Home » پوھوزانت » میرؔ اور میرا جی ۔۔۔ ڈاکٹر راشدہ قاضی

میرؔ اور میرا جی ۔۔۔ ڈاکٹر راشدہ قاضی

اردو شعری روایت میں میر تقی میر کے شعری قد سے انکار نا ممکن ہے۔مگر وہ حالات جن کے سبب میر صحیح معنوں میں میرؔ بنے ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔میر کی یتیمی،کم عمری کے سفر اور پھر میر کا سراج الدین خان آرزو کے گھر کا سات سالہ قیام اس کی شاعری پہ انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ خان آرزو کے گھر کا ادبی ماحول میرؔ کے لیے سازگار رہا۔خاص طور پر لغت پہ اس کا کام میر ؔکی شعری گرفت کا باعث بنا اور بعد میں خان آرزو سے کشیدگی بھی عروج پر رہی۔ذکر میرؔ کے مرتب احمد فاروقی نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی:

”میرؔ ۷۴۔۱۴۷۱کے درمیان آرزو کے ہاں قیام پذیر رہے تھے۔اس زمانہ میں خان آرزو کے گھر کی کسی لڑکی سے میرؔ نے بڑی شدومد سے محبت کی اور یہ عشق مشک کی خاصیت اختیار کر گیا۔“(۱)۔

جبکہ طویل زمانی عرصہ گزرنے کے بعد اردو شعری روایت میں ایک نام ابھرتا ہے جو اپنے دور کی تفہیم نئے حوالے سے کرواتا ہے۔انہوں نے روایتی شاعری سے نہ صرف بغاوت کی بلکہ ہئیت،تجربہ، اسلوب،علامات۔اصناف سخن، لفظیات اور موضوعات کا احاطہ مقامیت سے نہیں کرتا بلکہ وہ مغرب کی ہئیت و موضوعات کو ہندی دیومالا سے جا ملاتے ہیں۔وہ ہندی آواز اور لہجے کو بھی اردو شاعری کے مزاج میں سمونے کا تجربہ کرتے ہیں۔

محمد ثناء اللہ ڈار کا میراجی تک کا سفر در حقیقت”میں ناہیں سب تو“ کا سفر ہے۔۳۱/۴۱ سالہ بنگالی میرا سین پر ثنا ء اللہ ڈار فریفتہ ہوا مگر استراد کی صورت اپنی پہچان گنوا کر میرا جی بنا۔

۔محمد ثناء اللہ ڈار ۶۲ مئی ۲۱۹۱ء میں لاہور کے محلہ مزنگ میں ریلوے کے سب انجینئر منشی مہتاب کے گھر پیدا ہوا۔میرا جی کا جنم اس کنبے کے لیے کوئی اہم واقعہ نہ تھا۔(۲)۔

جوان میرا جی نے جب میرا سین کو دیکھا تو فریفتہ ہوا اور ایک بار وائی ایم ایس کے پاس اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر اس نے میرا جی کودر خور اعتنا نہ سمجھا اور قدم آگے بڑھا دیے۔اس کے بعد میرا جی پہ جو بیتی وہ ساری دنیا جانتی ہے۔اس نے سب سے پہلے اپنا نام بدلا اور پھر اس کے بعد اس کا ایک نیا روپ سامنے آتا ہے۔مالا گلے میں ڈالی۔گھر بار چھوڑا اور تمام عمر دربدر پھرتا رہا۔ایک خط میں میراجی لکھتا ہے کہ میرا سین کی ملازمت میں ۳۱ برس ہوگئے ہیں۔میرا جی کے کاغذات میں میرا سین کی اخبار میں چھپی ہوئی تصویر بھی دستیاب ہوئی تھی۔اسی طرح میرا جی نے دو خط میرا سین کو لکھے تھے جو اس نے غالباً پوسٹ نہیں کئے تھے۔میرا سین سے اتنی طویل خیالی رفاقت اور جذباتی تعلقات ایک غیر معمولی نفسیات کے مظہر ہیں۔(۳)۔

یوں دیکھا جائے تو میرؔ اور میرا جی کے عشق کی نفسیاتی پیچیدگیاں اپنے اندر گہری معنویت رکھتی ہیں۔

میرؔ اپنے والد کی وفات کے بعد۱۱ برس کی عمر میں آگرہ سے تن تنہا نکلے۔راستے کی صعوبتیں سہتے،بد وضع سراؤں میں قیام کرتے ۵۳۔۴۳۶۱ء میں دلی میں داخل ہوئے۔(۴)۔

میرؔ ۷۱ برس کی عمر میں دوسری بار آگرہ سے دلی پہنچے جہاں نادر شاہ درانی کی غارت گری کے بعد مغلوں کا شکوہ خاک میں مل چکا تھا،محمد شاہ شرم کے مارے تاریخ کے اوراق میں منہ چھپاتا پھرتا تھا۔محمد تقی دلی کے قیام کے دوران ہی میرؔ بن گیا۔اس کے ادبی شعور نے سراج الدین خان آرزو کے زیر سایہ تربیت پائی۔نوجوان میر نے خان آرزو کی ذات اور صحبتوں سے بہت کچھ سیکھا مگر ۷۴۷۱ کے لگ بھگ میرؔ اور خان آرزو کے تعلقات سخت کشیدہ ہو گئے۔(۵)۔

خان آرزو کے ہاں قیام کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے میر اور خان آرزو کے تعلقات تو خراب ہو ہی گئے ساتھ ہی میرؔ کی زندگی بھی بدل گئی۔خان آرزو کے گھر کی بچی سے میرؔ کا عشق ادبی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے وہ جنوں کا شکار ہوئے۔رات گئے چاند سے وہ مثل مہتاب میرؔ کے پہلو میں جلوہ افروز ہوتی اور آخر شب تک صحبت رہتی۔میر کا یہ خبط (Obsession) تھا۔اسی کیفیت میں ذہنی حالت کی تبدیلی یا خلل کے سبب مریض کے ذہن میں ایسے خیالات آتے ہیں جو اس کے اپنے بس میں نہیں ہوتے۔ایسے میں ذہن پر متخیلہ کا بھر پور قبضہ ہو جاتا ہے اور وہ ان کے زیر اثر ان تمثالوں کو دہرانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اسیے میں ذہنی مریض کی بے بسی اندوہناک ہوتی ہے۔Compulsive imagination  داستانوی رنگ پیدا کرتی ہے۔اس میں فحش(Obscene) تمثالیں بھی بن سکتی ہیں،میرؔ اسی ذہنی مرض کا شکار تھے۔میرؔ نے عالم جنوں کے بارے میں اپنی جو کیفیات بتائی وہ یہ ہے:

”چاندنی رات میں ایک پیکر خوش صورت،کمال خوبی کے ساتھ کرہ قمر سے میری طرف بڑھتا اور مجھے بے خبر کر دیتا تھا۔جدھر بھی میری نظر اٹھتی،اسی رشک پری پر پڑتی،جس طرف بھی دیکھتا تھا،اسی غیرت حورکا تماشا کرتا تھا۔میرے گھر کے دروبام اور صحن (گویا) ورق تصویر ہو گئے تھے۔یعنی شش جہت میں وہی حیرت افزا(چہرہ) نظر آتا تھا۔کبھی چودھویں کے چاند کی طرح سامنے ہوتا،کبھی منزلِ دل اس کی سیر گاہ ہوتی۔ اگر گلِ مہتاب پر نظر پڑ جاتی تو گویا جانِ بے تاب میں آگ سی لگ جاتی۔ہر رات اس سے محبت رہتی اور ہر صبح اس بن وحشت رہتی۔ جب سفیدہِ سحر نمودار ہوتا تو وہ جلے دل سے ٹھنڈی آہ بھرتی۔یعنی ایک آہ بھر کر چاند کی طرف واپس ہو جاتی میں تمام دن جنون کرتا اور اس کی یاد میں دل کو خون کرتا،دیوانہ و مست کے مانند کفِ بر لب ہاتھوں میں لئے پھرتا۔میں افتاں و خیزاں اور لوگ مجھ سے گریزاں۔۔۔ چار مہینے تک وہ گلِ شب افروز نئے گل کھلاتا رہا اور اپنے فتنہ خرام سے قیامت ڈھاتا رہا۔ناگاہ موسم بہار آیا۔جنون کے داغ (اور بھی) ہرے ہو گئے۔یعنی میں آسیبی سا ہو گیا اور مطلق کسی کام کا نہ رہا۔بس وہ خیالی صورت نظر میں اور اس کی مشکیں زلفوں کا بیان سر میں لائق کنارہ گیری ہو گیا۔یعنی زندانی و زنجیری ہو گیا۔“(۶)۔

میرؔ اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں ہنداستان کے ان شعرا میں شمار ہوتے ہیں جن کو اردو ادب کی شعری روایت میں اعتبار اور اقتدار کا رتبہ حاصل ہے۔جذبے،احساس،تخیل،سوزوگداز اور ذات کے تجربے کی آنچ سے میر ؔ نے اردو غزل کا جو سانچہ تیار کیا اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔میرؔ کی نفسی کیفیات سے غزل میں مشاہدے کی ایک وسیع دنیا وجود میں آئی  اور خاص طور پر ان کے لسانی لب و لہجے نے ایک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد قائم کی کہ جسے پورے ہندوستان میں عروج حاصل ہوا۔

میرؔ کا داخلی کرب،انتشار،سکون،جذبات اور محسوسات کو مختلف استعاروں کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ اس کی سوچ کے سانچے مستقل طور پر استعاروں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔اور رفتہ رفتہ ان کا ستعاراتی نظام استوار ہو تا چلا جاتا ہے۔در حقیقت استعارے کا یہ منفرد ان کی باطنی دنیا کا سفر ہے۔جہاں وہ لا شعور کی گہرائیوں سے تجربات کا نچوڑ نکال لاتے ہیں،جہاں وہ خود کو دریافت کرتے ہیں اور ان کی تخلیقی قوتیں استعارے کی صورت میں مجتمع ہو جاتی ہیں۔(۷)۔

میرؔ کی شاعری میں اضطراب،بے قراری اور بے چینی کی جو مسلسل کیفیت ملتی ہے یہ ان کی سائیکی کا وہ حصہ ہے جس کا سبب ان کا مضطرب ماضی ہے جس میں صدمات اور مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ملتا ہے۔

میرؔ کی شاعری میں بے بسی، پژ مردگی،ضعف اور انفعالیت زندگی کے پر اضطراب ایام میں افتادگی کا احساس دلاتے ہیں:

تیرے کوچے کے شوق ِ طوف میں جیسے بگولہ تھا

بیاباں میں غبارِ میرؔ کی ہم نے زیارت کی

 

پژمردہ اس قدر ہیں کہ شبہ ہم کو ہے اے میرؔ

تن میں ہمارے جان کبھی تھی بھی یا نہیں (۸)۔

میرؔ کی دلی بھی اجڑتی سنورتی رہی۔کبھی جاٹوں کے حملے،کبھی مرہٹہ گردی اور کبھی نادر شاہ نے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔یہاں تک کہ آگرہ کے بعد میرؔ کو دلی سے بھی لکھنو جانا پڑا۔(۹)۔

جبکہ میراجیؔ کی پیدایش ۲۱۹۱ء اور وفات ۹۴۹۱ء کے درمیان دنیا دو عالمگیر جنگوں کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں سارا معاشرتی،فکری و معاشی نظام درہم برہم ہو گیا۔ اور سارا روایتی اور اخلاقی نظام،سماجی اقدار اور انسانی رشتے ٹوٹ پھوٹ کر بے ربط و بے معنی ہو گئے۔مغلوب قوتیں آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں سرمایہ دارانہ او رجاگیردانہ نظام آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔فرائڈ اور آئن سٹائن کے نظریات نے نئے معاشی،سائنسی،انسانی اور ذہنی علوم کے امکانات وا کر دئے،برصغیر بھی اس بدلتے ہوئے تناظر سے متاثر ہوا اور یہاں بھی صور تحال تیزی سے بدلنے لگی۔(۰۱)۔

”مستقبل سے میرا تعلق بے نام ساہے۔میں صرف دو زمانوں کا انسان ہوں،ماضی اورحال۔۔۔۔ یہی دو دائرے مجھے ہر وقت گھیرے رہتے ہیں اور میری عملی زندگی بھی انہی کی پابند ہے۔“(۱۱)۔

میراجیؔ کا خارجی روپ ان کے داخلی وجود کا نتیجہ تھا۔انہوں نے اپنے خوابوں کے ساتھ اپنی زندگی کو مختلف سانچے میں ڈھالا۔انہوں نے اپنی روح کے اظہار کے لیے رسمی اخلاقیات میں گھرے ہوئے معاشرے میں بغاوت کی جرات کر ڈالی۔ان کے خارجی و داخلی وجود کے اظہار کے لیے گہری معنویت پوشیدہ ہے۔

میں دلی چھوڑ کے بمبئی کے گردو نواح میں ہوں۔پہلے دفتر میں میزوں پر سوتا تھا اب فرش پر براجمان ہوتا ہوں۔۔۔، خود کو کبھی معمولی اور کبھی پہنچا ہوا بڑا فقیر تصور کرتا ہوں اور دنیا شاید مجھے بھکاری سمجھتی ہے۔سچ ہے،سماج کے فرائض جس طرح دنیا انہیں سمجھتی ہے۔(میں نے) جس طرح میں انہیں سمجھتا ہوں،پورے نہیں کئے لیکن اپنی جسمانی زندگی سے زیادہ جس قدر ذہنی زندگی بسر کی ہے،اس کا لحاظ کسے ہو گا،“(۲۱)۔

اپنی ذات کے اظہار کے لیے میرا جیؔ نے اپنے دوست عبد اللطیف کو ۱۲ اکتوبر ۶۴۹۱ء کو ایک خط لکھا۔ذہنی زندگی کی بات کر کے اسی خط میں میراجیؔ سماجی و فکری نظام کے خلاف بغاوت کا پہلو اجاگر کرتے ہیں:۔

”افسوس یہ بھی ہے ایک سوال ہے اور سوال بھکاری کی دوسری عادت،کیا میں کبھی اس قابل نہ ہو سکوں گا کہ سوال کی بجائے اپنے آپ کو فیصلے کا اہل ثابت کر سکوں“(۳۱)۔

فرزانوں کی اس دنیا میں دیوانہ اپنی بات اور اپنا فیصلہ خود کرنا چاہتا ہے۔ میراجیؔ ساری عمر اکیلے پن اور لا حاصلی کا دکھ سہتے رہے۔یہ دکھ کا بھوگ انہیں لوگوں کی نفرت کا نشانہ بناتا رہا۔

”جدید نفسیات نے اس تمام پریشان خیالی کو جنسی رنگ دے دیا“(۴۱)۔

رات اندھیری،بن ہے سونا،کوئی نہیں ہے پاس

پون جھکولے پیڑ ہلائیں،تھر تھر کا نپیں پات

دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے،سینے پر ہے ہاتھ

رہ رہ کر سوچوں یوں کیسے پوری ہو گی رات

وہ جو خود جنس سے دور تھے مگر ان کی شاعری کا نمایاں پہلو ہی جنس ہے۔میراجیؔ خود کہتے ہیں:

میری نظموں کا نمایاں پہلو ان کی جنسی حیثیت ہے“(۵۱) ۔

جنس ابہام کے پردوں میں چھپ کر ہی جمالیاتی سطح کو چھو سکتی ہے۔میراجیؔ نے جنس کو اردو شاعری میں داخل کیا اور ہمارے شعور کا حصہ بنایا۔

”جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی نعمت سمجھتا ہوں اور جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے اس لیے ردِ عمل کے طور پر میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اور۔۔۔جو میرا  ا ٓدرش ہے۔“ (۶۱)۔

میرؔ اور میرا جیؔ کے عشقِ لاحاصل نے دیوانگی میں فرزانہ پن پیدا کیا۔میرؔ اس پیکرِ جمال سے شب بھر گفتگو کرتے اور تصور میں اسے قریب پاتے بلکہ انہیں ہر طرح کا وصل مہیا لگتا جبکہ میرؔاجی نے تو تصور کے زور پہ میرا سین کے سراپا کو اس قدر قریب پایا کہ وہ وصل کا ہر رویہ محسوس کرتے۔

میلے کپڑے کی طرح لٹکی ہوئی تصویر یں

بیتے دن رات میرے سامنے لے آتی ہیں (۷۱)۔

 

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس کہ تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی(۸۱)۔

میراجیؔ نے کبھی گھر بسانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔میرا سین سے شکست کھانے کے بعد اس نے مجرد رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ شاعری کو اپنی اولاد سمجھ کر دنیا کو ایک تنہا آدمی کی طرح چھوڑ گیا۔میراجیؔ خواہش ِ زیست کا قوی جذبہ نہ رکھتا تھا۔زندگی کے تمام عوامل دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کو شکست و ریخت کی طرف لے جاتے۔“(۹۱)۔

میراجیؔ ۸۳ برس کی عمر میں بمبئی کے ایک ہسپتال میں بے یارو مددگار انتقال کر گئے۔جنازے میں گنتی کے چند آدمی تھے۔کوئی اپنا ساتھ نہ تھا۔ میراجیؔ جو خود کو میرا سین میں تحلیل کر چکے تھے اسی کو ساتھ لے کر چل دیے۔نگری نگری پھرا مسافر،گھر کا رستہ بھول گیا۔

دوسری طرف میرؔ کی شاعری میں اضطراب و بے چینی کی مسلسل کیفیت ملتی ہے جس کا سبب میرؔ کا مضطرب ماضی ہے۔میرؔ کی سائیکی میں پائی جانے والی بے قراری اور بے چینی کی یہ انتہائی صورت ہے۔

نہ دیکھا میرؔ آوارہ کو لیکن

غباراک ناتواں سا کو بہ کو تھا

 

ہے بگولہ غبار کس کا میرؔ

کہ جو ہو بے قرار اٹھتا ہے

 

میرؔ شخصی طور پر تجربے اور احساس کی بے شمار باطنی اور دنیاوی منزلوں سے گزرا تھا،میرؔ کی شاعری میں دل و جاں،مسلسل عذاب اور ناتمامی کی حالت میں نظر آتے ہیں۔ان کی سائیکی تشنہ کامی اور خواہش کی ناتمامی کے ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں نظر آتی ہے۔

کیا کروں شرح خستہ جانی کی

میں نے مر مر کے زندگانی کی

جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا

تنگ احوال ہے اس یوسف زندانی کا

۰۱۸۱ء میں تپ دِق کا مرض میرؔ کو نگل گیا۔ اگرچہ میرؔ نے طویل عمرپائی مگر وہ اس طویل میں چند لمحے ہی واقعی جی پائے ہو ں گے۔

دونوں شعراء کے عشق نے ان کی زندگی کو بے حد متاثر کیا اور اہل ادب کو ان عشاق نے جاودانی کلام دیا۔ان کے عشق میں بڑی گہرائی ہے۔میرؔ نے اس عشق سے دیوانگی کے بعد فرزانگی پائی اور بیش قیمت کلام دیا اور میراجی تو ایسے عشق میں رنگے کہ ثناء اللہ ڈار کو مار کر وہ میرا سین کے ساتھ ایسے جئے کہ خود میراجیؔ بن گئے۔

 

 

 

حوالہ جات

 

۔۱۔میر ؔ،ذکر میرؔ،مرتب،ڈاکٹر نثار احمد فاروقی،مجلس ترقی ادب،لاہور س ن،ص۰۳

۔۲۔انیس ناگی،ڈاکٹر،میراجیؔ۔ایک بھٹکا ہوا شاعر،پاکستان بکس اینڈ لٹریری سائنڈز،لاہور،۱۹۹۱ء،ص۲۱

۔۳۔ایضاً،ص۳۱

۔۴۔ذکر میر،ص۷۷۱

۔۵۔تبسم کاشمیری،ڈاکٹر،اردو کی تاریخ،جلد اول،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۹۰۰۲ء،ص۴۱۳۔

۔۶۔ذکرمیرؔ،ص۰۳۔۹۲۔

۔۷۔اردو ادب کی تاریخ،ص۲۲۳

۔۸۔ایضاً،ص ۵۲۳

۔۹،محمد حسین آزاد،آب حیات،مرتب،ڈاکٹر تبسم کاشمیری،مکتبہ عالیہ،لاہور،۰۹۹۱ء،ص۵۰۲

۔۰۱۔جمیل جالبی،ڈاکٹر،میراجی۔۔ایک مطالعہ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۹۰۰۲ء ص۸۲

۔۱۱۔میراجیؔ،میارجی کی نظمیں،ساقی بک ڈپو،لاہور،۴۴۹۱ء،ص۲۱

۔۲۱۔مغنی تبسم،ڈاکٹر،مرتب،شعرو حکمت،حیدرآباد دکن،۸۸۹۱ء،ص۲۰۱

۔۳۱۔ایضاً،ص۳۰۱

۔۴۱۔میراجیؔ،میری بہترین نظم،مرتب،محمد حسن عسکری،ساقی بک ڈپو،دہلی،۴۴۹۱ء،ص۴۱

۔۵۱۔ایضاً،

۔۶۱۔میرا جی۔۔۔ایک مطالعہ،ص۶۲

۔۷۱۔میرا جی کی نظمیں،ص۴۱

۔۸۱۔ایضاً،ص۷۴

۔۹۱۔میرا جی۔ایک بھٹکا ہوا شاعر،ص۶۱۔۵۱

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *