Home » پوھوزانت » مجید امجد کا نسوانی سندرتا اور شکتی کا تصور ۔۔۔ نبیلہ کیانی

مجید امجد کا نسوانی سندرتا اور شکتی کا تصور ۔۔۔ نبیلہ کیانی

                مجید امجد کی شاعری کو پڑھتے ہوئے کچھ یوں سمجھ آتا ہے کہ وہ ایک مخصوص نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی تھے اور اپنے نظر کے سب سے اہم حامی بھی وہ خود ہی تھے اور انہیں کسی کی تائید کی بھی ضرورت نہیں تھی اور شاید اسی لیے وہ ایک نئی زبان، نئے خیالات کی شروعات کر سکے۔ وہ نہ صرف نقطہ نظر رکھتے تھے، بلکہ یہ نقطہ نظر اُن کی شاعری کو منور کرتا ہے اور اپنے نقطہ نظر کے نور سے انہوں نے اردو زبان کو وہ روشنی دی، وہ روشن آنکھیں دیں جو شاید وہی دے سکتے تھے۔ امجد صاحب نے جب اردو زبان کو نئی آنکھیں دیں تو یوں ہوا کہ نئی دنیا دریافت ہونے لگی، فکر اور جذبوں کو نئی راہیں ملیں، نئی پگڈنڈیاں بن گئیں، نئی گزر گاہیں تعمیر ہونے لگیں اور نئے مناظر ابھرنے لگے۔ اور نئے دور کی بشارت لیے ان کی شاعری ہمیں سرد ھننے پر اُکسانے لگی۔

                 امجد صاحب شکوہِ دو عالم کے شاعر ہیں۔ اُنہوں نے اپنے لیے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ فکر و مناظر کی شان و شوکت کے لیے گیت لکھیں گے۔ اس فکر پر جس نے انسانوں کو شان دار کردار دیے۔ نئی سوچ دی۔ انسانوں کو دیکھنے کی نئی آنکھ دی۔ انسان کی شان و شوکت کو کس طرح سراہا جائے۔ زندگی بسر کرنے کے شان دار ڈھنگ کیسے اپنائے جائیں اور یہ مختصرسی مہلت اور روشنی جو انسان کی زندگی ہے اس کو کس طرح پر نور اور پر معنی کیا جاسکتا ہے؟ یہ سب مجید امجد کی شاعری کے موضوعات ہیں۔ نہ صرف موضوعات ہیں۔ بلکہ ان کی دعائیں بھی ہیں۔

                 مجید امجد نے اپنی شاعری میں انسانی کرداروں کو منظوم کیا۔ اُن کے خیال میں کچھ ایسے بھی انسانی کردار ہیں جن کے لیے گیت لکھے جاسکتے ہیں، جن کے لیے محبت کے گیت لکھے جاسکتے ہیں۔ وہ کردار اپنی ذات میں ایسا حسن رکھتے ہیں اور حُسن کی ایسی شان و شوکت رکھتے ہیں کہ شاعر اس حُسن کو محبت کے گیتوں میں ہی celebrateکرسکتا ہے۔

                 مجید امجد کی شاعری کو پڑھتے ہوئے قاری انسانی کرداروں کی گیلری سے گزرتا ہے جن کے بارے میں مجید امجد کا خیال تھا کہ یہ عظمت حاصل کرنے کی رواں دواں انسانی کو شش کے نمائندے ہیں۔ جنہوں نے ہم عصر شعور سے بلند ہوکر سوچا۔

  جنہوں نے اپنی زندگی میں متبادل شعور کو راہ دی۔ جنہوں نے fixed subjectivityسے نکلنے کی کوشش کی اور جب fixationsسے نکلے تو زندگی کے بہت سے روشن رُخ اُن کے سامنے آئے۔

                 مجید امجد ہر بڑے شاعر کی طرح explorer بھی تھے۔ ایسے شاعر جس نے آفاق اور دھرتی کے رشتے سے جنم لینے والے انسانی شعور کی وسعتوں کو دریافت کیا۔ وہ نئے Modes of Consciousnessاور نئے Modes of Existenceکی تلاش میں رہے۔ ان کی شاعری میں کردار نگاری اسی کوشش کی آئینہ دار ہے، ان کی دریافت کی کوشش کی چند مثالیں وہ خواتین ہیں جن کے لیے انہوں نے کچھ گیت لکھے۔ ان خواتین میں اگر کوئی مماثلت ہے تو یہی ہے کہ وہ ایک Alternative Conciousnessکے امکانات کی نمائندہ ہیں۔ وہ ایسے شعور کی نمائندگی کر رہی ہیں۔جو entranchedطبقات کا شعور نہیں ہے۔ نہ صرف وہ اس شعور کی نمائندہ نہیں ہیں، بلکہ نئے شعور کی تلاش میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے بارے میں لکھتے ہوئے مجید امجد دنیا کے ادب کی اس تحریک سے وابستہ نظر آتے ہیں، جس نے اپنا تعلق عام انسان سے قائم رکھا اور عام انسان کے حوالے سے خوب صورت تبدیلیوں کے امکانات کے خواب بھی دیکھے۔

                مجید امجد نے اپنے آپ کو انسانی شعور کا تاریخ دان اور تاریخ نویس کچھ یوں بھی ثابت کیا کہ انہوں نے ماضی وحال کی خواتین کے شعور سے نہ صرف ہم دردانہ ہم آہنگی محسوس کی، بلکہ اُن کے جذبوں کی گیرائی کو پرکھا۔ اُن کے کردار کی طاقت کو سراہا۔ اُن کی higher ideasکی تخلیق اور حصول کی کوشش کے لیے نہ صرف محبت سے گیت لکھے، بلکہ اپنے آپ کو اس عمل میں شریک محسوس کیا۔

                آرٹ اور زندگی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ زندگی زیاں کا عمل ہے، زندگی خسارہ ہے، لیکن فن کی تخلیق کی انسانی کوشش اور عمل اس بات کی نمائندگی کرتی ہے کہ زندگی کی زیاں کاری سے کچھ سوچوں کو، کچھ جذبوں کو، کچھ اعمال کو پُر معنی بنا کر بچایا جاسکے۔ کچھ انفرادی فیصلوں اور ذوق انتخاب کو زندہ رکھا جاسکے۔ تاکہ آنے والے کل میں جب دنیا بدلے تو آرٹ یہ کہہ سکے کہ صرف حُسن کی تلاش ہی ایک مسلسل اور متحرک عمل ہے۔ جمال آفرینی اور جمال پروری ہی زندگی کی زیاں کاری کا تریاق ہے۔

                مجید امجد کی شاعری میں جن چند خواتین نے جگہ پائی ہے وہ بہ ذات ِ خود بھرپور شخصیت ہیں۔ ان کی انفرادیت کو امجد نے لطف  و ستائش کی نظر سے دیکھا۔امجد کے ذوقِ نظر کو تسکین دینے والی ان خواتین کو  یوں بیاں نہیں کیا گیا کہ وہ مرد کی ذہنی اور جذباتی دنیا میں ایک ذیلی سیارہ ہیں یا مرد کے لیے ایک boosterاورmotivator  ہونا ہی ان کا مقصد حیات ہے۔ خواتین کو اجتماعی nounسے نکال کر امجد اُنہیں انفرادی nounکی طرف لے گئے اور ہر عورت کو فرد اور فرد کے امکانات کی نظر سے دیکھا۔

                امجد کی ایک نظم ”عورت“ سے کچھ اشعار قابل غور ہیں:

دماغ ِپروردگار میں جو ازل کے دن سے مچل رہا تھا

زبانِ تخلیقِ وہر سے بھی نہ جس کا اظہار ہوسکا تھا

                نمود تیری اس مقدس حسیں تخیل کی ترجمانی

اور مزید توجہ کے لیے ان اشعار کو دیکھیے:۔

جو تونہ ہوتی تو یوں درخشندہ شمعِ بزم جہاں نہ ہوتی

وجود ارض و سمانہ ہوتا نمودِ کون ومکاں نہ ہوتی

بشر کی محدودیت کی خاطر ترستی عالم کی بے کرانی

                مجید امجد کے ذہن میں عورت کے بے کراں امکانات ان کی نظم ”عورت“ میں موجود ہیں اور جب اس شعور کے ساتھ مجید امجدنے چند محبت کے گیت لکھے تو اس عورت کے لیے جو:

 پارہِ ناں کے واسطے تنہا

رُوے عالم کی خاک چھان آئی

۔۔۔

دس برس کے طویل عرصے کے بعد:

آج وہ اپنے ساتھ کیا لائی؟

روح میں دیس دیس کے موسم!

                مجید امجد کی شاعری میں محبت کے گیت مفتوح قوم کی بیٹی کے لیے لکھے گئے۔ وہ جو جنگ میں برباد ہوئی اقدار کا دُکھ سہ رہی تھی اور اسی دکھ کو لیے وہ روے عالم کی خاک چھاننے نکل پڑی، شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ تہذیبوں کا اُتار چڑھاؤ تاریخ کا حصہ ہے۔ جب اُس نے موئن جودڑو سے ایک ٹھیکری اٹھائی ہوگی تو شاید اُس نے اُن سب انسانوں سے تعلق محسوس کیا ہوگا جن کے بھاگ میں تہذیب کے اتار کا زمانہ آیا اور اُتار کا یہ زمانہ بربادی اور دُکھ ہی لایا۔

                 شالاط اس انسانی روح کی نمائندہ ہے جو قفس کی طرح راکھ سے پھر جنم لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پھر محو پرواز ہونے کے لیے پر پرزے نکال سکتی ہے ۔ نئے جہانوں کی دریافت کرسکتی ہے۔ نئی اقدار کی تلاش و تخلیق کرسکتی ہے۔

                 مجید امجد نے اپنی نظم ”میونخ“ میں اس کو مفتوح قوم کی بیٹی شاید اسی لیے کہا تھا کہ وہ ایک ایسے ملک کی نمائندہ تھی جس نے دنیا بدل دینے والے فلسفی، سائنس داں، نفسیات داں، موسیقار، مصنفین، شاعر اور فن کار دیے۔ لیکن جنگِ عظیم دوم میں اُن کی کچھ اقدار شکست کھاگئیں۔ اور ایک شکست خوردہ ملک کا نمائندہ فرد کیسے سوچ سکتا ہے، کیسے برتاؤ کا حامل ہوسکتا ہے، زندگی کو کس نظر سے دیکھ سکتا ہے، تہذیبوں کے سفر کو کیسے دیکھتا ہے، کیسے رشتے رکھ سکتا ہے۔ یہ سب مجید امجد کی تخلیقی آنکھ بہت باریکی سے دیکھ رہی تھی۔ شالاط نے اپنے لیے دنیا کے سفر کو حیرتوں کے سفر میں تبدیل کیا۔ وہ مسافر جو اپنے لیے حیرتیں تلاش کرتا ہے، تنگ ذہن کی گھٹن سے آزاد، جنگ میں ہارے ہوئے value-systemسے نکلنے کی سعی کرتا ہے۔ اس اُمید سے دنیا کی سیاحی کے لیے روانہ ہوا کہ شاید زندگی کو کوئی معنی دیا جاسکے۔

                 اور وہ دخترِ ارض جب ساہیوال جیسے ہرے بھرے شہر پہنچی تو ایک طرف ہڑپا کی قدیم تہذیب کا زوال اُس کے تجربے میں آیا تو دوسری طرف مجید امجد جیسے خلاق ذہن سے اس کا رابطہ ہوا۔ اور یوں ہی ہونا تھا، چوں کہ زوال اور تخلیق کے رشتے کا بھر پور احساس ہی شالاط کی شخصیت کا حُسن تھا، تحرک تھا اور تجربہ تھا اور یہی حسن مجید امجد جیسے جوگی شاعر کے ذہن میں محبت بن کر اُبھرا اور پھر مجید امجد کا قلم محبت کے شان دار گیتوں کو تحریر کرنے لگا۔ مجید امجد نے محبت کے جذبے پر وہ لکھا جو اُن کا ذاتی تجربہ اور احساس تھا۔ اسی لیے اُن کے محبت کے گیتوں میں تازگی موجودگی ہے:

 صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم

اک لمحہ آکے ہنس گئے میں ڈھونڈتا پھرا

محبت کی قدیم گزرگاہ پر مجید امجد کے قدموں کی آواز آہنگ بن کر گونجی۔ انہوں نے لکھا کہ اپنے محبت کے تجربے میں، میں موجود ہوں:۔

ان وادیوں میں برف کے چھینٹوں کے ساتھ ساتھ

ہر سو شرر برس گئے، میں ڈھونڈتا پھرا

مجید امجد نے بہ قول حافظ شیرازی:۔

فاش میگویم و از گفتہ خود دل شادم

فاش لفظوں میں اپنے سامنے اپنے عشق کا اقرار کیا:۔

 راہیں دھویں سے بھر گئیں میں منتظر رہا

قرنوں کے رُخ جھلس گئے میں ڈھونڈتا پھرا

تم پھر نہ آسکو گے بتانا تو تھا مجھے

                    تم دور جا کے بس گئے میں ڈھونڈتا پھرا

                مجید امجد کی محبت کی شاعری ایک شادمان دل کی شاعری ہے۔ اُن کا ہجر اور ہجرتوں کا دُکھ بھی ایک شادمان دل کا دکھ ہے۔ یہ محبت کے گیت اس دل کی شادمانی کی عکاسی کر رہے ہیں جس نے اپنے شعور کی بھرپور شرکت اور طاقت سے حُسن دیکھا۔ جاگتے لمحوں میں حُسن سے محبت کی، اس لمحے کا تجربہ کیا جب دل و دماغ ہر قسم کی حرص و ہوس سے آزاد حسن کے سحر کی کرنوں کی صبح ِ طرب میں رواں دواں ہیں، اس سیل ِ نور میں جذب ہیں، اس میں بھیگ رہے ہیں۔

                جیون کی رُت کے سو روپ

                نغمے، پھول، جھکولے، دل

                تاروں کی جب جوت جگے

                اپنے خزانے کھولے دل

                اس تہذیب میں جہاں محبت کو پوشیدہ عمل سمجھا جاتا ہے اس تہذیب میں مجید امجد نے بہ بانگ دہل اپنے دل کے دھڑکنے کے آہنگ پر گیت لکھے۔

                 بول البیلے بولے دل

                 اپنے دل کے خزانے کھولے اور پڑھنے والوں کو پیغام دیا کہ تہذیب کے اتار چڑھاؤ کی بھول بھلیوں میں انسان کی تخلیق کی قوت اور محبت کرنے کی قوت تازہ دم ہے، تازہ بہار ہے، تازہ رو ہے۔

                یہ پیغام بھی دیا کہ محبت ہی ایک انسانی جذبہ ہے۔ وہ جذبہ ہے جو دنیا کے ہر کونے میں امکانات رکھتا ہے اور اس کے لیے ایسی آنکھ چاہیے جس کی تربیت حسن نے کی ہو، ایسا دل چاہیے جو حسن کا متلاشی ہو، ایسا دماغ چاہیے جو حُسن کو پرکھنے کی کسوٹی ہو اور پھر مجید امجد کی یہ تلاش ترتیب پاتی ہے۔

 ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ

 جن کی دُھن میں حیات گزری ہے

                 اور اسی دھن نے مجید امجد کو شالاط کے سحر انگیز حُسن کی بوچھاڑ میں بھیگنے پر مجبور کردیا اور وہ کومل کا مناؤں کی کہانی لکھ گئے:

 جب بھی غمِ زمانہ سے آنکھیں ہوئیں دو چار

منہ پھیر کر تبسم دل پر نگاہ کی

                یہی دُھن تھی جس نے شاعر سے سنگت کے وہ سنگیت لکھوائے جو شاید دنیا ے ادب میں لکھے گئے شان دار محبتوں کے لیے لکھے گئے شان دار گیتوں کا حصہ بن گئے۔ محبت کو enrichکر گئے۔ محبت کے تجربے کو enlightenکر گئے اور محبت کے جذبے کو beautifyکر گئے۔

                 شالاط کی مورتی تو ساہیوال کی گزرگاہوں پر سجنی چاہیے کہ اس نے ایک شاعر کو اپنے تبسمِ دل کو خوب صورت ترنم میں ڈھالنے پر مجبور کردیا۔ جس نے شاعر کو حُسن کی حیرت وو سعت اور شان وشوکت کا کامیاب تجربہ دیا، جس نے مجید امجد کو ایک پریمی بنادیا۔

                 مجید امجد کے پریم کے گیت ذوقِ نظر کے گیت ہیں۔

 نیلی جھیل،سجیلے پھول،البیلی رُت اور تو

ایک تری یہ بھیجی ہوئی رنگیں تصویر اور میں

روشن کمرہ جگ  مگ یادیں، نیر بہاتی چاہ

باہر کالی رات کی ساکت جھیل اتھاہ

                مجید امجدایک خوش قسمت انسان اور شاعر تھے۔ سنگت کے سنگیت کے شاعر تھے۔

                 مجید امجد کی شاعری میں ایک اور نسوانی کردار نرگس کا ہے جو کہ فلم آرٹسٹ تھی۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجید امجد نے جیسے انسانوں کی زندگی میں آرٹ کے کردار پر نظم لکھی ہے۔

                 آرٹ کا ایک رول یہ بھی ہے کہ  وہ انسانوں کو وہ جذبے بھی محسوس کروائے جو وہ شاید محسوس کرنا بھول گئے ہیں۔ کمانے اور خرچ کرنے کی اس دوڑ میں اُنہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ حسن کا احساس اور دریافت کتنا شان دار تجربہ ہے۔ حُسن جب ایک مرکزی اور جینے کی اہم قدر بنتا ہے تو زندگی کو حسین تر کرسکتا ہے۔مجید امجد کی شاعری میں ایک اہم کوشش یہ بھی کی گئی ہے کہ حُسن کوہمارے لیے reachableتجربہ بنایا جاسکے۔ حُسن کا تجربہ خواہ وہ آنکھوں کا ہو، کانوں کا ہو، لمس کا ہو،دل کا ہو یا دماغ کا ہو مجید امجد نے اسے ہم تک منتقل کرنے کی شان دار کوشش کی۔حسن کے احساس کو ecstatic insightمیں بدل دیا ہے۔

                نرگس اور مجید امجد مامورِ فغان انسانوں کو جذبوں کی عظمت ِ صدر نگ سے متعارف کروانے میں، محسوس کروانے کی کوشش میں رفیق کار ہیں:

میں نے اک عمر ترے ناچتے سایوں کی پرستش کی ہے

تونے اک عظمت صد رنگ سے جس جذبے کو

آج تک اپنے لیے مزدِ ہزار اشک سمجھ رکھا ہے

 وہ محبت مرے سینے میں  تڑپتی ہوئی اک دنیا ہے

جو ترے قدموں کی ہر چاپ پہ چونک اٹھتی ہے

                مجید امجد ایک روشن دماغ کے مالک شاعر تھے، جنہیں یہ بھر پور احساس ذمے داری تھا کہ فن کو زندگی سنوارنے میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کے خواب دیکھ رہے تھے۔ جہاں فن کار کی اہم ذمے داریوں میں سے ایک ذمے داری یہ بھی ہو کہ لوگوں تک تہذیب اور علم کو کیسے پہنچایا جائے۔

                نرگس کو اُنہوں نے معاشرے میں فن کے کردار کی علامت بنایا ہے۔

                                 ایکٹریس! روپ کی رانی

                حُسن جس کے ناچتے سایوں کی پرستش ہی اسے عذاب اور گرداب سے نکلنے میں مدد دے رہی ہے۔ زندگی کے اس عذاب اور گرداب میں فن انسان کی تخلیقی قوت کا نمائندہ ہے۔ فن ایک ایسی دنیا کی نوید ہے  جو اُس کوشش کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ فن ایک ایسی دنیا کی نوید ہے جہاں انسان اپنی شان دار انفرادیت کو شان دار انداز میں پھلنے پھولنے کا موقع دے سکتا ہے۔ اور یہی پھلتی پھولتی انفرادیت دنیا کو خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش میں فن کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ حسن اور فن کی امید افزا زیست افزا کوشش میں فن کار:

Life Enhancing

Life Furthering

کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔

                 نرگس اپنے فن کے ذریعے زندگی کو اجاگر کررہی ہے۔ وہ ہستی کی طاقتوں کی علم بردار ہے۔ وہ نیستی کی طاقتوں خلاف صف آرا ہے۔ وہ ہر اس طاقت کے خلاف ہے جو زندگی کو تلخابہ بنا کر انسان کو اپنے ان جذبوں سے دور کر رہی ہے جن کی عظمت صد رنگ کو مجید امجد نے اپنے گیتوں میں پرویا ہے۔ نرگس اس تہذیب کی نمائندہ ہے جو انسانوں کو لطف و انبساط سے متعارف کر رہی ہے۔ جو زندگی کو قابلِ زیست بنا رہی ہے، جہاں انسان اپنے لیے خوشی اور شادمانی کے نئے نئے ڈھنگ دریافت کر رہا ہے۔ حسن کا تجربہ اور عشق کا جذبہ انسان کے نفسیاتی ارتقا کی علامت ہے اور یہی ارتقا اس کے لیے باعث طرب ہے۔ حسن کیا ہے؟ اس موضوع پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، اس موضوع پر بھی لکھا گیا ہے کہ انسان نے جس کو حُسن سمجھا اس کے حصول کے لیے زندگی جیسی قیمتی متاع بھی داؤ پر لگا دی۔ یہ تاریخ سقراط کے زہر کے پیالے سے شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔

                 نرگس، مجید امجد کے لیے ذوقِ حسن و عشق اور ذوق طرب کی علامت بن گئی۔ وہ انبساط کی علامت بن گئی، وہ اس دنیا کی علامت بن گئی جہاں فن کی تخلیق کی کوشش یہ شعور دے رہا ہے کہ زندگی لاکھ تلخابہ بن جائے، لیکن انسان کے اندر حُسن کی تخلیق و شناخت کی صلاحیت زندہ ہے۔ عشق قائم دائم ہے۔ انبساط کا ذوق جواں ہے تو تہذیب ارتقا پذیر ہے۔ تہذیب خوب صورت ہے  تہذیب انسانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی ہم قدم ہے۔

                 نرگس کی صورت میں مجید امجد نے انسانوں کی زندگی میں فن کے کردار کو مجسم کیا ہے۔ یونانیوں کی طرح مجید امجد نے بھی ایک خوب صورت خیال اور تصور کو ایک خوب صورت چہرہ اور جسم دیا ہے۔ ایک جو رقصِ جسم اور چہرہ دیا ہے:

ایکڑیس!روپ کی رائی! تجھے معلوم نہیں

 کس طرح تیرے خیالوں کے بھنور میں جی کر

کن تمناؤں کا تلخابہ نوشیں پی کر

میں نے اک عمر ترے ناچتے سایوں کی پرستش کی ہے

فن انسان کو اپنی زندگی کی صورتِ حال سے آگے لے جاتا ہے۔ وہ بہ یک وقت ہر زمانے میں جی رہا ہے۔ ماضی، حال مستقبل،لیکن اس میں یہ صلاحیت باقی ہے کہ چندلافانی اقدار کو تخلیق کرسکے۔ تاریخ گوا ہ ہے کہ انسان کی کچھ اقدار تاریخ کے قبرستان مین دفن ہوگئیں، لیکن کچھ اقتدار کو تبدیلی کا عمل ہاتھ نہ لگا سکا۔ نرگس اُنھی لافانی اقدار کو مجسم کر رہی ہے۔ وہ انسان کی متحرک تخلیقی صلاحیتوں کی نمائندہ ہے۔

                مجید امجد کی شاعری میں تیسرا نسوانی کردار بائیسکل پر سوار وہ لڑکی ہے جس کی سائیکل کے بارے میں انہوں نے لکھا:

                 تھوڑی  دورتک بھری سڑک پر دو پہیوں کے ساتھ وہ دو پہیے ڈولے تھے

                 دندانوں میں ٹک ٹک کتے بولے تھے سب دنیا نے دیکھا تھا

                مجید امجد نے جس کے بارے میں یہ لکھا:

                 کیسا شہر ہے یہ بھی، ایسی ایسی باغی روحیں بھی اس میں بستی ہیں

                 اس کے مستقبل کے بارے میں یہ پیشین گوئی اسی نظم میں موجو دہے:

                بیٹی!شاید تم تو کہیں کسی دہلیز پہ دومنقوط گلابی کال آنکھوں سے لگا کر

                نئی سفید جرابوں والے کسی کے ننھے سے پیروں میں گرگابی کے تسمے کسنے بیٹھ گئیں

                اور اسی لڑکی نے مجید امجد سے کہا تھا:۔

                 اس دن تم نے مجھ سے کہا تھا

                 اک دن میرے لیے تم اس دنیا کو بدل دو گی یہ تم نے کہا تھا

                 اس نظم کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ مجید امجد اپنے ملک کے لیے آنے والے وقت کو کیسے دیکھ رہے تھے۔ اُنہیں اُن کی تیسری آنکھ یہ بتا رہی تھی کہ یہ ایک ایسا معاشرہ بننے جارہا ہے جہاں دنیا کو بدلنے والے، تبدیلی کے خواب دیکھنے والے اپنے نازک دلوں میں مقدس سچائیاں رکھنے والے پس ماندہ روایات کے چلتے آرے کی نذر ہوجائیں گے۔وہ ایسی زندگی بسر کر نے پر مجبور ہوجائیں گے جو ان کو اپنی نہیں لگے گی۔ شایدریاست کے روبوٹ بن جائیں شاید اُنہیں اُمید کے اصو ل یاد ہی نہیں رہیں گے، شاید ترقی اور ارتقا اُن کے لیے شجرِ ممنوع ہوجائے گا۔ دنیا اُن کے لیے بے مصرف مصروفیت بن جائے گی اور مجید امجد ہی کے بہ قول۔

جیسے تھا ہی نہیں میں اس دنیا میں

جیسے موت مرے جی میں جینے آئی

                مجید امجد شاید اس گول مٹول سیانی گڑیا  کو اس معاشرے میں ضائع ہوتے دیکھ رہے تھے۔

                 مجید امجد کی اکثر نظموں کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہ یک وقت مرثیہ نگار اور ثناخواں بھی ہیں۔نظم ”اس دن برفیلی تیز ہوا میں“اگر ایک طرف انہوں نے ایک باغی روح کے نازک دل کی مقدس سچائی کو ایک ثناخواں کی طرح celebrateکیا ہے تو دوسری طرف اس کا روایتی انجام سوچ کر اس کا مرثیہ بھی لکھ دیا۔

                نرگس کے کردار میں بھی عورت اپنے تمام امکانات کو ممکن بنا سکتی تھی، لیکن اس سائیکل والی لڑکی تک آتے آتے مجید امجد خود آگاہ، جیالے لوگوں کے لیے ایسی زندگی تصور میں لارہے تھے جہاں فرد صرف:

                 ڈھیروں گوشت

                کھالیں، بھیجے، انتڑیاں

                میں تبدیل ہوجائے گا۔ اسے بھولنے پر مجبور کردیا جائے گا کہ وہ قدرت کا شاہ کار ہے۔ فطرت نے اپنی فن کی بلندی پہ پہنچ کر اسے تخلیق کیا ہے، اُسے انفرادیت دی۔ اُسے اپنی انفرادیت کے اظہار سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت دی ہے۔ اپنی انفرادیت کو تعمیری ذوق میں ڈھالنے کی صلاحیت دی ہے۔

   جب یہ سب کچھ ریاستی معاشرتی کم فہمی کی بھینٹ چڑھ جائے تو مجید امجد جیسازندگی سے بھرپور شاعر مرثیہ ہی لکھے گا۔ مجید امجد کی شاعری اس بات کی گواہ ہے کہ وہ ہر قسم کی stereotypingاور staudandizationکے خلاف صف آرا تھے۔

                 اُن کی ایک نظم“بیاہی ہوئی سہیلی کا خط“ کے چند اشعار مجید امجد کے stereotyping کے خلاف جہاد کے گواہ ہیں:

آہ! یہ دُکھ بھرا نظامِ حیات

جس کے پنجے میں تلملاؤ گی

آہ! یہ طوقِ رسم و راہِ جہاں

جس کو زیبِ گلو بناؤ گی

جس میں جلتا ہے دل سہاگن کا

اس جہنم میں ہنستی جاؤ گی

مان لوں کیا یہ بھی کہ آج کی رات

آخری گیت اپنا گاؤ گی

                مجید امجد پابہ گل زندگی کے نوحے لکھتے رہے اور اُنھی کے ترانے لکھتے رہے جو دُکھ بھرے نظام حیات سے ٹکرا گئے۔

                 انھی کی زندگی جو چل پڑے ہیں

تری موجوں سے ٹکرانے زمانے

                اس سائیکلسٹ کو مجید امجد نے ”بیٹی“کہا ہے۔ شاید اُن کے تصور میں ایسی باغی روح ہی اُن کی بیٹی ہوسکتی تھی، لیکن شاید وہ یہ سوچ کر تھرا گئے کہ اس گول مٹول سی گڑیا کو اپنے نازک دل کی مقدس سچائی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع اس معاشرتی ترتیب میں نہ مل سکے  اپنی ایک نظم میں ”بیس ویں صدی کے خدا سے“ انہوں نے اس ترتیب پر ایک شعر لکھا:

اُنہیں آنکھوں سے میں نے رب اکبر تیری دنیا میں

غرور حسن کو برباد و رسو ا ہوتے دیکھا ہے

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *