Home » پوھوزانت » امین کھوسہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

امین کھوسہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

امین کھوسہ ایک کھرااور صاف دل شخص تھا۔ وہ اپنے ہر ساتھی،دوست، حتی کہ شناسا تک کا زندگی بھر کے لیے ہمدرد رہتا تھا۔اُس کی تحریروں میں آپ کو ہر آشناکے لیے پندونصیحت کا ذائقہ ملے گا۔ مگر وہ ایسا کرتے وقت دورکھڑا ہو کر نصیحت نہیں کرتا تھا بلکہ اُس کا اپنا بن کر، اُس کے ساتھ کھڑا ہو کر، ایسا کرتا تھا۔ بلوچ سماج میں بہت کم لوگ ایسے گزرے ہیں جو ”آئی ایم“ والے ماقبل فیوڈل نظام میں بھی،دوسروں کو، دوسروں کے کام کو،اور دوسرے کی صفات کو تسلیم کرتے تھے۔ اگر آپ قبائلی نظام کی نفسیات کو نہیں جانتے تو بس اتنا سمجھ لیں کہ وہاں دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا، اُس کو اپنے برابر کا آدمی ماننا، یا اس کی کچھ مخصوص صفات کو اپنی صفات سے زیادہ قرار دینا ایک غیر معمولی بات ہوتی ہے۔ بلوچ کی تاریخ میں خانہ جنگیوں کی تباہی کا ایک بہت بڑا ذمہ دار ہمارا یہ رویہ ہے کہ ہم دوسرے فرد کو،دوسرے قبیلے کو اپنا ہم پلہ نہیں، کمتر قرار دیتے ہیں۔

کھوسہ ایک استثنا تھا۔وہ دوسرے شخص کا خیر خواہ تھا، اُس میں موجودخوبیوں کو تلاش کرنے اور انہیں سراہنے والا،اُس کی خامیوں پہ دوستانہ انداز میں ٹوکنے والا۔ مثال کے طور پر جب یوسف مگسی اپنے قبیلے کا سردار بنا تو اُس نے وہاں بہت بڑے پیمانے کی بنیادی اصلاحات کیں۔تب اُس کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی اور تھا یا نہیں، مگر  امین موجود تھا۔ وہ اپنے ایک مضمون میں یوسف کی ان اصلاحات کو اِس طرح تسلیم کرتا ہے:

”غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں

اور اس کے ساتھ

”نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“

کا اقبالی مقولہ کتنا صحیح نظر آتا ہے، جبکہ آج میرے زیر نظر نواب عزیز بلوچ کا خطہ ان حالات کا کاشف ہو کہ ریاست جَہل میں حقیقی معنی میں ایک ذہنی انقلاب کے آثار لوگوں کی عملی زندگی میں نظر آنے لگے۔ مجھے اس مختصر خطہ میں بہت کچھ دیکھنے میں آیا۔ یوسف اس وقت میرے پاس نہیں لیکن میں ان کے چہرہ پر تبسم کی ایک خفیف جھلک دیکھتا ہوں۔ (وہ خوش ہیں اور ہونا چاہیے)۔”مبارک ہو وہ تجھے قوم کے خادم بن کر مخدومیت کرنے والے، مبارک ہو خدمت گری کے پردے میں سرداری کو ڈھونڈھنے  والے، مبارک!!“۔(1)۔

سچی بات یہ ہے کہ امین کھوسہ ہی کی سچی زبان و قلم سے ہمیں اُس وقت کے اپنے سارے سامراج دشمن بزرگوں کے بارے میں معلومات ہوئیں۔ امین کی معلومات میسر نہ ہوتیں تو ہم کبھی بھی یوسف مگسی، عبدالصمد اچکزئی اور عبدالعزیز کرد کے بارے میں، اُن کی مکمل سوانح  کے بارے میں نہیں جان سکتے تھے۔

امین کھوسہ سے ہی ہمیں یوسف کے بارے میں اور باتیں معلوم ہوئیں۔ مثلاً:”قریباً ڈیڑھ برس کا زمانہ ہوا، جہل کے سردار نواب یوسف علی خان، نواب زادہ یوسف علی خان کے نام سے ڈلہوس میں قیام پذیر تھے۔ حج پر جارہے تھے راستہ میں بیمار ہوگئے اور انہیں اپنا ارادہ منسوخ کرنا پڑا۔ وہیں سے مجھے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ بکسوں اور پیڈوں سے ”نواب زادہ“ لفظ کو کاٹ کر صرف محمد یوسف علی خان بلوچ لکھوایا ہے۔ یہ خط دیکھ کر میرے قلم سے کچھ پٹکا،”مبارک ہو“ مسلمانی پر!۔اچھا کیا ”نواب زادگی“ کو مٹا دیا۔انشاء اللہ تعالیٰ اسلامیت کا دورعنقریب آنے والا ہے اور یہ سب چیزیں خود بخود مفقودہوجائیں گی جیسے کہ بتانِ کعبہ کا حشر ہوا“۔

وہ آگے لکھتا ہے: ان چند سطور میں جو خواب ”کعبہ“ کو بتوں کی آلائش سے پاک کرنے کی صورت میں دیکھا گیا ہے اس کی تعبیر اس رقعہ میں ملاحظہ کیجئے جو یوسف صاحب نے جَہل سے ابھی ارسال فرمایا ہے۔

”اے ناموس ازل کے امین! (زخیریہ تو شاعری ہے)۔

”مالی حالت بہت کمزور ہے اور کام زیادہ۔ اس وقت ساٹھ طلبا ہمارے ہاں زیر ِ تعلیم ہیں (جَہل سے جِہل کو رخصت ہونے کے لیے بہت اچھا الٹیمیٹم دیا گیا ہے۔ امین)۔تمام مذموم رسومات جو پہلے تھیں پچانوے فیصدی مٹ گئی ہیں۔

”سب مگسی مقدموں نے یکجا بیٹھ کر ان کو منسوخ کر دیا ہے، شراب پینے والا علاقہ جہل میں فیصد ی ایک بھی مسلمان نہیں ملے گا۔ اور بھنگ البتہ چار فیصدی اس وقت پی جارہی ہے، یہ حالات ہیں دعا کرو!۔سچ کہہ دوں اے سردارنما مُسلمان! اگر تو بُرا نہ مانے۔میرے خیال میں تجھے دعاؤں کی کیا ضرورت ہے، جب تمہارے سینہ میں ایمان کی چنگاری موجود ہے، آپ کو صرف ”الفاظ“ کی کیا حاجت جب آپ انسانی برادری کی محبت سے ایک لبریز دل رکھتے ہیں؟“۔

ہمیں کھوسہ صاحب کی یہ خوبصورت صفت اُس کی پوری زندگی میں نظر آتی ہے۔اسے ایک طویل زندگی ودیعت ہوئی تھی۔ اس طویل عمری میں ظاہر ہے کہ بڑے بڑے سیاسی واقعات ہوئے۔ اورخود ہمارے اکابرین میں کئی بار باہمی نفاق اور شکر رنجیاں بربادی کی حد تک پہنچیں۔ مگر امین ہر فریق کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے خیروصلح کے لیے تگ ودو کرتا رہا۔

ہماری غفلت کے سبب دنیا کو امین کھوسہ کی زندگی اور خدمات کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ہم بھی صرف اتنا جانتے ہیں کہ میر محمد امین کھوسہ نے 1933میں شادی کی۔اوریہ،کہ اس نے علی گڑھ سے 1934 میں گریجویشن کرلیا۔

اُس کے بعد وہ وکالت پڑھنے وہیں لاء کالج میں داخل ہوا۔اُس نے 1936میں فرسٹ ایئر ایل ایل بی کا امتحان دیا۔ دوسرے سال  کسی وجہ سے اسے کالج سے فارغ کردیا تھا۔ اس پر طلباء نے بہت احتجاج کیا، اسے دوبارہ داخل کرنے کی جدوجہد کی مگر اُسے دوبارہ داخلہ نہیں مل سکا۔ اس لیے اُسے واپس گاؤں آنا پڑا۔

اور دو سال بعد اس نے علی گڑھ ہی سے ایل ایل بی کر لیا۔لہٰذا اُس کی تعلیم بی اے، ایل ایل بی تھی۔چونکہ علیگڑھ کے فارغ التحصیل لوگ اپنی ڈگری کے آخر میں بریکٹوں میں لفظ ”علیگ“بھی لکھتے تھے۔ چنانچہ یہ مجموعہ یوں بنا:میر محمد امین کھوسہ، بی ایل اے، ایل ایل بی (علیگ)۔

علی گڑھ میں طالب علمی کے زمانے ہی میں اس نے ”آل انڈیا بلوچ ایسو سی ایشن“ قائم کی تھی۔ اس ایسو سی ایشن کامقصد بلوچوں کو متحد کر کے انہیں ایک وسیع اور کل ہند سطح پر قومی جدوجہد میں شرکت کے لئے آمادہ کرنا تھا۔اور یہی ایسوسی ایشن وہ ایمبر یو (Embryo)بنا جس سے مستقبل کی بلوچ عوامی سیاست نے اگنا اور بڑھنا تھا۔

یہ محنتی اور علم کا پیاسا نوجوان تسکینِ علم و شعور کے لیے سندھ وہند اور سبی تا ست گھرا لپکتا رہا۔ بے شمار علم کے خاوندوں سے نیاز مندی حاصل کی۔ کئی اداروں سے حرف و نطق کے تنکے چنے۔ چنانچہ علی گڑھ میں قیام کے دوران اس نے سرراس مسعود، ڈاکٹر محمد اقبال اور نواب محمد اسماعیل میر ٹھی سے واقفیت پیدا کی۔ اور ان کی صحبت سے مستفید ہوا۔ اس دوران کئی تحریکی نوجوانوں سے بھی اس کی واقفیت اور دوستی ہوگئی۔

تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ وطن لوٹ آیا تو اُس نے صحافت اور سیاست کے کٹھن میدان چُن لیے۔

واضح رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سامراجی حکومت کی طرف سے بلوچستان میں تصور سے بھی بڑھ کر مظالم ڈھائے جاتے تھے۔انگریز کا اتنا رعب تھا کہ کسی سردار تک کو اُس کے خلاف لب کشائی کی جرات نہ ہوتی تھی۔بلکہ الٹا خود قبائلی سردار انگریز سامراج کی غلامی پر فخر کیا کرتے تھے اور اِدھر اُدھر کے بے ڈھنگے خطابات حاصل کرتے رہتے تھے۔ عوام الناس بغیر راہنمائی اور بغیر سیاسی پارٹی کے،غلامی کی ظلمتوں اور قبائلیت کے مظالم میں دربہ در تھے۔

ایسے میں یہ ”ارباب جنوں“ گمنامی سے گردن اکڑائے اٹھا۔ درماندگان وپسماندگان کی آواز بنا اور سامراج اور فیوڈل ازم سے ٹکرانے کو اپنا ہٹ دھرم سر آگے کردیا۔

مگر قسمت اس کوایک خوش قسمت یسے منور کرنا چاہتی تھی۔ اس اربابِ جنوں کو ”میرِارباب جنوں“کی صحبت نصیب ہونے والی تھی۔ وہ میرتھا جھل مگسی کا یوسف علی مگسی۔ وہ بلوچوں کی اصلاح او راُن کو حقوق دلانے کیلئے اچانک کہیں سے ابھرا۔ اس نے تحریر اور تقریر کے ذریعے، اور دوروں اور ملاقاتوں کے ذریعے اپنی قوم کو جگانے کا بیڑہ اٹھایا۔اس نے موتی جیسے انسانوں کی تلاش شروع کردی۔اور اسے امین کھوسہ ملا، عزیز کرد ملا، صمد اچکزئی ملا۔ کیا نگاہیں تھیں اُس آدم شناس کی۔ اور کیا ہیرا لوگ ملے اُسے۔ اِن سب نے اس کی سربراہی میں آل انڈیا بلوچ اینڈ بلوچستان کانفرنس نامی سیاسی پارٹی بنائی اور اس کو کامیاب بنانے کیلئے تگ و دو شروع کردی۔

نووارد امین کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ اس لیے انگریز اُس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب اچانک جیکب آباد کے ایک چھوٹے گاؤں ”عزیز آباد“سے یوسف علی خان کی حمایت اور انگریز سامراج کے خلاف ایک باطل شکن آواز اٹھی۔اس نے قصرِ سامراج کو ہلاکر رکھ دیا۔ کھوسو صاحب نے نواب یوسف علی خان کے خاص رفیق اور راست بازو بن کر بلوچوں کی اصلاح اور وطن کی آزادی کے سلسلے میں زبردست تحریک چلائی۔بعد کے زمانوں میں ہم نے دیکھا کہ ِاس بلند آہنگ کوموت ہی دبا سکی۔

امین نے تعلیم مکمل کرکے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو اس نے سیاست کے لیے  سندھ اوربلوچستان کو مرکز بنایا۔بالخصوص، بلوچستان کی سیاست میں تو اس کی دلچسپی ا ور وابستگی بہت ہی راہنما یانہ رہی۔

۔3مئی 1936 کو سیٹھ عبداللہ ہارون کو اپنے خط میں وہ اپنی فکر مندی یوں دکھاتا ہے:”بلوچستان سے اطلاع ملی ہے کہ حکومت قلات نے عبدالعزیز خان کرد کو رہا کر دیا ہے۔ میں آپ کو کم از کم ایک معاملے کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کیا آپ از راہِ نوازش بلوچستان میں گورنر کے ایجنٹ اور پولیٹیکل سیکرٹری سے رابطہ قائم کریں گے تا کہ خان عبدالصمد خان کو بھی جلد از جلد رہا کر دیا جائے؟“۔

۔1937کے اسمبلی انتخابات میں جیکب آباد سے سردار جعفر خان بلیدی، سہراب خان سرکی اور زین الدین خان سُندرانڑیں ممبر منتخب ہوئے ۔ مگر سال کے آخر میں  زین الدین خان سُندرانڑیں فوت ہوگیا۔ اُس کی خالی نشست پہ ضمنی انتخابات ہوئے۔ اب یہاں دو امیدوار مدِ مقابل ہوئے۔ سردار شیر محمد خان بجارانڑیں اور محمد امین خان کھوسہ۔یعنی ایک طرف سردار شیر محمد بمبئی کونسل کا سابق ممبر، لاکھوں روپے کا مالک، سرکار میں خصوصی اثر رکھنے والا“ لقب بردار، قوم کا سرداراور عمر رسیدہ شخص تھا۔ اور دوسری طرف علی گڑھ سے آیا ہوا ایک غیر تجربہ کار، گم نام نوجوان طالب علم۔وہ  بڑے قبیلے کا فرد ہونے کے باوجود مقابلتاً کم دولت مندتھا۔ اُس سے بھی عجب بات یہ کہ وہ سرکار مخالف جماعت یعنی کانگریس کی طرف سے اُمیدوار تھا امین کھوسہ تھا۔۔۔ وہ بھی ایسے ضلع سے جہاں فرنٹیئر ایکٹ کی موجودگی کی وجہ سے سرکاری اہلکار سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ ملکی اور قومی بیداری نام کو بھی نہیں تھی۔ مگر توکل اللہ پر، اور بھروسہ عوام پر، وہ کود پڑا۔ اُس سے پہلے بھی اُس علاقے میں ایک الیکشن ہوا تھا؛ضلع لاڑکانہ میں جوزمینداروں اور بڑے لوگوں کی جاگیر رہا تھا۔ وہاں شیخ عبدالمجید سندھی نے ضلع کے اول نمبر خاندان، زمیندار اور گورنر سندھ کے صلاحکار سرشاہنواز بھٹو کو الیکشن میں شکست دی تھی۔

اب کے یہ دوسری آزمائش تھی۔

مارچ 1938میں الیکشن ہوئے تو اعلان ہوا کہ امین کھوسہ کامیاب ہوگیا۔

بت شکن امین!۔

 

حوالہ جات

۔1۔کھوسہ، محمد امین۔ جَہل میں اصلاحات۔ہفت  روزہ ”البلوچ“ کراچی۔ 3دسمبر 1933

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *