Home » پوھوزانت » بلوچی شاعری ۔۔۔ محمد محسن بگٹی

بلوچی شاعری ۔۔۔ محمد محسن بگٹی

                شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے کوئی بھی انسان ہو وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیا کے مشاہدے میں یا اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے اور سوچ میں گم رہتا ہے۔ ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس انسان کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے کچھ لوگ اس کو عام باتوں کی طرح سے یعنی گفتگو سے ظاہر کرتے ہیں کچھ لوگ اس کو لکھ کر یعنی نثر کی صورت میں بیان کرتے ہیں جن کو مضمون، ناول نگاری، افسانوں اور کہانیوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مجسمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح  بلوچوں نے بھی اپنے خیالات, کیفیات اور اپنے فکری منصب کے اظہار اور ظاہر کرنے کے لے  اشعار کا سہارا لیا. بلوچ شاعروں نے بہت خوبصورتی سے اشعار کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔بلوچستان جس قدر مالی ذخائر سے مالامال ہے اس سے کئی گنا زیادہ علمی ذخائر سے مالامال ہے۔ بلوچ قوم میں کئی نامور شاعر پیدا ہوئے۔ ان میں سر فہرست ہے جام درک, مست توکلی, شیہہ مرید, جوآنسال اور شاہ عیسے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ اور بھی بے شمار بلوچی شاعر ہیں جن کی مکمل  شمار نا ممکن ہے۔ بلوچی شاعروں کا زیادہ تر موضوع  جنگ و جدل،محبوب کی تعریف اور حمدو نعت رہے ہیں. اور ان کے ساتھ ساتھ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں پر قصیدے خصوصی طور پر شامل ہیں۔ عورتیں بھی اشعار کہاکرتی تھیں۔لولی اور حالو کی صورت میں اور بلوچی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زیادہ تر محاورہ بندی پر مشتمل ہوتی ہے. اور اس قسم کی شاعری کے لیے بلوچوں میں سب سے زیادہ معروف جام درک اور شاہ عیسے ہیں۔بلوچوں میں ایک اور نام ور شاعر گزرا ہے، جوآنسال ابراھیم بگٹی. اور جب کبھی بلوچی شاعری کا ذکر  شروع ہو تو مست توکلی کا نام بے ساختہ زبان سے نکل جاتی ہے. اس کی وجہ مست اور سمو کی بے انتہا محبت اور مست اور سمو کی محبت کی داستان اور مست کے اپنی محبوب سمو کے فراق میں کہے اشعار ہیں۔ جن کوسن کر  روشن ضمیر اشخاص کی روح آج بھی تڑپ اٹھتے ہیں. اس کے ساتھ بلوچ شاعروں نے دنیا کے ہر کبیر اور کمتر موضوعات پر اشعار کھے۔ دنیا کی تاریخ آج بھی اس پر شاہد ہے کہ بلوچ شاعر نے جس چیز کو اپنا موضوع بنایا اور پھر چاہے وہ تعریف ہو یا پھر طنزومزاح اس کو اس قدر شدت سے بیان کیا کہ کسی اور کو اس پر کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ ہوئی۔بلوچ نے اپنی تاریخ کو اوراق پر تحریر نہیں کیا۔ بلوچ اپنی تاریخی واقعات کو سینہ بہ سینہ محفوظ کرتا آیا ہے۔

                بلوچوں نے اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور اپنی پہچان کو زندہ رکھنے کے لیے شاعری کو فروغ دیے رکھا۔ اور آج ہم سب پر فرض ہے کے ہم قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ان اشعار کو محفوظ رکھیں۔ان اشعار میں ہی ہماری زبان کی اصلی صورت بھی ہے اگر یہ اشعار ہم سے چلے گے تو نہ صرف وہ اشعار چلے جائیں گے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ہماری زبان بھی ہم سے رخصت ہو جائے گی۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *