Home » کتاب پچار » موہنجو دڑو کاجوگی!۔

موہنجو دڑو کاجوگی!۔

کتاب : سوبھو گیان چندانی
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : 206
قیمت : 400 روپے
مبصر : عابدہ رحمان

سوبھراج ؛ سوبھو کافی سال بعد اپنے دوستوں کو لے کر ایک دفعہ پھر شانتی نکیتن میں داخل ہوا تو جل تھل بارش ہو رہی تھی ۔ پیپل اور بڑکے درختوں کے پتے بارش کی پھوار اور ہوا سے لرز رہے تھے۔ دور سٹوڈٹنس کا ایک گروپ رنگ برنگے خوبصورت لباس میں ملبوس بڑ کے درخت کے نیچے بارش سے بچنے کی ناکام کوشش میں بھیگ رہا تھا ۔ پوری یونیورسٹی میں ایک گہما گہمی تھی۔تب سوبھو کو یاد آیا کہ آج یونیورسٹی میں سوشل اور کلچرل پرگرام ’ اوش میلہ‘ ہے جو یہاں ہر سال بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ کلچرل اشیاکے سٹال لگتے ہیں۔ گاڑی دور رکوا کر سوبھو نے جیسے ہی زمین پر قدم رکھنا چاہا اسے سالوں پرانی اک چھیڑ کی یاد نے اک مسکان دی اور اس نے گاڑی میں رکھی اپنی چپل اٹھا کر پہنی۔ چلتے ہوئے اس گروپ کے پاس سے جوں ہی گزرنے لگے جام ساقی نے حیدر بخش جتوئی کو کہنی مارتے ہوئے کہا شاہ محمد سہی کہتا ہے کہ’ عورت بنانے والے سارے اچھے اور ماہر فرشتے ہندؤں کی طرف بھیج دیے گئے اور بقیہ ایشیا کی طرف بس ننگر ہار کی کچی دیواریں بنانے والے نو آموختہ شاگرد بھیج دیے گئے تھے‘ اس بات پر پلیجو نے جلدی سے مٹھی میں دبی الائیچی جام ساقی کے منہ میں ڈال دی تو سب ہنس پڑے۔ گروپ کے پاس سے چند قدم آگے گئے تو ایک ادھیڑ عمر خاتون جس کے بالوں میں چاندی اتر چکی تھی کہا ’ نمستے سوبھو‘ تو سوبھو لڑکھڑایا، گھبرایاتب خاتون بولی ’ ہمارے دوست کی شادی لیلاں نامی ایک لڑکی سے ہوئی ، یقیناًوہ ایپین نہیں تھی‘ ۔ اس فقرے کے ساتھ ہی سوبھو نے لیلاں کو پہچان کر قہقہہ لگایا۔
وہ سب خوش گپیاں کرتے ہوئے آگے بڑھے ۔ ان کا رخ ٹیگور کی لائبریری کی جانب تھا۔وہ لائبریری جس کی سیکڑوں کتابیں طالب علمی کے زمانے میں سوبھو پڑھ چکا تھا۔ لا ئبریری مزید وسعت اختیار کر چکی تھی۔ کتابوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ سوبھو کو اپنا وہ وقت یاد آگیا ۔ وہ پوری لائبریری میں گھوم گھوم کر ایک ایک کونے کو محسوس کرتا رہا۔اسی لمحے اس کے کانوں میں آواز آئی ’ ہیلو موہنجودڑو کے آدمی‘۔ یہ مخصوص آواز سن کر سوبھو ایک دم پلٹا اور ٹیگور کے گلے لگ گیا۔
’کیسے ہو ، کہاں کہاں کی خاک چھانی؟‘ ٹیگور نے بیٹھتے ہوئے پوچھا
’ سر آپ تو جانتے ہیں قمبر AV ہائی سکول سے میٹرک اور ڈی جے سندھ کالج سے فلسفہ اور منطق پڑھنے کے بعد یہاں آپ کے پاس آگیا تھا اور 1970 واپس جا کر میں نے مون لاکالج سے وکالت کی ڈگری لی ‘۔
’ ہاں بھئی بالکل یاد ہے ۔ غالباً 1939 تھا جب تمہارا تار آیا تھاکہ مجھے شانتی نکیتن میں داخلہ دیا جائے۔ ویسے تمھیں اتنا یقین کیوں تھا کہ میں داخلہ دے دوں گا؟‘ ٹیگور نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’ میں نے آپ کی ساری کتابیں جو پڑھ ڈالی تھیں اور مجھے یقین تھا کہ آپ ٹیلنٹ کی قدر کرتے ہیں‘۔ سوبھو نے کہا۔
ٹیگور نے خوشی سے قہقہہ لگایا تب ہی انھیں احساس ہو اکہ ہمارے بیچ کچھ اور بھی لوگ بھی ہیں۔
’ سر یہ ہیں ہمارے بابائے سندھ ، حیدر بخش جتوئی ۔ یہ لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری کے علاقے بکھو ڈیرو سے ہیں۔سندھ ہاری تحریک کی چلائے جانے والی الاٹی تحریک کے سرگرم رکن۔سندھی میں شاعری کرتے ہیں ۔ مارکس کے متاثرین میں سے ہیں۔’ ہاری حق دار ‘ کے نام سے ہاریوں کو اپنے حقوق اور شعور کی بیداری کے لیے ہفت روزہ نکالا۔شاعری کے مجموعے ’ تحفہ ء سندھ ‘ کو تو فیوڈل برداشت نہ کر پائے لہٰذا وہ کتاب ضبط کر لی گئی۔مشہور نظم ’ جئے سندھ ‘ کے خالق ہیں‘۔ اور یہ آخری فقرہ سن کر تو ٹیگور کھڑے ہو گئے اور جتوئی صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’ ارے تو یہ وہ حیدر بخش جتوئی ہیں ، جئے سندھ جئے سندھ ‘۔
’ اور سریہ ہے مسٹر بورڈ ، استاد محمد ابراہیم جویو۔یہ کتابوں، انسانوں اور زندگی کا عاشق ہے۔ یہ ایک ادیب ساز، ایک شاعر ساز انسان ہے ۔ خود بھی بے شمار کتابوں کا مصنف ہے۔اس کی باتوں ، مقالوں اور تحریروں میں ایک کمال کی بات ہوتی ہے : یقین۔ یقین زندگی پر، یقین مستقبل پر، خود پر ، انسانیت پر‘ جویو صاحب اپنے اس تعارف پر مسکراتے ہوئے جھینپ سے گئے۔
اس سے ملئے اردو اور سندھی کی بہت سی کتابوں کا مصنف، شیخ ایاز ۔لیکن اس کا اصل کارنامہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ’ شاہ جو رسالو‘ کا اردو میں ترجمہ ہے‘۔
’اور سر یہ امام علی نازش ہے۔ ایک پکا، سچا اور کھرا کمیونسٹ جو ساری زندگی نظریاتی جدوجہد کرتا رہا۔ جس نے دس سال جیل کاٹی اور تین دہائیوں تک انڈر گراؤنڈ رہا۔‘
’’واہ ایک مسلسل جدوجہد کی زندگی ہے آپ سب کی۔ چائے لیجیے آپ لوگ ۔ ‘‘
چائے جو اس دوران آگئی تھی سب نے ہاتھ بڑھایا۔ دوسرے لوازمات کے ساتھ جوں ہی پاپڑوں پر پلیجو کی نظر پڑی۔ اسی لمحے اس کی نظر ابراہیم جویو کی نظر سے بھی جا ملی اور دونوں کے لب مسکرا اٹھے۔ پاپڑوں کے بیچ کرچ کرچ کی آواز کے ساتھ بارش کی آواز ملتی رہی اور ساتھ ہی باقی دوستوں کا تعارف جاری رہا۔
’ڈاکٹر اعزاز نظیر؛ ایک بہادر اور ترقی پسند رہنما۔نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کا ممبر رہا۔این ڈی پی میں بھی رہا۔ بعد میں 1977میں بننے والی نیشنل پراگریسو پارٹی کا صدر بن گیا۔‘
’اور یہ ہے میرا دوست رسول بخش پلیجوجس نے پچاس سال منظم سیاست میں گزارے۔ اس نے سندھ میں فیوڈلزم کے خلاف سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ عورتوں کے حقوق پر مبنی ایک نہایت منظم تنظیم سندھیانڑیں تحریک بھی اسی نے قائم کی۔‘
’جی یہ زرینہ بلوچ ہیں ۔ایک سامراج دشمن اور جمہوری سیاسی ورکر۔ ضیا الحق کے خلاف جلسہ جلوس کی پاداش میں دو سال تک سکھر اور کراچی کی جیلوں میں رہی۔‘
’سندھی ہاری تحریک کا سربراہ، کسانوں کا لیڈر۔ اس نے بے شمار کسان کانفرنسیں کروائیں۔
اب ملیے جام ساقی سے جو ضیامارشل لا کے مخالفوں میں سے ہے اور اس جدوجہد میں انڈر گراؤنڈیوں، کوڑوں اور جلا وطنیوں میں ان کا بھی حصہ رہا ہے۔1968میں سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کا صدر بنا۔یحی مارشل لا میں بغاوت کا مقدمہ چلا لیکن ضیا دور میں نو سال قیدِ با مشقت کی سزا ہوئی اور تشدد کیا گیا۔اس کے باغیانہ اور دلیرانہ بیانات کو دو کتابوں کی صورت میں شائع کیا گیا۔‘
’اور سب سے آخر میں بیٹھا یہ ہے ہمارا دوست نذیر عباسی؛ پارٹی کے ہول ٹائمر کی حیثیت سے کام کر تا رہا۔ اور جوانی میں جان دی مگر اپنے نظریات پہ اٹل رہا۔‘
’بڑے سوشلسٹ قسم کے دوست ہیں تمھارے سوبھو ، مجھے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔اپنا بتاؤ اب ۔کیا کرتے رہے اس عرصے میں؟‘ ٹیگور کہہ کر مسکراتے ہوئے اٹھے کہ چلو میلے کا مزہ بھی لیتے ہیں۔
’ جی سر یاد ہے آپ کو انقلاب کا جا م تو میں یہیں شانتی نکیتن میں ہی پی کر گیا تھا۔ 26 جنوری جو بطورِ آزادی کے دن منایا جاتا تھا ۔ 1940 میں جب میں یہاں تھا اور یہ دن قریب آنے لگا تو ہم سب طلبا نے بڑی مشکل سے آزادی کا دن منانے کی اجازت لی تھی اور میں نے اپنی زندگی کی پہلی تقریر بھی اسی دن کی تھی اور انقلابی ترانہ بھی میں نے پہلی مرتبہ تب ہی سنا تھا ۔میں ان دنوں میں یہاں سوشلسٹ لیکچرز کا حصہ رہا تھا‘۔ سوبھو بڑے مزے میں بتا رہا تھا کہ ٹیگور بیچ میں بول اٹھے ’ ارے یہ سب کچھ ہی کرتے رہے یا کوئی شادی وادی بھی کی؟‘اور اس سے پہلے کہ سوبھو جواب دیتا لیلاں ایپن بولی ’ 25 اپریل 1941 کو لیلاں سے ہوئی تھی لیکن وہ ایپن نہیں تھی‘ یہ سن کر سب مسکرا اٹھے لیکن سوبھو خاموشی سے لیلاں اور پھر ٹیگور کو دیکھنے لگا جس پر سب کا قہقہہ چُھوٹا۔
وہ سب چلتے چلتے نیم کے ایک درخت کے پاس پہنچے جہاں زرق برق چنریاں پہنے سٹوڈٹنس کا جمگھٹا تھا اورفضا میں کچھ سُر بھی بکھر رہے تھے۔قریب جانے پر پتہ چلا کہ یہ ہمارے ہاں کا ایک سروز کی طرح کا لکڑی کا Musical instrument ہے جسے وہ ملنگ کے حلیے جیسا بندہ بجا رہا تھا۔اس بندے نے گھنگروؤں کا ایک گچھا جیسا پاؤں کے انگوٹھے میں اڑسایا تھا اور پاؤں ایک خاص انداز میں زمین پر مارتا اور یہ چَھنَک بھی اس میوزک میں چار چاند لگا رہی تھی۔ سب کھڑے ہو کر لطف اندوز ہوتے رہے۔ ’ دوستوں یہ موہجودڑو کا آدمی تو یہاں رہا ہے ،جانتا ہوگا کہ لیکن آپ لوگوں کے لیے یہ میوزک ایک نئی شے ہوگی ،اسے باؤل میوزک کہتے ہیں‘ ٹیگور ساتھ ساتھ بتاتے رہے۔
چند لمحوں بعد ٹیگور نے کہا ’ سوبھو کامریڈ لال داس گپتا سے کبھی ملاقات رہی تمھاری ؟‘
’جی شانتی نکیتن کے دنوں میں ہی لال داس گپتا، چیانگ کائی شیک، یوسف مہر علی،جواہر لال نہرو، سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی سے ملا تھا ۔ یہاں سے جب کراچی لوٹا تو تحریکِ آزادی زوروں پر تھی تب ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں شامل ہوا ۔ اس کے بعد میں1945 میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ون یونٹ کے خلاف آواز اٹھائی اور سر 32سال جیل کا مہمان رہا۔ قید کے دوران میں بے تحاشا سٹڈی سرکلز کیے اور لینن کی تصانیف کا مطالعہ بھی انھی دنوں میں کیا‘۔
’تو خود الیکشن میں کبھی کیوں کھڑے نہیں ہوئے؟‘ ٹیگور نے چائے کا کپ اٹھایا جو اس دوران دوسری مرتبہ آئی تھی۔
اس سے پہلے کہ سوبھو کچھ کہتا جام ساقی نے کہا ’ ٹیگور صاحب سوبھو نے 1953 کے الیکشن میں 18 ہزار ووٹوں میں سے چھ ہزار ووٹ لیے تھے۔ پھر 1988 کے الیکشن میں سوبھو جیتا لیکن الیکشن کمیشن کی دوبارہ گنتی سے مخالف جیت گیا‘۔
’ویسے ٹیگور صاحب سوبھو نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ یہ بہت ساری کتابوں کا مصنف ہے۔ افسانے لکھے،ترجمے کیے ، کالم لکھے بلکہ یہ تو ایڈیٹر بھی رہا ۔اس کی خدمات کا اعتراف ایوارڈز کی صورت میں بھی ہوا کہ کمالِ فن ایوارڈ اور حبیب جالب امن ایوارڈ بھی حاصل کر چکاہے‘ شیخ ایاز نے تفصیل بتائی۔
ٹیگور یہ سب سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا ’ ارے موہنجو دڑو کے آدمی ، سوبھراج ، تم تو واقعی سوبھ نکلے ۔ فتح کرنے والے نکلے لوگوں کے دلوں کو۔ تم نے کئی سال پہلے شانتی نکیتن سے فارغ ہونے کے بعد مجھے کہا تھا کہ میں بچہ بن کر آیا تھا اور آدمی بن کر جا رہاہوں ۔ ارے تم دراصل آدمی ہی تھے تب ہی آدمی کی فلاح کے لیے ، انسان کے لیے ، انسانیت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ۔ تم اپنے دادا کی دعا کا عملی ثبوت ہو ’ سب کی خیر ، ہندو مسلم کی خیر، ڈھائی گھروں کی خیر‘ مجھے فخر ہے تم پر ، ہم سب کے پشت در پشت ، بیخ بنیادپاتال تک ہو اور ہم وطن کو وطن کو سمجھیں ‘ یہ کہہ کر ٹیگور نے موہنجودڑو کے جوگی کو گلے لگایا۔
رخصت ہوتے لمحے سوبھو گیا چندانی نے خلوص سے مُکا بھینچ لیااور ہوا میں لہرایااور دو تین جھٹکے مُکہ بردار بازو کو دیے۔ ٹیگور سمیت سب نے ان کا ساتھ دیا۔

=================================================

جنوری
۔1جنوری یومِ پیدائش خواجہ رفیق
۔3جنوری یومِ پیدائش نوشین کمبرانڑیں
۔3جنوری یومِ پیدائش کمال خان شیرانی
۔3جنوری یومِ وفات کاکا جی صنوبر حسین
۔5جنوری یومِ پیدائش طاہرہ مظہر علی خان
۔7جنوری یومِ وفات شاہ عنایت شہید
۔9جنوری یومِ وفات محمد علی صدیقی
۔15جنوری یومِ پیدائش سی آر اسلم
۔17جنوری یومِ پیدائش جی ایم سید
۔17جنوری یومِ وفات فاضل راہُو
۔18جنوری یومِ پیدائش جوزی مارٹی
۔26جنوری یومِ پیدائش ڈاکٹر فرمان فتح پوری
۔29جنوری یومِ پیدائش ٹام پین

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *