جانے کتنی دیوالیاں اور شب براتیں گذرگئیں
بچّوں نے پٹاخے نہیں چھوڑے
وہ اب دھماکوں سے ڈرنے لگے ہیں
دیکھتے دیکھتے ہما ہمی سے
بھرے شہرے کا ویران ہوجانا
ہنستے ہنستے مسافروں کا لاشوں میں بدل جانا
درسگاہوں کا سنسان ہوجانا
کتنے عجیب تجربے ہیں
انہیں اب صرف پھلجھڑیاں چھوڑنے کی اجازت ہے
یا پھر انا را ور آتش بازی
آگ کا کھیل جاری ہے
صرف دھماکے خاموش کر دیئے گئے ہیں
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...