Home » پوھوزانت » زمرد کا گلوبند ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی

زمرد کا گلوبند ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی

                خواتین کے حقوق کے بارے میں گفتگو سُنتے اور پڑھتے ہوئے کئی بار کئی ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ کیا خواتین کے حقوق مردوں سے مختلف ہیں یا یہ کہ خواتین مردوں سے حقوق مانگ رہی ہیں۔ اور عورت کو اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کی ضرورت کیوں پڑی۔ بات یہ ہے کہ وہ تمام حقوق جنہیں بنیادی انسانی حقوق کہا جاتا ہے وہ تمام مردوں اور عورتوں کو یکساں طور میسر ہونے چاہییں اور عورت کو صرف عورت ہونے کی وجہ سے ان سے محروم نہیں ہونا چاہیے جیسے ووٹ کا حق، عوامی عہدہ رکھنے کا حق تعلیم کا حق، صحت کا حق، جائیداد کا حق، فیملی لاز میں حق اور صنفی امتیاز اور صنفی تشدد سے نجات۔ یونیسیف کی تعریف کے مطابق صنفی مساوات کا مطلب ہے کہ، مرد، عورت لڑکیاں اور لڑکے سب کو ذرائع، مواقع اور تحفظ ایک جیسے ہی میسر ہوں۔ معاشی عمل، فیصلہ سازی اور رویوں میں جنس سے ہٹ کر کردار ملنا چاہیے۔ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو ہم دراصل چھینے گئے حقوق کی واپسی کی تحریک بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ عہد قدیم میں عورت نہ صرف یہ کہ جائیداد رکھ سکتی تھی بلکہ روز مرہ کے تمام معاملات میں شریک ہوتی تھی اور قانون سازی میں شامل ہوتی تھی۔ شعرا میں رابعہ خضداری جیسی بے مثل فارسی شاعر ملتی ہے۔ بعد کے عہد میں قرۃ العین ظاہرہ جیسے شاعرہ ملتی ہے جو مرتے دم تک مطلق العنان بادشاہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہتی ہے۔ جاپان میں بارہویں صدی میں عورت کی حکمرانی موجود تھی۔ مصر میں فرعونوں کے دور میں خاتون فرعون کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں patangaliاور Katayanaکی گرائمر نویسی ظاہر کرتی ہے کہ اس زمانے کی عورت علم حاصل کرتی تھی۔ اساطیری کرداروں پر نظر ڈالیں تو ہر علاقے کی دیو مالا میں دیوتاؤں کے ساتھ دیویاں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً نانو دیوی، ھنگلاج دیوی، سرسوتی وغیرہ۔استثنائی مثالوں سے ہٹ کر دیکھیں تو خواتین صدیوں سے حقوق سے محرومی کا شکار ہیں۔ امتیازی سلوک کے سبب خواتین کو جو کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ان میں صنفی تشدد تعلیم اور ملازمت یا کاروبار کے حق سے محرومی، اس کے علاوہ شخصی، گروہی اوربین الاقوامی لڑائیوں میں جسمانی اور جنسی زیادتیوں کانشانہ بننا، قدیم زمانے کی طرح آج بھی لڑائیوں میں اور لڑائیوں کے بعد بھی مفتوحہ لوگوں کی عورتوں سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے بلکہ جنسی غلام بنا لیا جاتا ہے۔

                 اگر چہ خواتین ہمیشہ سے حقوق کی جدوجہد کرتی رہی ہیں لیکن اس کو باقاعدہ شکل انیسویں صدی کی عورت حقوق تحریک اور بیسویں صدی کی Feminist تحریک کی شکل میں نصیب ہوئی۔

۔1948میں انسانی حقوق کا جو منشور تیار کیا گیا اس میں عورتوں کو ہر قسم کے حقوق دینے اور صنفی امتیاز ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ نیو زویک میگزین نے 2011میں حقوقِ نسواں اور معیار زندگی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع تھی جس میں مختلف عوامل شامل تھے جن میں صحت، انصاف، تعلیم، معاشیات وغیرہ کو جانچا گیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار 158ویں نمبر پر تھا یعنی آخری دس ممالک میں ویسے تو دنیا اور خصوصاً ہم جیسے ممالک میں، عورت ہویا مرد سب استحصال کا شکار ہیں۔بنیادی سہولتوں کی کمی، صحت کی سہولت بہت کم، روز گار ملنا جان جوکھوں کا کام، اور امن عامہ کی ابتر حالت لیکن عورت کو مزید مشکل کا سامنا محض اس لیے کرناپڑتا ہے کہ وہ عورت ہے، تم عورت ہو اس لیے تم حکمران نہیں بن سکتیں، تم عورت ہو اس لیے فلاں معاملے میں اپنی زبان بند رکھو۔ المیہ یہ ہے کہ پسا ہوا مرد بھی عورت کو پیس سکتا ہے۔

                 موجودہ منظر نامے کو دیکھیں تو حالات ناقابلِ برداشت اور ناقابل بیاں ہیں۔ ننھی منی بچیوں (اور بچوں) کے ساتھ آئے دن ریپ ہونا اور ملزمان کا بچ جانا ظلم کا کاندھا تھپکنے جیسا ہے۔  معاشرہ اس حوالے سے کتنا نیچے گر چکا ہے اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اسرار قاسمی ایک جگہ کہتا ہے کہ حقوقِ نسواں کے حامی دراصل صرف جنسی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایسا ہے تو پھر جنسی آزادی یافتہ مغربی عورت کیوں حقوق کی بات کرتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ مختاراں مائی کیس میں ملک کا حکمران اٹھ کر کہتا ہے کہ پاکستان عورتیں اس لیے خود سے ریپ کراتی ہیں تاکہ انہیں مغربی ممالک کی شہرت اور پیسہ مل سکے۔

                 اس حوالے سے ذرا پیچھے جاکر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ شروع سے ذہنی ساخت کیسی بنی ہے۔ برصغیر میں تعلیم کے حوالے سے ایک بڑا نام سر سید احمد خان کا ہے۔لیکن یہی سر سید خواتین کی تعلیم کا سخت مخالف تھا وہ سمجھتے تھے کہ عورت جب تک غیر تعلیم یافتہ رہے گی تو وفا شعار اور تابع ہوگی۔ عورتوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے جو تمہاری نانیاں دادیاں پڑھتی آئی ہیں اِس زمانے کی نامبارک اور غیر مروج کتابیں پڑھو۔تاہم بعد میں ماہرِ تعلیم شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں خواتین کا کالج کھولا، انہی شیخ عبداللہ کی بیٹی رشید جہاں ڈاکٹر بنیں اور برصغیر میں انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے بنیاد گزادوں میں شامل ہوئیں۔اشرف علی تھانوی کا کہناتھا کہ عورتیں صرف اتنا لکھنا پڑھنا سیکھیں کہ دھوبی کا حساب رکھ سکیں۔اُس کا یہ بھی خیال تھا کہ لڑکیاں لکھنا پڑھنا سیکھ گئیں تو عشقیہ خطوط لکھیں گی۔ مغرب سے تعلیم یافتہ اور سیاحت یافتہ علامہ اقبال کو لڑکیوں کے انگریزی پڑھنے پر اعتراض تھا

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ

۔۔۔۔

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو ارباب ِ نظر موت

                عورت کے حق کے لیے جدوجہد میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت فعال کردار لکھنے والی خواتین نے ادا کیا۔فرخ  فروغ داد، امرتا پریتم،فہمیدہ ریاض، کشور ناہیدسمیت بہت سی لکھنے والیوں کے نام اس فہرست میں آتے ہیں۔ انہی میں ایک سارا شگفتہ  تھی جس نے کہا کہ ہم سرپر کفن باندھ کر پیدا ہوئے ہیں کوئی انگوٹھی نہیں کہ جسے تم چرا لوگے۔

                 دوسری تحریکوں کی طرح خواتین کے حقوق کی تحریک بھی اخلاص اور وفاداری سے مشروط ہے۔ یہ تحریک صرف بڑے شہروں میں ہونے والی تقریبات تک محدود نہیں ہے۔ نہ یہ تحریک مرد مخالف ہے۔ مرد عورت لڑکا،لڑکی سب اسی استحصالی نظام کے ڈسے ہوئے ہیں جس نے انسان سے اس کا انسان ہونے کا حق چھین رکھا ہے۔ جب کبھی تحریکوں کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے والے کوئی غلط حرکت کرتے  ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ استحصالی طبقات نے جدوجہد کرنے والوں کو دیگر طریقوں سے تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے جھگڑے میں بانٹ رکھا ہے۔  اگر چہ عورت نے بہت سے ملکوں میں مختلف شعبوں میں بہت سی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں لیکن ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ سنگین دیواروں میں سسکنے والی عورت سے لے کر سڑکوں پر پتھر کوٹتی عورت تک سب کو اپنے اپنے مسائل سے نجات کے لیے مسلسل اور منظم کوششوں کی ضرورت ہے ۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *