Home » پوھوزانت » کتاب کلچر ۔۔۔ باقی بلوچ

کتاب کلچر ۔۔۔ باقی بلوچ

کوئی بھی ادب ہو جس میں اصل قوت انکی تخلیق ہو تی ہے۔تخلیق سے کوئی بھی چیز ماورا نہیں۔تخلیق بنیاد ہے۔ اور تخلیق ہی سے ادب تنومند  توانا اور صحت مند ہوتا ہے۔اگر تخلیق میں جان ہے تو قاری خود بخود بن جاتے ہیں۔

قاری آج کے دور جدت اور معیار کو دیکھتا ہے۔براہوی ادب پر کتابیں بلوچستان کے کسی بھی بک شاپ پر اوپر کی شیلف میں موجود نہیں۔اگر کوئی ضرورت کے تحت،ایم اے،ایم فل کے سٹوڈنٹ کوئی کتاب ڈھونڈ بھی لیں۔تو وہ کتابیں ان کو اس جگہ پر نہیں ملیں گی۔ جہاں ہرگاہگ کی نظر پڑتی ہے

ان کتابوں پر اکثر عموما مٹی پڑی ہوتی ہے۔براہوی کتابوں پر مٹی جم جانے کی بنیادی وجہ زبان کی بے قدری ہے۔

اور زبان کی اس ناقدری کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جب لاکالج میں ایک بک افیئر کا اہتمام کیا گیا تھا۔جہاں مختلف اداروں سماجی تنظیموں، کتابوں سے محبت رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے خوب صورت اسٹال لگائے تھے۔چند دوستوں کے کہنے پر ہم لوگ بھی لا کالج گئے۔ ہر طرف رش کش، بھیڑ، ہجوم تھا۔لیکن براہوی کتابوں کی طرف کوئی بھی دھیان  نہیں دیتا تھا۔

براہوی ادب کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اس میں اچھے تخلیق کارکم ہیں۔ براہوی ادب میں تخلیقی معیار کا فقدان ہے۔بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا کا کہنا ہے کہ معیاری تخلیق ہی دراصل کسی زبان کو آگے لیجانے، زبان کی ترقی کا ذریعہ ہوتی ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ بڑی زبانوں کو بڑی زبانیں کیوں کہا جاتا ہے۔اور چھوٹی زبانوں کو چھوٹی زبان کیوں کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟

میری دانست میں بڑی ادب اور زبانیں وہ ہیں جنکے معیار اعلی ہو۔

ایک تہذیب اور زبان کے ورثہ سے دوسری زبانیں مستفید ہو۔

نہیں تو پاپولیشن کی بنیاد پر دنیا میں بولنے والے زبانیں بیشک زیادہ ہو لیکن انکے ادب کا معیار وپیمانہ بہتر اعلی نہیں ہوسکتا۔

کتابیں گفٹ کرنے کا رواج عام ہوگیا۔براہوی کتابیں گفٹ کرنے کے باوجود پڑھی نہیں جاتیں۔

براہوی ادب میں صاحب حیثیت لوگ بھی کتابیں نہیں خریدتے۔وہ بھی گفٹ کے چکرمیں ہوتے ہیں۔اور پھر کون ڈگری ہولڈرز گریڈوں پر براجمان لوگوں کو نظر انداز کرسکتا ہے۔؟وہی تو ادب کے کھرتا دھرتاہیں۔

ہم سب کو یاد ہوگاکہ نوشکی میں منعقد ہونے والے فیسٹیول میں لگائے گئے مختلف اسٹالوں پر کتنی کتابیں فروخت ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کے باوجود کتابوں کی خریداری وہ بھی کم قیمت پر ہونے کے باوجود بڑی مایوس کن رہی۔

نوشکی فیسٹیول کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ریڈنگ کلچر اب نا پید ہوتا جارہا ہے۔

اگر کتاب نہیں پڑینگے۔

تو تخلیق کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔۔۔۔۔

ہمیں کتاب کلچر کو مقبول بنانا ہوگا۔ ہمیں تحریر میں تخلیقیت پر زور دینا ہوگا۔ عوام کے لیے عومای زبان میں بکھنا ہوگا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *