Home » پوھوزانت » امان اللہ خان ایڈوکیٹ ۔۔۔ جمال الدین اچکزئی ایڈووکیٹ

امان اللہ خان ایڈوکیٹ ۔۔۔ جمال الدین اچکزئی ایڈووکیٹ

بچھڑے کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

 

میرے محبوب دوست امان اللہ خان کاکڑ ایڈوکیٹ کو مرحوم لکھتے ہوئے  جسم کا نپ جاتا ہے اور طبیعت رنجیدہ ہوجاتی ہے۔ یقین نہیں آرہا کہ میرے کلاس فیلو اور بچپن کا رفیق 55سال کی عمر میں بھی اکیلا چھوڑ کر چلا جائے گا۔ نجانے وہ کونسی ناگہانی بیماری تھی جس نے چند ہی دنوں میں امان اللہ کو ہم سے جدا کردیا۔

مرحوم امان اللہ خان نے ایک خوش مزاج، روشن خیال، حق گو اور غریب خاندان میں 05مارچ 1964کو آنکھ کھولی۔مشکل حالات اور تنگ دستی میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم لورالائی چمن سکول نزد سرکاری باغ سے حاصل کی اور ہائی سکول لورالائی سے میٹرک 1976میں پاس کیا اور یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ سے 1989میں انگلش لیٹریچر میں ایم اے کرنے کے بعد 1991میں یونیورسٹی لا کالج کوئٹہ سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے ان کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں رونماں ہونا شروع ہوئی۔ یہ زمانہ سرد جنگ اور اس کے خاتمے کا زمانہ تھا جب دنیا نظریاتی طور پر دو بلاکس سوشلسٹ بلاک اور کپٹلسٹ بلاکس میں تقسیم تھی اور حال ہی میں سوویت انہدام کے نتیجے میں امریکہ کے واحد سپر پاور کے طور پر ابھرنے کے اور دنیا بھر میں نظریاتی سیاست کے خاتمے کا نقطہ آغاز تھا۔ پاکستان میں ایک طرف افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کے پس منظر میں پاکستان میں بالعموم اور بلوچستان میں بل خصوص انقلابی، مترقی اور قومی سوال کے حوالے سے سیاست اپنے عروج سے زوال کی طرف گامزن تھی۔ اس زمانے میں یونیورسٹی بلوچستان پر علم مباحثوں کی بدولت افلاطون کی ایتنز اکیڈمی سے کسی طور کم نہ تھی۔ امان اللہ خان قدرتی طور پر بے پناہ تخلیقی، تنقیدی سوچ اور کمال کی حد تک طنز و مزح کے مالک تھے۔انہوں نے اس علمی فضاء سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ سٹوڈنٹس سیاست میں حصہ لیا۔ انگریزی ادب اور تاریخ یورپ کا بھرپور مطالعہ کیا۔ان کے استادوں میں انکل زیدی جن کا تعلق کراچی سے تھا شامل تھے۔

امان اللہ خان ایڈوکیٹ کی روز مرہ کی محفل سٹڈی سرکل کی مانند تھی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی لورالائی میں عوامی کمیٹی کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد لورالائی کے محنت کش افراد کیلئے گھروں کی تعمیر کی خاطر سرکاری پلاٹس کی الاٹمنٹ کروانا تھا اور سردار ظریف خان حمزہ زی، وہاب اتمانخیل، اخونزادہ عبدالباقی اتمانخیل، عبدالرحمن ایسوٹ، سائین انور شیرانی، اور دیگر قدآور شخصیات کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر انقلابی جہدوجہد کا علمی آغاز کیا۔ لورالائی میں عوامی مقامات پر قبضہ گیری کے سخت مخالف تھے اور اسے روکنے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں 1984میں عبدارحمان ایسوٹ، وہاب اتمانخیل،مرحوم اخوانزادہ باقی اور دیگر کے ہمراہ قیدوبند کی صوبتیں جھلیں۔

1992میں ہندوستان کے اندر بابری مسجد کے مسمار کئے جانے کے رد عمل میں لورالائی کے ہندو محلہ میں ہندو کمیونٹی پر بلوہ، فساد او جلاو گہراؤ کے روز انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگ کے شعلوں میں داخل ہو کر اپنے ہندو استاد اوم پرکاش اور اس کے معصوم بچوں اور دیگر خاندان والوں کو موت کے منہ سے باہر نکالا۔

اپنی محفل میں ہمیشہ تاریخ ساز شخصیات کا ذکر کرتے تھے۔جمہوری انقلابی جدوجہد کرنے والوں کے قصیفخر سے بیان کرتھے۔ وہ باچا خان شہید عبدلصمد خان، خان عبدالولی خان، محمود خان اچکزی، عبدرحیم مندوخیل، خیر بخش مری، سردار عطاللہ مینگل، رسول بخش پلیجو اور میر غوث بخش بزنجو کا بے پناہ احترام اور قدر کرتے تھے اور انکی مثالی جمہوری جہدوجد کو سراہتے۔

قدیم تہذیبوں، فلاسفی، تاریخ،علم نفسیات، سیاسیات اور انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ پاکستان کے اندر قومی سوال پر بہت زیادہ کلئیر تھے اور قومی جہدوجد کے سخت حامی اور طرفدار تھے۔ انقلاب روس اور ثور انقلاب کے سپورٹر تھے۔اسی بنیاد پر سماجی تبدیلی  چاہتے  تھے۔  انکی ڈکشنری میں بے ہمتی اور حوصلہ شکنی جیسے الفاظ شامل نہ تھے۔ مختصرً انہوں نے سائیں کمال خان، عبداللہ جان جمالدینی اور سردار بہادر خان بنگلزئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملازمت کو خیر باد کہا اور لٹ خانے کے علمی روایات کو ذاتی طور پر عملاً زندہ رکھا۔

سال 1992  انتظامی عہدہ (تحصیلدار) کے پوسٹ پر فائز رہے۔ بعد ازاں 1995 سے 1996 تک جوڈیشل مجسٹریٹ رہے۔لیکن اسکے بعد سے اپنی زندگی کی آخری سانس ستمبر 2019 تک شعبہ وکالت سے وابسطہ رہے اور لورالائی میں وکالت کی خدمات سر انجام دی۔ لیکن اپنی انقلابی سوچ و فکر کی بنا پر برطانوی دور کے بنائے گئے قوانین کی پابندی نہ رکھ سکے اور اپنے عہدے کی قربانی دی۔

لوگوں کی جھرمٹ میں رہنا اسکے مزاج میں شامل تھا۔ عوامی مزاج ان پر ہمیشہ غالب رہا۔سوشل زندگی گزارنا اسکے خمیر میں شامل تھا جسکی وجہ سے وہ سروس کی بے پناہ پابندیوں اور پر عیش زندگی کو قبول نہ کر سکے اور مزاج نے اجازت نہ دی کہ وہ تنہا پسند اور غیر سوشل زندگی گزاریں اور جس میں انکی پہچان بطور بیوروکریٹ یا جوڈیشل افیسر کی ہو۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنی ملازمت  کو خیر باد کہہ کر وکالت جیسے سماجی پیشے کو اختیار کیا۔

امان اللہ چھ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے لیکن قدرتی صلاحیتوں کی بنیاد پر سارے خاندان نے انھیں متفقہ طور پر سرپرست تسلیم کیا۔

امان اللہ خان چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کے مہربان والد تھے۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے ساتھ نظریاتی اور علمی دوستی کی بنیاد پر اپنے بڑے بیٹے کا نام شاہ محمد رکھا جو کہ اب نفسیات کے ڈاکٹر ہیں اور اپنے والد کے علمی ورثے کو بے پناہ مطالعہ سے زندہ رکھاہے۔ اپنی اولاد کے علاو اپنے خاندان قبیلے اور پورے  علاقہ پر بت شکن افکار کی بدولت انقلابی اثر چھوڑا اور آج بھی مجھ سمیت سینکڑوں افراد کیلے مشعل راہ اور رول ماڈل ہیں۔مصائب کا دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا محفل کی جان اور بہار تھے بولنے کا سلیقہ اور ہنر جانتے تھے۔

امان اللہ خان پوری زندگی ظلم اور نا انصافی کے خلاف ایک سرگرم جنگ میں مصروف رہے۔ انتہائی ملنسار، دردمند دل رکھنے والے احساس انسان تھے۔ معاشرے میں موجود معاشی ناہمواری، ظلم اور نا انصافی کو دیکھ کر غمزدہ ہوجایا کرتے تھے۔ لڑکپن ہی سے اصول پرست اور ترقی پسند سیاست سے وابسطہ رہے۔ کتب بینی کا جنون کی حد تک شوق تھا۔پبلک لائبریری لورالائی کے باقاعدہ ممبر رہے کتابوں کا بیش بہازخیرہ ان کے پاس موجود رہا۔

سیاسی مباحثوں کو سقراط کے منطقی انداز کو اپناتے ہوئے بیان کرتے۔مشکل ترین فلاسفی کو آسان اور عوامی انداز میں پیش کرنا انکی بے نظیرخوبیوں میں شامل تھا۔ ان کے قریبی دوستوں میں سائیں کمال خان شیرانی،بسم اللہ کاکڑ، شاہ محمد مری، وہاب اتمانخیل، نور محمد اچکزی شہید ایڈوکیٹ، ایاز خان مندوخیل ایڈوکیٹ، شہید باز محمد کاکڑ ایڈوکیٹ،عبدالرحمان ایسوٹ، انور سائیں، اختر شاہ خان کدیزی، اعظم زرکون ایڈوکیٹ، ڈاکٹر ضیاء اور دیگر مترقی علمی سیاسی اور قبائیلی شخصیات شامل تھے۔

قبائلی، سیاسی اور علمی مزاج کو خوب سمجھتے۔اسی بناپر نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد میں یکساں مقبول تھے۔ اکثر تنازعات اور قبائلی جھگڑوں کا حل نکالنے میں کمال کا ہنر رکھتے تھے۔

امان اللہ خان کاکڑ مرحوم ایک درویش صفت انسان تھے۔انکی شخصیت میں غرور اور تکبر کا نام و نشان موجود نہ تھا۔ حق کی بات کرنے میں کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے، ہمیشہ ایک اصولی موقف پر پر قائم رہے اصولی گفتگوں انتہائی نڈر انداز سے کرتے۔ وکالت کے پیشے میں مجبور غریب اور لاچار لوگوں کے ساتھ بغیر کسی لالچ کے بھاگ دوڈ کرتے تھے اور ریاکاری کے سخت مخالف تھے۔ چٹان سے مضبوط حوصلہ رکھنے والے امان اللہ خان کی محفل میں سامع کو ہمت حوصلہ اور حالات سے لڑنے کی ہمت اور  طاقت ملتی۔

اخری ایام میں انکے چہرے پر گہرا دکھ اور آنکھوں میں شدید غم محسوس کیا۔ غالباً اس سرزمین پر جاری خون ریزی اس کو فکر مند کر رہی تھی بلکہ اندر ہی اندر سے اسے کھا رہی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بارکھان وٹاکڑی  میں گہری ندی میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔ لیکن مجھے اس بات کا افسوس زندگی بھر رہے گا کہ انکی علالت کے دوران میں انکی کوئی خدمت نہ کر سکا۔ آخری دیدار کے وقت میں نے محسوس کیا کہ وہ بالکل مطمئن سویا ہوا تھا مگر ہمیں گہری اداسی دے کر بے وقت رخصت ہوا۔

امان اللہ خان کے نماز جنازہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ہر چہرہ غمزدہ تھا۔قرب و جوار کے ہزاروں لوگوں نے انکی فاتحہ خوانی میں حصہ لیا  اور انکی جہدوجہد قربانی، دلیری، علمی سماجی اور سیاسی خدمات کا اعتراف کیا۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *