Home » کتاب پچار » جارج جیکسن کے خطوط

جارج جیکسن کے خطوط

کتاب:                       سالیڈیڈ برادران

مترجم:              ڈاکٹر شاہ محمد مری

صفحا ت:                                160

قیمت:                      300 روپے

مبصر:                   عابدہ رحمان

 

نیلسن منڈیلا نے کہا ہے کہ؛

“A winner is a  dreamer, who never gives up ”

اور خوابوں کی تعبیر کی جدوجہدمیں چاہے جان قربان کرنا پڑ جائے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ”سالیڈیڈ برادران“جارج جیکسن کی کتاب ’سالیڈیڈبرادرز‘ کاترجمہ ہے۔ جارج جیکسن ایک افریقن امریکن  ایکٹوسٹ تھا۔ وہ 23 ستمبر 1941ء کو شکاگو میں پیدا ہوا۔ بعد میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاس اینجلس چلا گیا۔ چھوٹی ہی عمر میں پولیس کے ساتھ اس بہت سے مسئلے آئے اور معمولی نوعیت کے جرائم میں پھنستا رہا۔ امریکہ چونکہ شدید طبقاتی ظلم کاگڑھ تھا، اس لیے کالوں کو اس ظلم کا نشانہ بنانا ایک معمول ہوا۔ اسی ظلم کا شکار جارج جیکسن بھی ہو اکہ جب اس پر ایک گیس سٹیشن میں 70 ڈالرچوری کا الزام لگایا گیا۔ ایک جھوٹے الزام کے اعترافِ جرم میں اسے سزا تاحیات کی سنا دی گئی اور وہ سان کویئنٹن جیل اور سالیڈیڈ میں ایک صعوبتوں بھری قید گزارتا رہا۔ 28 سال کی عمر میں جیکسن اور دوسرے سیاہ فاموں پر ایک سفید گارڈ کے قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ مقدمہ شروع ہونے سے دو دن پہلے جیل سے فرار ہونے کے الزام میں اسے قتل کر دیا گیا۔

’سالیڈیڈ برادران‘ جارج جیکسن کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو اپنی قید کے دوران اپنے والدین، بھائی، اپنی وکیل فے اور اینجیلا ڈیوس کو لکھتا رہا۔ ایسی کسی کتاب کو پڑھ کر آپ کو ایک دم سے اس دور، اس وقت کا ماحول، ملک کے حالات اور بہت کچھ خود بخود نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ یعنی اس وقت کی ساری سیاست بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ایسی ہی ایک کتاب ڈاکٹر شاہ محمد مری ہی کی میں پہلے پڑھ چکی ہوں جو کارل مارکس کی بیوی جینی کے خطوط پر مشتمل ہے۔ ’سالیڈیڈ برادران‘ ایک ایسی ہی کتاب ہے جسے بجا طور پر جارج جیکسن کا منشور کہا گیا کیونکہ اس کو پڑھ کر آپ جیکسن کی سوچ و فکر، اس کا نظریہ، امریکہ اور پوری دنیا میں موجود طبقاتی نظام سے آپ واقف ہو جاتے ہیں۔

کچھ باتیں جو مجھے یہ کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوئیں اور جو اس کے خطوط میں بالکل واضح ہیں کہ ایک تو یہ کہ جارج جیکسن جواپنے شعور سے لے کر ساری زندگی وہ کالے کو ایک غلام ہی پایا اور پھر اس غلام کو اب کالے مزدور میں بدلتے ہوئے دیکھا۔ یعنی غلام کی یا غلامی کی ایک جدید قسم۔ وہ اپنی وکیل فے کو اپنے خط میں لکھتا ہے کہ،’’غلامی ایک معاشی حالت ہے۔ آج کی جدید غلامی کی معیشت کے معنوں میں تعریف کی جانی چاہیے۔ منقولہ مال ایک جائیداد ہے، ایک شخص اپنے قائم کردہ معاشی نظام کے حقوقِ ملکیت کو استعمال کرتا ہے۔ دوسرا شخص اس ملکیت کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہے۔وہ اسے دوسرے غلاموں کو پیدا کرنے کے لیے رکھ سکتا ہے۔ وہ اس طرح کی جائیداد مہیا کر سکتی ہے تو اسے کبھی کبھار اسے کھلانا ضرور ہوگا، اسے موسموں کے خلاف لباس دینا ہوگا، اسے چھت جیسی چیز مہیا کرنا ہوگی۔ غلامی ایک معاشی حالت ہے جو خود کو خود مختاری کے مکمل خاتمے کی صورت میں ظاہر کرتی ہے“۔پھر اسی خط میں جارج آگے جا کر لکھتا ہے کہ ”یہ سؤر آپ کی آپ کے گھر کی اور ان میں موجود اشیا کی حفاظت نہیں کر رہے ……یہ تو چند لوگوں کے ان غیر فطری حقوق کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ لوگ ہماری زندگی کی ضروریات پر قابض ہیں۔ یہ سؤر چند لوگوں کوعوام کی ملکیت کا مستحق بنانے والے قانون کا تحفظ کر رہے ہیں۔“

یعنی جارج جیکسن  بتا رہا کہ نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد ہی دراصل سامراج کے خلاف جدوجہد ہے۔ وہ سرمایہ داری کو لٹیرا کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ،”سرمایہ داری ایک لاعلاج کینسر ہے جس نے ہمیں پانچ سو سال سے لوٹا ہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا لٹیرا“ ۔ ایک جگہ پر تو جارج جیکسن بہت ہی اکتا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ تنگ کرنے والی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کہ میں ان کا مقابلہ کروں گا۔

جارج جیکسن کو بنا کسی ثبوت کے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ ہر سال اسے بورڈ کے سامنے پیش کیا جاتا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور اس کی قید طول پکڑتی گئی۔ وہ جیل کی تکلیفیں برداشت کرتا رہا۔اور وہاں اس حال میں بھی اس نے وقت ضائع نہیں کیا جس کا اعتراف وہ خود بھی اپنے خطوط میں کرتا رہا۔ وہ کارل مارکس، لینن، ماؤزے تنگ، ہوچی من کی زندگیوں، ان کی جدوجہد کا مطالعہ کرتا رہا۔وہ جیل کے اندر بھی کالوں کے ساتھ امتیاز، سرمایہ داری پر بول کر اپنے حصے کا قرض اتارنے کی کوشش کرتا رہا۔وہ جانتا تھا کہ اسے پسند نہیں کیا جاتا اس کے باوجود وہ اپنے باپ کو ایک خط میں لکھتا ہے کہ ”آپ کو معلوم ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتے۔ میں اخلاص سے سمجھتا ہوں کہ یہ میرے کردار کے لیے ایک اعزاز ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتے“۔

اس کتاب کے شروع کے خطوط میں جو اس نے اپنی والدہ کو لکھے۔ کہیں کہیں مجھے ایک عجیب سی بات محسوس ہوئی اور جو کسی بھی کامریڈ کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے کہیں بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ وہ عورت کے سیاسی رول کے حوالے سے ایک ذرا سا تنگ نظر لگا۔ مثلاً وہ اپنی ماں کوایک خط میں لکھتا ہے کہ، ”تم ایک عورت ہو، تم ایک ایک بورژوا عورت کی طرح سوچتی ہو۔ یہ مردوں کی بالادستی کی دنیا ہے۔ دنیا کو دیکھنے کا تمھارا انداز بورژوا اور نسوانی ہے“۔ لیکن پھر فوراً ہی بعد کے خطوط جو اس نے انجیلا ڈیوس اوراپنی وکیل فے کو لکھے میرا یہ گلہ دور ہو گیا۔خواتین یعنی انجیلا ڈیوس اور فے کو خط لکھنا اور انھیں سرمایہ داری، جیل کی سیاست، طبقاتی نظام، غلامی، نسل پرستی کے بارے میں بتانا بذاتِ خود عورت کی حیثیت اور اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

جارج جیکسن کی اس کتاب میں اس کی سوچ و فکر کے ایک اور زاویے سے بھی میں متاثر ہوئی اور مجھے مزہ آیا پڑھ کر۔ وہ یہ کہ ایک مشن کے حصول کے لیے جدوجہد میں کسی قسم کے تعصب کا شکار نہ ہوا۔ سرمایہ داری کے خلاف جنگ، سامراج سے جنگ، نسل پرستی کے خلاف جنگ، غلامی کے خلاف جنگ میں چاہے کوئی بھی ساتھ ہو اسے اپنانا چاہیے۔ متحدہ کوشش ہمارے لیے ضروری ہے اور اس کوشش میں ہم خیال،ہم فکر کو ساتھ رکھ کر کالے گورے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ فے کو ہی ایک خط میں وہ لکھتا ہے کہ ” ہم کو اتحادی چاہئیں۔ہمارا ایک ایسا طاقتور دشمن ہے جس کو ایک متحدہ کوشش کے بغیرشکست دینا نا ممکن ہے۔ ہمارا اولین مفاد اس کی تباہی کی صورت میں ہے۔ اگر کسی اور کا، چاہے وہ کوئی بھی ہے یہی مفاد ہے تو اس کو گلے سے لگانا چاہیے“۔

جارج جیکسن ہر طرح کی تکلیفوں کو بڑی بہادری، امید اور یقین کے ساتھ سہتا رہا۔ وہ کہتا تھا کہ،”میں ہو سکتا ہے کہ مزید پانچ منٹ بھی زندہ نہ رہ سکو ں، مگر یہی پانچ منٹ حتما ًمیری شرائط پر ہوں گے اور یہ کہ احمق ترین آدمی کو بھی معلوم ہے کہ یہ سلسلہ اب مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ احمق ترین آدمی کو بھی معلوم ہے کہ فطرت اس طرح کی تفریق کو دیر تک قائم رہنے نہیں دیتی“۔

دکھ و تکلیف، امید و بیم، یقین کے اس متوالے کالے، جارج جیکسن کی یہ کتاب اس کی سوانح حیات سمجھ لیں یا اس کا منشور، بہرحال اس کو پڑھنا اور سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب،ہمیں ایک اور خوبصورت انسان سے متعارف کرانے کا بے حد شکریہ!۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *