Home » شیرانی رلی » خامشی….امدادحُسینی

خامشی….امدادحُسینی

جو کچھ بھی ہوچکا ہے

جو کچھ بھی ہورہا ہے

مرضی خوشی نہ خواہش

میری ہے اس میں شامل

خاموش تھا میں کل بھی

خاموش آج بھی ہوں

پر آج اور کل کی

ہے فرق خامشی میں

کل کی جو خامشی تھی

تھی لاش کی خموشی

آنکھیں پھٹی تھیں جس کی

اور مُنہ کھلا ہوا تھا

اتنے بڑے جہاں میں

وارث نہیں تھا جس کا

بے گوروبے کفن وہ

جو دھوپ میں پڑا تھا

ہاں خامشی جو کل کی

دیوار پتھروں کی

تھی، اس پہ اُپلے تھاپے

یا پوسٹر لگائے

مرضی تھی یہ نگر کی

چاہے تو اس پہ تھوکے

چاہے تو اُس پہ مُوتے!

پر آج کی خموشی

کل کی نہیں خموشی

اس خامشی کے پیچھے

بس پل کے فاصلے پر

مندر میں سنکھ ، گرجا

میں گھنٹیاں بجیں گی

مسجد میں بانگ ہوگی!

ہاں آج کی خموشی

میں سوریہ کے سواگت

کا شور بھی ہے شامل

ہاں آج کی خموشی

ساتوں سمندروں پر

طوفاں سے پہلے والی

ہے خامشی اے سائیں!

بہانا

میں بارش میں بھیگا تھا

رویا نہیں تھا

تمہارے لےے!

( میں رویا تھا، بارش میں بھیگا نہیں تھا

تمہارے لےے!)

( میں بارش میں بھیگا بھی تھا

اور رویا بھی تھا میں

تمہارے لےے!)

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *