Home » پوھوزانت » ٹیکنالوجی، سیاست اور ہم ۔۔۔ خالد میر 

ٹیکنالوجی، سیاست اور ہم ۔۔۔ خالد میر 

انسانی ایجادات میں ٹیکنالوجی شاید وہ واحد ایجاد ہے جس کی ترقی کی رفتار خود اس کے موجد کے ارتقا کی رفتار سے بھی دگنا تیز ہے۔ نصف صدی سے بھی کم عرصے میں ٹیکنالوجی نے ترقی کی جو منازل طے کی ہیں، باقی انسانی ایجادات میں شاید ہی کوئی ایجاد اس دوڑ میں شامل ہو پائے۔

ہم بات کر رہے ہیں جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی پانچویں نسل (5جی) کی۔ جو اس سال کے اختتام یا نئے سال کی پہلی سہ ماہی تک آدھی دنیا میں موجود ہوگی۔

اس وقت دنیا بھر میں موبائل اور اسمارٹ فون استعمال کرنے والے 3G اور 4G نیٹ ورکس چلارہے ہیں، تاہم 5G کے مسحور کن تجربے سے2020ء   میں پوری طرح لطف اندوز ہوا جاسکے گا۔ ہوا کے دوش پر کام کرنے والا پانچویں نسل کا یہ نیٹ ورک اس وقت تجرباتی مراحل میں ہے۔

ففتھ جنریشن وائرلیس(5G) سیلولر ٹیکنالوجی کی ہی ایک نئی قسم ہے، جس کی رفتار اور وائرلیس ٹیکنالوجی کی وجہ سے فوری رابطہ 4G کے مقابلے میں پانچ گنا تیز ہے۔وائرلیس براڈ بینڈ کنکشنز پر نشر ہونے والا ڈیٹا 5G کے ساتھ 20 گیگا بائٹس (20 جی بی) فی سیکنڈ سے زائد رفتار سے منتقل ہو سکے گا، جس میں تاخیر کا دورانیہ ایک ملی سیکنڈ سے بھی کم ہو گا۔ 5G موبائل صارفین ریئل ٹائم فیڈ بیک سے لطف اٹھاسکیں گے، انھیں اسکرولنگ کی شکایت نہیں رہے گی۔ مواصلاتی رابطہ صرف ایک کلک کے فاصلے پر ہوگا۔ دستیاب بینڈ وتھ اور ایڈوانسڈ اینٹینا ٹیکنالوجی کی بدولت وائرلیس سسٹمز پر زیادہ سے زیادہ ڈیٹا منتقل ہو سکے گا۔ رفتار، صلاحیت میں اضافے اور تاخیر میں کمی کے ساتھ 5G نیٹ ورک سلائسنگ جیسے نیٹ ورک مینجمنٹ فیچرز بھی آفر کرے گا، جس سیموبائل آپریٹرز ایک ہی فزیکل 5G نیٹ ورک سے ملٹی پل ورچوئل نیٹ ورکس بنا پائیں گے۔ یہ صلاحیت وائرلیس نیٹ ورک کنکشنز کو خصوصی طور پر کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی را ہ ہموار کرے گی، مثلاً خودکار گاڑیوں کو چلانے کے لیے ایسے ہی نیٹ ورک سلائس کی ضرورت پڑے گی جو انتہائی تیز رفتار اور کم تاخیری کنکشنز آفر کرے تاکہ گاڑی ریئل ٹائم میں چل سکے۔ انٹرنیٹ آف ایوری تھنگ کا استعمال بہت سہل ہو جائے گا۔

ٹیکنالوجی کے جدید رجحانات میں فائیوجی براڈبینڈ کے علاوہ، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس)، روبوٹکس، انٹرنیٹ ا?ف تھنگز، تھری ڈی پرنٹنگ، خودکار وہیکلز، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ادویات اور ا?گمینٹڈ ریئلیٹی شامل ہیں۔

اس سارے عمل کو عام طور پر “چوتھے صنعتی انقلاب” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

کلاز شواب نے اپنی کتاب ’دی فورتھ انڈسٹریل ریوولوشن‘ میں کہتے ہیں کہ سابق صنعتی انقلابوں نے انسان کو جانوروں کی طاقت پر انحصار سے نجات دلائی، وسیع پیداوار ممکن بنائی اور اربوں لوگوں میں ڈیجیٹل استعداد پیدا کی لیکن چوتھا انقلاب بنیادی طور پر مختلف ہے، اس میں مختلف انواع کی نئی ٹیکنالوجیز شامل ہیں جو فزیکل، ڈیجیٹل، بائیولوجیکل دنیاؤں کو یکجا کر رہی ہیں اور تمام شعبوں، معیشتوں و صنعتوں پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں تصورات کو بھی چیلنج کر رہی ہیں۔

کیا آپ سوچ رہے ہیں کہ ان سب باتوں سیاست سے کیا لینا دینا؟ ان سے ہماری زندگی پر کیا اثر یا فرق پڑے گا؟

تو سنیئے! ان سب کا سیاست، بلکہ ہماری سیاست اور ہماری زندگی سے گہرا تعلق ہے۔

انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی تیسری نسل نے (3جی) نے ہمیں سوشل میڈیا سے متعارف کرایا۔ جس میں فیس بک، ٹوئیٹر و دیگر آن لائن میڈیا شامل ہیں۔

سوشل میڈیا کے سیاست میں استعمال و اثرات سے ہم و آپ سب بخوبی واقف ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت  مصر کے تحریر اسکوائر سے شروع ہونے والا احتجاج لندن، امریکا اور دنیا کے بیش تر ممالک میں قائم مصری سفارت خانوں تک پہنچ جاتا ہے، ٹرمپ کی پوری الیکشن کمپیئن کا نصف سے زیادہ بجٹ فیس بک کے اشتہارات پر خرچ ہوتا ہے۔

اگر صرف پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو  عمران خان اور اس کی جماعت میں کامیابی میں نادیدہ قوتوں کے علاوہ اگر کوئی ‘ہاتھ’ تھا تو وہ سوشل میڈیا کا ہر سو نظر آنے والا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ شاہ زیب قتل، معصوم بچی زینب کے ساتھ ہونے والی بربریت اور خدیجہ صدیقی کی روح تک کو گھائل کردینے والے ملزم کی بریت تک ایسے کئی واقعات ہیں جنہیں اسی سوشل میڈیا نے پْرزور طریقے سے اجاگر کیا اور بااثر ملزمان کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی راہ نما اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے موقف کو فوری طور پر عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے باضابطہ طور پر اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنا رکھی ہیں جن میں شامل افراد پْرکشش مراعات کے عوض سوشل میڈیا پر ان سیاست دانوں کے حق میں مہم چلاتے ہیں۔ منفی پروپیگنڈے اور مخالفین کے خلاف مہم چلانے کا کام کرتے ہیں۔

یہ رجحان پاکستان میں بھی تیزی سے فروغ پاچکا ہے۔ تاہم دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کا سو شل میڈیا کا شعبہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتا ہے لیکن پاکستان میں سماجی میڈیا کی ٹیموں کا کام سیاسی مخالفین پر ذاتی نوعیت کے گھٹیا اور رکیک الزامات لگانے تک محدود ہے۔

خیر، اچھا یا برا لیکن یہ سب ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں، اب سوال صرف یہ ہے کہ اس ساری دوڑ میں ہم ‘بائیں بازوں ‘ والے اس دنیا کے کس طرف ہیں، کہیں ہیں بھی یا نہیں؟

اس ساری دوڑ میں اب تک ہماری موجودگی نہ ہونے کے مترادف ہے۔

سوچنا یہ ہے کیا ہم اس دوڑ میں شامل ہوئے بغیر عوام تک رسائی مؤثر بنا سکیں گے؟ اگر نہیں تو ہمیں اس دوڑ میں شامل ہونا پڑے گا۔ ہمیں ٹیکنالوجی کے تمام جدید رجحانات سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی اور اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے عوام تک اپنا پیغام پہنچانا ہو گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *