Home » پوھوزانت » بلوچستان ۔۔۔ نہری زراعت۔۔۔ محمد نواز کھوسہ

بلوچستان ۔۔۔ نہری زراعت۔۔۔ محمد نواز کھوسہ

                بلوچ تہذیب کے مرکز مہرگڑھ کے آس پاس کا علاقہ کچھی اور نصیر آباد روز اوَل سے زرعی لحاظ سے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہاں فصلوں کی زبردست پیداواری ہوتی تھی۔ 1740میں کچھی اور سیوی کا پانچ ہزار میل کا علاقہ قلات کا ہوگیا۔ جس سے زرعی اجناس کی صورت میں قلات کو زبردست آمدنی ہوتی رہی۔ اور خانی مضبوط ہوتی گئی۔ کچھی میں دریاؤں پر بند باندھے جانے لگے۔ کپاس اوردالیں سیلابی پانی پہ کاشت ہوتی تھیں۔ جبکہ کپاس تیل، گندم، جوار اور میوہ جات و سبزیاں مستقل پانی والے محدود علاقوں میں پیدا ہوتی تھیں۔

                نصیر خان کی حکمرانی میں کچھی اور نصیر آباد قبائلی حیثیت کھوکر جاگیرداری نظام میں چلے گئے۔ اور اس طرح لوگ اپنے جاگیردار کے غلام بن گئے۔

نصیر آباد ریجن میں زرعی زمین کی ملکیت چار قسم کی ہے۔

نمبر 1موروثی زمین: یہ زمین نسل درنسل ملکیت میں چلی آتی ہے۔ ایسی زمین کے مالک زیادہ تر بڑے بڑے جاگیردار ہیں۔ نصیر آباد ریجن میں زیادہ تر نہری اور بارانی زمین زیادہ تر موروثی ہے۔ کھوسہ، جمالی، مگسی بلیدی رند، عمرانی، جکھرانی اور سید موروثی جاگیردار ہیں۔ جن میں ہر ایک ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کا مالک ہے۔

                نمبر 2الاٹی زمین: ایوب خان اور ذوالفقار علی خان بھٹو کے دور میں زرعی اصلاحات کیے گئے۔ اِن اصلاحات کے مطابق بڑے بڑے موروثی جاگیرداروں کی زمین کو کاشت کرنے والے کسانوں کے نام کردیا گیا۔ زرعی اصلاحات کے زریعے ملنے والی اس زمین کو الاٹی زمین کہتے ہیں۔ پٹ فیڈر کے علاقے میں یہ زمین ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ کھوسہ اور جمالی جاگیرداروں نے ان اصلاحات کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اور موقع ملتے ہی الاٹی زمین پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی اور زیادہ تر ایسی کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے۔

۔3۔سرکاری زمین اپنے نام کردی گئی۔

۔4۔قبضہ کردہ زمین

بڑے بڑے جاگیرداروں اپنے آس پاس کے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈرا دھمکا کر پہلے نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں اور پھر ان کے اراضی پر قبضہ جمالیتے ہیں اور پھر یہ قبضہ نسل درنسل چلتا ہے۔

                نہری زراعت میں چار قسم کے لوگ وابستہ ہیں۔

                 نمبر1جاگیردار:      جاگیردار بڑے بڑے قطعہ اراضی کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی ریاست کے اندر ریاستیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ریاست کے سیاہ وسفید کے مالک ہوتے ہیں۔ریاستی مشینری ان کے در کی لونڈی ہوتی ہے۔ ریاستی عملدار ان کے در کے سلامی ہوتے ہیں۔ اور وہ تمام قوانین کو جوتی کے نوک پہ رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے قوانین اپنے ضابطے اور اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ اور ریاستی ادارے محض مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔انگریز کے جانے تک سامراج کے ساتھی سردار و جاگیردار کافی مضبوط ہوچکے تھے۔ اب تو گویا اسٹیبلشمنٹ اور یہ جاگیردار باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ایک دوسرے کے دستگیر ہیں۔ بلوچستان کی کوئی ایسی حکومت نہیں جس میں پورا نصیر آباد ریجن کے عمرانیوں، لہڑیوں جعفر آباد کے جمالیوں اور صحبت پور کے کھوسوں کے جاگیردار وزرائے اعظم بنے، وزرائے اعلیٰ بنے،اسپیکر، سینٹ چیئرمین بنے گورنر بنے وفاقی وصوبائی وزیر تو یہ ازلی ہیں۔

                 نمبر2کاشتکار:

ان کے پاس تھوڑی مقدار میں زرعی زمین ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنی زمین کو خود کاشت کرتے ہیں۔ نصیر آباد ریجن میں کاشتکار بھی کافی تعداد میں ہیں۔ چونکہ ان کے پاس تھوڑی سی اراضی ہوتی ہے اس لیے ان کے پاس وسائل بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ٹریکٹر اور دیگر مشینری جو فی زمانہ کاشت کے لیے لازمی ہوتی ہیں رکھ نہیں سکتے۔ کاشتکار سارا سال مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اور مارکیٹ تو بے رحم ہوتا ہے  ہر چیز اُدھار پہ کاشتکار کو مہنگا ملتا ہے۔ اس طرح پیداوار سارا دلال اور مارکیٹ والے لے جاتے ہیں۔ کاشتکار بھی بُری حالت میں ہے

                 نمبر3کسان:            یہ کھیت مزدور ہوتا ہے۔ اور زراعت کا اہم پرزہ۔محلات کی رونقیں اور ان کی ٹھاٹھ باٹھ اور دیگر عیاشیاں کسان ہی کے دم سے ہیں۔ زرعی شعبے میں سب سے زیادہ نمایاں کردار کسان کا ہوتا ہے۔ آبادی کا زیادہ حصہ کسانوں یعنی کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے۔ اور سب سے زیادہ استحصال بھی کھیت مزدور ہی کا کیا جاتا ہے۔وہ ہر سہولیات زندگی سے محروم ہے گویا اس کے کوئی انسانی حقوق ہی نہیں بس نسل درنسل جاگیردار و زمیندار کے غلام درغلام۔

***

                ارتقائی عمل کے نتیجے میں زراعت میں بھی سائنسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مشینری نے زراعت کے طور طریقے بھی بدل دیئے ہیں۔ لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود بھی کسان کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ اکثر جاگیردار و زمیندار جدید مشینری کے ذریعے مقرر قیمت پر مزدور سے کام لیتے ہیں۔ زمین ہموار کرنے سے لے کر فصل اٹھانے تک سب کام مشینری اور مزدوروں سے کراتے ہیں۔ اور پیداوار خود ہی لے جاتے ہیں مزدور کو صرف مزدور ہی ملتا ہے۔

 صحبت پور اور نصیر آباد کے ڈیرہ بگٹی سے ملحقہ علاقوں میں سرداری زمین قبیلے کے لوگوں کو فی ایکٹر سالانہ ایک مقرر رقم کے حساب سے دیاجاتا ہے۔ سارا خرچہ کاشت کرنے والا کرتا ہے۔ پیداوار ہویا نہ ہو معاہدے کے مطابق اصل مالک کو طے شدہ رقم ضرور ملتی ہے۔

                 بڑے بڑے فیوڈل اپنی زمین کا کچھ حصہ بیگار کے ذریعے کاشت کراتے ہیں کچھ زمین اپنے کسانوں کے ذمے لگاتے ہیں کہ وہ سب مل کر اس مخصوص زمین پر کام کریں انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا ہے۔ پیداوار کلی طور پر جاگیردار یا زمیندار کا ہوتا ہے۔ حالات کے ہاتھوں مجبور کسان کو بیگار دینا پڑتا ہے۔

                کچھ زمین چوتھائی پر آباد کرایا جاتا ہے۔ یعنی آدھا زمیندار کا اور باقی آدھا دو برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اکثر چھوٹے زمیندار ایسا کرتے ہیں اور بعض کا شتکار بھی یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

                 زمین کاشت کرنے کے ان سبھی طریقوں میں خسارے میں ہمیشہ کسان یعنی کھیت مزدور ہی رہتا ہے۔ اُسے اپنی محنت کا پورا صلہ نہیں ملتا ہے۔ لمحہ لمحہ اس کا استحصال ہوتا رہتا ہے۔ غلام داری سماج سے لے کر موجود مشینی دور تک کسان کی زندگی اس کے شب و روز میں بہتری نہیں آئی ہے۔

                (اس مضمون میں ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ”بلوچ زراعت“ سے مدد لی گئی)

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *