Home » حال حوال » سنگت پوہ زانت ۔۔۔ نجیب سائر

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ نجیب سائر

                پوہ و زانت اور سنڈے پارٹی کا مشترکہ دیوان اتوار23فروری2020ء کی صبح گیارہ بجے پروفیشنل اکیڈمی میں ہوا۔اجلاس کا پہلا مرحلہ پوہ زانت کی نشست تھا جس کی صدارت مرکزی  جنرل سیکرٹری جاوید اختر نے کی۔اعزازی مہمان ڈپٹی سیکریٹری ڈاکٹر عطااللہ بزنجو تھے۔ نظامت کے فرائض سیکرٹری پوہ زانت نجیب سائر نے ادا کیے۔ اس نشست میں دو مضامین پڑے گئے۔

                بلوچستان کے معروف شاعرو ادیب ڈاکٹر منیر رئیسانی نے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے لکھا گیا اپنا مضمون پیش کیا جس کا عنوان تھا  ’زمرد کا گلو بند‘۔انہوں نے کہا کہ وہ تما م حقوق جنہیں بنیادی انسانی حقوق کہا جاتا ہے مردوں اور عورتوں کو یکساں طور پر میسر ہونے چاہییں اور عورت کو صرف عورت ہونے کی وجہ سے ان سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔1948ء میں انسانی حقوق کا جو منشور تیار کیا گیا اس میں عورتوں کو ہر قسم کے حقوق دینے اور صنفی امتیاز ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔موجودہ منظر نامے کو دیکھیں تو حالات ناقابلِ برداشت اور ناقابلِ بیاں ہیں۔ ننھی منی بچیوں (اور بچوں) کے ساتھ آئے دن ریپ ہونا اور ملزمان کا بچ جانا ظلم کا کاندھا تھپکنے جیسا ہے۔

                عورت کے حقوق کی جدوجہد میں لکھنے والی خواتین نے فعال کردار ادا کیا۔اگرچہ عورت نے بہت سے ملکوں میں مختلف شعبوں میں بہت سے کامیابیاں حاصل کر لی ہیں لیکن ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔سنگین دیواروں سے سسکنے والی عورت سے لے کر سڑکوں پر پتھر کوٹتی عورت تک سب کو اپنے اپنے مسائل سے نجات کے لیے مسلسل اور منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔

                مضمون سننے کے بعدسامعین کے سوالوں کے جواب منیر رئیسانی نے دیے۔

                امسال ینگ بلوچ کے سوسال پورے ہوئے۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے گزشتہ کانگریس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ 2020ء کے ہر پوہ زانت میں اکابرین کو یاد کیا جائے گا۔ کوئی مضمون، مقالہ یا شاعری پڑھی جائے گی۔پوہ زانت کا دوسرا مضمون اسی حوالے سے تھا جسے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے پیش کیا۔اس نے کہا کہ دنیا بھر کی عوامی سیاسی پارٹیوں کی طرح  ”ینگ بلوچ“ بھی اچانک پیدا نہ ہوئی اور نہ ہی ایک آدھ ذہنوں کی فرمائش پہ وجود میں آئی۔بلکہ ینگ بلوچ انگریز کے خلاف ہماری طویل جنگ آزادی کا حاصل تھی۔ ینگ بلوچ نے ایک بڑا کام کرنا تھا۔ اس نے نظریاتی اور سائنٹفک نیشنلزم کے نمودار ہونے اور اس کے ارتقا میں تیزی پیدا کرنی تھی۔اس پارٹی کی بدولت بلوچ قومی جذبہ کو ایک نئی قوت متحرکہ حاصل کرنا تھا اور پورے خطے کے معاملات میں ایک بڑی اہمیت والی سیاسی قوت بننا تھا۔

                 جب جنگ کے وقت بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوا توبہت سے سرداروں نے بھرتی کا فیصلہ کیا مگر مری عوام الناس نے کہا کہ ہم بھرتی نہیں دیں گے۔اگر لڑنا ہی ہے تو وطن کے لیے قربان ہوا جائے۔دوسروں کے لیے سات سمندر دور بے گورو کفن مرنے میں کیا رکھا ہے۔ایک حصے کا انکار سن کے بلوچستان بھر میں انکار پھیل گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ دو عالمی واقعات ایسے ہوئے کہ بلوچ کی ایک باقاعدہ سیاسی پارٹی ضروری ہوگئی۔پہلی عالمی جنگ اوردوسرا روس میں سوشلسٹ انقلاب۔ ینگ بلوچ پارٹی بننے سے قبل ہی ہمارا دانشور سماجی سائنس کے مغز کو پہچان چکا تھا۔وہ استحصالی نظام کے اصل رگ تک پہنچ چکا تھا۔دیکھیے وہ ناخواندہ قبائلی اُس وقت سرمایہ داری کو سمجھ چکا تھا۔ شاہ محمد مری نے آخرمیں کہا کہ ینگ بلوچ کے حوالے سے مضامین کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

                اس کے بعدمحمود ابڑو نے قراردادیں پیش کیں، جن کی منظوری اکثریتی رائے سے دی گئی۔1۔بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے طلبا و ملازمین کی تین مہینے سے جاری تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ان کی گرفتاری خصوصاًً خواتین ڈاکٹروں کی گرفتاری کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو درپیش مسائل و مشکلات کا سنجیدگی سے مستقل حل تلاش کیا جائے۔2۔ یہ اجلاس ملک کے بڑے دانشور ڈاکٹر لال خان اور بلوچستان کے نامور موسیقارو گلوکار مزار ابراہیم کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔3۔ یہ اجلاس کوئٹہ بم دھماکوں کی پرزور مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے ریاست ٹھوس اقدامات کرے۔4۔بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے طلبا و ملازمین کی تین مہینے سے جاری تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو درپیش مسائل و مشکلات کا سنجیدگی سے مستقل حل تلاش کیا جائے۔5۔کوئٹہ کو کراچی، چمن،سبی،ژوب اور تفتان سے ملانی والی شاہراہوں کو دو رویہ بنایا جائے اور سڑک حادثات و قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے دائمی اقدامات اٹھائے جائیں۔6۔بلوچستان میں منشیات اور اس کی سمگلنگ کی روک تھام حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ حکومت کی غفلت کی وجہ سے نوشکی میں ایک نوجوان کا قتل ہوا۔ ان کے قتل کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔7۔ آواران سمیت دیگر علاقوں میں تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔8۔ کمر توڑ مہنگائی نے عوام الناس کا جینا محال کردیا ہے۔ بدقسمتی سے عوام کی کوئی سیاسی آواز نہیں ہے۔ اکیڈمی حکومت وقت کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے اور مہنگائی کو فی الفور کم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔9۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر تشویش کا اظہار کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ریاست کی اس معاملے میں چشم پوشی اس کی بنیادی فرائض سے روگردانی ہے۔ اس سے جنم لینے والی سماجی خرابیوں کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔10۔کرونا وائرس کی ہمسایہ ممالک ایران و افغانستان میں موجودگی تشویشناک ہے۔یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ملک خصوصاًً بلوچستان میں اس کے پھیلاؤ کی روک تھا م کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ 11۔ماردی زبانوں میں اعلیٰ تعلیم دی جائے۔

                صدرِ مجلس جاوید اختر نے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ پیش کیے گئے مقالوں پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ شاندار مضامین سننے کو ملے۔ سامعین نے اچھے سوالات کیے۔عورت کو اس کے حقوق ملنے چاہییں۔ اس تحریک کو آگے بڑھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کا خاتمہ عورت کی نجات ہے۔سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو مجبور کیا ہے۔ اسے اشتہارات کی زینت بنا دیا ہے۔اس سال ہر پوہ زانت میں ہمیں ینگ بلوچ کے حوالے سے سننے کو ملے گا۔ شاہ محمد مری نے ینگ بلوچ کی تاریخ پہ ایک جامع مضمون پیش کیا۔

                اس کے بعد سنڈے پارٹی کا انعقاد ہوا۔ شریکِ محفل احباب دائرے میں بیٹھے۔ مختلف موضوعات پہ مباحثہ ہوا۔سوال و جواب ہوئے۔ آخر میں نجیب سائر نے نئے ممبرز کوسنگت اکیڈمی میں شمولیت پہ خوش آمدید کہا اور سکھر IBAیونیورسٹی میں زیرِ تعلیم سنگت اکیڈمی آ ف سائنسز کے دوست سمیع بلوچ کو اکیڈمی کی طرف سے 100کتابیں عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *