Home » کتاب پچار » عابد میر کا دوسرا رنگ ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی

عابد میر کا دوسرا رنگ ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شاعر اور اردو کے محترم استاد نور محمد، ہمدم کا ایک شعر ہے۔

حقیقت میں فسانے سے زیادہ حسن ہوتا ہے

حقیقت کو برائے مصلحت افسانہ کہتے ہیں

اور دیکھیں تو سچ یہی ہے۔ بہت سی باتیں، بہت سے واقعات کہ جنہیں افسانوی کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے مشاہدہ اور تجربہ انہیں نہ صرف حقیقت ثابت کرتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ البتہ کوئی اپنے پیش منظر پس منظر اور تجربات کی بنا پر انکار کر سکتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی افسانہ نگار سے اس کے کسی افسانے میں بیان کردہ کسی صورتحال کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ سچ مچ ہوا تھا یا ہوتا ہے تو اس کا جواب تھا کہ نہ صرف ایسا ہوتا ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے کہ جتنا میں نے بیان کیا ہے۔عابد میر صاحب کہ جو سراپا نگارش ہیں اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں، افسانے، کالم بلا گز وغیرہ اور کبھی کبھی شاعری کے نین نقش بھی سنوارتے ہیں،

ان کا موضوع انسان اور اس کے دکھ، اس  کے مسائل،طبقاتی و جینڈرامتیاز، عام انسان کی محرومی، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم،اشرافیہ کی چیرہ دستی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محبت، عشق، رومانس، اور جنس بھی ان کا موضوع ہیں۔

وہ خود کو پکا مارکسی کہتے ہیں اور ان کے کالم، ان کی کہانیاں اور ان کے بلا گز اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔ ساحر کے بارے میں لکھتے ہوئے کیفی اعظمی نے کہا تھا کہ ساحر سے بات کریں تو لگتا ہے کہ اس کی نظمیں پڑھ رہے ہیں اور اس کی نظمیں پڑھیں تو لگتا ہے کہ اس سے باتیں کر رہے ہیں۔ جدائی کا پیش لفظ سے لے کر رنگی تک میں نے ان کی جوکتابیں پڑھی ہیں اور انٹرنیٹ پر جو کچھ وہ لکھتے ہیں تو اس کے بعد مجھے بھی ان کی باتیں اور افسانے ایک جیسے لگتے ہیں۔

(کوئی پیارا یہ نہ کہہ دے کہ میں ساحر کی ٹوپی عابد میر کو پہنا رہا ہوں۔ میں نے صرف اپنے نظریے سے ان کے اخلاص کی بات کی ہے)

 

عابد کی کہانیوں کا دوسرا رنگ اصل میں پہلا رنگ ہے  اور اسی رنگ میں رنگی ایک کہانی ”تکمیل کی راہ میں“ کا موضوع میرا آج کا مرکزی موضوع ہے۔ اس کہانی میں عشق، محبت، وفا، بے وفائی، جنس اور متاعِ بازار پر بات کی گئی ہے۔ گوکہ بذاتِ کود کہانی کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔ لیکن پلاٹ جاندار ہے، بُنت بہت ہی اچھی ہے۔ الفاظ اور اشعار کا استعمال خوب ہے (سوائے غالب کے ایک شعر کو وزن سے خارج کرنے کے۔ سب سے اہم اور متوجہ کرنے والی چیز کرداروں کی باہمی گفتگو ہے۔

کہانی کے دو بنیادی کردار ہیں۔ پہلا کردار ایک نوجوان شاعر کا ہے کہ جو ایک ناکام محبت کا گھاؤ لیے غزل نامی لڑکی کے پاس پہنچتا ہے جو شہرِ اقتدار کے ایک پوش علاقے کے ایک بنگلے میں لوگوں کے لیے شراب اور جسمانی لذتوں سے لفظ اندوز ہونے کا سامان مہیا کرتی ہے۔ وہ یہ سب حالات کے جبر کی وجہ سے کرتی ہے کیونکہ اس کے والدین اس کی نوعمری میں کچھ عرصے کے فرق سے فوت ہو جاتے ہیں۔ بھائی چچا اور کوئی قریبی رشتہ دار اسے نہیں سنبھالتا تو وہ وہاں آنے والے گِدھوں کے ہاتھوں اس راستے پر چل نکلتی ہے۔ کہانی کا نتیجہ کچھ یوں سمجھ میں آتا ہے کہ شاعر اور غزل ایک دوسرے کے خلا کو پُر کر کے یعنی ایک دوسرے کی تکمیل کر کے اپنے اپنے راستوں پر چلے جاتے ہیں۔ کہانی کا پیغام جو مجھے سمجھ میں آیا ہے  وہ یہ ہے کہ جنس کو محبت کے ذریعے پاک کیا جاسکتا ہے۔ کہانی کا ایک خاص جملہ ہے ”محبت ہی وہ چھلنی ہے غزل، جو جنسی عمل کو پاکیزہ بنا دیتی ہے“۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا جنسی عمل بذاتِ خود ناپاک عمل ہے۔ وہ عمل کہ جس کے سبب نسل بڑھتی ہے؟۔ ایک ماہر نفسیات لکھتا ہے کہ محبت اور جنس کے درمیان ایک باریک لکیر ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی سکے کے حصے نہیں ہیں۔ یعنی محبت جنسی رابطے کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور اس کے بغیر بھی محبت کے بغیر جنسی رابطہ اگر چہ وہ اہمیت نہیں رکھتا کہ جو محبت کے ساتھ رکھتا ہے لیکن اس کی تسکین یا عدم تسکین بہر حال انسانی نفسیات پر اثر ڈالتی ہے۔ انفرادی بھی۔اجتماعی بھی جنس کے ناپاک ہونے کا تصور یہودیت، قدیم مسیحت اور بدھ مت میں موجود تھا اور اس کی بنیاد دراصل عورت کو کمتر سمجھنے کی بنیاد پر تھا۔ ان کے نزدیک عورت نامکمل انسان ہے۔ اس کی مثال انسان اور حیوان کے درمیان ایسی ہے جیسے جنت اور دوزخ کے درمیان رہنا چاہیے۔ اگر چہ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی لیکن جنس کو بہر حال آداب کے سانچوں میں ڈھلنا پڑتا ہے۔قدیم ترین زمانے میں اور کہیں کہیں بعد میں بھی مرد اور عورت کے جوڑوں کا تصور نہیں تھا بلکہ گروہ یا قبیلے کے تمام لوگ آپس میں تعلق رکھ سکتے تھے۔ لیکن بعد میں ساری نسلِ انسانی میں جوڑوں کا تصور آیا۔ یقینا یہ پرانے نظام کی قباحتوں کے سبب آیا ہوگا۔

مشتاق احمد یوسفی فرماتے ہیں کہ مرد پہلی مرتبہ محبت کرتا ہے، دوسری مرتبہ بے وفائی اور اس کے بعد نری عیاشی۔ تاہم عابد کی اس کہانی میں شاعر ایک محبت اور جنسی عمل سے گزری ہوئی محبت میں ناکام ہوکر دوسری جگہ پہنچتا ہے اور وہاں بھی جنسی عمل اور محبت کے اختلاط کے بعد تیسری جگہ پہنچ جاتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا باہمی رضا مندی سے جنسی عمل بھی محبت ہے؟ جیسے اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ علی شاعر ایک پیشہ ور لڑکی سے مختصر جذباتی تعلق کے بعد جسمانی رابطہ قائم کرتا ہے اور خود آگے بڑھ جاتا ہے جب کہ لڑکی انہی شوگر ڈیڈیز کے درمیان گھری ہوئی ہے۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ وقت، تجربات اور ردِ عمل جنس اور محبت کے بارے میں آپ کے خیالات بدل سکتے ہیں۔ جیسے کہ مصطفےٰ زیدی اپنی نظم دیوانوں پہ کیا گزری میں کہتے ہیں کہ صرف دو چار برس قبل یونہی برسرِ راہ مل گیا ہوتا اگر کوئی اشارہ ہم کو، یہی دز دیدہ تبسم، یہی چہرے کی پکار، یہی وعدہ یہی ایما، یہی مبہم اقرار، ہم اسے عرش کی سرحد سے ملانے چلتے۔ پھول کہتے کبھی سنگیت بنانے چلتے، خانقاہوں کی طرف دیبِ جلانے چلتے، صرف دوچار برس قبل مگر اب یہ ہے کہ تیری نرم نگاہی کا اشارہ پاکر، کبھی بستر کبھی کمرے کا خیال آتا ہے۔

زندگی جسم کی خواہش کے سوا کچھ بھی نہیں

خون میں خون کی گروش کے سوا کچھ بھی نہیں

عابد میر کی کہانیوں کی خوبی یہ ہے کہ اس میں جنس کا موضوع تخلیقی سطح پر آیا ہے یہ محض ذہنی لذت کوشی نہیں۔ وہ اس موضوع کو ادب سے الگ نہیں جانتا اور پوری جرات کے ساتھ لکھتا ہے۔ مجھے منٹو کا کردار لالہ گوپی ناتھ یاد آتا ہے کہ جو جیسا بھی واضح طور پر ہے کوئی منافقت نہیں۔

محبت اور جنس کے موضوع پر عابد کے افسانوں کے کردار بھی لالہ گوپی ناتھ جیسے ہیں۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *