانہ کے بنیاد گزاروں میں سے تھے تو وہ دوستوں کے اصرار پر لٹ خانہ کے قصے یا داشتوں کی صورت میں ماہوار نوکیں دور اور بعد میں ماہتاک سنگت  میں لکھا کرتا تھا۔ عبداللہ جان جمالدینی کے بقول اس کتاب کی تکمیل میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا بہت ہاتھ ہے۔

میرے لیے یہ کتاب انتہائی دلچسپ رہی،بہت عظیم لوگوں سے میری ملاقات ہوئی۔ انکو دیکھے اور ملے بغیر میں انکا گرویدہ ہوگیا۔ کتاب کو پڑھنے کے دوران کئی سوالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔ بہت سے اشخاص کا ذکر تھا کئی جگہوں کا زکر تھا جنکا آج وجود نہیں۔ ان سوالات نے مجھے شاہ محمد مری صاحب کے پاس پہنچا دیا۔ ایک دن  اطلاع دیے بغیر  اپنے عزیز دوست ماسٹر منظور کے ساتھ اچانک شاہ صاحب کے دفتر چلا گیا۔راستے میں دوست سے کہتا رہا کہ یوں  اچانک توچلے ہیں پر پتہ نہیں ڈاکٹر صاحب وقت بھی دیگا کہ نہیں یا ڈانٹ پڑیگی کہ کیسے اطلاع دیے بغیر آگئے؟۔ خیر جونہی ہم ان کے دفتر گئے انہوں نے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمیں ویلکم کیا اور بیٹھنے کو کہا۔ کتاب میز پر رکھ کر ہم بیٹھنے لگے کہ شاہ صاحب کی نظر کتاب پر پڑی اور مسرت سے کہنے لگا لٹ خانہ پڑھ رہے ہو؟۔اور اگلے ہی لمحے افسردہ ہوکر کہنے لگا اگر کچھ عرصہ قبل آتے آپ کو اس شخص سے ملا بھی دیتا (یعنی ماما عبداللہ جان جمالدینی صاحب)۔

لٹ خانہ میرے لیے اس لیے بھی دلچسپ رہا کہ اس میں کوئٹہ کی یاد داشتیں، کوئٹہ کے لوگ،ماحول کے قصے ہیں ہماری پیدائش سے دہائیوں قبل کی داستانیں۔اور چونکہ میری پیدائش بھی کوئٹہ کی ہے اور جس طرح کے ماحول میں ہم (ہماری جنریشن) بڑے ہوئے کوئٹہ ایسا تھا نہیں۔ جن حالات اور نفرتوں کا ہم سامنا کر رہے ہیں کبھی کوئٹہ رواداری کی مثال ہوا کرتا تھا۔ بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا کہ نفرت کا وجود ہونا دکھ کی بات نہیں ماتم کی بات ہے۔

لٹ خانہ کی کہانی 1950 کی دہائی سے شروع ہوتی۔ اور یہ کہانی ہے بلوچستان کے  کچھ روشن فکر اذہان کی جو اپنی اچھی بھلی زندگی اور سرکار کی نوکری کو چھوڑ کر معاشرے کی اصلاح میں لگ جاتے ہیں۔ اس کو ہم بلوچستان میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کی تحریک کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ کچھ دوستوں (جو معاشرے کے جبر، نا انصافی اور افسر شاہی نظام سے بیزار، بے بس اور لا علم عوام کی حالت جن سے برداشت نہ ہوسکی) نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی نوکری سے احتجاجاً مستعفی ہونگے اور معاشرے کو educate  کرینگے، شعور پہنچانے کا کام کریں گے۔ سائیں کمال خان شیرانی، ڈاکٹر خدائیداد خان اور خود عبداللہ جان جمالدینی لٹ خانہ کی بنیاد گزار اور روح رواں تھے۔  بہادر خان بنگلزئی، کامل القادری، انجم قزلباش، مستری محمد غوث، عبدرالرزاق مدراسی، عبدل خالق،ارباب جانو کاسی اور بہت سے دیگر لٹ خانہ کے عزیزوں میں سے تھے۔ بلوچی سٹریٹ میں ایک کمرے والا مکان (جو بڑھیا کی جھونپڑی کے نام سے مشہور تھا)کرایہ پہ لے کر اس کارواں کی شروعات ہوئی۔ لیکن ان روشن اذہان کے آنے کے بعد گھر کا نام ویڈو ہٹ سے پہلے تحصیل داروں کا گھر (کیونکہ یہ روشن فکر اذہان سب تحصیل دار تھے) اور پھر  لٹ خانہ کے نام سے مشہور ہوا اور آخر تک لٹ خانہ ہی رہا۔  ساتھ میں ان دوستوں نے گزر بسر کرنے لیے مسجد روڑ پر ایک سٹیشنری کھولا اور اسکا نام فی الحال سٹیشنری رکھا۔ لٹ خانہ اور فی الحال دونوں ہی عجیب لگتا ہے لیکن یہ نام کیسے رکھا گیا اس کی بہت دلچسپ کہانی ہے اور کہانی جاننے کے لیے آپ کو لٹ خانہ ایک دفعہ ضرور پڑھنا چاہیے۔

لٹ خانہ والوں کی سب سے بڑی خوبی  مطالعے والی ان کی عادت تھی۔ دھیرے دھیرے لوگوں نے لٹ خانہ کا رخ کرنا شروع کیا، آس پاس کے لوگ آتے کچھ مطالعہ ہوتا کچھ ادھر ادھر کی باتیں۔ لٹ خانہ میں ہر طرح کے لوگ آتے:صاحب علم،مزدور، دوکاندار۔ اور اس طرح لٹ خانہ والوں نے لوگوں کا قریب سے مشاہدہ کرنا شروع کیا اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کیا۔ رسالہ اور اخباروں میں ان کی تحریریں چھپنے لگیں اور اس طرح لٹ خانہ کی صدا پاکستان  کے دوسرے شہروں میں بھی پہنچنے لگی۔دوسرے شہروں سے اہل علم افراد آتے تو لٹ خانہ کا چکر ضرور لگاتے۔ اب ان کی دوستیاں پاکستان کے دانشور اور ادیبوں سے ہونے لگیں اور اس طرح انہوں نے لوگوں کی محرومی کی آواز کو پاکستان کے دوسرے شہروں میں پہنچا دیا۔ لٹ خانہ والوں کا ایک اور کام جو مجھے اچھا لگا یہ لوگ مطالعہ کے ساتھ ساتھ لوگو ں کو اپنی کتابیں پڑھنے کے لیے دیتے بنا کسی کرایہ یا معاوضہ کے۔ اس طرح  لوگوں میں تھوڑا بہت مطالعہ کا رحجان  آگیا جو کہ میرے خیال میں بہت بڑی خدمت ہے۔ علم کی یہ شمع جلتی رہی اور لوگوں کی تشنگی بڑھتی گئی۔ لوگ ان سے  کتاب لینے لٹ خانہ اور فی الحال سٹیشنری آتے۔اور کوئی قید و بند نہیں تھا بچے،جوان، بوڑھے سب ان کی صحبت کا حصہ ہوتے۔ اس طرح لٹ خانہ والوں نے مطالعہ کی ترویج کے ذریعے لوگوں کو تاریخ، ادب اور سیاست سے روشناس کروایا۔ لٹ خانہ میں بڑے بڑے ادیب، دانشور اور انقلابیوں کا مطالعہ ہوتا، ان پر تبصرے اور تجزیے ہوتے اور اس طرح یہ افکار لوگوں  میں پھیلتے گئے۔ لٹ خانہ والوں کی ادبی اور دانشورانہ خدمات اہل بلوچستان کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے۔لٹ خانہ والے سیاسی جماعتوں اور سیاسی تحریکوں کا اہم حصہ رہے ہیں۔

اس کتاب میں بہت سے نامور ادیبوں اور دانشوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ عبداللہ جان جمالدینی کے بقول جو کتابیں ان کے لیے نوید فکر ثابت ہوئیں ان میں گناہ اور سائنس، انسان کا عروج، سماج کا ارتقا، خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز شامل ہے۔ اس کے  علاوہ مارکس اور مارکسی فلسفہ، سبط حسن، روسی ناول نگاروں فیدور دوستوفسکی، لیو ٹالسٹائی،فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی،  فکر تونسوی،کنییا لال کرشن چندر اور بہت سے دیگر  نام شامل ہیں۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *