Home » پوھوزانت » سرمایہ سورج سوا نیزے پر ۔۔۔ وحید زہیر

سرمایہ سورج سوا نیزے پر ۔۔۔ وحید زہیر

فی زمانہ جوانسان عقل سے پیادہ ہے تو اس کی ترقی میں ہی اس کی تنزلی ہے مقا بلہ کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے اس میں بے دلی بڑھی ہے۔اپنی جہالت کے زعم میں رہنا اس کی اصل بیماری ہے۔اسی مزاج کے لوگ جنت اور دوزخ کی خودپید ا کردہ جنگ میں روز جیتے اور مر تے ہیں۔جو نہیں کر ناہوتا ہے وہ کرتے ہیں،جو کرنا ہوتاہے وہ نہیں کر تے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بے علم کو عالم سمجھتے ہیں۔چور۔ڈاکو اور استحصالی ٹولے کو ان داتا کہتے ہیں۔ ڈیجیٹل ترازو کے ہوتے ہوئے ابھی تک پتھروں سے سامان تولتے ہیں۔ قلم سے ازار بند ڈالنے کا کام لیتے ہیں۔ دوسروں کوٹٹولتے خود ٹالتے ہیں۔ صبح و شام ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے ایک دوسرے کی کمزوریاں کنگھالتے ہیں۔ اس کے باوجود روز آکسیجن کی کمی سے مررہے ہو تے ہیں۔معمولی بیماریوں پر کئی ڈاکٹر اور ہسپتال بدلتے ہیں۔یہ وہ ہیں جو عظمت کے سارے درخت کاٹ چکے ہیں۔ اب سورج سرمائے کا سن سٹروک ان کا مقدر بن چکاہے۔ یہ اپنامقدر آزمانے کیلئے۔آکٹو پس اور پنجرے میں بندبوڑھے شیر سے فال نکالتے ہیں۔ کاش دیوان حافظ شیرازی پڑھتے۔ سمجھتے۔ اس کے فلسفے سے واقف ہوتے۔ چیخوف۔ میکسم گورکی۔ منٹو۔ فیض احمد فیض۔مست توکلی۔گل خان نصیر۔ عطاء شاد۔ خلیل جبران سے جینے کیلئے شعورکاایندھن لیتے۔ کتاب اور قلم کے دشمنوں کے ارادے بھانپتے۔ نہ یہ مار کھاتے نہ ادھار کھاتے۔ نہ اپنے فرض سے غافل ہوتے،نہ ہی ایسی طبقاتی فرق پر مائل ہوتے۔ جو آنکھیں پہلے کتابوں سے لفظ چنتے تھے۔ اب کچرہ چنتے ہیں۔باقی گالیاں کھاتے یا گالیاں بنتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے باقی ماندہ ہاتھ جو کبھی قلم تھامتے تھے اب کلاشنکوف اٹھائے پھرتے ہیں۔ ظالم نظام کے طفیل ایک دوسرے کا خون پی رہے ہیں۔ اگر بھروسہ نہیں تو کومہ میں پڑے یقین کے منہ پر غیرت کے چند چھینٹے مار کر دیکھیں تو اکثر ممالک کے حصے بخرے ہونے کی کہانیاں سمجھ میں آئیں گی۔ موجودہ شام تک بے بس انسانوں کی مجبوریوں، محکومیوں اور محرومیوں کے پیچھے سامراجیت کے ڈائنوساروں کے انسانوں کو نگلنے کی خواہشات کا بخوبی علم ہوگا۔اس تمام صورتحال میں حقیقی علم سے بغاوت اور خوابِ غفلت میں رہنے والوں کی حماقتوں سے واقفیت ملے گی۔ان ٹی وی ٹاک شوز میں شامل خو فز دہ دانشوروں کے ہاضمے پر بوجھ تبصروں، تجزیوں ما لکان کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آلہ کاری سمجھ آئے گی۔ سماج میں ہیروئن، شیشہ اور طاقت کے نشے میں مبتلا کرداروں سے واسطہ پڑے گا۔ و ہ قوم ہی کیا جس میں دیوار گریہ و دیوار بزرگ کی تعمیر کا جذبہ نہ ہو۔ کیا ان لنگرخانوں، انکم سپورٹس پروگراموں، قرض اتارو ملک سنوارو اور ڈیموں کی تعمیر کی دھوکہ دہی سے عوام اور مٹی کے قرض اتاریں گے۔ فاقہ کشی کی بھوک مٹے گی؟۔ بے رحم جہالت کے منہ زور گھوڑے کو لگام دیا جاسکے گا؟۔ کوئٹہ کراچی روٹ پر ٹریفک حادثات ختم ہوں گے؟۔ بلوچستان کی قحط سالی سے نجات ملے گی؟۔ پنجاب کے معصوم بچوں اور بچیوں کی لْٹی ہوئی عزتیں واپس ہوں گی؟۔ تیزاب گردی کے واقعات روکے جاسکیں گے؟۔ شیعہ سنی والی سازشوں کا پتہ چل سکے گا؟۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران کب تک تردید اور وضاحتوں کے سہارے حکمرانی کر تے رہیں گے۔ جب تک ہمارے ارد گرد بڑے بڑے مارکیٹ اور مال نہیں سجے تھے۔ گلی کوچوں میں گاڑیوں اور جوتوں کے شو رومز نہیں کھلے تھے۔ ساہوکاروں اور کمیشن خورمافیا کے فارم ہاؤسز کے چرچے نہیں تھے۔ اس طرح تواتر کے ساتھ یہ ایمبولنسوں کے ہوٹر بھی نہیں بجتے تھے۔ یہ بونے لوگ وی آئی پی نہیں کہلاتے تھے۔ نہ ہی ہمارے نمائشی طور پر انسانی حقوق کا دن سلا م ٹیچر ڈے۔ ماں تجھے سلام۔ فادرڈے۔ ثقافت کادن۔  زبانوں کا عالمی دن۔ خواندگی و یوم ماحولیات و دیگر دن منائے جاتے تھے۔ نہ ہی باپ کو اپنے بیٹے سے ملنے کیلئے واک تھرو گیٹ سے گزرنا پڑتاتھا۔ نہ ہی قیمتی گاڑیوں میں بیٹھ کر کسی فائیو سٹار ہوٹل کے جِم میں سائیکل چلانے کیلئے جانا پڑتا تھا۔ نہ ہی نوجوان پیمپر باندھ کر پورا پورا دن ویڈیو گیم کھیلنے میں غرق رہتے تھے۔نہ ہی سیاست دان ذاتیات پر مبنی سیا سی وار کرنے پر اتراتے تھے نہ ہی سو پچاس لوگ ایک ہی وقت میں دہشت گردی کا نشانہ بنتے تھے۔نہ ہی ہمسایہ ممالک لچر خواتین کی طرح چق اٹھاکر نازیبا الفاظ اوردھو نس دھمکیوں سے ایک دوسرے کو نواز تے تھے۔نہ ہی حاکمین برمودا ٹراینگل کی طر ح مخالفین کو نگلتے تھے۔ نہ ہی ہم جلتو جلالتو آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرنے والے جاہلین کے حصار میں ہوتے۔کیونکہ اس وقت علم۔ وزڈم اورحقیقی نمائندگی کا راج تھا۔ چر واہے تک میں احترام آدمیت کا جذبہ کا ر فرما تھا۔ایٹم بم کا  استعمال اور ایٹم بم کا جواب ایٹم بم  سے دینے کی جہالت سے لوگ ابھی ناواقف تھے۔ ہرایک کو اپنے بازو اور شعور پر ناز تھا۔کیونکہ جہالت کش امن اورانسا نیت کا درس دینے والے دانشوار اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے تھے۔ بدشکل سرمایہ دارانہ نظام نے 72فرقوں۔72 سیاسی و طلباء تنظیموں۔ 72نظریوں۔72 فکر مغالطوں۔72 قسم کے کاکھانوں کو رواج دیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار کو مزید فروغ دینے کیلئے پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والی چھڑی گمائی۔ ہم بھی شادیوں اور عرسوں میں پھینکے گئے پیسوں تک پہنچنے کیلئے بچوں کی طرح دھکم پیل میں شامل ہوگئے۔چونکہ اس وقت سپر پاور امریکہ ہے۔ یہ سب دیکھ کر ورلڈ آرڈر کی حقیقت نامی کتا ب میں نام چومسکی لکھتے ہیں “مغرب کے دانشوروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اہل مغرب کے سامنے مغرب کیلئے شرم کا مقام بننے والے واقعات بلا کاست بیان کریں تاکہ ان جرائم کا فوری آسان اور موثر خاتمہ ممکن ہوسکے”ایک اور جگہ لکھتے ہیں “یہاں روسو کے الفاظ دہراتاہوں کہ لفظ کاروبار ایک غلا م کا لفظ ہے جہاں کاروبار کا راج ہوتاہے آزادی جنس بن جاتی ہے۔ جوخریدار اور فروخت کار دونوں کیلئے ذلت کا باعث بنے۔

جہاں تحریر و تقریر کی آزادی یا گنجائش ہے۔ وہاں ادب بھی لکھاجارہاہے۔ دانشوربول بھی رہاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خباثتیں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ اس نے ہوا کو سیاہ دھوئیں میں بدل دیا ہے۔ شہروں کو شور کا تحفہ دیا ہے انسانوں کو مشینی خصلت پیدا کرنے کا پابند کردیاہے۔ حصول زر میں اندھا ہو کر پھول سے خوشبو چھین کر اسے مصنوعی بنادیا ہے جس کی وجہ سے پھل اور پرندے قدرتی موسم کی بیگانگی اور بے لذتی کا شکار ہیں۔کل تک جو بچہ پیدا ہوکر چی چی کرتاتھا اب پیسہ پیسہ کر تاہے۔ کہیں ملِک پیک اور سی پیک پر سیاست ہورہی ہے۔ نوجوان ٹک ٹاک میں بے باک ہو تے جارہے ہیں۔ شوہر۔ بیوی۔ محبوب۔ محبوباؤں پر نظر رکھنے کیلئے ان کے موبائل پرٹریکر نصب کر چکے ہیں۔ایک محلے سے دوسرے محلے میں جانے کیلئے سب کو اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ موجودہ اشتہار بازی سے لگتاہے ناف سے اوپر سوچنے والے اب ناف سے نیچے کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ہم سمجھتے ہیں پوری دنیا کی سیاست ہمیں زیر کرنے کیلئے ہورہی ہے۔ وہ ہمارے نوجوانوں کو اسٹیفن ہاکنگ بننے سے رو ک رہے ہیں۔ حالانکہ بڑے توند والے کارخانہ داروں۔ جاگیرداروں۔ ساہوکاروں اور کرپٹ عناصر کے بچھائے گئے لنگرخانوں، خیراتی دسترخوانوں کی روایت ڈال کر عوام کو اپنے حقو ق حاصل کرنے کے شعور سے روکا جا رہا ہے۔ اس میں منشیات فروشوں اور لاقانونیت کی پشت پناہی کرنے والوں کی چالیں بھی شامل ہیں۔ ان سب نے مل کر نئی نسل کو بے ضمیری و بے توقیری دی ہے۔جبھی تو پورنوگرافی کا مشغلہ عام ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے چرچے ہیں۔ معصوم بچے اور بچیوں سے زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ باہر ماحولیاتی آلودگی ہے اندر کثافتی کہانیاں جنم لے رہی ہیں جبھی تو ہمارے سروں پر سرمایہ سورج سوا نیز پر ہے۔موجو دہ دور میں زندہ رہنے کیلئے سا ئنس کی تہذیب اور تعمیر ی عمل کی شفا فیت،زندہ رہنے کی حقیقت و مقصد کو سمجھنا ہو گا۔معا شروں کو پسما ندہ رکھنے والے عنا صر سے حساب کتاب کرنا ہو گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *