Home » کتاب پچار » کتاب کا نام: بلوچ قوم، قبائلی اور جاگیرداری عہد

کتاب کا نام: بلوچ قوم، قبائلی اور جاگیرداری عہد

مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 248
قیمت : 450 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب جو بلوچ قوم کی تاریخ لکھ رہے ہیں اور وہ چار جلدوں پر مشتمل ہے ۔ ’ مہر گڑھ سے تشکیلِ ریاست تک‘ کے بعد میں نے اس کا دوسرا حصہ یعنی ’ قبائلی اور جاگیرداری عہد ‘ کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔
پہلا باب ’ بلوچ سر قبیلوی نظام‘ کے نام سے ہے جس میں ڈاکٹر صاحب قبائلی زندگی کی ابتداکے بارے میں لکھتے ہیں کہ انفرادی طور پر کسی آدمی کا زندگی گزارنا دشوار ہوتا ہے، تب ہی ایک اجتماع یا ایسو سی ایشن کی جانب بڑھ کر اپنے وسائل اور قوتوں کو ملا کر ایک نارمل زندگی کی شروعات کرتے ہیں ۔یہی وجوہات قبائلی زندگی یا گروہی زندگی کا سبب بنے۔ قبیلہ ہر فرد کو بہبود، سیکورٹی، کلچر اور سیاسی نظام دینے کا مجاز ہوتا ہے ،ورنہ دوسری صورت میں یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ قبیلے کا تنظیمی ڈھانچہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ مرد تو اس ڈھانچے کا اہم ستون ہے ہی لیکن عورت بھی فرد کی حیثیت سے اس طرح اہم ہے کہ میدانِ جنگ میں عورت کا ظہور حتمی طور پر جنگ کو بند کرتا ہے اور یہ کہ شدید دشمنیوں میں بھی عورت کا مخالف فریق کے گھر جانا پرانی اور گھمبیر دشمنیوں کو ختم کر دیا ہے۔ اس قدر اہم رول کے باوجود ڈاکٹر صاحب خاندان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کا ملکیت و جائیداد میں کوئی حق نہیں ہوتا ، یہاں تک کہ اگر خاوند لاولد مر جائے، تب بھی نہیں بلکہ اس کا حصہ اس کے بھائیوں یا چچیروں میں تقسیم ہو جاتاہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ سردار جو خان نصیر خان اول سے پہلے میر کہلاتا تھا ، اپنے قبیلے کے لیے کسی ولی سے کم نہیں ہوتا اور قبیلے کے تمام افراد اس کے باکرامت ہونے پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں ۔روحانی تقدس کا یہ عالم ہے کہ اگر پیر سہری کے مزار کا مجاور موجود نہ ہو تو سردار کی دستار بندی ملتوی کر دیتے ہیں۔ یہاں میں تو کہوں گی کہ یہ بالکل غلامی کی ایک شکل ہے۔ مجھے تو یہ پڑھتے ہوئے بہت عجیب لگا کہ سردار کا خون بہا ایک عام آدمی سے چار گنازیادہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ کوئی بھی قبیلہ کسی دوسرے قبیلے سے افضل نہیں ہے کیونکہ تمام قبیلوں کی تشکیل ایک ہی پروسیس کے تحت ہوئی ہے ۔ یہاں پر میں اس کتاب کا ایک خوبصورت اقتباس پیش کروں گی جو انسان کو ایک سوچ دے جاتا ہے؛’’ وہ شخص ’اصلی اور ’ سُچا‘ بلوچ ہے جو پیداواری عمل میں حصہ لیتا ہے باقی پیمانے تو بس فکری کج روی کے لیے بنائے گئے ہیں ۔ مگر اس فکری منافقت کو دور کرنا ہی تو ضروری کام ہے۔ جس کے تحت ’ صاف خون‘ ’ صاف نسل‘ ’ صاف قوم ‘ کی بے بنیاد تھیوری گھڑ لی گئی ہے اور جس کی آڑ میں نسلی منافرت اور فرقہ واریت کے جھگڑوں میں الجھا کر لوگوں کو ان کی طبقاتی قومی جدوجہد سے دور کر لیا گیا ہے‘ ‘ ۔
قبیلوں کے اس اتحاد نے علاقائی اتحاد کو جنم دے کر سرداروں کے سیاسی اور اقتصادی رشتے کو مضبوط کیااور یوں فیوڈل رشتے مضبوط ترہو گئے۔ بلوچ قبائلی جنگی معیشت کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں شکار اور گھروں میں سدھائے ہوئے جانوروں پر جنگیں عام تھیں ۔ زراعت اور آرٹ وفنون کی کوئی وقعت نہیں تھی اور لکھنا لکھانا تو حقارت کا شکار تھا لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسانی تاریخ میں روزی رساں پیشہ ہی ہمیشہ قابلِ احترام رہا ہے۔
اس باب میں بلوچ کے مختلف قبیلوں کے بارے میں بھی مختصرا بتایا گیا ہے۔
کتاب کا دوسرا چیپٹر ’ بلوچ مویشی بانی‘ کے نام سے ہے جس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب لکھتے ہیں کہ بلوچوں کا ساٹھ فیصد آج بھی مویشی بانی سے وابستہ ہے اور ملک کی 50% بھیڑیں اور 28 % بکریاں بلوچستان پالتا ہے اور ہر سال دو ملین صوبے سے باہر فروخت ہوتی ہیں۔ بھیڑ ، بکریاں پالنا بلوچستان میں عام ہے لیکن اس کے علاوہ ، گائے بیل، شتر بانی یعنی اونٹوں کا پالنا بھی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں بڑی مزیدار باتیں لکھی ہیں ۔مثلاً وہ کہتے ہیں کہ بلوچ بھیڑ کو ولی اللہ سمجھتے ہیں اور سردار کی قسم کے بعد وہ کہتے ہیں ’ قسم ہے بھیڑ کی‘۔ بلوچ شاید چیخنا چلانا ، فریاد کرنا اچھا نہیں سمجھتے ،اس لیے وہ بکرے کی بالکل بھی عزت نہیں کرتے ۔ ایک اور نئی بات جو مجھے معلوم ہوئی کہ اگر آپ کہیں سے گزر رہے ہوں تو سجی کی راکھ سے ہی آپ جان جائیں گے کہ خیر والی سجی تھی یا غم اور سوگ والی۔اگر راکھ کی سمت مغرب مشرق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خوشی اور شادی کا مجمع تھا، یا کوئی خیرات ۔لیکن اگر راکھ شمال جنوب کی طرف ہے تو مطلب ہے کوئی فوتگی ہوئی ہے۔
اشیائے ضرورت کی دوسری صنعتوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’دیخ‘ کے ذریعے پشم سے دھاگہ بنایا جاتا ہے جو ’ کارگاہ‘ میں دری بانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ سکہ دوزی، اون کات کر گھروں کے لیے فرش و کلیم بنانا، مٹی کے برتن بنانا چھوٹی صنعتیں پائی جاتی ہیں۔ اس چیپٹر کے آخر میں مختلف ٹیکسوں کے بارے میں مختصراً بتایا گیا ہے۔
ٍکتاب کا تیسرا باب ہے ’ بلوچ زراعت‘ ؛ جس کا آغاز ڈاکٹر صاحب کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ قبیلوی تشکیل دراصل حاکم گروہ کو مضبوط کر گیا ۔سیاسی اور اقتصادی اقتدار نے بڑھ کر مرکزیت پائی جس کی بنا پر مویشیوں کے ریوڑ بڑھتے چلے گئے ، غلاموں اور قبضے میں آئے ہوئے لوگوں کا استحصال بڑھتا چلا گیا اور یوں دولت مند ہوتے ہوئے سردار بہترین اور وسیع چراگاہوں کو اپنے قبضے میں لیتے گئے اور رفتہ رفتہ چھوٹی شاخوں کی زمینوں کا ایک حصہ عملًا فیوڈل کی ملکیت بن گیا۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اٹھارویں صدی میں فیوڈلزم کی بنیاد پڑی اور ایک قبائلی فرقہ پورے قبیلے کے لیے سردار مہیا کرتے رہنے کا گھرانہ بن گیااور سرداریت ایک موروثی عہدے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔
بلوچستان مجموعی طور پر بارشوں پر انحصار کرتا ہے اور یہ علاقہ لُڑ آف کہلاتا ہے جبکہ سیاہ آف کا علاقے میں نظامِ آبپاشی سے زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔ صرف پٹ فیڈر اور کیرتھر کینال کا علاقہ ایسا ہے جہاں نہری نظامِ آبپاشی ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ میر احمد ثانی نے زراعت میں دلچسپی لی اور قلات کے علاقے میں کاریز کھدوائے اورخضدار کی ندی سے نالے نکال کر بنجر زمینوں تک پانی پہنچایا۔ میر گل خان نصیر کے دور میں زراعت میں کافی ترقی ہوئی اور تجارت کو زبردست فروغ ملا۔
بات پھلوں کی کی جائے تو بلوچستان فروٹ باسکٹ کے نام سے مشہور ہے کہ ایک لاکھ ٹن فروٹ بلوچستان دیتا ہے ۔
’ سمندری پیداواری رشتے‘ ؛ بلوچ ساحل پر مچھلی کی تقریباً 350 اقسام موجود ہیں ۔ بلوچ سمندر میں دو ارب روپے سالانہ کی مچھلی پائی جاتی ہے ۔
کشتی سازی کی صنعت کے لیے لکڑی بیرونِ ملک، کراچی اور بلوچستان کے اپنے کیکر سے حاصل کی جاتی ہے۔ صرف پسنی میں 70 سے 80 کشتی ساز ہیں جو سالانہ50 فٹ کی 12 لانچیں، اور 20 سے 20 فٹ کی80 لانچیں تیار کرتے ہیں۔ بحیرۂ بلوچ کا سمندری روٹ مصروف ترین روٹس میں شمار ہوتا ہے۔ کشتی سازی کی اس فیکٹری کے قریب ہی جال بھی خود بُنا جاتا ہے جو کہ نائیلون اور دھاگے کے ہوتے ہیں۔
ہر قوم کی اپنی ویلیوز ، اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں ۔ اسی لحاظ سے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے اپنی کتاب کا آخری باب اسی کے لیے رکھا جو اسی نام سے ہے یعنی ’ بلوچوں کا ویلیو سسٹم، رسم و رواج‘۔یہ بہت ہی مزے دار باب ہے جس میں کسی بلوچ کی پیدائش سے لے کر موت کے رسم و رواج کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے۔ بچے کانام رکھنے پر جشن جو چھٹے دن رکھا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے اسے ’ششغان‘ کہتے ہیں ۔ پہلی بار بچے کے سر کے بال اتارنے کو جَھنڈ کہا جاتا ہے ۔ اس دن بھی جشن ہوتا ہے۔یہ رسم بھی ہر قوم میں ہی ہوتی ہے لیکن یہاں ڈاکٹر صاحب نے ایک نئی بات یہ بتائی یا شاید میں ہی بے خبر تھی کہ بچے کے یہ بال اپنے پیر کی قبر پر لے جا کر ٹانگ دیے جاتے ہیں۔ایک ہی خطے میں رہنے والے لوگوں کے رسم و رواج کافی حد تک ملتے جلتے ہیں ۔ مہمان نوازی، جرگہ ا ور مرکہ ایک جیسی چیزیں ہیں۔ اس کے علاوہ خواب دیکھنا اور اس کی تعبیر بتانا، سفر کے وقت وہاں موجود کسی بھی شخص کے چھینک آنے پر سفر ملتوی کرنا ، جاتے ہوئے بندے کو پیچھے سے آواز دینا برا شگون، ہے ہچکی آنے پر خیال کرنا کہ کوئی یاد کررہا ہے اور ایسی بہت سی دوسری باتوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے۔ ایک بات پڑھتے ہوئے مجھے مزہ آیا اور میں پڑھتے ہوئے خوب ہنسی کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعی بلوچ ہونے کا ثبوت دیا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ پاؤں کی ہتھیلی کی خارش یا تو گیلی مٹی پر پاؤں رکھنے یعنی بارش ہونے کی نشانی ہے یا پھر کسی یار آشنا ، یا کسی عزیز رشتے دار اور یا کسی مہمان کی آمد کی اطلاع ہوتی ہے‘ ارے ڈاکٹر صاحب‘ پاؤں کی ہتھیلی نہیں بلکہ تلوا ہوتا ہے۔
مذہبی طور پر بلوچ جنونی بالکل بھی نہیں بلکہ بہت ہی نارمل لوگ ہیں۔
کھیلوں میں کمان جنگ ، تلوار بازی، شکار، کوھہ سٹغ، درک، بک، پنجری زیرغ، آدمی دوڑ گھڑ دوڑ وغیرہ کھیلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بلوچی ادب کے بارے میں بہت خوبصورت الفاظ لکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچ کی Sensitivties میں جن عناصر کو مرگ و زیست کی اہمیت حاصل ہے ، ان میں لفظ اہم ترین ہے۔ بات کوبلوچی میں ’ ہبر‘ یا ’ ہور‘ کہتے ہیں اور یہی لفظ قول کے معنی دیتے ہیں ، ’ ہوریں ‘ یعنی ’ لفظ کی قسم‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ بلوچی ادب راست بازی، راست گفتاری، غیرت و محبت، سخاوت و مہمان نوازی، ہمسائے کے حقوق کی حفاظت، قول قرار کی پابندی، عزم و استقلال اور اخلاص عمل کی تعلیم دیتا ہے۔اور شاعری کے موضوعات جنگی، بارش، فطرت یا پھر عشقیہ ہیں۔اسے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے؛ پہلے دور میں رند ولاشار کی طویل جنگ کی داستان کا بیان ہے،دوسرا اور تیسرا دور شاعری کے حوا لے سے بہت اہم ہے ۔ دوسرے دور میں بالاچ ، جام درک اور سیمک کی شاعری نظر آتی ہے جبکہ تیسرے دور میں مست، رحم علی، محمد خان گشکوری، ملا فاضل، ملا بہرام،جوانسال بگٹی اور یوسف عزیز مگسی شاعری کو بامِ عروج تک پہنچاتے ہیں۔جبکہ چوتھا دور سرمایہ داری دور ہے جس سے ابھی ہم گزر رہے ہیں۔
ادب کی بات کریں تو ڈاکٹر صاحب موسیقی کو کیسے بھول سکتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ موسیقی کے آلات میں ’ بغو‘ چرواہے کا ساز جو وہ گلے سے نکالتاہے کے علاوہ شفیلی ( بانسری) ، نڑ، بین ، شینزار، طنبورہ ، سریندا، چنگ، بنجو، دھل اور سرنا ہیں۔’ چاپ دھریس ، لیومشہور بلوچی رقص ہیں۔ رقص کی علاقے کی مناسبت سے مختلف قسمیں ہیں ۔دستار اور داڑھی عزت و حرمت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔
کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بہت سی بیماریوں کا ذکر کیا ہے جن میں چند کا ہی بتا سکتی ہوں ۔ ایک تو یہ کہ بہت سی دوسری قوموں کی طرح تعویز گنڈے کا کوئی خاص رواج نہیں ہے البتہ دم چھو کیا جاتا ہے جو ’ ھدو‘ کہلاتا ہے۔’ داغ‘ میں بہت سی بیماریوں میں لوہا سرخ (گرم) کر کے مریض کے پیٹ، سر یا گردن کو داغا جاتا ہے جبکہ ’ کرہ شیر‘ میں ٹی بی کے مریض کو گدھی کا دودھ پلایا جاتا ہے۔ ایک بہت ہی عجیب لیکن تکلیف دہ بات جو صرف بلوچوں میں نہیں بلکہ بہت سے لوگوں میں ہے ؛ ’ جن کشغ‘ جس میں ہسٹیریا کی مریض عورت کو لاٹھیوں سے بری طرح پِیٹ اس کے جن نکالتے ہیں اور مرچوں کی دھونی دے کر بھی جن نکالے جاتے ہیں۔
موت کے بعد بلوچ اپنی میت کو اپنے آبائی قبرستان میں ہی دفن کرتے ہیں اور ’ آس روخ‘ میں میت والے گھر میں تین دن تک چولہا نہیں جلایا جاتا اور پڑوسی ، رشتے دار وغیرہ کھانا لاتے ہیں اور پھرخیرات کی جاتی ہے۔چالیسواں نہیں ہوتا بس برسی ہوتی ہے۔
آپ اگر بلوچ ، اس کی زندگی کودیکھنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی یہ کتاب ضرور پڑھیں ۔ اس کتاب میں بے شمار چھوٹی چھوٹی تفصیلات ہیں جنھیں میں نے اس تبصرے میں سمونے کی کوشش کی ہے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *